ورتنوالا:عباس دھوتھڑ/تختہ مشق

آزاد انسائیکلوپیڈیا، وکیپیڈیا توں

مہاراجہ رنجیت سنگھ اور تحریک خالصہ

مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی تو ہندوستان پر مکمل قبضے کے خواب نے تمام ہندو راجوں کو متحد کیا اور ان کا اقتدار پورے ہندوستان پر اس حد تک قائم ہو گیا کہ مغل بادشاہ شاہ عالم کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہو گئی، ’’شاہ عالم۔ از دلّی تا پالم‘‘، پالم وہ جگہ ہے جہاں آجکل دلّی ائرپورٹ ہے۔ ایسے میں شاہ ولی اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی افغانستان کی سر زمین سے جانبازوں کے ہمراہ حملہ آور ہوا اور مرہٹوں کی شکل میں تمام ہندؤں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر ہندوستان کو ’’ہندو توا‘‘ بنانے کا خواب چکنا چور کرنے کے بعد واپس افغانستان چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد پورے برصغیر میں مرکزیت کا تقریباً خاتمہ ہو گیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا بالا دست حکمران بنتا چلا گیا۔ جس خطے میں سب سے زیادہ افراتفری تھی وہ پنجاب تھا۔ سکھ اکبر کے زمانے سے جتھوں کی صورت مسلح جدوجہد کر رہے تھے اور بہت حد تک گوریلا جنگ میں منظم ہوچکے تھے۔ ان کے ہاں ہر علاقے، خاندان یا برادری کے حساب سے گروہ ترتیب پا چکے تھے جنھیں ’’مسل‘‘ کہا جاتا تھا۔ پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں اور سب کی سب خود مختار بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں۔ ان بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی جس کے سربراہ کے گھر1780ء میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ سترہ سال کا ہوا تو باپ نے اسے دوسری مسلوں کے ساتھ جنگوں پر روانہ کرنا شروع کر دیا۔ صرف تین سال کے بعد یعنی بیس سال کی عمر میں وہ مسل کا سربراہ بن گیا۔ خوش قسمت اور ذہین شخص رنجیت سنگھ سربراہ بنتے ہی ایک بہت بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اس ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے پیش قدمی شروع کر دی اور پھر وہ ہریانہ سے ملتان، پشاور اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ۔ برصغیر کی تاریخ میں سکھوں کا وہ سردار جس نے ان کی سلطنت کی بنیاد رکھی جو پچاس سال تک قائم رہی۔

سکھوں کے اس عظیم حکمران کی ساری تربیت جنگ و جدل اور ماڑ دھاڑ میں ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ہمراہ ایک برطانوی منظم فوج بھی لے کر آئی تھی۔ برطانیہ کی اس منظم فوج سے پہلے برصغیر میں مختلف لوگوں کو پانچ ہزاری یا دس ہزاری منصب دیے جاتے تھے، جو جنگ کے وقت اپنے منصب کے مطابق افراد فراہم کرتے تھے۔ باقاعدہ منظم فوج کا کوئی رواج نہ تھا۔ رنجیت سنگھ کو بہت شوق تھا کہ اس کی بھی ایک ایسی ہی ماڈرن اور منظم فوج ہو۔ اس مقصد کے لیے اس نے فرانس اور اٹلی سے فوجی نظم و ضبط کے ماہر چار جرنیل (1) و نیچورا (Vanchoora)، (2) الارڈ (Allard)، (3) ایوی ٹیبل (Avitabile) اور (4) آگسٹ کورٹ (August Court) بلوائے۔ انھوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلو میٹر دور شالا مار باغ کے قریب اس جگہ تھا جسے ’’بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ فوج کو منظم کرنے اور اسی پر اپنی حکمرانی کی مکمل بنیاد رکھتے ہوئے وہ یہ بھول گیا کہ رعایا کے چلانے کے لیے ایک اچھی انتظامیہ اور عدلیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مملکت میں پیدا ہونے والے ہر مسئلے کا حل فوج کا استعمال کر کے نکالا جا سکتا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کے لیے بھی فوج کو بھیجتا۔ مالیہ وصول کرنا ہو، کہیں ڈکیتی ہو جائے۔ قبائلی تصادم ہو، ہر جگہ فوجی افسران جاتے اور معاملات سنبھالتے۔ انصاف کے لیے کوئی منظم نظام نہیں تھا بلکہ جگہ جگہ فوجی عدالتیں لگتیں اور فوری طور پر انصاف فراہم کر دیا جاتا۔1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ1839ء تک یہ چالیس ہزار ہو گئی، جس کے ساتھ ایک لاکھ گھڑ سوار دستے اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں اکثر لوگوں کو بھاری جرمانے کرتیں۔ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر بھی جائیداد قرق کرنے کا حکم دے دیا جاتا۔ برصغیر کی تاریخ میں سب سے زیادہ مالیہ اسی دور میں وصول کیا گیا۔ یہ پیداوار کا چالیس فیصد تک تھا۔ ان یورپی جرنیلوں نے کٹر سکھ حکمران کو سیکولر حکومتی چہرہ بنانے کا درس دیا۔ اسی لیے1831ء میں جب اس نے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ سے ملنے کے لیے اپنا وفد بھیجا تو اس میں ہری سنگھ نلوا (سکھ) فقیر عزیز الدین (مسلمان) اور دیوان موتی رام (ہندو) شامل تھے۔ لیکن خالصہ فوج کے اکثر سپاہی چونکہ سکھ تھے اس لیے ان کے انتظامی معاملات اور عدالتی فیصلے مسلمانوں کے خلاف بلکہ بعض دفعہ ان کے لیے ہتک آمیز ہوتے۔ فوج کو اپنے اس کردار نے یہ احساس دلا دیا کہ اصل میں وہی حکمران ہیں اور انھوں نے ملکی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی۔ رنجیت سنگھ پر چونکہ اتفاق رائے تھا، اس لیے اس کے زمانے میں دخل اندازی زیادہ نہ ہو سکی۔ لیکن جب اس کا بیٹا کھڑک سنگھ تخت پر بیٹھا تو سکھ دو بڑے سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ ڈوگرے اور سندھنا نوالے، سدھنا نوالہ گروپ کا سردار دھیان سنگھ فوج کے ہیڈ کواٹر ’’بدھو کے آوے‘‘ میں گیا اور ان کو خفیہ اطلاع دی کہ کھڑک سنگھ پنجاب کو انگریزوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ پورے پنجاب میں ایک پراپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی اور صرف تین ماہ بعد فوج نے کھڑک سنگھ کو غدار قرار دے کر تخت سے اتار دیا اور اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو جو لڑ کپن میں فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور فوج اُسے اپنا نمائندہ سمجھتی تھی، اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ یوں سکھ فوج نے دو اختیار اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایک مہاراجہ اور وزیر کی تقرری اور دوسرا یہ فیصلہ کرنا کہ غدار کون ہے اور محب وطن کون۔ لیکن ایک سال بعد ہی نونہال سنگھ ایک حادثے میں مارا گیا تو سندھنا نوالوں نے کھڑک سنگھ کی بیوہ چاند کور تخت پر بٹھا دیا۔ دھیان سنگھ کہاں چین سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو ساتھ ملایا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر ’’بدھو کے آوے‘‘ پہنچ گیا اور جرنیلوں نے شیر سنگھ کی حمایت کر دی۔ چاند کور کو اقتدار پر صرف دو ماہ ہوئے تھے کہ ستر ہزار فوج لاہور کے شہریوں پر ٹوٹ پڑی۔ کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ آخر شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے چاند کور کو شیر سنگھ کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ شیر سنگھ نے تین سال حکومت کی، لیکن چونکہ اسے اقتدار فوج نے دلوایا تھا اس لیے اس کے سارے فیصلے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی ’’بدھو کے آوے‘‘ میں ہونے لگے۔ جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدار کا لقب دینا کافی تھا۔ ڈوگرا گروپ فوج کی آشیر باد سے حکمران تھا اور سندھنا والے معتوب۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے مہاراجہ شیر سنگھ اور دھیان سنگھ کو قتل کیا اور بدلے میں ہیرا سنگھ نے سندھنا نوالوں کے کئی افراد کو قتل کر دیا اور سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا اور عرض کی سندھنا نوالے غدار ہیں اور اگر اسے اقتدار دے دیا جاوے تو وہ سپاہی کی تنخواہ نو روپے سے بڑھا کر بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تیس روپے ماہوار کر دے گا۔ ایک بار پھر فوج لاہور پر حملہ آور ہو گئی۔ پوری رات توپ خانے سے گولہ باری کے بعد جب فوج صبح شہر میں داخل ہوئی تو لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور ہیرا سنگھ کو وزیر۔ ہیرا سنگھ نے فوج کی مراعات میں اضافہ کیا۔ ڈھائی روپے تنخواہ اور بڑھا دی، لیکن ایک دن جرنیل اس کے ایک مشیر سے ناراض ہو گئے اور اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے گرفتار کرنا چاہا، مگر وہ بھاگ نکلا اور فوج نے اس کا تعاقب کر کے مار دیا اور اس کے ماموں جواہر سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اب بدھو کے آوے والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن تک ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور سکھ فوج میں تقسیم کر دیے، جو ٹیکس اکٹھا ہوتا خرچ کر دیا جاتا مگر مطالبات بڑھتے گئے آخر ایک دن جواہر سنگھ کو ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں طلب کیا گیا۔ اس کی بہن رانی جنداں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر سفارش کے لیے آئی، مگر سکھ جرنیلوں نے بہن کے سامنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اب نو سالہ دلیپ سنگھ حکمران تھا اور رانی جنداں سرپرست، لیکن کوئی بھی فوج کے ڈر سے وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔ گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے ’’بدھو کے آوے‘‘ والوں کے وفادار بھی انجام سے ڈر کر بھاگ گئے۔ کمسن دلیپ سنگھ کو کچھ ناموں کی پرچیاں دی گئیں اور قرعہ نکال کر زبردستی لال سنگھ کو وزیر بنایا گیا۔ خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن بدھو کے آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ رانی جنداں کے پاس بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ پراپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج استعمال کر تی تھی، اس نے بھی شروع کیا اور سرگوشیوں کو مہم چلائی کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا اندازہ نہ تھا۔ اس لیے وہ مرنے مارنے پر تیار تھا، لیکن جرنیلوں کو اندازہ تھا اور وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے مخالفت کی، رانی جنداں نے پراپیگنڈا عام فوجیوں تک پھیلا دیا۔ اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کے لیے کوئی راستہ نہ تھا، ’’طاقتور‘‘ خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو عوام نے، جس کا انھوں نے پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا، ان کا ساتھ نہ دیا۔ شکست فاش ان کا مقدر بنی۔ سکھ حکمرانی کا دور تمام ہوا، اور ان کے پاس ماضی کو یاد کرنے کے لیے بس ایک نعرہ باقی رہ گیا’’ راج کرے گا خالصہ‘‘



مغلوں کی تاریخ

کچھ دوستوں کے بار بار اصرار پر اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو مغلوں کی تاریخ کے متعلق کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔جو میں نے مختلف سائٹس سے آپ کے لئے اکٹھی کی ہیں۔ ان کی تاریخ صیحح معنوں میں چینگیز خاں سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مغلوں کا پہلا بادشاہ تھا۔ جس نے منگول سلطنت کی بنیاد رکھی۔

لفظ مغل ۔مغول یا منگول سے نکلا ہے۔مغول یا منگول موجودہ منگولیا، روس اور چین اور خصوصا وسط ایشیائی سطح مرتفع صحرائے گوبی کے شمال اور سائبیریا کے جنوب سے تعلق رکھنے والی ایک قوم ہے۔

مغل اردو زبان میں جنوبی ایشیا کے ایک قبیلہ یا ذات کا نام ہے جس کو فارسی ا ور عربی میں مغول لکھتے ہیں۔بھارت، پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے متعلق ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مغلوں نے مختلف ادوار میں وسط ایشیاء سے حملوں کے دوران آباد کئے- دیگر قومیں جیسا کہ ترک اور ایرانی تارکین وطن بھی یہاں آباد ہوئے-تمام وہ لوگ جو مغل نسب کا دعویٰ کرتے ہیں، مختلف وسطی ایشیائی ترکی-مغول فوجوں کی اولادیں ہیں- چنگیز خان سے تیمور اور تیمور سے ظہیر الدین محمد بابر تک ایران اور جنوبی ایشیا پر حملے کے نتیجے میں یہ لوگ یہاں مقیم پذیر ہوئے-

برنیئر ( ایک فرانسیسی مسافر جس نے مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور حکومت کے دوران ہندوستان کا دورہ کیا تھا) اس کے مطابق۔۔" قرون وسطی کے زمانے میں آل مغول نے مختلف فوجوں کے تحت جنوبی ایشیا فتح کیا تھا- مغل اصطلاح ایران، قزل باشی، ترکی اور تارکین وطن کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا-"

سترہویں صدی میں مغل لفظ مختلف گروہوں کی ایک بڑی تعداد کا احاطہ کرتا ہے- عام طور پر، بھارت کے تمام مرکزی ایشیائی تارکین وطن، ازبک، چغتائی، تاجک، قپچاق، برلاس، قازق، ترکمن، کرغزستان، اویغور یا افغانوں اور قفقاز کے تارکین وطن کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔اس وقت مغولوں کی کل آبادی 10 ملین ہے جو مغول زبان بولتے ہیں۔ منگولیامیں کل 2.7 ملین، چین کے ملحقہ صوبے میں 5 ملین اور روس میں ایک ملین منگول موجودہیں۔

تاریخ عالم میں مغول کی اولین مشہور شخصیت چنگیز خان (پیدائش 1160ء، وفات: 1227ء) تھی۔جس کے اوپر تفصیلی پوسٹ گزر چکی ہے۔اس نے چین کے مشرقی ساحلوں سے لے کر یورپ کے وسط تک ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ یہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی جو مغرب میں ہنگری، شمال میں روس، جنوب میں انڈونیشیا اور وسط کے بیشتر علاقوں مثلا افغانستان، ترکی، ازبکستان، گرجستان، آرمینیا، روس، ایران، پاکستان، چین اور بیشتر مشرق وسطی پر مشتمل تھی۔

مغول یا منگول سلطنت تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں ایشیاء میں قائم کی گئی- یہ سلطنت مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی- 1206 ء میں چنگیز خان نے اپنے آپ کو مغول قوم کا حاکم اعلان کیا- جب وہ 1227میں مرا تو وہ وسطی ایشیاء ، شمالی چین اور مشرقی فارس کا کچھ حصہ فتح کر چکا تھا - چنگیز خان كے بعد اس کے جانشینو نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا- یہاں تک كے منگول سلطنت مشرقی یورپ سے مغربی ایشیاء تک پھیل گئی جس میں مشرق وسطی اور وسطی ایشیاء بھی شامل تھے-

اگر برصغیر پاک و ہند کی بات کی جائے تو شہنشاہ بابر کے دور سے مغلیہ سلطنت کا قیام ہوا ۔ اور اس کے بعد مغل پاک وہند میں باقاعدہ بسنے شروع ہوگئے۔مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا-

ایک ریسرچ پراجیکٹ کے مطابق مغل قوم کی تعدادہمارے قریبی ممالک میں کچھ اس طرح ہے۔ بھارت میں چودہ لاکھ چھتر ہزار۔ پاکستان میں گیارہ لاکھ پچاس ہزار بنگلہ دیش میں انتالیس ہزار افغانستان میں تقریبا دو سو نیپال میں تقریبا ایک ہزار





قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔

آپ میں سے اکثر لوگوں نے یہ شاہی قلعہ لاہور دیکھا ہوگا۔ لیکن آپ میں سے اکثر دوستوں کو اس کے بیشتر تاریخی پہلوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔ آئیے اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے متعلق کچھ دلچسپ معلومات دیتا ہوں۔

اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ شاہی قلعہ لاہور کس نے تعمیر کروایا تھا۔ تو آپ میں سے اکثر کا جواب ہوگا۔ شہنشاہ اکبر نے۔ ویسے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ لیکن آپ کے لئے یہ بات حیران کن ہو کہ یہ قلعہ اکبر سے سینکڑوں سال پہلے بھی موجود تھا۔ ہاں اکبر نے اس کو از سرنو تعمیر کروایا تھا۔ اور جو موجودہ حالت اس کی نظر آرہی ہے اس کو اکبر کے دور میں ہی تزئین و آرائش کروائی گئی تھی۔

قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ تاہم 1959ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی (1025ء )کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021ء میں موجود تھی۔مزید یہ کہ اس قلعہ کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب اُس نے 1180ء تا 1186ء لاہور پر حملوں کئے تھے۔

یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں۔ تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۔1241ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ ۔1267ء- سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔ ۔1398ء ۔- امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ ۔1421ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔ ۔1432ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔ ۔1566ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی تقریباً 1849ء میں جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔ ۔1618ء - جہانگیر نے “دولت کدہء جہانگیر“ کا اضافہ کیا۔ ۔1631ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔ ۔1633ء - شاہجہاں نے “خوابگاہ“، “حمام“، “خلوت خانہ“ اور “موتی مسجد“ تعمیر کروائی۔ ۔1645ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔ ۔1674ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔ ۔1799ء۔۔ یا 1839ء - اس دوران شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جوکہ 1799ء تا 1839ء تک حاکم رہا۔ ۔1846ء - برطانیہ کا قبضہ ۔1927ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔



محل وقوع قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کئی قلعے مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔ مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ اس قلعہ کے لیے جو جگہ منتخب کی گئی وہ ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جس کی سطح لاہور شہر سے کافی بلند، دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر واقع کافی محفوظ تھی جو اس وقت لاہور کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ شاہی قلعہ لاہور جو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس کی باقاعدہ بنیاد 1566ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے رکھی۔ اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں جن کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔ جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساسکتے تھے۔ یہ قلعہ اپنی وسعت، فنِ تعمیر اور شہرت کے لحاظ سے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس قلعہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف عمارات تعمیر ہوئیں جن کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: ۔1۔ عہدِ اکبری کی عمارات ۔2۔ نورالدین جہانگیر کی عمارات ۔3۔ شاہجہاں کی تعمیر کردہ عمارات ۔4۔ اورنگزیب عالمگیر کی عمارات ۔5۔ سکھ دور کی عمارات ۔6۔قلعہ بَعہد انگریز

عالمگیری دروازہ: شاہی قلعہ کی مغربی دیوار سے منسلک یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر نے 74-1673ء میں تعمیر کروایا۔ اسی جگہ پر اکبری دور میں بھی ایک دروازہ موجود تھا اورنگ زیب عالمگیر نے اس کو از سِرنو تعمیر کروایا جس کی وجہ سے یہ عالمگیری دروازہ کہلوایا۔ اس کی تعمیر پرانے فوجی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ خوبصورتی اور رعب کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بڑے بڑے مثمن برج کنول کی پتیوں سے آراستہ ہیں جبکہ گنبد نما برجیاں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس دروازے کے اندر نیچے اور اوپر، محراب دار دو منزلہ کمرے بنے ہوئے ہیں اور سامنے ٹکٹ گھر ہے۔ اسی دروازے سے آج کل عوام کی آمدورفت ہوتی ہے۔ اس دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب ایک راستہ ملتا ہے جس کے نیچے اوپر محافظوں کے کمرے بنے ہوئے ہیں جبکہ بالکل سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بانی لاہور “ لوہ “ کا مندر ہے۔ اس مندر کے شمال میں بلندی پر ایک مثمن دروازہ ہے۔ جس پر جانے کے لیے بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں جو کہ عہدِ برطانوی میں ختم کردی گئیں۔ دروازے کے آثار ابھی تک باقی ہیں۔

شاہی باورچی خانہ و اصطبل: شاہی قلعے کے جنوب مغرب کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جہاں پر عہدِ مغلیہ میں شاہی باورچی خانہ و اصطبل تھا۔ یہ جگہ لوہ کے مندر کی پچھلی جانب اور مثمن دروازہ کی جنوبی طرف واقع ہے۔ یہ بورچی خانہ ایک بہت بڑے ہال اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا جس کے کئی دروازے تھے۔ اس میں کئی ایک انواع کے کھانے تیار ہوتے جو کہ شاہی دسترخوان کی زینت بنتے تھے جبکہ شاہی اصطبل میں اچھی نسل کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔ برطانوی عہد میں اس شاہی باورچی خانہ اور اصطبل کی حیثیت کو ختم کرکے یہاں پر پولیس کی بارکیں بنادی گئیں اور کچھ اضافی عمارات بنا کر اس کو جیل میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ عرصہ تک یہ جیل زیر استعمال رہی۔ آثارِقدیمہ کی انتھک کوششوں کے بعد اس جیل اور پولیس کی بارکوں کو ختم کردیا گیا اور باورچی خانہ کو اصلی صورت میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے آدھے حصے پر محکمہ آثارِ قدیمہ نے ایک نیا خوبصورت کیمپس بنایا جس کا نام “ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی ٹریننگ اینڈ ریسرچ سنٹر “ ہے۔ یہاں پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آثارِقدیمہ کے مختلف شعبہ جات میں لوگوں کو سکالرز کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے

قلعہ کی جنوبی دیوار: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی اینڈ ریسرچ کی عمارت کے مشرق میں ایک سر سبز و شاداب سبزہ زار ہے جس کو روش کے ذریعے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سبزہ زار کے جنوب میں قلعہ کی جنوبی دیوار ہے۔ جسے عہدِ برطانوی میں توڑ دیا گیا تھا اور یہاں پر سیڑھیاں اور چبوترے بنادیے گئے تھے تاکہ قلعہ دوبارہ دفاعی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ اس دیوار کے بجانب شمال دھیان سنگھ کی بارہ دری تھی جو اب منہدم ہوچکی ہے اس بارہ دری اور دیوار کے اوپر مختلف قسم کے فوارے لگے ہوئے تھے ( جنمیں سے ابھی کچھ باقی ہیں)۔اس وقت یہاں پر بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے وغیرہ بنائے گئے ہیں۔

دیوان عام: عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کی جنوبی دیوار سے متصل دیوان عام جو آصف خان کی زیرِ نگرانی شاہجہاں کے حکم پر 32-1631ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جو کہ مستی ( مسجدی ) دروازہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ سنگِ سرخ کے چالیس ستونوں پر مشتمل خوبصورت عمارت ہے جس کی لمبائی 62 میٹر، چوڑائی 20 میٹر اور اونچائی 11 میٹر ہے۔ یہ دیوان 1.5 میٹر اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ جس کی تین اطراف میں سنگِ سرخ کی جھالر / کٹہرا بنا ہوا ہے اور ہر طرف سے راستہ چبوترے پر جاتا ہے۔ جس سے امراء، وزراء اور دیگر ملازمین دیوان میں داخل ہوتے تھے۔ (تصویر نمبر 2 ) سکھ دور حکومت 1841ء میں اس دیوان کے حسن کو کافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سکھوں کی باہمی چپقلش اور لڑائی تھی چنانچہ اسی وجہ سے سکھ سردار شیر سنگھ نے قلعہ پر بادشاہی مسجد کے میناروں سے گولہ باری کی جس سے اس کا کافی حصہ گر گیا جس کی بعد میں انگریزوں نے مرمت کر کے اس دیوان کو ہسپتال کی حیثیت دے دی اور کافی عرصہ یہ عمارت بطور ہسپتال استعمال ہوتی رہی۔ آخر 1927ء کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے اسے اپنی تحویل میں لیکر اصلی صورت بخشی۔

دولت خانہ خاص و عام ( اکبری محل ): دیوان عام میں سے ایک زینہ جھروکہ درشن میں جاتا ہے۔ اس جھروکے کے پیچھے اکبری عہد کے دولت خانہ خاص و عام کی عمارت ہے یہ ایک دو منزلہ عمارت چار گوشہ عمارت، دولت خانہ خاص و عام، اکبری محل کے نام سے مشہور ہے۔ جو اکبر کے حکم پر 1587ء کو تعمیر ہونا شروع ہوئی اور 18- 1617ء میں عہد جہانگیری میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس پر سات لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ وسیع علاقے پر مشتمل یہ محل 116 کمروں پر مشتمل تھا جس کا کافی حصہ بالکل ختم ہوچکا ہے صرف بنیادوں کے آثار باقی ہیں۔ اس وقت جو حصہ بچا ہوا ہے اس میں دولت خانہ خاص، جھروکہ اور کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ دولت خانہ چار کمروں پر مشتمل ہے۔ جن میں ‌ایک مستطیل، ایک ہشت پہلو اور دو شش پہلو ہیں جب کہ ان کی شمال اور مغربی جانب برآمدے ہیں جن میں دوہرے سنگ مر مر کے ستون ہیں جبکہ دیواروں اور چھتوں کو چونے کی رنگین گلکاری اور منبت کاری سے سجایا گیا ہے۔ کھڑک سنگھ کا محل: دولت خانہ خاص و عام کی مشرقی جانب اور احاطہ جہانگیری کے جنوب مشرقی جانب ایک دو منزلہ عمارت ہے اس عمارت کا زیریں حصہ عہدِ اکبری کا ہے۔ جبکہ اوپر والی عمارت راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کے لیے بنوائی۔ اسی لیے یہ کھڑک سنگھ کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ کھڑک سنگھ کا یہ محل آتھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل تھا جس کی چھت لکڑی اور دیواروں پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے ایک اعلٰی نمونہ تھا۔ آج کل عمارت کے اس حصے میں ڈائریکٹر حلقہ شمالی آثارِ قدیمہ کا دفتر ہے۔ اس حویلی کی نچلی منزل دراصل عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کا ایک حصہ ہے۔ آج کل اس میں محکمہ آثارِقدیمہ کی ایک خوبصورت لائبریری ہے جو تقریباً پندرہ ہزار کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بیٹھ کر مختلف اسکالرز استفادہ علم کرتے ہیں۔ یہ لائبریری ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کو الماریوں کے ذریعے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کی پچھلی جانب کمروں کا ایک سلسلہ ہے جو محکمہ آثارِقدیمہ کے اسٹور کے طور ہر استعمال ہوتا ہے۔

مسجدی یا مستی دروازہ: جہانگیر کی والدہ مریم زمانی نے 1614ء کو قلعہ کے مشرقی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی جو اسی کے نام سے موسوم ہوئی۔ قلعے کا یہ دروازہ مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے “ مسجدی دروازہ “ کہلایا جو بعد میں بگڑ کر “ مستی “ دروازہ بن گیا۔ یہ دروازہ قلعہ کی مشرقی دیوار کے وسط میں واقع ہے جو ایک مضبوط اور پائیدار دروازہ ہے۔ جو اپنی خوبصورتی اور جاہ و جلال بکھیرے عہدِ اکبری کے عظیم فن ِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ دروازہ 1566ء میں تعمیر ہوا جس کے دونوں جانب مثمن برج ہیں اور مدافعت کے لیے دندانے دار فصیل ہے جن میں مستطیل نما سوراخ ہیں۔ اس قسم کی سوراخ دار فصیل قلعے کے کسی اور حصے میں نہیں ملتی۔ اس دروازے کا اندرونی حصہ گنبد نما ہے جن کے دونوں جانب بڑے بڑے دو منزلہ کمرے ہیں۔ یہ کمرے محافظوں کے لیے مخصوص تھے۔ اس دروازے کے اندرونی جانب شمال اور بجانب جنوب عہدِاکبری کی عمارات منسلک تھیں جو اب ختم ہوچکی ہیں اور اب صرف ان کی بنیادیں ہی باقی ہیں۔

احاطہ جہانگیری: اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر (1605-1627ء) نے عنانِ حکومت سنبھالا تو اس کے خلاف بے شمار شورشیں اٹھ کھڑی ہوئیں یہاں تک کہ اس کے بیٹے خسرو نے باپ کے خلاف بغاوت کردی اور قلعہ لاہور کا محاصرہ کرلیا مگر صوبے دار لاہور دلاور خان نے اس کی ایک نہ چلنے دی تو اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ دریں اثنا خسرو اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ دریائے چناب کے قریب پکڑا گیا۔ اسی دوران جہانگیر لاہور آیا اور تقریباً ایک سال تک یہیں شاہی قلعے میں قیام کیا اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور میں نہایت عمدہ عمارات تعمیر کروائیں اور ساتھ ساتھ ان عمارات کی تکمیل بھی کروائی جن کی بنیادیں اس کے باپ اکبر نے رکھی تھی۔ دیوانِ عام کی شمالی جانب ایک وسیع اور خوبصورت سبزہ زار ہے مغلیہ طرز کا یہ باغ برطانوی دورِ حکومت میں ختم کردیا گیا اور یہاں ٹینس کھیلنے کے لیے جگہ بنادی گئی جسے بعد میں دوبارہ اصل حالت میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی لمبائی 123 میٹر اور چوڑائی 82 میٹر ہے۔ باغ کی روشیں چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ روشیں سبزہ زار کو مختلف حصوں میں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ جسے چہار باغ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سبزہ زار کے وسط میں مربع شکل کا حوض ہے جس میں 32 فوارے لگے ہوئے ہیں۔ حوض کے درمیان میں سنگ مرمر کا چبوترہ ( مہتابی ) ہے اور شرقاً غرباً راہداری ہے۔

خوابگاہ جہانگیری و عجائب گھر:- 

اکبری محل کے شمالی جانب ایک بہت بڑی عمارت ہے جسے خوابگاہ جہانگیری کہتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہاں پر جہانگیر بادشاہ آرام فرمایا کرتے تھے یہ عمارت دو چھوٹے کمروں اور ایک درمیانی بڑے ہال پر مشتمل ہے جب کہ سامنے جنوب کی طرف برآمدہ ہے۔ یہ عمارت 46 میٹر لمبی اور 18 میٹر چوڑی ہے۔ اس عمارت کا اندرونی حصہ پچی کاری، غالب کاری، منبت کاری اور جیومیٹریکل نقش و نگار سے آراستہ کی گئی ہے۔ اس عمارت کا ایک ہی دروازہ ہے جو درمیانی ہال سے برآمدے میں کُھلتا ہے

سہ دریاں: خواب گاہ جہانگیری کے مشرقی اور مغربی جانب دو سہ دریاں تھیں جن میں اس وقت مشرقی سہ دری باقی ہے۔ یہ سہ دری ایک کماندار چھت والا ( برج ) چھوٹا سا کمرہ ہے۔ جو جہانگیری دور کی تعمیر ہے۔ اس کی مشرقی جانب عہدِ مغلیہ کی عمارات کو انگریزی دور میں چرچ کی حیثیت حاصل تھی جو بعد میں ختم ہوگئی اس عمارت سے ایک زینہ منزل زیریں کی طرف جاتا ہے جہاں آج کل لیبارٹری ہے۔ اس سہ دری کے سامنے ایک چھوٹا سا حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ اس عمارت کے تین دروازے اور دو چھتری نما گنبدیاں ہیں۔ درمیان میں کمان دار چھت اور چاروں طرف چھجہ ہے۔ یہ فنِ مصوری کے مختلف نمونوں سے مزین تھی جن کے نقوش اب تقریباً مٹ چکے ہیں۔

محل رانی جنداں و عجائب گھر: احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی طرف ایک بلند و بالا عمارت رانی جنداں کے محل کے نام سے مشہور ہے۔ رانی جنداں راجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیوی تھی۔ راجہ نے اس کے لیے مغل بادشاہ جہانگیر کی تعمیر کردہ عمارت کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کروائی اور اس عمارت کو اپنی بیوی کا محل قرار دے دیا۔ کافی عرصہ تک یہ عمارت رانی جنداں کی رہائش گاہ (محل ) کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ عجائب گھر ( آرمری گیلری ) اس عمارت کا نچلا حصہ جو کہ عہدِ جہانگیری کی تعمیر ہے۔ مختلف کمروں پر مشتمل ہے اس کا مشرقی حصہ عہدِ اکبری کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس وقت یہ پوری عمارت محکمہ آثارِقدیمہ نے عجائب گھر میں تبدیل کر رکھی ہے جسے آرمری گیلری کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گیلری چار کمروں پر مشتمل ہے جو کہ سکھ دور حکومت میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ اس گیلری کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مختلف سکھ سرداروں کی تصاویر۔ رنجیت سنگھ کی بیوی کے سنگ مرمر کے ہاتھ وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ بڑے ہال میں پستول، تلواریں، توپیں، ڈھالیں، تیر کمان، لوہے کے گولے، فوجی سازوسامان اور بینڈ باجے وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ اس سے آگے ایک اور چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں سکھ دورِ حکومت میں لڑی گئی لڑائیوں کی تصاویر دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں۔ ان لڑائیوں میں چلیانوالہ لڑائی 1849ء، موڈکے 1843ء میں رام نگر 1848ء، گجرات 1849ء جب کہ سب سے آخر میں راجہ رنجیت سنگھ کی حنوط شدہ گھوڑی کی ایک بہت بڑے شو کیس میں نمائش کی گئی ہے۔ اس گھوڑی کے ماتھے، سینے اور دُم کو اصلی سونے کے زیور سے سجایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر راجہ رنجیت سنگھ ہاتھ میں سونے کی چھتری لیے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ یہ چھتری سرخ کپڑے اور سونے کے تاروں سے مزین ہے۔ یہ چیزیں سکھ دورِ حکومت کی خوشحالی اور عظمت کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ سکھ گیلری: اس عمارت کے اوپر والی منزل جو کہ رانی جنداں کی رہائش گاہ تھی۔ اور سکھ دور کی تعمیر ہے۔ اس خوبصورت ہال میں سکھ امراء شہزادوں اور سرداروں کی تصاویر کی نمائش کی گئی ہے جو “شہزادی بمبا کولیکشن“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کو حکومتِ پاکستان نے پیر کریم بخش سے مبلغ 50 ہزار روپے میں حاصل کیا اور محکمہ آثارِ قدیمہ نے ان کو محفوظ کیا۔ ان خوبصورت تصاویر میں 18 آئل پینٹنگ، 14 واٹر کلر، 22 پر ہاتھی دانت کا کیا ہوا کام، 17 فوٹو گراف، دس دھاتی چیزیں اور 7 مختلف فن پارے شامل ہیں۔ ان تصاویر پر زیادہ تر کام یورپی فن کاروں نے کیا ہے۔ یہ تصاویر سکھ دورِحکومت کے فن کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں راجہ رنجیت سنگھ کا دربار خاص طور پر نمایاں ہے۔

موتی مسجد: برصغیر پاک و ہند میں اس وقت چار موتی مسجدیں ہیں جو اپنی بناوٹ، ساخت اور فن تعمیر کے لحاظ سے کافی مشابہت رکھتی ہیں مگر ان کے سن تعمیر میں فرق ہے۔ ان چار مساجد میں ایک گرہ میں ہے جسے شاہجہاں نے 1654ء میں تعمیر کروایا، دوسری 1659ء میں لال قلعہ دہلی میں اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروائی، تیسری مہرالی (دہلی کے قریب) شاہ عالم بہادر شاہ 12-1707ء میں قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے ساتھ بنوائی، چوتھی اور سب سے قدیم موتی مسجد شاہی قلعہ لاہور میں واقع ہے۔ مکاتب خانہ کی مغربی دیوار سے متصل ایک خوبصورت ننھی سی مسجد ہے چونکہ یہ تمام کی تمام سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس لئے اس کو موتی مسجد کہتے ہیں۔ یہ مسجد عہد جہانگیری میں ایک مشہور انجینئر معمور خان کی زیر نگرانی جہانگیری محل کے بیرونی دروازے کے ساتھ 1618ء میں تعمیر ہوئی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ فن تعمیر کی مناسبت سے شاہ جہاں کے دور کی عمارت ہے۔ اور 1645ء میں تعمیر ہوئی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ اسے عہد جہانگیری کے ایک معمار نے مکاتب خانہ کے ساتھ ہی تعمیر کیا تھا۔ یہ پوری مسجد سفید سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس کے صحن کی لمبائی تقریباًً 5۔18 میٹر اور چوڑائی 5۔10 میٹر ہے اور 3۔2 میٹر اونچے پلیٹ فارم پر بنائی گئی ہے۔ جس کی پانچ محرابوں کو قوسی شکل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درمیان میں مربع نما نفیس ستون ہیں۔ کمان دار چھت کے اوپر گول موتی نما تین گنبد ہیں۔ فرش پر کندہ کاری، نقش شدہ دیواریں، جیومیٹریکل ڈیزائن اور بیل بوٹے اس مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کے چاروں اطراف چار دیواری ہے جس کی شمال اور مشرقی دیوار میں حجرے ہیں جو امام مسجد اور طلباء کے رہنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سکھ دور کی حکومت میں اس مسجد کا نام بدل کر “موتی مندر“ رکھ دیا گیا اور اس خوبصورت مسجد کو شاہی خزانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے مرکزی دروازہ کو مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے سر بمہر کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس خوبصورت مسجد کے مذہبی تقدس اور ظاہری حسن کو کافی نقصان پہنچا۔ انگریز کے دور حکومت نے بھی اس روش کو جاری رکھا اور انتہائی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت سے اس مسجد کی عظمت کو ٹیس پہنچائی آخر وائسرائے لارڈ کرزن کے احکامات پر اس مسجد کا تقدس از سر نو بحال کر دیا گیا۔






رجب طیب اردوان کا جمہوریہ ترکی ایشیا اور یورپ کی سرحد پر واقع ایک عظیم الشان ملک ہے جس میں چھے کروڑ سے زائد ترک مسلمان آباد ہیں۔ترک قوم یورپ سے لے کر روس تک اور مشرق وسطیٰ سے لے کر چین کی سرحد تک آباد ہے اور آج ترک نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سترہ کروڑ سے زیادہ ہے۔تاتاری، مغل ،خلجی تغلق اور عثمانی سب ترک نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ترکوں کو پہلی دفعہ سیاسی اہمیت آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں ملی جب اس نے عباسی فوج اور اقتدار سے فارسی اثر ورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ترک قبائل آہستہ آہستہ اپنی طاقت اور اقتدار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور عثمانی سلطنت کے قیام سے پہلے بھی کئی چھوٹی ترک ریاستیں قائم ہوئیں۔ترکوں کے عروج کا سلسلہ تیرہویں صدی عیسویں میں عثمانی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہوا جس کا بلند ترین مقام 1453 میں بازنطینی سلطنت کے دارلحکومت قسطنطنیہ کی فتح تھا۔عثمانی سلطنت کا عروج اگلی صدیوں میں بڑھتا گیا اور سلطان سلیمان قانونی کے دور میں عثمانی اقتدار کی سرحدیں ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیل چکی تھیں۔سلطنت عثمانیہ نے مشرقی یورپ،افریقہ اور مشرق وسطی پر اسلامی پرچم لہرایا اور اس عظیم سلطنت کا سربراہ خلیفة الاسلام کہلاتا تھا۔عثمانی ترکوں کے ہاتھ میں نہ صرف عالم اسلام کی سیاسی رہنمائی تھی بلکہ مذہبی طور پر بھی خلیفہ پوری اسلامی دنیا کا راہنما سمجھا جاتا تھا۔مسلمانوں کے مقامات مقدسہ جن میں مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور بیت المقدس شامل تھے صدیوں تک عثمانی خلافت کا حصہ رہے۔ سلطنت عثمانیہ کے عروج کے دوران آبناۓ باسفورس سے لے کر بحر ہند تک اور دریاۓ نیل سے لے کر شاہراہ ریشم تک بحری اور بری راستے ترکوں کے زیردست رہے اور عثمانی بحریہ سمندروں کے ساحلوں اور بندرگاہوں پر راج کرتی رہی۔عثمانیوں کی سمندری فوج خضر خیرالدین باربروسا کی کمان میں دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت رہی۔اسی طرح عثمانی فن تعمیر نے نیلی مسجد، سلطان سلیم مسجد اور توپ کاپی محل جیسے عظیم شاہکار تعمیر کیے۔عثمانی دور میں ترکوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسا عروج دیکھا جو کسی اور سلطنت یا ریاست کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔اس دور میں جب فرانس اور انگلینڈ جاگیرداروں اور مذہبی رہنماٶں کی آماجگاہ تھے اور پورا یورپ فرقہ وارانہ اور سیاسی خانہ جنگیوں میں گھرا ہوا تھا، ترک اپنی تاریخ کی عظیم کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔سترہویں صدی کے آغاز میں انگریز ڈرامہ نگار شیکسپئر اور کرسٹوفر مارلو اپنی کہانیوں میں ترکوں کا ذکر بطور فاتحین کرتے اور یورپ عثمانیوں کو اپنی بقا۶ کے لیے ایک عظیم خطرے کے طور پر دیکھتا رہا۔ صدیوں تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور سلطنت عثمانیہ عروج و زوال کے مراحل طے کرتے ہوۓ بالآخر بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم کے بعد بکھر گئی اور اس سے ملحقہ تمام علاقوں کو جنگ کے فاتحین امریکہ برطانیہ اور اٹلی نے اپنی کالونیاں بنا لیں اور کچھ علاقوں میں نام نہاد آزاد قومی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ترکی بھی ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنےآیا اور اسکی قیادت قوم پرست فوجی جرنیل مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں چلی گئی۔مصطفیٰ کمال نے پندرہ برس تک ترکی پر آمرانہ حکومت کرتے ہوۓ ترک قوم کی خواہشات کے برعکس یورپی تصور زندگی کو نافذ کرنے کی کوشش میں ترکی کے سیاسی،ثقافتی، معاشرتی اور اخلاقی نظام پر استعماری حملے کیے اور مغربی جدیدیت کو ایک اسلامی تہزیب کے آئینہ دار ملک پر تھونپ دیا۔کمال نے اپنے حامی جرنیلوں کے ساتھ مل کر سب سے پہلے عثمانی خلافت کو ختم کیا اور اس کی جگہ مغربی پارلیمانی نظام نافذ کر دیا۔کمال نے عثمانی قوانین ختم کیے اور ایک یورپی ملک سوئٹزرلینڈ کے سول کوڈ کے نمونے پر ترکی کا قانون بنایا۔اسی طرح ترکی کا پینل کوڈ 1924 سے 1937 کے درمیانی عرصے میں اٹلی کے پینل کوڈ کو سامنے رکھتے ہوۓ منظور کیا گیا۔۔ ۔کمال نے ترک قوم جو 99 فیصد کے قریب مسلمانوں پر مشتمل تھی،کو یورپی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ترکی میں ہیٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا اور ترکی ٹوپی پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔99 فیصد مسلمان آبادی رکھنے والے ملک میں علما کے دستار پہننے پر پابندی لگا دی گئی اور ترکوں کو مغربی لباس اور ہیٹ پہننے پر مجبور کیا گیا۔1929 میں ترکی میں پہلا مقابلہ حسن منعقد کروایا گیا جس میں فرح توفیق پہلی مس ترکیہ منتخب ہوئیں۔خواتین کو سکرٹ اور جینز پہننے کی ترغیب دی گئی۔حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی اور شراب پر لگائی گئی پابندی ہٹا لی گئی۔مصطفیٰ کمال اور اقتدار پر قابض اس کے حامی جرنیلوں نے بندوقوں کے ساۓ میں ترک قوم کو عربی کی بجاۓ ترکی زبان میں اذان دینے پر مجبور کیا اور عربی میں اذان غیر قانونی قرار دے دی گئی۔کمال اور اس کے حواریوں نے ترک قوم کو اسلامی دنیا سے کاٹنے کے لیے ترکی زبان کا عثمانی رسم الخط کالعدم قرار دے کر راتوں رات اسے لاطینی رسم الخط میں بدلنے کا اعلان کر دیا۔ترکی زبان میں نئے حروف تہجی 1928 میں متعارف کرواۓ گئے۔اس قدم سے نہ صرف ترکی باقی اسلامی دنیا سے کٹ کر رہ گیا بلکہ تمام پڑھے لکھے لوگ جاہلوں میں بدل گئے اور لاکھوں عالم بے روزگار ہو گئے۔کمال اور اسکے ساتھیوں کی آمرانہ حکومت کے دوران حزب مخالف کی کوئی جماعت کھڑی نہ ہو سکی اور جو انفرادی آوازیں اس ظلم کے خلاف اٹھیں انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔سیکولر بریگیڈ نے مساجد اور خانقاہوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر دی اور مغربی طرز پر ایک قومی طرز تعلیم متعارف کروایا گیا۔اسی آمرانہ دور میں1934 میں مصطفیٰ کمال کی کٹھ پتلی کابینہ کے ایک فیصلے کی بنیاد پر تاریخی آیا صوفیہ مسجد کو عثمانی خلافت اور اسلامی تاریخ کا ایک نشان سمجھتے ہوۓ عجائب خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔مصطفیٰ کمال کی آمریت نے جمہوریت اور عوام کے احساسات کو کچلتے ہوۓ ایک عظیم الشان ملک جو چند برس پہلے تک دنیا کی بڑی طاقتوں اور عظیم تہزیبوں میں ہوتا تھا اسے یورپ کے رنگ میں رنگنے کی کوشش میں قومی وقار،منفرد معاشرت، سیاسی فکر اور معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ترک ایک عظیم سلطنت کھونے کے بعد انہی اقوام کے طرز تمدن،سیاسی خیالات اور فلسفہ زندگی کے غلام بن کر رہ گئے جو چھے سو سال تک ترکوں کے نام سے خوف کھاتی تھیں۔اس آمرانہ دور میں ہزاروں اسلام پسند ترکوں کا قتل عام کیا گیا اور ترکی سے اسلام کے نام تک کو مٹانے کی ہر کوشش کی گئی۔مصطفیٰ کمال کا 1936 میں انتقال ہوا تو ان کی جگہ عصمت انونو نے لے لی اور کمالسٹ پالیسیاں جاری رکھی گئیں۔ترکی کی اس اسلام دشمن حکومت نے امریکی ایما پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور ناجائز یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ترکی کا اسلامی دنیا کے معاملات میں کردارختم ہو کر رہ گیا۔فوج نے مذہب دشمنی اور مغرب پرستی میں ترکی کی نام نہاد جمہوریت کا چہرہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔ترکی کے مقبول عام وزیراعظم عدنان میندریس کو1960 کی دہائی میں اسلام پسندوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے پر لا دین فوج کے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا۔میندریس نے عربی زبان میں اذان کو قانونی قرار دیا اور مذہبی اداروں پر پابندیاں نرم کر دیں۔فوجی جرنیلوں نے اپنے پیش روؤں کی روایت پر چلتے ہوۓ 1960 میں# عدنان مین دریس کی حکومت ختم کی اور ستمبر 1961 میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔اس سارے عرصے میں ترکی نے امریکہ اور یورپ سے تعاون کی امیدیں لگاۓ رکھیں مگر ملک مجموعی طور پر بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کرتا رہا۔فوجی مداخلتوں اور سیاسی انتشار کے باعث ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ترکی میں بالترتیب دس اور گیارہ وزراۓ اعظم کو تبدیل کیا گیا جس سے ملک میں پھیلے سیاسی انتشار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔1980 کی دہائی میں ترکی کی سب سے بڑی نسلی اقلیت کردوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور اس متشدد لہر نے ہزاروں افراد کی جان لی۔ترکی نے اس دوران تین فوجی حکومتیں دیکھیں جو لادین اور قوم پرست نظریات کو ترکی کےعوام پر تھوپنے کی کوشش کرتی رہیں۔ترکی میں فوج اپنے آپ کو سیکولر جمہوریت کی محافظ قوت بیان کرتی رہی اور 1997 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے اسلام پسند رہنما #پروفیسر نجم الدین اربکان کو فوجی رہنماٶں نے اسلامی نظریات رکھنے کی پاداش میں معزول کر دیا۔انجینئر نجم الدین اربکان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی کے ساتھ ان کی جماعت “ویلفیر پارٹی” کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ویلفیر پارٹی کے ارکان جن میں طیب اردوان بھی شامل تھے، نے2001 میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی AKP کی بنیاد رکھی۔اس پارٹی کا قیام ہی ترکی کے 99 فیصد مسلمان عوام کی مغرب پرست لادین فوجی آمریت سے نجات کا باعث بنی۔2002 میں ہونے والے قومی انتخابات کے بعد رجب طیب اردوان ترکی کے نئے رہنما بن کر سامنے آۓ اور ترکی کا انتشار سے اتحاد اور کامیابی کا سفر شروع ہوا۔طیب اردوان کی زیر قیادت ترکی نے معاشی میدان میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور چند سالوں میں ہی ترکی دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں شامل ہو گیا۔رجب طیب اردوان نے نہ صرف ترکی کو معاشی لحاظ سے ایک مضبوط ملک بنایا بلکہ بین الاقوامی امور پر بھی سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد پہلی مرتبہ ایک موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہوا۔2002 کے بعد ہونے والے چھے مسلسل انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی AKP کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے اور طیب اردوان کی اسلام پسند پالیسیوں کو ان کی ترک عوام میں مقبولیت کی بڑی وجہ کہا جا سکتا ہے۔طیب اردوان کے دور میں ہی ترکی کی خاتون اول حجاب پہن کر صدر کے ساتھ بین الاقوامی اور ملکی تقریبات میں شرکت کرتی نظر آتی ہیں اور طیب اردوان کھلم کھلا اسلامی ممالک کی حمایت میں بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔اردوان کے نظریات اور اسلام پسندو کی طرف جھکاٶ ترکی کی سیکولر فوجی قیادت کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور بالآخر 2016 میں فوج نے بغاوت کر دی۔ترک عوام کی اکثریت جو فوج کے جبر کو ایک عرصے تک برداشت کرتی آئی تھی،اردوان کی حمایت میں کھڑی ہو گئی اور باغی فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیج دیا گیا۔اس بغاوت کے بعد رجب طیب اردوان کا حکومت پر کنٹرول مزید مضبوط ہو گیا اور ہزاروں مشکوک افراد کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔اردوان اور انکے حامی اس بغاوت کے پیچھے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کاہاتھ دیکھتے ہیں جو ترکی کے بڑھتے ہوۓ سیاسی کردار اور اسلام پسند نقطہ نظر کو ایک نیا خطرہ سمجھتا ہے۔اردوان حکومت نے امریکہ میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے حامیوں کو چن چن کر عدلیہ بیوروکریسی اور سرکاری محکموں سے نکال کر جیلوں میں ڈال دیا۔جمہوریہ ترکی جو ایک صدی تک لادین فوج کے ہاتھوں کھلونا بنا رہا پہلی مرتبہ بغاوت کے مجرموں کو تختہ دار پرپہنچانے میں کامیاب ہوا۔غیر ملکی محاز پر بھی ترکی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آیا ہے۔اردوان کی زیر قیادت ترکی مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مرکزی کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے جس کی واضح مثالیں شام کی خانہ جنگی اور قطر سعودی تنازعہ میں ترکی کا بھرپور کردار ہے۔ترکی نے افریقہ میں بھی اپنا اثرورسوخ بحال کرنے کے لیے صومالیہ جیسے ممالک میں اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے اور لیبیا میں ہونے والی خانہ جنگی میں ترک فوج کی آمد نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپوں اور کشمیر کے تنازع پر اردوان حکومت نے کھلم کھلا پاکستان کی حمایت کرتے ہوۓ اپنی نظریاتی سمت کا ایک دفعہ پھر سے اعادہ کیا۔ترکی کا ترقی اور خوشحالی کی طرف سفر بھی عوام کی آزادی اور قومی امنگوں کی ترجمانی کے ساتھ لازم و ملزوم رہا ہے اور اردوان ترک قوم کا کھویا ہوا وقار بحال کرتے نظر آتے ہیں۔ایک طرف ترکی معاشی آزادی کے سفر کی طرف کامیابی سے گامزن ہے اور ساتھ ہی اپنی خودمختاری کے سامنے کسی بھی قسم کی مصلحت کو تیار نہیں۔امریکہ،یونان،رشین آرتھوڈکس چرچ کے انتباہ کے باوجود آیا صوفیہ کے معاملے پر ترک عدالت کے فیصلے پر اردوان کا فوری عملدرآمد اس امرکی غمازی کرتا ہے کہ نہ صرف ترک قوم مغرب پرست فوج کی مسلط کردہ تاریک رات سے نکل آئی ہے بلکہ اپنے عظیم الشان ماضی کی طرف رجوع کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوۓ ہے۔رجب اردوان کا عظیم تاریخی مسجد آیا صوفیہ،جو ایک درخشاں ماضی کااستعارہ ہے،کی حیثیت بحال کرنے کا یہ فیصلہ نہ صرف ان کی سیاسی حمایت میں اضافہ کرے گا بلکہ مسلم دنیا میں بھی #ترکی اور #رجب طیب اردوان کے وقار اور احترام میں اضافہ ہو گا اور وہ ایک بڑے عالمی رہنما بن کر بھی سامنے آئیں گے


معرکہ عین جالوت اور سلطان رکن الدین بیبرس ؛؛؛ عدیل سلیم جملانہ on June 24, 2020



۲۵ رمضان ۶۵۸ھ ؁ تاریخ میں کئی واقعات ایسے ہیں کہ جن کے رونماء ہونے کے سبب کچھ ایسا منظر نامہ بنا جس نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ ۹۷ ؁ھ میں دمشق میں سلیمان بن عبدالمالک کا مسند خلافت سنبھالنا اور اس کے نتیجے میں قتیبہ بن مسلم کا چین کی سرحدوں سے ،طارق بن زیاد کا فرانس سے اور محمد بن قاسم کا فتح سندھ کے بعد پلٹ جانا اس کی ایک مثال ہے۔بعد میں اگرچہ ترک اور افغان فاتحین کے ذریعے ہندوستان میں تو اسلام پہنچ گیا مگر چین اور فرانس کی سرحدوں سے واپسی کے بعد عالم اسلام کی سرحدیں چودہ سو سال کے بعد بھی کاشغر(مشرقی ترکستان) سے آگے نہ بڑھ سکیں اور نہ ہی یورپ عالم اسلام میں شامل ہوسکا۔ اس کے علاوہ 1402 ؁ء میں جنگ انقرہ میں امیر تیمور کے ہاتھوں عثمانی سلطان بایزید یلدرم کی افسوس ناک شکست اور گرفتاری بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا کہ جس نے یکایک تاریخ کا رخ موڑ دیا اور اس کے نتیجے میں پورے یورپ کی تسخیر کی خواہش عثمانی ترکوں کا خواب بن کر رہ گئی۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر 1815 ؁ء میں واٹر لو کے میدان میں نپولین کو شکست نہ ہوتی تو شاید دنیا کو جنگ عظیم اول اور دوم کی تباہ کاری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

آج ہمارا موضوع ایک ایسی ہی معرکہ آرائی کا تذکرہ ہے جو 25رمضان المبارک 658 ؁ ء بمطابق1260 ؁ء کو مصر اور شام کے درمیان واقع عین جالوت کے مقام پر پیش آئی اور جس کے نتیجے میں عالم اسلام جو بظاہر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا وہ مکمل بربادی سے بچ گیا،عامتہ الناس کو تو چھوڑیں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی ’’معرکہ عین جالوت‘‘ اور اس کے ہیرو ’’سلطان رکن الدین بیبرس‘‘ کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتا ہے ۔حالانکہ اس معرکہ آرائی کے نتیجے میں نہ صرف عالم اسلام کو سیاسی طور پر نئی زندگی ملی بلکہ حرمین شریفین کی حرمت کو لاحق شدید ترین خطرہ بھی ٹل گیا ۔ تیرھویں صدی عیسوی کا سیاسی منظر نامہ معرکہ عین جالوت کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے تیرویں صدی عیسوی کے سیاسی منظر نامہ کو دیکھنا پڑے گا ۔یہ صدی عالم اسلام کے لئے نہایت پر آشوب تھی اور اس صدی میں جتنے مسلمان شہید ہوئے اتنے شاید نہ اس سے پہلے شہید ہوئے نہ اس کے بعد آج تک (دور جدید میں اکیسوی صدی عیسوی کا آغاز اگر چہ اب تک مسلمانوں کے لیے کچھ ایسی ہی صورت حال لیے ہوئے ہے۔) بہر حال تیرھویں صدی عیسوی میں1219 ؁ء میں منگولیا سے اٹھنے والا طوفان بلاخیز ایک کروڑ مسلمانوں کو بہا کر لے گیا ۔ چنگیز خان نے پہلے تو چین کی عظیم تاریخی سلطنت کو برباد کیا پھر اس نے ماوراء ا لنہر کے علاقوں کا رُخ کرتے ہوئے سمرقند، بخارا،تاشقند، مرو اور نسا سے لے کر خراسان کے علاقے ہرات تک اور نیشا پور سے لے کر دریائے سندھ کے ساحلی علاقوں تک تباہی اور بربادی کی داستانیں رقم کیں ۔ وسطی ایشیا اور چین کے بعد مشرقی یورپ اور روس کے علاقے چنگیز خان کا شکار بنے۔ 1227 ؁ ء میں چنگیز خان کی وفات کے بعد اوکتائی خان اس کا جانشین بنا۔ 1246 ؁ء میں اوکتائی خان کا بیٹا گیوک خان تیسرا خاقان اعظم منتخب ہوا اور 1251 ؁ء میں منگو خان جو تولی خان کا بیٹا تھا وہ چوتھا خاقان بنا۔ خاقان کی تبدیلیوں کے باوجود بھی منگول سلطنت کے حملے ارد گرد کے علاقوں میں جاری رہے اور اب ان کا نشانہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی بننے لگیں جن میں یورپی اور روسی قومیں بھی شامل تھیں۔ 1258 ؁ء میں ہلاکو خان نے منگوخان کے گورنر کی حیثیت سے بغداد پر حملہ کرکے خلافت عباسیہ کا خاتمہ کردیا۔ بغداد کے ساتھ ساتھ موصل حلب اور دمشق بھی ہلاکو خان کے ہاتھوں فتح ہوگئے۔ دمشق کے سوا (وہاں کے حاکم نے ہلاکو خان سے معاہدہ کرلیا تھا) عراق اور شام کے اکثر شہروں کو بغداد جیسی قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح تاتاری یلغار وسطی ایشیا سے نکل کر ایران، افغانستان، چین، روس اور ہندوستان کے اکثر علاقوں ، مشرقی یورپ، شام ، فلسطین، اور عراق کو نگل کر مصر کے دروازے تک پہنچ گئی۔ 1241 ؁ء میں منگولوں نے لاہور پر حملہ کرتے ہوئے اس شہر کو بھی تخت و تاراج کردیا۔ 1237 ؁ء میں باتو خان بلغاریہ پر قبضہ کرچکا تھا اور 1241 ؁ء میں اس نے Leighitz لائگنٹزکے میدان میں جرمنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اسی سال منگولوں نے شاہ ہنگری کو بھی شکست دے دی۔ مختصر یہ کہ تیرہویں صدی عیسوی کے وسط میں منگول وسطی ایشیا سے نکل کر چاروں طرف پھیل گئے تھے اور ہر طرف ان کی قتل و غارت گری اور فتوحات جاری تھیں۔ منگول سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی مگر منگولیا کا خان اب بھی پوری سلطنت کا حکمران سمجھا جاتا تھا۔

ایسے میں ہلاکو خان تین لاکھ کے ٹڈی دل لشکر کے ہمراہ عراق، شام، فلسطین کے شہروں کو فتح کرکے مصر پر حملہ آور ہوگیا ۔ مصر کے بعد اب براہ راست منگول خطرہ حجاز کی مقدس سرزمین کے سامنے آگیا تھا جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر آباد تھے۔ یعنی اگر ہلاکو خان مصر کو بھی فتح کرلیتا تو اس کے بعد حجاز کے مقدس مقامات تک اس کی راہ میں کوئی قابل ذکر حکومت نہیں تھی۔1260 ؁ء بمطابق 658 ؁ھ کے رمضان المبارک میں مصر اور شام کے سرحدی علاقے ’’عین جالوت‘‘ کے مقام کو ہلاکو خان کی تین لاکھ فوج مصر کے مملوک سلطان کے بیس ہزار کے مختصر سے دستے کے سامنے کھڑی تھی! مصر کے مملوک سلطان تیرہویں صدی عیسوی کے سیاسی منظر نامے کے بعد آئیں اب ذرا مملوک سلطنت کا کچھ تعارف حاصل کرتے ہیں جو نہ صرف بغداد کی خلافت ختم ہونے کے بعد قاہرہ کی عباسی خلافت کی شکل میں عالم اسلام کا مرکز قرار پائی بلکہ تین سو سال تک صلیبی حملہ آواروں کے سامنے بیت المقدس کا دفاع کرتی رہی۔ اسلامی تاریخ کی خاصیت ہے کہ مسلمانوں نے غلاموں کے ساتھ کبھی بھی وہ سلوک روا نہیں رکھا جو رومیوں کے زمانے سے لے کر پچھلی صدی تک مغربی ممالک میں کیا گیا۔ اسلامی معاشرے میں غلاموں کو برابری کا درجہ دینے کے نتیجے میں غلام دینی اور دنیاوی سطح پر ترقی کے بلندترین مقام تک پہنچے۔ مصر کے مملوک سلطان اور ہندوستان کا خاندان غلاماں ان غلام سرداروں پر مشتمل تھا جو ترقی کرتے کرتے حاکم وقت بن گئے ۔ مصر میں بحری اور برمی مملوک حکمرانوں نے تین سو سال تک حکومت کی۔ ان سلاطین میں جانشینی کے وقت سخت کشمکش ہوتی اور طاقتور غلام امیر سلطان بن جاتا۔ یعنی ان میں جانشین کے طور پر بیٹا حکومت نہیں حاصل کرپاتا تھا۔ سلطان رکن الادین بیبرس 1223 ؁ء میں خوارزم شاہ کے ایک درباری کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام محمود رکھا گیا۔ خوارزم شاہ کسی بات پر اس درباری سے خفا ہوگیا اور اسے قید کرلیا گیا ۔ اس طرح یہ اعلیٰ خاندان گردش میں آگیا۔ اسی دوران خوارزم کی سلطنت چنگیزی حملوں کی زد میں آکر تباہ ہوگئی اور تاتاریوں نے مسلمان بچوں اور جوانوں کو قید کرکے غلام بنا کر فروخت کرنا شروع کردیا۔محمود بھی انہی بچوں کی طرح غلام بن کر مختلف ہاتھوں فروخت ہوتا رہا اور آخر میں مصر کے بازار میں فروخت کیلئے لایا گیا۔ مصر میں مختلف ہاتھوں سے ہوتے ہوئے محمود فاطمہ نامی ایک نیک خصت خاتون کی تحویل میں آگیا۔ فاطمہ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا تھا جس کا نام بیبرس تھا ۔ محمود کی شکل اس لڑکے بیبرس سے ملتی تھی چنانچہ فاطمہ نے محمود کا نام بدل کر بیبرس رکھ دیا اور اسے اپنا بیٹا بنالیا۔ فاطمہ کا ایک بھائی مصر کے سلطان الملک صالح نجم الدین کے دربار سے منسلک تھا۔ اس کی ملاقات جب بیبرس سے ہوئی تو وہ اسے قاہرہ سلطان کے دربار میں لے گیا۔ سلطان الملک صالح نے کئی لاوارث لڑکے اپنی کفالت میں لیے ہوئے تھے۔ ان لڑکوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی جاتی ، خوراک کا خیال رکھا جاتا اور سخت جنگی تربیت کے مراحل سے گزارا جاتا۔ اس طرح یہ لڑکے سلطان کے وفادار بن جاتے اور سلطان کے ذاتی فوج میں شامل کرلیے جاتے۔ (یہی طریقہ بعد میں ترکوں نے اختیار کیا اور عثمانی سلاطین کی مشہور زمانہ افسانوی شہرت کی حامل فوج ’’ینی چری‘‘ ایسے ہی غلام لڑکوں پر مشتمل ہوتی تھی) بہر حال محمود براہ راست سلطان مصر کے زیر نگرانی تربیت پاکررکن الدین بیبرس کے نام سے مصر کی فوج میں شامل ہوگیا اور اپنی لیاقت اور مہارت کے سبب مصری فوج کا سالار شمار ہونے لگا۔ 25رمضان658 ؁ھ مصر شام اور فلسطین کے سرحدی علاقوں پر مشتمل عین جالوت کا میدان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میدان کو عین جالوت اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں حضرت داؤد ؑ نے جالوت نامی ایک ظالم اورجابر بادشاہ کو شکست دی تھی۔ اس معرکہ آرائی کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ بیان کیا ہے، ترجمہ:’’ اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور جو چاہا اسے سکھایا۔‘‘ (البقرۃ : آیت نمبر:251) عین جالوت کے معنی ’’جالوت کا چشمہ‘‘کے ہیں اور اس علاقے میں اب 658 ؁ھ میں ہلاکو خان تین لاکھ کے لشکر کے ساتھ مصر پر حملہ آور تھا۔ اس وقت مصر کا حاکم مملوک سلطان سیف الدین قطز تھا اور رکن الادین بیبرس اس کا سپہ سالار ۔ سلطان قطزکی فوج کسی بھی طرح تین لاکھ کے لشکر جرار کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی اور اب مصر کی شکست کا مطلب تھا کہ ہلاکو خان کی رسائی حجاز مقدس کے شہروں اور حرمین شرفین تک ہوجاتی اور پھر مراکش، شمالی افریقہ کے مسلم علاقے اور پھر اندلس! مگر اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بچالیا۔ ایک معجزہ رونما ہوا اور ہلاکو خان کو اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ لے کر قراقرم واپس جانا پڑا ۔ قراقرام کے چوتھے خاقان اعظم منگو خان کا انتقال ہوگیا اور دنیا بھر سے تاتاری شہزادے قراقرم کے مرکزی جرگے جسے قرولتائی کہا جاتا تھا اس میں شرکت کرنے کیلئے قرقرم روانہ ہوگئے۔ ہلاکو خان نے اپنے نائب کتبغا خان کو بیس ہزار کا لشکر سونپ کر واپس قراقرم کی راہ اختیار کی۔

یہاں اس دھمکی آمیز خط کا ذکر ضروری ہے جو تاتاریوں کی طرف سے قطز کو لکھا گیا تھا، یہ خط ہلاکو خان کی طرف سے لکھا گیا تھا یاکتبغا خان کی طرف سے اس بارے میں تاریخ میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ بہر حال تاتاری سفیر نے یہ خط سلطان قطز کو پیش کیا۔ ’’یہ اس کا فرمان ہے جو ساری دنیا کا آقا ہے کہ اپنی پناہ گاہیں منہدم کردو، اطاعت قبول کرلو، اگر تم نے یہ بات نہ مانی تو پھر تم کو جو کچھ پیش آئے گا وہ بلندو بالا اور جاودانی آسمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘ غالب امکان ہے کہ خط ہلاکو خان نے قراقرم روانگی سے قبل بھیجا تھا جس میں صاف انداز میں اعلان جنگ کیا گیا تھا۔ بہر حال تاتاری سفیر نے رعونت آمیز انداز میں یہ خط سلطان مصر کے سامنے پھینک دیا۔ یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر اور رکن الدین بیبرس کی آنکھیں غصے کے عالم میں سرخ ہوگئیں۔ سلطان کو خط کے مندرجات پڑھ کر سنائے گئے تو سلطان نے سفیر سے کہا کہ ہمارا ہلاکو خان سے کوئی جھگڑا نہیں لہٰذا اسے چاہیے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر واپس چلا جائے ، اس پر سفیر نے جواب دیا ، ’’تو گویا چاہتے ہو کہ تمہارا بھی وہی حشر کیا جائے جو ہم تمہارے خلیفہ کا کرکے آئے ہیں ۔ جان لو کہ ہمارے آقا کی قوت لامحدود ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔‘‘ تاتاری سفیر کا یہ انداز دیکھ کر سلطان مصر آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے کہا۔۔۔، ’’ان تاتاریوں کی زبانیں گدی سے کھینچ کر انہیں قتل کردیا جائے۔ ہمارے طرف سے خط کا جواب یہی ہے۔‘‘

بہر طور15رمضان 658 ؁ھ بمطابق 1260 ؁ء میں عین جالوت کے میدان میں منگول سالار کتبغا خان اپنے لشکر کے ساتھ مقیم تھا کہ سلطان قطز اور امیر رکن الدین بیبرس افواج مصر کے ساتھ آموجود ہوئے۔ ہلاکو خان کی روانگی کے بعد دونوں لشکروں میں عددی توازن تقریباً برابر ہوگیا تھا کیونکہ تاتاری لشکر کا بڑا حصہ ہلاکو خان اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ عملی طور پر افواج کی کمان رکن الدین بیبرس کے پاس تھی۔ بیبرس تاتاریوں کے قصے سن کر کہا کرتا تھا کہ ’’وقت آنے دو ہم ان وحشیوں کو بتادیں گے کہ صرف وہ ہی لڑنا نہیں جانتے بلکہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اِن کی گردنیں دبوچ سکتے ہیں۔‘‘ کتبغا خان کو ہلاکو خان کی طرف سے واضح ہدایات تھیں کہ اس کی واپسی تک اسی جگہ قیام کرے اور مصر پر ہرگز حملہ آور نہ ہو۔ امیر رکن الدین بیبرس کو جب ہلاکو خان کی واپسی کی اطلاع ملی تو اس نے سلطان قطز کو فوراً منگولوں پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس طرح باقاعدہ طور پر آگے بڑھ کر رکن الدین بیبرس نے منگول لشکر پر حملہ کردیا۔ عین جالوت کی اس تاریخ ساز جنگ میں رکن الدین بیبرس نے تاتاریوں پر ان کا اپنا طریقہ حرب استعمال کیا۔ اس نے اپنے چند دستے ایک گھاٹی میں گھات لگا کر بٹھادیے۔ بیبرس نے ابتدائی طور پر پسپائی کا انداز اختیار کیااور منگول اس کی چال میں آکر گھاٹی میں پھنس گئے۔ گھات لگا کر دشمن کو تنگ جگہ لاکر پھنساناتاتاریوں کا اپنا انداز جنگ تھا جو رکن الدین بیبرس نے خود ان پر استعمال کیا اور ماضی کی فتوحات کے نشے میں سرشار کتبغا خان بیبرس کی چال میں آگیا۔ گھاٹی میں گھات لگائے محفوظ مصری دستے نے منگولوں کو تحس نحس کردیا۔ منگول لشکر میں ابتری پھیل گئی اور وہ دو اطراف سے مسلمانوں میں گھر گئے۔ بیبرس نے منگول فوج کا قتل عام کیا اور انہیں اس بری طرح سے مارا کہ تاریخ میں اس سے پہلے تاتاریوں کے ساتھ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ کتبغا خان بیبرس کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور بیبرس نے اسے قتل کردیا۔ منگول لشکر مکمل طور پر قتل یا گرفتار ہوگیا تھا۔ مقتول سالار کتبغا خان کی لاش کی نمائش قاہرہ کی گلیوں میں تاتاری قیدیوں کے ساتھ کی گئی اور بعد ازاں ان قیدیوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ معرکہ عین جالوت کے نتائج عین جالوت کے میدان میں تاتاریوں کی شکست کی خبریں شام اور فلسطین کی منگول مقبوضات میں آگ کی طرح پھیل گئیں ۔مسلمانوں نے منگول حاکموں کے خلاف بغاوت کردی اور جگہ جگہ سے خبریں آنے لگیں کہ مسلمانوں نے تاتاریوں سے شہر واپس لینے شروع کردیے ہیں۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کی اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئیں ۔ اس طرح منگولیا سے اٹھنے والی کالی آندھی چالیس سال تک مظلوم مسلمانوں کا خون پی کر 1260 ؁ء میں عین جالوت کے میدان میں رکن الدین بیبرس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی تاتاریوں نے مسلمانوں کے علاقوں پرکئی حملہ کیے مگر ان کے ناقابل شکست رہنے کا تاثر ختم ہوگیا تھا اور اب مسلمان ہر جگہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ ہندوستان پر مسلسل تاتاری حملے اور خلجیو ں کا کامیاب دفاع اس کی ایک روشن مثال ہے۔ رکن الدین بیبرس کا مصر کے تخت پر قبضہ کرنا پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ مملوک سلاطین میں جانشینی کا کوئی نظام نہیں تھا بلکہ طاقتور امیر ہی حاکم اور سلطان بن جاتا تھا۔ معرکہ عین جالوت سے قبل سلطان مصر سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ فتح کے بعد شام میں حلب اور اس کے اطراف کے علاقے بیبرس کے تصرف میں دے دیے جائیں گے۔ مگر بعد میں سیف الدین قطز مکر گیا اور اس طرح قطز اور بیبرس کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور معرکہ عین جالوت کے چند دنوں بعد ہی پراسراطور پر سلطان قطز قتل کردیا گیا اور رکن الدین بیبرس سلطان مصر بناگیا۔ سلطان قطز کے پراسرار قتل میں تاریخ میں سلطان بیبرس کا نام مشکوک انداز میں لیا جاتا ہے۔ ہلاکو خان کا انجام سقوط بغداد کے حوالے سے ہلاکو خان کو تو اکثر قارئین جانتے ہونگے ۔ میں مگر اس مرد خونخوار کا انجام کیا ہوا؟ اس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں ۔ آئیے یہاں کچھ تذکرہ ہلاکو خان کے انجام کا کیے دیتے ہیں۔ منگول قرولتائی سے فارغ ہوکر ہلاکو خان واپس لوٹ آیا۔ وہ سلطان بیبرس سے انتقام لینے کیلئے بے چین تھا۔ دوسری طرف قدرت کا قانون حرکت میں آچکا تھا۔ اس دفعہ تاتاریوں کو ان کے اپنے ہی ہاتھوں سے شکست کھانا تھی۔ بخارا کی خانقاہ کے شیخ سیف الدین ایک صوفی بزرگ تھے اور ان کی کوششوں سے چنگیز خان کا ایک دوسرا پوتا اور جوجی خان کا بیٹا برکی خان مسلمان ہوگیا۔ قبل اس کے کہ ہلاکو خان سلطان بیبرس سے بدلہ لیتا اور حجاز مقدس کی طرف پیش قدمی کرتا برکی خان کی سربراہی میں ایک منگول لشکر اس کے سامنے آگیا ۔ اس طرح چنگیز خان کے دو پوتے آمنے سامنے آگئے اور برکی خان کے ہاتھوں ہلاکو خان کو شکست ہوگئی اور اس شکست کے صدمے سے تاب نہ لاکر وہ ہلاک ہوگیا۔ اس پر علامہ اقبال نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا ؂ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسبان مِل گئے کعبے کو صنم خانے سے سلطان بیبرس اور نویں صلیبی جنگ سلطان رکن الدین بیبرس کو نویں اور آخری صلیبی جنگ کا ہیرو بھی تسلیم کا جاتا ہے۔ منگولوں سے فارغ ہوکر اس نے شام ، فلسطین اور مصر کی عیسائی مقبوضات کی طرف توجہ دی اور ایک کے بعد ایک عیسائی علاقوں کو فتح کرنا شروع کیا۔ 1270 ؁ء میں فرانس کا شہنشاہ لوئی نہم ’’یرو شلم ہمارا ہے‘‘ کے نعرہ لگاتا یورپ کی صلیبی افواج نائٹس اور ٹیمپلرس کو ساتھ لیے مصر پر حملہ آور ہوگیا۔ سلطان رکن الدین بیبرس نے یہاں بھی شہنشاہ لوئی نہم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور صلیبوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا۔ فرانس کا شہنشاہ لوئی نہم بیبرس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا اور بعد میں اسے کثیر رقم کے عوض رہا کیا گیا۔ اس صلیبی جنگ کے بعد دوبارہ یورپی افواج صلیبی جنگ کے نام پر عالم اسلام پر حملہ آور نہیں ہوئیں ۔ اس طرح اسے آخری صلیبی جنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی منگول یلغار اور صلیبی جنگیں دونوں کا خاتمہ سلطان رکن الدین بیبرس کے ہاتھوں سے ہوا اور افسوس کی بات ہے کہ یہ کردار ہماری تاریخ میں اب وقت کی گرد تلے دب کر گمنام ہوچکا ہے۔ خلافت عباسیہ کا احیاء سلطان رکن الدین بیبرس کا ایک اور انمول کارنامہ جو اکثر لوگوں کے علم میں نہیں وہ خلافت عباسیہ کا احیاء ہے۔ سقوط بغداد کے بعد عالم اسلام خلافت جیسی مرکز یت سے محروم ہوچکا تھا۔ عالم اسلام پر سکتہ طاری تھا کہ خلافت کے خاتمے کے بعد اب اسکا احیاء کیسے اور کس کے ہاتھوں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک کام کیلئے بھی سلطان رکن الدین بیبرس کا انتخاب کیا۔1262 ؁ء ،میں خلیفہ ظاہر کا ایک بیٹا ابوالقاسم احمد منگول قید سے رہا ہوکر مصر آگیا۔ سلطان بیبرس اسے قاہرہ لے آیا اور اس وقت کے مشہور عالم دین عزیز الدین عبدالسلام کے سامنے ابوالقاسم کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرتے ہوئے خلافت عباسیہ کا احیاء کیا۔ اس طرح عالم اسلام کو خلافت عباسیہ مصر کے روپ میں مرکزیت حاصل ہوگئی۔ اگر چہ یہ خلافت برائے نام ہوتی تھی اور اقتدار مملوک سلطان کے پاس ہی ہوتا تھا مگر پھر بھی خلیفہ کو عالم اسلام میں ایک احترام حاصل تھا ۔ یہ خلافت عثمانی ترکوں کے ہاتھوں مصر کی فتح تک قائم رہی اور پھر بعد میں خلافت کا ادارہ عثمانی ترکوں کو منتقل ہوگیا۔ اس کے علاوہ سوڈان کے عیسائی بادشاہ ڈیوڈ کو بھی سلطان بیبرس نے شکست سے دوچار کیا اور قلعہ الموت کے باطنی حشیشین فدائیوں کے خلاف بھی سلطان بیبرس نے حملے کیے۔ عالم اسلام کا یہ عظیم سالار اور مجاہد اعظم1277 ؁ء میں اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے تاریخ دانوں نے سلطان بیبرس پر بہت کم لکھا ہے اور تاریخ کے طالب علم بہت کم اس بارے میں واقفیت رکھتے ہیں ۔ منگول سیلاب سے حرمین شرفین کی حفاظت، فرانس کے شہنشاہ سے بیت المقدس کا دفاع اور بغداد کی تباہی کے بعد خلافت اسلامیہ کا دوبارہ احیاء سلطان رکن الدین بیبرس کے وہ سنہری کارنامے ہیں ، جو اسے ہمیشہ تاریخ اسلام میں زندہ جاوداں رکھیں گے۔

  • ۔۔۔*۔۔۔*

ایشیا تاریخ دنیا

Comments

Popular Posts غزل کی تعریف اور ارتقا ،غزل اور نظم کے درمیان فرق::: : تحریر : نسیم شیخ غزل کا ارتقاء؛غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب فارسی میں قصیدے سے الگ ہو کر غزل کے روپ میں جلوہ نما ہوا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غزل پہلے عربی زبان سے فارسی میں آئی اس کے بعد فارسی سے اردو تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے عہد میں ہی کر لیا۔پھر اردو میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جو غمِ جاناں ، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایرانی صنف ہے جو فارسی کے ساتھ ہندوستان میں رونما ہوئی اور اب اردو میں مقبول ہے۔ غزل کی تعریف؛غزل ایک مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔ اس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ۔ یا پھرعورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔قیس رازی نے العجم میں غزل کے سلسلے میں یہ نشاندہی کی ہے کہ لفظ غزل دراصل غزال سے ہے۔ ڈاکٹر سٹن گاس نے کہا ہے کہ غزل سے مراد سوت کاتنے کے ہیں۔ غزل کی تشریح و توضیح؛ہیت کے لحاظ سے غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہو۔ اس کا ہر شعر ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ ردیف نہ ہونے کی صورت میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس … Image کہیں آپ بھی اسی غلط فہمی کا شکار تو نہیں کہ #خانہ کعبہ #پرویز مشرف نے آزاد کروایا؟ Image یہ لڑکی کون ھے؟ کس کے خواب میں آئ تھی؟ حساس رپورٹ عمران خان نے اب تک جو بھی فیصلے کئے ان میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اچانک رات کو خواب سے بے دار ہوکر ایک ایسا دھماکہ کر دیتے ہیں جس کا زہر کچھ دیر بعد اثر دکھاتا ھے۔مثال کے طور پر اپنے سیاسی مشیر شہزاد اکبر، جنہوں نے راض ملک والا معاملہ پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر 38 ارب روپے کا نقصان کروایا۔ اسی طرح ان کے قادیانی ہونے کا اعترافی بیان بھی شکوک وشبہات پیدا کرتا ھے۔ آئ ایم ایف کے حاضر سروس آفیسر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر بنانے کا فیصلہ بھی خان صاحب کے خواب میں آیا تھا ۔ اسی طرح ماہر معاشیات کے طور پر وزارت خزانہ میں ایک اور قادیانی میاں عاطف کی شہرت کے ڈھنڈورے پیٹے گئے ۔ کل کے خواب میں یہ لڑکی آئ ھے۔ جو حساس ترین شعبے یعنی ہمارے ڈیٹا بیس کی چئر پرسن ہوں گی یہ لڑکی کون ھے؟؟؟ اور پاکستانی ھے بھی کہ نہیں؟ اس بارے میں یہ رپورٹ دیکھیں جو بی بی سی اور پاکستان کے صحافی محمد انور نے مرتب کی ھے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اچانک وارد ہونے والی تانیہ ایدروس کو اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے غیر شفاف طریقے سے اپنے ٹیم کا حصہ بنالیا اور انہ…


شوذب عسکری)ڈاکٹر خالد مسعود

on December 17, 2018

Image result for ‫اندلس و ہسپانیہ‬‎ "’’اندلس اے اندلس!‘‘ ہسپانیہ مسلم تاریخ کا درخشندہ باب ہے جو آج بھی مسلم ذہن کو مسحور کیے ہوئے ہے۔ اردو ادب میں اس کا حوالہ کب، کیسے اور کس پیرائے میں آیا اور اس نے ’’کلٹ آف سپین‘‘ یا ’’عشقِ اندلس‘‘ کی صورت اختیار کر لی، اس پر ڈاکٹر خالد مسعود نے کھوج کی ہے اور قارئینِ تجزیات کے لیے موضوع کی نئی جہتیں سامنے لائے ہیں۔ عشقِ اندلس کا مسلم قومی شناخت کی تشکیل میں کیا کردار رہا ہے اور کس طرح یہ علمی بحثوں کا محور رہا، تاریخ پس منظر، اور سفرناموں سے ہوتا ہوا اردو شاعری اور ناول نگاری میں یہ کیسے ظہور پذیر ہوتا رہا، یہ سب ہمہ جہت پہلو ڈاکٹر صاحب نے ایک مختصر مضمون میں اجاگر کر دیے ہیں۔"

Image result for ‫اندلس و ہسپانیہ‬‎

بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی خلاف ورزی کرتے ہوے یرو شلم کواسرائیل کا دارالحکومت بنا نے سے فلسطین میں جن اندوہناک مظالم کا آغاز ہوا، اس کے خلاف احتجاج میں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ہسپانیہ کا ذکر آیا اورعلامہ اقبال کے اس شعر کا تذکرہ بھی ہوا جس میں ہسپانیہ سے مسلمانوں کی طویل وابستگی کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تھاکہ اگر ماضی میں کسی ملک میں رہائش اور حکمرانی کو یہود فلسطین پرقبضے کے جواز بنا سکتے ہیں تو مسلمان بھی اسی بنیاد پر ہسپانیہ پر اپنا حق جتا سکتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر علامہ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ بھی ہسپانیہ سے جڑی یادوں کو جگاتی ہے۔ علامہ اقبال ہسپانیہ کو خونِ مسلمان کا امین بتاتے تھے۔ جنوب ایشیائی مسلمانوں کی ہسپانیہ یا اندلس کی یادوں کی داستان آج بھی مسحور کر دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ برصغیرمیں سماجی اور تاریخی شناخت کیسے تشکیل دی گئی۔ اس صدی کے آغاز میں جنوب ایشیائی مسلمان خاص طور پر یہاں کی مسلم اشرافیہ سیاسی زوال اور سماجی شکست و ریخت کے دوران اپنی شناخت کے تکلیف دہ بحران سے گزر رہی تھی۔ برطانوی استعمارکی محکومی، سائنسی علوم کی ترقی اورجدید اکتشافات کے پیش منظر میں یورپی اقوام مسلمانوں کو علمی اور تہذیبی طور پر پس ماندہ قوم ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ اس کے جواب میں مسلم دانشوروں کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کا حوالہ دیں کہ کبھی وہ بھی سائنس ، ثقافت اور دیگر شعبوں میں نامور ہوا کرتے تھے۔ اور کبھی مسلمان یورپ میں حکمران بھی تھے۔ ہسپانیہ یا مسلم اندلس اس ماضی کی شاندار مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ ایک جانب یورپ کا ملک تھا جہاں مسلمان آٹھ سو سال حکمران رہے۔ اس عہد میں مسلم اور غیر مسلم رعایا کوجدید دور سے کہیں بہترحقوق حاصل تھے۔ دوسرے یہ دور ہسپانیہ میں عقلی علوم کی ترقی اور انسان دوستی کی اقدارکے فروغ پر مبنی مسلم تہذیب کا عروج تھا جس پر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی گئی۔

Image result for ‫اندلس و ہسپانیہ‬‎

یہ حوالہ اس لیے بھی معنی خیز ہے کہ جدید دور سے پہلے جنوب ایشیا میں سپین سے کبھی ایسی وابستگی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ 1492ء میں سقوطِ اندلس پر جب افریقا کے بہت سے مسلم علاقے دل شکستہ تھے، برصغیر میں کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ سولھویں صدی سے ہسپانیہ اور پرتگال ایک استعماری قوت کے طور پر ابھرے اور مسلم دنیا کے متعدد علاقوں پر قابض ہوگئے۔ تاہم ہسپانیہ کے استعماری کردار کے باوجود عشق اندلس اور ہسپانیہ کی عظمت کی کہانی میں اس کا ذکر نہیں۔ بیسویں صدی میں تو یہ یادیں اس زورسے آئیں کہ لکھنے والوں نے اسے سپین سے عشق یا عقیدت تک کا نام دیا اور اب یہ اردو ادب میں رومانوی ناسٹیلجیا کا اہم موضوع ہے۔

عشق اندلس: اصطلاح اور مفاہیم ’’کلٹ آف سپین‘‘، ہسپانیہ سے عقیدت یا عشق اندلس کی اصطلاح پہلی بار بر صغیر کے نامور مؤرخ اور ادیب عزیز احمد نے لیوی پراونشال کی یاد میں فرانسیسی زبان میں ۱۹۶۲ء میں پیش کیے گئے ایک مقالے میں استعمال کی۔ انھوں نے اس کی یہ تعریف کی’’ یہ بین الاسلامی وحدت کے اس تصور کا نام ہے جس کی رُو سے بر صغیر کے مسلمان پوری اسلامی تاریخ کو ایک یکتا اور مجموعی طور پر مربوط عمل سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ یہ زور دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہسپانیہ میں مسلمانوں کی علمی اور ثقافتی ترقی ان کی اپنی میراث ہے‘‘۔ فرانسیسی زبان میں ’کلٹ‘ کا لفظ عقیدت اور وارفتگی کے ایسے رویے کا نام ہے جسے عبادت یا مذہب کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ وابستگی کے عمومی تعلق سے بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے یہاں اسپین یا ہسپانیہ سے مراد اندلس ہی ہے جو اس علاقے کا نام ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت رہی جس میں آج کے اسپین اور پرتگال شامل تھے۔ دوسرے مؤرخ برنارڈ لوئیس ہیں جنہوں نے ۱۹۷۳ء کی ایک تحریر میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال کیا۔ عزیزاحمد نے یہ بات بر صغیر کے حوالے سے کہی اوربرنارڈ لوئیس نے ترکی اور ایران اور دوسرے مسلم علاقوں میں بھی اس وارفتگی کا ذکر کیا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں: ’’ماڈرن اسلام ان انڈیا مطبوعہ۱۹۴۶ء اور اسلام ان ماڈرن ہسٹری مطبوعہ۱۹۶۳ء کے مصنف کینٹ ویل اسمتھ مسلمانوں کی اندلس میں دلچسپی کو معذرت خواہانہ رویہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں کوفہ ، بصرہ ، بغداد ، قاہرہ اور قرطبہ پر فخر کرنا مسلم تہذیب کی برتری کے لیے ترتیب دی گئی معذرت خواہانہ دلیل ہے۔‘‘ کوئی بھی ایسی دریافت جسے سراہا جا سکتا ہو اس پر فوری طور پر ’’ہماری‘‘ ہونے کا دعویٰ کردیا گیا۔‘‘ (صفحہ۶۰) اسلامی تہذیب کی برتری ثابت کرنے کے لیے اس کی کامیابیوں کا موجودہ زمانے کے مغرب سے تقابل کیا گیا۔ یورپ کی ترقی کا سہرا مسلمانوں کے سر پر سجایا گیا۔ یورپی نشاۃ ثانیہ کی جڑیں مسلم اندلس میں بتائی گئیں۔ (صفحہ ۶۰،۶۱)

عزیز احمد نے اسمتھ سے اختلاف کیا ہے کہ اسمتھ نے تاریخ کو جغرافیائی تناظر میں تقسیم کر دیا ہے۔عزیز احمد یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلم اندلس کے ثقافتی اور تاریخی جاہ و جلال نے ان کے عقیدے کو سیاسی اور ثقافتی طور پر متحرک کیا۔ یہ رویہ انیسویں صدی میں یورپی تہذیب کے مقابلے میں مسلم تہذیب کی پسپائی کے دوران مغرب کے خلاف ایک مستقل ردِعمل کی صورت نظر آتا ہے۔ مسلم اشرافیہ کے پاس تاریخ میں فخر کرنے کواسپین اور ترکی دو ہی ملک تھے۔ ایک ماضی کا حصہ بن چکا تھا اور دوسرا ۱۹۲۰ء میں ختم ہو گیا۔ انھوں نے خاص طور پر اس امر پہ زور دیا کہ مستشرقین کی تحریروں میں عمومی طور پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ مسلم اندلس میں انسانیت کی اقدار موجودہ یورپی معاشروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سکون ملا جو کہ اس سے پہلے نفسیاتی افسردگی کا شکار تھے۔ یہ بات اس لیے اور بھی اہم ہے کہ خاص طور پر جبکہ مسلم دنیا اور یورپ کے مابین موجودہ تعلقات ماضی میں اندلس کے مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین تعلقات سے قطعی برعکس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مصنفین نے اس عہد میں مسلمان حکمرانوں کی بردباری اور کردار کی خوبیو ں کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان برصغیرمیں اپنی اقلیتی حیثیت کا موازنہ اندلس میں مسلم اقلیتی حیثیت سے بھی کر رہے تھے۔ ہندوستان میں جمہوریت کا مطلب غیر مسلموں کی حکمرانی تھی جو یہاں آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں تھے۔ جواہر لعل نہرو کو اس بات پر اعتراض تھا کہ مسلمان اپنی جڑیں مسلم عہد کے ہسپانیہ میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ قومی شناخت کو ہندوستان سے باہر رکھنے کا عمل تھا۔ (رام گوپال : انڈین مسلمز، اے پولیٹیکل ہسٹری، لاہور بک ٹریڈرز،۱۹۷۶ء، ص۱۲۸)۔ این میری شمل کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ہسپانیہ میں دلچسپی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی مصلحانہ تحریکوں کا امتیازی نشان ہے۔اس کا آغاز الطاف حسین حالی سے ہوا اور اسے کمال تک علامہ اقبال نے پہنچایا جن کی شاعری جزیرہ نما آئبریا میں شاندار مسلم عہد سے وابستگی کا آخری پُر اثر اظہار ہے۔ ( شمل، اسلام ان دی انڈین سب کونٹی ننٹ، ۱۹۸۰ء ،ص ۲۰۵)۔ ابتدا عزیز احمد کے مطابق ہندوستان میں اندلس سے عشق و عقیدت کا معاملہ مولانا الطاف حسین حالی(۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء) سے شروع ہوا۔ اور بہت جلد ادب میں احیائے اسلام کی رومانویت کا غالب رجحان اور مسلم تاریخ نویسی کا اہم رویہ بن گیا (عزیزاحمد،۱۹۶۷ء، اسلامک ماڈرنزم ان انڈیا اینڈ پاکستان، ص۹۸)۔ حقیقت میں اندلس سے عشق و عقیدت کی ابتدا انیسویں صدی کے آغاز میں یورپ سے ہوئی اور وہاں سے یہ مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ لہر ہندوستان پہنچی۔ برنارڈ لیوس کی تحقیق کی رو سے اس رویے کی مصدقہ ابتدا یورپ میں لوئی ویادور کی فرانسیسی زبان میں لکھی کتاب ’’ہسپانیہ میں عربوں کی تاریخ اور سماجی رویے‘‘ سے ہوئی جو پیرس سے دو جلدوں میں ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی (لیوئس، دی کلٹ اف سپین اینڈ دی ٹرکش رومانٹکس،۱۹۷۳ء، ص ۱۳۱)۔ ایم ہنری پیریز نے اپنی کتاب بعنوان’’مسلم ٹریولز ان اسپین‘‘ میں بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں الاندلس کی’دریافت‘ کی ابتدا ۱۸۸۶ء سے شروع ہوئی (لیوئس،۱۳۰)۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز دو واقعات سے ہوا۔ پہلا واقعہ سلطان عبدالحمید ثانی کے بھیجے وفد سے تعلق رکھتا ہے جسے اسپین میں عرب مخطوطات کی تلاش میں بھیجا گیا۔ دوسرا واقعہ بین الاقوامی اورینٹل کانگرس کے اجلاس سے تعلق جس میں مسلم علما نے شرکت کی اور انھیں پہلی مرتبہ اسپین کے بارے میں مستشرق علما کے کام کا علم ہوا۔ اس رجحان کو مزید بہتر طور پر سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ اس عہد میں اندلس کے موضوع میں یورپ کے اہل علم کی دلچسپی میں اضافے کا ایک مختصرجائزہ پیش کردیا جائے۔ یورپ مسلم ہسپانیہ میں عمومی دلچسپی کا آغاز یورپ میں انیسویں صدی میں ہوا۔عرب ہسپانیہ سے متعلق موضوعات پرمتعدد کتا بیں عربی سے ترجمہ کرکے ترتیب دی گئیں جو’’ببلیوتھیکا عریبکو ہسپانا‘‘(عربی اسپین کی کتابیات) کے عنوان سے سلسلے وار شائع ہوئیں۔ مثال کے طور پر ان میں ابن بشکوال [م۵۷۸ھ] کی الصلہ فی تاریخ ائمۃ الاندلس(۱۸۸۳)، ابن ابّار[م۶۵۸ ھ] کی التکملہ لکتاب الصلہ (۱۸۸۷ء)، عبد الواحد المراکشی [م۶۴۷ ھ] کی المعجب فی تلخیص اخبار المغرب من لدن فتح الاندلس الی آخر عصر الموحدین (۱۸۸۶ء)، ابن الضبی [م ۵۹۹ ھ] کی بغی الملتمس فی تاریخ رجال اھل الاندلس (۱۸۸۵ء) ابن الفرضی [ م۴۰۳ھ] کی تاریخ علماء الاندلس (۱۸۹۱ء )، ابن الخیرالاشبیلی [م ۵۷۵ ھ] کی فہرسہ (۱۸۹۴ء ) شامل تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کوڈ یرا ، لافونتے، القنطارا، جولیان رابیرا، آسین پلاسیؤس اور گونزالیس پالینسیئا اور بہت سے نامور ہسپانوی مصنفین نے مسلم ہسپانیہ کی شاندار تاریخ پر لکھا۔ ان مصنفین نے تاریخ ، ادب اور فکر کی بہت سی جہتیں بیان کیں۔ کچھ ہسپانوی مؤرخین نے مسلم ہسپانیہ کی عظمت کے تصورسے اختلاف بھی کیا۔ مغربی یورپ میں انسان دوستی کی تحریک مذاہب کی نکتہ چیں تھی۔ انھوں نے اسلامی عہد کے ہسپانیہ سے متعلق تحریروں کا حوالہ دے کرکہا کہ وہ عہد رواداری اور تہذیب کا دورتھا۔ جن مورخین نے ہسپانیہ کی تاریخ کا اس پہلو سے مطالعہ کیا ان میں رائنہارٹ ڈوزی، گیانگوس، لین پول اور واشنگٹن ایرونگ کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ لین پول اس امر پہ دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بے دخل کردیا گیا۔ ان کا عہد ثقافت اور تہذیب کا زمانہ تھا۔ لکھا کہ ’’یورپ کی کوئی بھی قوم مسلم قوم کی برابری نہیں کرسکتی تھی‘‘۔ واشنگٹن ایرونگ نے دیگر مؤرخین سے بڑھ کر مسلم ہسپانیہ کے رومانوی عہد کی تصویر کشی کی اور اسے عوام میں مقبول بنایا۔ یورپ ہی سے اندلس سے عقیدت اور عشق کا تصور مسلم دنیا میں آیا۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر اختصار کے ساتھ یہاں ترکی ، ایران اور عرب دنیا سے اس معاملے کا کچھ ذکر کیا جائے گا۔ ترکی برنارڈ لیوس کا کہنا ہے کہ ہسپانیہ سے عقیدت کا معاملہ یورپ سے پہلے پہل ترکی میں آیا۔ (عشق ہسپانیہ اور ترکی رومانویت۔ اسلامی تاریخ میں افکار، افراد اور واقعات ، مشرق وسطیٰ میں۔ نئی دلی آرئین بکس انٹرنیشنل، صفحہ ۱۲۹۔۱۳۳)۔ یہ عقیدت جو بہت ہی گہری جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ابھری تھی، مسلم دانشوران میں تیزی سے سرایت کر گئی۔ ہزیمت ، کمزوری اور پسماندگی کے عہد میں مسلم دانشوروں کے لیے عظیم ، امیر ، طاقتور اور تہذیب یافتہ مسلم ریاست کی یورپ میں موجودگی کا تصور جس کی حیثیت ان کی نگاہ میں یورپی تہذیب کے رہبر و رہنما کی تھی، بیحد خوشگوار تھا۔ زوال کے عہد میں جب وہ شکست اور انخلاء کی کہانی پہ غور کرتے تو انھیں الحمرا کی شان و شوکت پر غروب آفتاب کے منظر کی یاد سے ایک افسردہ تشفی مل سکتی تھی۔ بہت جلد مسلم اندلس کے عروج اور زوال کی کہانی شاعروں کا پسندیدہ موضوع اور ناول نگاروں کی داستانوں کا محبوب پس منظر بن گیا۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں زور پکڑتے ہوئے تاریخ کے رومانویت پسند اور معذرت خواہانہ تعبیر کے زاویہ فکر کے لیے قرطبہ کی عظمت نے زریں عہد کا کردار ادا کیا۔( لیوئس ۱۲۹) پیریز کے حوالے سے لیوئس لکھتا ہے کہ سلطان عبدالحمید ثانی نے الشنقیطی کو جو ایک عرب النسل محقق تھا، ۸۷۔۱۸۸۶ء میں ہسپانیہ بھیجا تاکہ مسلم عہد کے اندلس کی گم گشتہ تاریخ کی باقی ماندہ نشانیاں تلاش کرے۔ (لیوئس۱۳۰) تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ ایک نوجوان عثمانی ترک رہنما ، ضیاء پاشا (۱۸۲۵۔۱۸۸۰ء) نے پہلے ہی ویادور کی کتاب کا اندلس کی تاریخ کے عنوان سے ترکی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا اور ۶۴۔۱۸۶۳ء میں استنبول سے شائع ہو چکی تھی۔ الشنقیطی کی مہم سے پہلے یہ کتاب دوبارہ ۸۷۔۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔(لیوئس۱۳۲) مسلم ہسپانیہ میں ترکوں کی دلچسپی متعددترک شعراء اور ڈرامہ نویسوں کی تخلیقات میں بھی نظر آرہی تھی۔ عظیم شاعر اور ڈرامہ نویس عبدالحق حامد (۱۸۵۲۔۱۹۳۳ء) نے مشہور ڈرامے طارق (۱۸۷۶ء) ، نظیف (۱۸۷۶ء) ، عبداللہ الصغیر ، تیزر ، ابن موسیٰ اور ذات الجمال(۱۸۸۱ء) تحریر کیے۔ ڈراما ’’طارق‘‘ اسلام کی عظمت ، شان و شوکت اور شرافت کا پرعزم دفاع تھا۔ ’’طارق‘‘ ڈرامے میں محبت ، نفرت ، حسد ، جنگ ،موت اور عظمت کے بیان میں حامد نے بہت کامیابی سے اسلام کی گہری اخلاقی اقدار پر، اپنے عقیدے پر زور دیتا ہے ، حب ا لوطنی اور ترقی کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کرتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سیاسی اور سماجی مسائل پر تبصرے کرتا ہے۔ اس کتاب پر ۱۸۷۹ء میں پابندی لگائی گئی تھی مگر یہ نوجوان ترک انقلاب [ یون ترکلر] کے بعد خفیہ طور پر شائع ہوئی۔ تیزر اور ملک عبدالرحمن ثالث کے بارے میں ناول اور ڈراما بنو امیہ کے عہد میں قرطبہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ رچرڈ نامی ایک شخص ایک ہسپانوی دوشیزہ کا جس کا نام تیزر ہے، عاشق ہے۔یہ عرب دشمن گروہ کا سربراہ ہے۔ اس کہانی میں تیزر، ملک عبدالرحمن سے محبت کرنے لگتی ہے اور رچرڈ کے خلاف ہوجاتی ہے۔ اس المیہ کہانی کا انجام تیزر کی موت پر ہوتا ہے۔تیزر کا ترجمہ عربی، فارسی، سربین اور مسلم بوسنیک زبانوں میں بھی کیا گیا ہے۔ ڈراما نویس ۱۸۸۳۔۱۸۸۵ء کے دوران بمبئی میں بطور ترک قونصل جنرل قیام میں ہندوستان کے مسلمانوں سے رابطے رہے اور یوں جنوب ایشیا میں مسلمان اس کی تخلیقات اور افکار سے واقف ہوئے۔ (لیوئس ۱۳۳) ایک اور ترک لکھاری معلم ناجی (۱۸۵۰۔۱۸۹۳ء) نے ایک تاریخی نظم بعنوان’’حمایت‘‘ لکھی جس میں غرناطہ کے عظیم محافظوں کا تذکرہ تھا جنہوں نے۱۴۹۲ء کے آخری معرکے میں شہر کا دفاع کیا تھا۔(لیوس۱۳۳) عرب دنیا عرب ممالک جہاں عرب قومیت کی تحریکیں ابھر رہی تھی وہاں اندلس عرب کامیابی کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یورپی مؤرخین کے قلم سے عرب ہسپانیہ کی عظمت کا تذکرہ ان کے ہاں عرب تہذیب کی برتری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ فلپ خوری حتی کی ’’تاریخ عرب‘‘ میں قرونِ وسطیٰ کے عربوں کی تہذیب کی شان و شوکت کی کہانیاں درج تھیں جس میں اندلس کا تذکرہ بھی تھا۔ جرجی زیدان نے بھی فتح اندلس کے بارے میں ناول لکھا تو عرب ہسپانیہ کا تذکرہ رومانوی انداز سے کیا۔ عرب عہد کے بہت سے مخطوطے تدوین و تحقیق کے بعد شائع کییگئے۔ نامور عرب مؤرخ محمد کرد علی نے اندلس کے کئی سفر کیے اور ان کا احوال اپنی کتاب غابر الاندلس و حاضرہا (مطبوعہ قاہرہ۱۹۲۳ء ) میں لکھا۔ یہ کتاب مصنف کے اندلس سے عشق و عقیدت کی مثال ہے۔ عبداللہ عنان نے زیادہ تر اندلس میں عربوں کے عہد کے آخری برسوں کے متعلق لکھا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں اسپین میں کولمبس کا سال منایا گیا تو اس موقع پر اسپین کے بارے میں عربی زبان میں بھی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ قاہرہ میں اندلس کے عربی فکر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سلسلہ وار طباعت کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان المکتبۃ الاندلسیہ تھا۔ اس سلسلہ وار اشاعت کا مقصد ان مطبوعات میں سے ایک کے مقدمے میں یوں بیان کیا گیا۔ اس طرح ’’اندلس میں اپنے آباؤ اجداد کی میراث کی نشرواشاعت ہمار ے فرائض میں شامل ہے۔ اندلس وہ سر زمین ہے جہاں عرب تہذیب پھلی پھولی اور اس نے چہار دانگ عالم کو منور کیا‘‘۔ (مقدمہ الخشنی، قضا ۃ قرطبہ، قاہرہ :دارالمصریہ ۱۹۶۷ء، ص ج) یہ مقصد جن الفاظ میں بیان ہوا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ عرب قومیت اندلس اور ہسپانیہ کی تاریخ کو کیسے عرب تہذیب کا حصہ سمجھتی تھی۔ اس استدلا ل کی اگلی کڑی محمد عبداللہ عنان کے اس جملے میں بھی ملتی ہے کہ اندلس کے مسلم عہد نے یورپی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار کی ہے۔ (دولۃ الاسلام فی الاندلس، قاہرہ :شرکہ مساہمہ ، ،۱۹۵۵ء، ص ۶) عبدالعزیز سالم اپنی کتاب تاریخ المسلمین و آثارہم فی الاندلس[بیروت:دارلمعارف ۱۹۶۲ء ] میں بیان کرتے ہیں کہ اندلس کی مثال ایک پُل کی سی ہے جس کے ایک جانب یورپ تھا اور ایک جانب ایشیاء اور افریقا۔ اس نے یورپ میں تاریکی کا عہد ختم کرنے میں مدد کی۔ جنوبی ایشیا عہد وسطیٰ کے اندلس اور ہندوستان میں رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہند اور اندلس میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں ہی خطے ایک ہی سال یعنی۷۱۱ء میں فتح ہوئے۔ یہ دونوں آٹھویں صدی میں اموی سلطنت کے د ور افتادہ کونوں میں واقع تھے، ایک مشرق میں تھا تو دوسرا مغرب میں۔ دونوں ہی اہم علاقوں کے مضافات میں تھے۔ دونوں ہی علاقے ایسے تھے جہاں اقلیت کا اکثریت پہ راج تھا، دونوں ہی بغداد میں عباسی خلافت کے لیے غیر اہم رہے۔ سندھ کی تو اہمیت ہی نہیں تھی اور اندلس کی سلطنت عباسی خلفا کی فرماں روائی سے باہر تھی (احمد،۱۹۶۲ء)۔ ماضی میں بر صغیر کا اسپین سے رابطہ بہت کم رہا۔ بعض لوگوں کا ذکر ملتا ہے لیکن یا تو برصغیر اور اندلس کے لوگوں کے مابین رابطہ بر صغیر سے باہر ہوا یا ان کا تعلق اندلس سے نہیں تھا۔ شمالی افریقا کے علاقے جو آج مراکو، تونس اور الجزائر کہلاتے ہیں سب مغرب کہلاتے تھے۔ چنانچہ بعض ناموں کے ساتھ مغربی کی نسبت سے ان کا اندلس یا اسپین سے ہونا ضروری نہیں۔ا بن بطوطہ کا تعلق مراکو کے شہر طنجہ سے تھا۔ ہم یہاں اندلس سے جس وارفتگی کے تعلق کا ذکر کر رہے ہیں،اس کا زمانہ انیسویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں ادب، تاریخ اور سفر ناموں میں جس کثرت سے اندلس اور اسلامی اسپین کا ذکر ہے اس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ بلکہ ایسی تحریروں پر بھی تفصیلی گفتگو نہیں ہو سکتی جو عشق اندلس کی گواہی دیتی ہیں۔ ہم ان تحریروں کا محض ایک فہرست نما جائزہ پیش کر رہے ہیں تاکہ اس وارفتگی کا اس حد تک اندازہ ہو سکے کہ بر صغیر میں یہ عشق بنیادی طور پر مسلم قومی شناخت کی تلاش کے دوران پیدا ہوا۔ اور ان عشاق کی اکثریت اسلامی جدیدیت کی تحریک کا حصہ تھی۔ شاعری الطاف حسین حالی نے ۱۸۷۹ء میں ایک طویل نظم مسدس کی شکل میں لکھی جس کا عنوان تو ’’مدوجزر اسلام‘‘ تھا لیکن یہ ’مسدس حالی‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ (مدوجزر اسلام،۱۹۵۵ء) یہ پُر اثر نظم لکھنے کا مقصد قومی بیداری ، نصیحت اور خود پر تنقیدی نگاہ ڈالنا تھا۔ حالی سرسید احمد خان کے ساتھی اور اسلامی جدیدیت کی تحریک کے ایک اہم رکن تھے۔ یہ نظم فلسفہ تاریخ کو بھی بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق جو اقوام آج تہذیب یافتہ ہیں کبھی ان کا ماضی بربریت کی مثال تھا۔ اور اس کے برعکس صورت بھی تاریخ میں نظر آتی ہے۔ مسلمان کبھی تہذیب کے عروج پہ تھے۔ انھوں نے دیگر اقوام کے علوم سے استفادہ کیا اور اسے اقوام عالم تک پھیلا دیا۔ ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر کہ تھے آل عدنان سے میرے بانی عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی ہویدا ہے غرناطہ سے شوکت ان کی عیاں ہے ویلنسیہ سے قدرت ان کی بطلیوس کو یاد ہے عظمت ان کی ٹپکتی ہے قادیس سے حسرت ان کی نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا یہ نظم بہت مشہور ہوئی۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کی تنزلی کے المیے کا بیانیہ تھا تاہم اس نے مسلم ہسپانیہ اور ہند کے مسلمانوں کے درمیان ایک ذہنی ربط جوڑا ہے اور یہ نظم اس قدر مشہور ہوئی کہ لوگوں نے اندلس کے شہروں کے نام پر اپنے گھروں کے نام رکھنے شروع کردیے۔ (احمد،۱۹۶۲، ص۴۶۷) کینٹ ویل اسمتھ نے حالی کو سرسید سے جوڑنے کی روایت سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حالی نے مسلم ہسپانیہ میں مسلمانوں کی شان و شوکت بیان کی اوراس کا مسلمانوں کے حال سے تقابل کیا ہے۔ بخلاف سرسید اور دیگر کے جنہوں نے اس کا تقابل حالیہ یورپ سے کیا ہے۔ ( ڈبلیو سی اسمتھ ، ماڈرن اسلام ان انڈیا، اشرف ۱۹۶۳ء، ص۳۴) عزیز احمد کے مطابق یہ نظم موجودہ مسلمانوں کی کاہلی کا نوحہ ہے۔ اگرچہ اسلام کی سیاسی وسعت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ وسیع رقبوں تک پھیلا ہے۔ ہسپانیہ کے کھنڈرات اس کے گواہ ہیں کہ یہاں سائنس کی ترقی ہوئی اور پھر وہ یورپ کے طول و عرض میں پھیلی۔ (احمد،۱۹۶۷ء، ص۹۸) اگرچہ مسدس ایک گہری یاسیت کی تصویر ہے (احمد۱۹۶۷ء، ص۹۹) تاہم مسلم اصلاحی تحریک نے اندلس کی تصویر کو معرفت ذات کی نظر ثانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ علامہ محمداقبال دیگر شعراء کی نسبت علامہ اقبال نمایاں طور پر اس عشق و عقیدت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ان کی یہ دلچسپی انھیں اندلس کے سفر پر لے گئی اور انھوں نے ۱۹۳۲ء میں میڈرڈ یونیورسٹی میں بعنوان ’’ اندلس اور اسلام کی علمی دنیا‘‘ ایک لیکچر دیا۔ یہ لیکچر اندلس ، اس کی ثقافت ، فلسفے اور روحانیت کا مختصر جائزہ تھا۔ اقبال نے تذکرہ کیا کہ ’’تعلیم یافتہ لوگوں نے اب اپنے عرب خون پر فخر کرنا شروع کردیا ہے اور ہر اچھی چیز مورش کہلاتی ہے۔اسلام کے خلاف نفرت کم ہورہی ہے۔اسلامی تہذیب اور فلسفے کے مطالعے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ہسپانیہ میں عرب تہذیب مکمل طور پر ناپید ہوچکی ہے۔ ٹولیڈو شہر اس کی جیتی جاگتی مثال ہے‘‘۔یہاں ان کی ملاقات مشہور یورپی مفکر ’’آسین پلاسئیس‘‘سے ہوئی جو کہ خود بھی مسلم ہسپانیہ کی تاریخ کے مداح تھے۔ (اقبال کی تحریریں اور خطوط ، ص۷۷،۷۸) اقبال نے یہاں رہ کر ایک فطری تعلق کو محسوس کیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہاں ٹولیڈو میں اپنے گھر جیسا احساس ہوا ہے۔ میں نے یہاں پر بھی پلاؤ سے ویسا ہی لطف اٹھایا ہے جیسے یہ لاہور ہی ہو۔ پروفیسر شمل نے بیان کیا ہے کہ اقبال نے مسجد قر طبہ کو سراہا اور اس کا موازنہ دلی کے قطب مینار سے کیا۔(بال جبریل ، اقبال اکیڈمی،۱۹۸۹ء، ص۱۴۵) اقبال کی شاعری پر اندلس سے عقیدت اور عشق کا خاص رنگ ہے۔ اقبال نے اندلس پر بہت سی نظمیں کہیں۔ بال جبریل میں دعا ، مسجد قرطبہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت ، ہسپانیہ اور طارق کی دعا یہ کلام اندلس کے موضوع پر ہے۔ اس سارے کلام میں نمایاں ترین مقام مسجد قرطبہ کا ہے۔ اس کا عمومی موضوع مرورِ زمانہ اور زمانے کے استمرار کے مقابل تصور عشق ہے۔ انھوں نے ۱۹۳۲ء میں مسجد قرطبہ کا دورہ کیا۔ عزیز احمد کے مطابق اندلس سے عشق کا جو مرحلہ نصف صدی پہلے حالی نے شروع کیا تھا مسجد قرطبہ میں عروج پہ پہنچ گیا تھا۔ (عزیز احمد۱۹۶۲، ص۴۶۷) یہ نظم علامتی تشبیہوں سے شروع ہوتی ہے جس میں وقت کو خالق، ممتحن، مٹادینے والا اور تباہ کردینے والا کہا گیا ہے۔ انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ اگر وہ عقیدے پہ باقی رہے۔ مسجد ایک ایسی ہی تخلیق ہے۔ یہ نظم مسلمانوں کی تخلیقی دانش پہ زور دیتی ہے۔ (احمد۱۹۶۲ء، ص۴۶۸) اقبال کہتے ہیں: اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود تیری بنا پائیدار ، تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل کعبۂ اربابِ فن سطوتِ دینِ مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں مسجد قرطبہ یورپ میں دانش اور سیاست کی ترقی کا ایک جائزہ بھی ہے۔ اقبال نے اس میں انقلاب فرانس اور تحریک اصلاح کلیسا کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اقبال کا جزیرہ نما آئبریا سے عشق قرطبہ سے شروع ہو کر اسی پہ ختم ہوتا ہے۔ غرناطہ کو اپنا موضوع نہیں بناتے۔ اپنی نظم ہسپانیہ میں کہتے ہیں۔ ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے لیکن تسکینِ مسافر ، نہ سفر میں نہ حضر میں ایک نظم جو کہ سسلی پہ ہے وہ بھی عبرت اور ناسٹلجیا پہ ختم ہوتی ہے۔ اقبال اپنے دکھوں کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افسردہ اقبال کے نصیب میں تھا کہ وہ تیرے دکھوں پہ ماتم کناں رہے۔ اسی طرح ان کی نظم بلاد اسلامیہ کا آغاز بھی قرطبہ کی یاد سے ہوتا ہے۔ ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثل شمعِ طور بجھ کے بزم ملتِ بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا مقصد ہے ملوکیتِ افرنگ کا کچھ اور قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں چند سال پہلے جب بوسنیا کے مسلمان اسی کرب سے گزر رہے تھے تو اکبر احمد نے اقبال کی مسجد قرطبہ کو یاد کرتے ہوئے لکھا: ’’ اندلس میں مسلمانوں کے پانچ سو سال پہلے کے سقوط کے بعد ہم ایک اور اندلس کو وقوع پذیرہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ جو کچھ سرب بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں، ان کے تقابل میں صلیبیوں کو رحم دل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس مشکل وقت میں مسلمانوں کو اپنے عہد کے عظیم مفکر کو پڑھنا چاہیے۔ اقبال موجودہ عہد کے مسلم مفکرین میں وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اس دنیا میں ماضی اور حال ، مشرق اور مغرب کے مابین ایک داخلی ربط کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ان کی قرطبہ میں لکھی نظم بہت جذباتی ہے کیونکہ یہ ہمیں مسلم شان و شوکت اور اس عظمت کا بتاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اسے زوال کیونکر آیا۔ (اکبر احمد۱۹۹۳، بوسنیا، ص۳۴) ناول اردو شاعری کے علاوہ اردو ناول نے بھی عشق اندلس کو ابھارنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ قابل ذکر تعداد میں لکھاریوں نے مسلم ہسپانیہ کو اپنی کہانیوں کا منظرنامہ بنایا ہے۔ عبدالحلیم شرر نے ۱۸۹۰ء میں ’’شہیدِ وفا‘‘ اور ’’فرینانڈس اور ازابیلا‘‘ تاریخی ناول لکھے۔ یہ غرناطہ میں مسلم سماج کے زوال کی کہانی تھی۔ ۱۸۹۶ء میں’’فلورا فلورینڈا ‘‘ لکھا جس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان تنازع کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی سال ’’ فاتح اور مفتوح‘‘ شائع ہوا۔ یہ چارلس مارلے اور عبدالرحمن کے درمیان جنگ کی کہانی ہے۔ شرر نے’’ الفانسو‘‘، ’’فاتح اندلس‘‘،’’مقدس نازنین‘‘ نامی ناو ل بھی لکھے۔ ان میں کردار کم تھے بلکہ یہ تاریخی انداز میں بیان کی گئی رومانوی کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں میں تاریخ کے جبر اور المیہ زوال پر زور دیا گیا ہے۔ ان تمام ناول نگاروں میں جن کا ذکر یہاں عشق اندلس کے باب میں ہوا ہے ،نسیم حجازی (م۱۹۹۶ء) سب سے مؤثر اور حالیہ لکھاری ہوئے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی کہانی ’’یوسف بن تاشفین‘‘ اندلس میں مسلم عہد کے زوال کی ایک اور کہانی ہے۔ سفرنامے اندلس کے موضوع پر بہت سے سفر نامے موجود ہیں۔ اردو زبان کے حالیہ عہد میں قریب بارہ سفرنامے شائع ہوئے ہیں۔ ابتدائی اردو سفرنامے مثال کے طور پر نواب محمد عمر علی خان کا ’’قند مغربی‘‘ جو مطبع نظامی کانپور سے ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا، وہ کسی عشق و عقیدت کے پس منظر میں نہیں لکھا گیا۔ وہ محض ان کے سفر کا احوال تھا۔ تاہم اس تحریر میں واعظانہ رنگ نمایاں تھا۔ اس کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب اندلس کی تاریخ کو جاننے کی اہمیت پہ زور دیتی ہے۔ اختتامیے میں ایک نظم درج ہے جس میں مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ موجود ہے۔ اندلس سے عقیدت اور عشق کے پس منظر میں لکھے گئے سفرناموں میں عمومی طور پر دو نقطہ نظر موجود رہے ہیں۔ پہلی صورت کو ہم ’’ عبرت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے نوحے پر مبنی ہے کہ یہاں کبھی مسلمان آباد تھے اور اب یہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ ’’ یہ سرزمین جہاں آٹھ سو سال تک صدائے تکبیر گونجتی رہی اب یہاں اذان و نماز سے کوئی شخص آگاہ تک نہیں ہے۔‘‘ ’’میں نے سرزمینِ اندلس پر پہلی نماز اس کیفیت میں ادا کی کہ مجھے عبرت و حسرت ہورہی تھی۔‘‘ اس طرح کے جملوں میں نصیحتیں بھری ہوئی ہیں۔ جس سے مسلمانوں کے دل میں اس سرزمین سے گہرے تعلق کا عندیہ بھی ملتا ہے۔ سفر نامے کی دوسری قسم وہ ہے جس میں مسلمانوں کا اس سرزمین سے ناسٹلجیا ظاہر ہوتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا ’’اندلس میں اجنبی‘‘ اس جملے سے آغاز ہوتا ہے۔’’ایک پاکستانی مور کی اپنے ہی گھر غرناطہ میں ۴۷۷ سال کی جلاوطنی کے بعد واپسی۔‘‘ (لاہور، التحریر،۱۹۷۶ء) محمد حمزہ فاروقی کی کتاب ’’آج بھی اس دیس میں‘‘ کے مضامین کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف پر اقبال کی گہری چھاپ ہے۔ ان کے مضامین کے عنوانات اقبال کے مصرعوں پر ہیں۔ مصنف ماضی کے اندلس کی جڑیں موجودہ ہسپانیہ میں تلاش کرتا ہے۔Image result for ‫اندلس و ہسپانیہ‬‎ تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کی آئبرین جزیرہ نما میں بطور گم گشتہ وراثت دلچسپی لینے کا امر آہستگی سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سی کتابیں، تراجم اور تالیفات اس موضوع پر شائع ہوئی ہیں۔مسلم تہذیب کی برتری کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے زریں عہد کا اس زمانے کے یورپ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ حالیہ یورپی ترقی مسلمانوں سے مدد لینے کا ثمر ہے۔ پروفیسر شمل نے بیان کیا ہے کہ کرامت علی جونپوری جن کا انتقال ۱۸۷۳ء میں ہوا تھا ، وہ سرسید کی تحریک میں شامل تھے انھوں نے ایک کتاب بعنوان ’’مآخذالعلوم‘‘ لکھی جس میں انھوں نے بیان کیا کہ یونان کے سائنسی علوم کو عرب مسلمانوں نے عام کیا اور انھیں آگے یورپ تک منتقل کیا۔ یہی نظریہ بعد ازاں سرسید اور اقبال کے افکار میں بھی ملتا ہے۔ (شمل۱۹۸۰، ص۱۸۱) ابتدائی دور میں ہسپانیہ کی تاریخ پر موجود اردو کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی انگریزی کتابوں کا ترجمہ تھیں۔ مثال کے طور پر حامد علی صدیقی کی کتاب ’’کارنامہِ مور یا مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت یعنی تاریخ اندلس‘‘ اس موضوع پر تحریر لین پول کے کام کا اردو ترجمہ تھا جو کہ ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا تھا۔مترجمین نے دلی اور اندلس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو افراد دلی کے غم میں روتے ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی ایک آنکھ کے آنسو اندلس کے غم میں بہایا کریں۔ دنیا میں سوائے تغیر کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ (تعارف، ص۲۳۸) اگرچہ اندلس اپنی سائنسی اور مادی ترقی میں دلی سے کہیں بہتر اور آگے تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ ( اردو تراجم کی ضرورت، ص۲۴۰) آج ہم نَو سو سال بعد ہندوستانی مسلمان جو کہ اندلسیوں کے ہم نسب ہیں انہی کے سماج کی طرح ایک اقلیتی رحم دل اور منصف حکومت کے زیر اثر ہیں جیسا کہ انھوں نے وہاں قائم کی تھی ۔(صدیقی ،ص۲۴۴) مؤرخین کی ایک اور قسم بھی ہے جنہوں نے تاریخ ہسپانیہ پر محض تاریخی اسلوب میں لکھا۔ بہت سی کتابوں کا متن تراجم سے اخذ شدہ ہے۔ مولوی محمد زکریا مائل نے ’’اخبار مجموعہ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے جسے دلی سے انجمن ترقی اردو نے۱۹۴۲ء میں شائع کیا۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ اندلس مسلم تاریخ کا تابناک باب ہے اور مسلم قوم کا اندلس پر قابض ہونا وہاں کے باشندوں کے لیے باعثِ رحمت تھا۔ عنایت اللہ ولد مولانا ذاکر اللہ نے رائن ہارٹ ڈوزی کے کام کو ’’عبرت نامہ اندلس‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں آیا تھا۔ اس کی تدوین شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی نے۱۹۳۳ء میں کی تھی۔ مدیر کے مطابق اس اشاعت کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کی اس موضوع میں دلچسپی ہے۔ سکاٹ ، لین پول ، مراکشی (المعجب ) مقری ( نفح الطیب) کا ترجمہ بھی اردو زبانوں میں کیا گیا۔ ڈوزی کے کام میں صلیبی جنگوں کے باب میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب نظر آتا ہے۔ ڈوزی کی تاریخ کا ۱۹۲۹ء میں اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ عنایت اللہ لکھتے ہیں کہ انھیں تاریخ اندلس کے مضمون میں دلچسپی تھی اور اردو میں مستشرقین کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اس کام میں محنت کی۔ محمد صدیق نے یورپی مؤرخ کونڈے کی تاریخ ہسپانیہ کا ترجمہ کیا ہے۔ مترجم کے مطابق کونڈے ایک اسلام دوست ہسپانوی مؤرخ تھا۔ عبدالحلیم شرر نے اس پر نظر ثانی کی ہے۔ پہلے پہل یہ ترجمہ ماہنامہ ’’مورخ‘‘ میں۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۷ء تک سلسلہ وارشائع ہوا۔ اس ترجمے کی ضرورت اور اس کے شائع کرنے کی وجوہات یہ تھیں کہ ہندوستان میں تاریخ اندلس پہ کوئی جامع تحقیق موجود نہیں تھی۔ (صدیق،۱۹۱۷ء) منشی محمد خلیل الرحمن نے ’’مقری کی تاریخ‘‘ کا ترجمہ ۱۹۲۱ء میں کیا۔ اخبار الاندلس ، تاریخ مور نامی ترجمہ یورپی مؤرخ ایس پی سکاٹ کی کتاب کا تھا۔ یہ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔ قاضی ولی محمد بھوپالی کا سفر نامہ اندلس لکھنو سے نامی پریس نے ۱۹۲۷ء میں شائع کیا۔ یہ امت مسلمہ کے ان بزرگوں کے لیے تحریر کیا گیا تھا جو بسا اوقات اندلس کے مسلمانوں کا غم محسوس کرتے ہیں۔ اس کتاب کا متن مسلمانوں کے زوال کی جذباتی وضاحت کرتا ہے اور اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ہسپانیہ کی سماجی زندگی پر اسلام کے کیا اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سید احمد اللہ ندوی نے ابن خطیب کی کتاب الاحاطہ کا ترجمہ کیا۔ جس کو کراچی سے نفیس اکیڈمی نے۱۹۶۳ء میں شائع کیا۔ رشید اختر ندوی کی کتاب ’’ مسلمان اندلس میں‘‘ ادراہ معارف ملی نے ۱۹۷۰ء میں شائع کی۔ جس میں عبرت کی آنکھ سے اس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز ’’آہ قرطبہ‘‘ کے جملے سے ہوتا ہے۔ اس کے اختتامی ابواب میں اندلس میں سائنسی ترقی علوم کی ترویج اور فنون کی بلندی کا تذکرہ ہے۔ ریاست علی ندوی نے تاریخ اندلس ( اعظم گڑھ، معارف۱۹۵۰، ص۱) میں لکھا کہ مسلمانوں نے یورپ کے دو ممالک پر حکومت کی اندلس اور سسلی۔ اردو زبان میں تحریر کی گئی اندلس کی تاریخ کی کتابیں زیادہ تر ترجمہ ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی کتاب’’اسلام کی تاریخ شرق و غرب میں‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی اندلس میں تاریخ کو مسیحیوں نے لکھا ہے۔ اگرچہ انھوں نے مسلمانوں کی مادی ترقی کو سراہا ہے تاہم کہیں کہیں غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں سے بھی کام لیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک معتبر تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔

Image result for ‫اندلس و ہسپانیہ‬‎ مؤرخین میں سید امیر علی کا کام منفرد ہے۔ ان کا کام اگرچہ تاریخ ہسپانیہ پہ ہی مرکوز نہیں ہے۔ تاہم ان کی تحریروں کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جس میں عشق اندلس کو فروغ دیا گیا ہے۔ امیر علی(۱۸۴۹۔۱۹۲۸ء) نے مغربی قارئین کے لیے تاریخ اسلام لکھی جو ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئی۔ (عزیز احمد،۱۹۶۷ء، ص۸۷) انھوں نے اپنی تحریروں میں مسلمانوں کو اسی نام سے پکارا جس سے انھیں یورپ میں مخاطب کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اندلس کو تہذیب کے نمونے کے طور پر پیش کیا۔ (شمل ، اسلام برصغیر میں ، برل ۱۹۸۰ء، ص۲۰۵) امیر علی اور چراغ علی نے انسان دوستی پر زور دیتے ہوئے بیان کیا کہ مسلم تاریخ انسان دوستی کا ہراول دستہ تھی اور یورپیوں نے ان کی پیروی کی ہے۔مسلمانوں کی روایتی مذہبی تحریکوں کا طریقہ کار مختلف ہے جیساکہ دیوبند تحریک میں یورپ یا ہسپانیہ کی تاریخ اور اس بحث میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ ان کی رائے میں اندلس عرب مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہے جس پر عبرت یا معذرت خواہی کا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ شبلی نعمانی کی رائے دیوبند کے قریب ہے۔ معارف ندوہ نے بھی ہسپانیہ کی تاریخ سے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے بہت سے اہم مقالات شائع کیے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ندوہ اندلس کے عشق میں اسی درجے مبتلا تھا جیسے وہ بہت سے جنوب ایشیائی ادیب، شاعر اور مؤرخ جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔

برصغیر اور اندلس کی تاریخ کے تقابلی مطالعے اور مماثلتوں کے تذکرے کا ایک اور رخ پاکستان کی آزادی کے بعد سامنے آیا۔ یہ رخ بھارت کے بعض مسلم مفکرین نے پیش کیا۔ان کا کہنا تھا ہندوستان اور اندلس میں ایک اور مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں جگہ مسلمان اقتدار کی سرحد یں سکڑ نے کے عمل سے گزریں۔ عزیز احمد ایک مضمون بعنوان ’’ اسلام کی سکڑتی ہوئی سرحدیں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اسلام کی سرحدیں یورپ میں اسپین ، سسلی اور بلقان اور قپچاق کی ڈھلانوں ، کریمیا اور وسط ایشیا ، زیریں صحرا اور افریقی سرزمین، برصغیر ، ملائشیا ، انڈونیشیا اور مانڈاناؤ ، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں خطرات کے لیے کھلی تھیں۔ ان میں سے کچھ سرحدیں مکمل یا جزوی طور پر ختم ہوگئیں۔ بعض جگہوں پر سیاسی شکست کے بعد اسلام بطور مذہب اس خطے سے مٹ گیا۔ افریقا مرحلہ وار محفوظ رہا۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا ء میں مسلمانوں نے منڈاناؤ میں مشکل کا سامنا کیا۔ وہ خطے جہاں اسلام مکمل طور پر معدوم ہوگیا یا اسے سیاسی شکست کے بعد معدومی کا خطرہ لاحق ہوا، وہاں اس کی وجوہات و نتائج میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان میں سے چند وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ مسلم ریاست ٹوٹ پھوٹ گئی یا اس کا رقبہ کم ہوگیا۔ اس کی وجوہات عام طور پر آپس کی لڑائیاں تھیں۔ حکمرانوں کے لیے مشکل تھا کہ وہ ابھرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرسکتے۔ 2۔ مسلمانوں کے ہاں ہجرت کا نظریہ اشرافیہ کو یہ چھوٹ دیتا ہے کہ وہ غریب طبقے کو دشمن سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کہیں اور ہجرت کر جائیں۔ اس کے نتیجے میں کمزور لوگ دشمن اور جارح کے عقیدے کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ ‘‘ اندلس سے مسلمانوں کا انخلا ۱۴۹۲ء میں ہوا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یوں مشرق اور مغرب کے دونوں کونوں پر عالم اسلام کی سرحدیں سکڑ گئیں۔ دونوں جگہ مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑ نا پڑاجہاں وہ سالہا سال سے رہ رہے تھے اور جہاں وہ صدیوں حکمران بھی رہے تھے۔ اختتامیہ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں اندلسی ثقافت سے واقفیت مغربی تصنیفات کے ذریعے شروع ہوئی۔ برطانوی راج کو شوق تھا کہ اپنی حکمرانی کا تقابل ماضی کی مسلم حکمرانی سے کرے۔ برطانوی حکمرانوں نے اس تقابلی مطالعہ کی حوصلہ افزائی بھی کی۔خاص طور پر کوشش کی کہ طلبا اس قسم کے مطالعات میں دلچسپی لیں۔ سر چارلس ٹریولین نے مضمون نویسی کا ایک مقابلہ کروایا جس کا عنوان ’’عباسیوں کے بغداد اور اموی اندلس کا تقابل: عرب ادب کا یورپ پر اثر‘‘ تھا۔ (گراہم ، سرسید احمد خان ،۱۸۵۵ء، ص۷۸) لارڈ لٹن بھی جزیرہ نما آئبریا میں مسلم عہد کی توصیف کے قائل تھے۔ (گراہم،۱۸۵۵ء، ص۲۷۸) بعض لوگ پاکستان میں ہجرت کے واقعے کو عام طور پر اندلس سے انخلاء کے مماثل بتاتے ہیں۔ اکثر اختلاف بھی کرتے ہیں تاہم سرحدیں سکڑنے کا مفہوم زیر بحث ضرور رہتا ہے۔ ابتدائی دور میں پاکستان میں کئی تحریکیں اس جنت گم گشتہ کی بازیابی کے لیے اٹھیں لیکن بتدریج قومی شناخت کی سیاسی کشمکش میں تاریخ اور جغرافیہ کے تنا ظر کی بجائے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اولین ترجیح بن گئی۔اندلس کی یاد اَب بھی آتی ہے، لیکن کبھی کبھی،اور وہ بھی فلسطین کے حوالے سے۔


محمد بن قاسم سے پہلے کا سندھ “تیرہ سو سال پہلے سندھ کا اطلاق جس علاقے پر ہوتا تھا وہ بہت لمبا اور چوڑا تھا۔ اسلام سے پہلے راجا داہر کی حکومت کے زمانے میں جس ملک کو سندھ کے نام سے موسوم کرتے تھے، وہ سمت مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحر عرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالوہ کے وسط اور راجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک وسیع تھا اور عرب مورخین اسی سارے علاقے کو سندھ کہتے تھے۔ پھر یہ ملک اتنا قدیم ہے کہ اس کے متعلق یہ بھی نہیں بیان کیا جا سکتا کہ کب سے ہے اور اس کے نام میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔ صرف تاریخ سے اتنا پتا چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے جب آریہ اس ملک میں آئے تو اُنھوں نے اس کا نام ‘سندھو’ رکھا، کیونکہ وہ اپنی زبان میں دریا کو ‘سندھو’ کہتے تھے۔ ابتداء وہ اس ملک کو سندھو کہتے رہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اسے سندھ کہنے لگے۔ یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں سال گزر جانے پر بھی اس کا نام سندھ ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ شروع میں آریوں نے سندھ کے ادھر جتنے ملک فتح کیے، انھوں نے سب کا نام سندھ ہی رکھا۔ یہاں تک کہ پنجاب کی سرحد سے آگے بڑھ گئے، مگر نام میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ جب گنگا تک پہنچ کر رک گئے تو اُس کا نام آریہ ورت رکھا، مگر ہندوستان سے باہر اس نام کو شہرت حاصل نہ ہوئی۔ ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھ کو ہند کر ڈالا اور یونانیوں نے ‘ھ’ کو اس کے قریب المخرج حرف ہمزہ سے بدل کر اند کر دیا، رومن میں یہ لفظ اند سے اندیا ہو گیا اور انگریزی زبان میں چونکہ ‘دال’ نہیں اس لیے وہ انڈیا بن گیا. اسلام سے پہلے سندھ میں جو راجا حکومت کرتے تھے وہ رائے کہلاتے تھے، جناب سرور کائنات صلی اللھ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں رائے حکومت تھی اور حکومت ایک سو سینتیس سال تک رہی۔ اس حکومت کے پانچ راجا گزرے ہیں جو عقیدتاً بدھ مذہب کے پیرو تھے، اُن کے نام یہ ہیں: ۱۔ رائے ڈیوانچ ۲۔ رائے سیھرس ۳۔ رائے ساہ سی ۴۔ رائے سیھرس ثانی ۵۔ رائے ساہ سی ثانی )تاریخ سندھ – اعجاز الحق قدوسی، صفحہ نمبر1,2,4 اشاعت بار دوم: فروری 1976، ناشر: مرکزی اردو بورڈ، لاہور) راجہ داہر کی اپنی بہن سے شادی چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیاتو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر ۔چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیاکہ اس کی شادی کردی جائے۔داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔ (تاریخ سندھ، صفحہ 45-46) سندھ میں اسلام -ایک جائزہ اسلام مذھب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا- مسلمان تاجرو اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول اللہۖ کی وفات 632ء میں ہوئی تھی- یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے- مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے- لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا- چنانچہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے مسجدیں تعمیر کیں- (یاد رہے کہ اس وقت حانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے- ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا نتیجہ عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے- تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا- جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذھبی کشمکش کا شکار تھا- ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید محالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے- ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید باری تعالی اور ذات پات اور چھوت چھات کی لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے- بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے- چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذھب پر کوئی پابندی نہیں تھی- لہذا ہزاروں غیر مسلم مسامان ہوگئے- (تاریخ پاک وہند، ص:390) اب خاص سندھ میں اسلام کی آمد کو دیکھئے 1۔ دور فاروقی دور فاروقی میں بحرین وعمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ٹقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ سے صرف 4 سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد ممبئی میں بھیجی- پھر اس کی اطلاع حضرت عمر رض کو دی- آپ ناراض ہوئے اور لکھا” تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی- اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کرڈالتا” (تاریخ پاک وہند ص: 18) 2۔ عہد عثمانی عہد عثمانی میں عراق کے حاکم عبداللہ بن عامر نے حکیم بن حبلہ کو بریصغیر سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا- واپسی پرانہوں نے حضرت عثمان رض کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ ” وہاں پانی کیمیاب ہے، پھل نکمے ہیں، ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہوجائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا” اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رض نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19) 3۔ دور معاویہ حضرت امیر معاویہ رض کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاھور تک بڑھ آیا- انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور شپہ سالار عبداللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گوشمالی کے لیے 4 ھزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا- اس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلاگیا- ان نے حضرت امیر معاویہ رض کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے- لیکن کچھ مدت بعد عبداللہ بن سوار قیقان واپس آگیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کردیا- (تاریخ پاک وہند ص:19) 4۔ عہد ولید بن مالک بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن مالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رح نے اس سال سندھ کے سارے علائقہ کو فتح کرلیا- اس حملہ ک اسباب و محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں- ہم ویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا)، اور ملتان کو فتح کیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کررہا تھا کہ اسے واپس بلالیا گیا- محمد بن قاسم رح کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا- بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی 10 صدی عیسوی تک) قابض رہے، چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتے رہا- اس کے سندھ میں عربوں کی دو نیم ریاستیں قائم ہوگئیں- ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک وہند ص: 35) محمد بن قاسم کے سندھ آمد کے اسباب محمد بن قاسم سیکولر طبقہ کے نزدیک اسلامی تاریخ کے قابل نفرت کرداروں میں سے ایک ہے ، یہ طبقہ اس پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے اور اسکے مقابلے میں راجہ دہر کو اپنا ہیرو گردانتا ہے۔ اسکے جواب میں تاریخ کی مستندکتابوں سے محمد بن قاسم اور سندھ کے حالات پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔ پہلا سوال یہی ہے کہ مسلمانوں کے سندھ پر حملے کی وجہ کیا تھی ؟ اس کے لیے ہم سندھ کی تاریخ پر تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھنے والی قاضی اسماعیل کی کتاب چیچہ نامہ سے استفادہ کریں گے جسے حال ہی میں سندھ کے بلند پائے کے محقق و مؤرخ ڈاکٹر بنی بخش جان بلوچ کی تحقیق سے سندھی زبان کے ترجمان ادارے سندھی ادبی بورڈ نے شائع کیا ہے۔ قاضی صاحب چیچہ نامہ المعروف فتحہ نامہ سندھ میں محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ کرنے کی وجوہ بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ “سراندیپ کے حاکم نے جزیرہ یا قوت سے حجاج بن یوسف کے لیے کچھ قیمتی تحائف روانہ کیے جس قافلے میں کچھ مسلمان عورتیں بیت اﷲ کی زیارت اور تخت گاہ کو دیکھنے کی شوق میں کشتیوں پر سوار ہوگئیں پھر جب یہ قافلہ قازرون کے علاقے میں پہنچا تو مخالف سمت ہوائیں کشتیوں کو دیبل کے کناروں کی طرف لے آئیں۔جہاں نکا مرہ کے ٹولے نے آٹھوں جہازوں پر دھاوا بول دیا املاک کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو گرفتار کیا اہل سراندیپ نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ تحائف بادشاہ کے لیے جا رہے ہیں لہٰذا آپ یہ مال فوراً واپس کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور فاخرانہ انداز میں کہا کہ آج اگر کوئی تمہارا داد رس ہے تو اسے پکارو اسی اثناء میں ایک عورت کی زبان سے مظلومانہ آہ نکلی ۔ان مغویوں میں سے ایک آدمی فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچااور حجاج کو کہا کہ مسلمان عورتیں راجا داھر کے پاس قید ہیں جو تجھے مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔۔۔ اس پر حجاج نے لبیک کہا “۔ (چیچہ نامہ ص ۱۲۱) انہیں دنوں مسلمان اندلس، سپین اور ترکستان کے محاذ علی الترتیب موسیٰ بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم کی قیادت میں کھول چکے تھے اور ایک تیسرا بڑا محاذ کھولنے کی گنجائش نہیں تھی اسی لیے حجاج نے اتمامِ حجت اور صورتِ حال کو پر اَمن ماحول میں نپٹانے کے لیے راجہ داہر حاکمِ سندھ کو لکھ بھیجا اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ لیکن راجہ داہر نے جواب دیا کہ ” عورتوں اور بچوں کو قید کرنا اور مال و اسباب کو لوٹنا بحری قزاقوں کا فعل ہے جو میرے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ لہٰذا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ (چیچہ نامہ ص ۱۳۱) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حجاج بن یوسف اور ان کے کمانڈر مال و اسباب چاہتے تھے تو انہوں نے یہ سفارتی خط کیوں ارسال کیا؟ انہوں نے سیدھا حملہ کیوں نہیں کیا؟ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کو لوٹنے والے راجہ داہر کے ہی لوگ تھے لوٹا گیا مال و دولت اور عورتیں بعد میں راجہ دہر کے ہی کمانڈروں سے برآمد ہوئیں تھیں۔ راجہ دہر کے اس جواب کے بعد جو جوابی خط ارسال کیا گیا ۔ اس کا متن بھی چچہ نامہ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں جس سے سارا معاملہ نصف النہار کی طرح واضح ہو جا تا ہے کہ وہ کیا اسباب تھے جنہوں نے محمد بن قاسم کو حملے پر مجبور کیا ؟ ” ہمیں لشکر کشی کا معاملہ اس لیے پیش آیا کہ تم لوگوں نے سرا ندیپ سے آئے ہوئے مال و اسباب کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو قید کیا۔ جب تم لوگوں نے ایسی معیوب چیزوں کو جائز سمجھا تب مجھے دارا لخلافہ سے تم پر چرھائی کا حکم دیا گیا۔میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے تجھے مغلوب کر کے رسوا کروں گا اور تیرا سر عراق کی طرف روانہ کروں گا یا خود جام شہادت نوش کرو ں گا۔ میں نے یہ جہاد اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فرمان و جاہد و ا الکفار وا لمنافقین کے تحت اپنے اوپر واجب سمجھ کر قبول کیا ہے‘‘ ۔(چچہ نامہ) اس خط سے بھی یہ واضح ہے کہ حملے کی وجہ مظلوموں کی داد رسی تھی نہ کہ املاک کے حصول اور اپنی خلافت کی توسیع پسندی ۔ محمد بن قاسم اور اہل سندھ کے ساتھ سلوک محمد بن قاسم کی فوج اور انتظامی کامیابی پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے- محمد بن قاسم خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ایک قابل لیڈر تھا- ایک شیر٬ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایک قابل منتظم ، دور اندیش حکمران اور سیاستدان تھا- اس نے فتح کے بعد سندھ کے موجودہ نظام کو خراب نہیں کیا- اس نے اندرونی معاملات کا نظام وہاں کے باشندوں پر چھوڑ دیا۔برہمنوں نے ملکی انتظامات و انصرام میں داخلہ حاصل کرکے بڑے خوش گوار ماحول پیداکیے۔ مال گزاری وغیرہ کے اصول کرنے کا حق بھی انہی لوگوں کے ذمہ رہنے دیا۔ اس رعایت سے وہ لوگ نہ صرف خوش تھے؛ بلکہ ان لوگوں نے جگہ جگہ پہنچ کر اس عفو و درگزر اور حسن سلوک کا تذکرہ اور پرچار کیا، جس سے اور بھی ماحول خوش گوار ہوتا گیا اور بہت سے لوگ اطاعت گزاری پر مجبور ہوئے۔ وہ جہاں پہنچتے اپنے ہم قوموں کویہ کہہ کر اطاعت گزاری کا درس دیتے کہ ہماری سلطنت تباہ ہوگئی اور فوجی طاقت جاتی رہی، اب ہم میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے یقینا ہم گھر سے نکال دئیے جاتے اور تمام جائدادوں سے محروم ہوتے، فقط حاکم قوم کی مروت اور عدل وانصاف سے ہم اس وقت بھی معزز عہدوں پر ہیں اور ہر چیز ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ یا تو ہم لوگ اہل وعیال کو لے کر ہندوستان ہجرت کرجائیں، ایسی صورت میں ہم لوگ بالکل مفلس ہوجائیں گے، کیوں کہ تمام جائدادیں اسی جگہ چھوڑنی پڑیں گی اور یا پھر مطیع رہ کر جزیہ ادا کریں اور آرام و عزت سے زندگی بسر کریں۔ برہمنوں کو مندر میں پوجا پاٹ کرنے اور نذر و نیاز چڑھانے کی فراخ دلی سے جو اجازت دی اس کی تفصیل حچ نامہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں سید طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم کا برہمنوں اور مندروں کے ساتھ برتاؤ کی نسبت اس زمانہ کے ہندو مورخوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے ہندوؤں کے مندر وغیرہ نہیں توڑے۔ زمانہ قدیم میں عام خیال یہ تھا کہ ہرقوم کے دیوتا جنگ کے وقت اپنی اپنی قوم کو مدد دیتے ہیں، پس جب کوئی قوم فتح پاتی تواس قوم کے معبود کی طاقت دیکھ کر مفتوح قوم کے لوگ فاتح قوم کا مذہب اختیار کرلیتے۔ اسی کلیہ کے مطابق راجہ داہر کے مارے جانے پر جب ہندوستان کے لوگ مسلمان ہونے لگے تو محمد بن قاسم نے دوسرے روز اعلان کردیا کہ جو شخص چاہے اسلام قبول کرے اور جو چاہے اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے، ہماری طرف سے کوئی تعرض نہ ہوگا۔ برہمن آباد فتح ہونے پر مندروں کے پجاری محمد بن قاسم کے پاس گئے اور کہا کہ ہندوؤں نے مسلمان سپاہیوں کے ڈرسے بتوں کی پوجا کے لیے مندروں میں آنا کم کردیا ہے جس سے ہماری آمدنی میں فرق آگیا ہے۔ مندروں کی مرمت بھی نہیں ہوتی ہے، تم انہیں درست کرادو اور ہندوؤں کو مجبور کرو کہ وہ مندروں میں آکر پوجا پاٹ کریں۔ یہ سن کرمحمد بن قاسم نے خلیفہ سے بذریعہ خط کے استصواب کیا اور جو اب آنے پر اعلان کردیا کہاپنے مندروں میں آزادانہ پوجا پاٹ کریں، سرکاری مال گزاری میں سے تین روپیہ فی صدی برہمنوں کے لیے الگ خزانے میں جمع کیا، اس روپیہ کو برہمن جس وقت چاہیں اپنے مندروں کی مرمت اور ضروری سامان کے لیے خزانہ سے لے سکتے ہیں۔ پھر سب سے بڑے پنڈت کو رانا کا خطاب دے کر ان کو امورمذہبی کا مہتمم اور افسر مقرر کردیا۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرنے کے بعد یہاں کی غیر مسلم رعایا کو وہی حیثیت دی جو صحابہ کرامؓ نے اہل فارس کو دی تھی، یعنی ان کو شبہ اہل کتاب تسلیم کیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ دوباتوں نکاح اور ذبیحہ کے علاوہ تمام امور میں ان کے ساتھ اہل کتاب کا برتاﺅ کیا جائے۔ ان کے مندروں کی حیثیت ایران کے آتش کدوں کی طرح رکھی گئی اور جس طرح صحابہ کرامؓ نے آتش کدے نہیں توڑےتھے، اسی طرح مندر بھی محفوظ رہنے دیے گئے۔ (ہندوستان کے سلاطین، علماءاور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، از سید صلاح الدین عبدالرحمٰن ۔ ص 43) محمد بن قاسم نے ہندوستان میں مستقل سلطنت کے لیے بنیادیں استوار کیں مسلمانوں کی بستیاں اور مساجد تعمیر کیں۔ عوام کو پہلی بار ان کے حقوق سے آشنا کیا۔ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کا محافظ بنا۔محمد بن قاسم نے عمر کے اس حصے میں فتحِ سندھ کا یہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو لوگوں کے کھیل کود کا وقت ہوتاہے۔ دنیا کی کوئی اور قوم اتنے کم عمر اور اتنے قابل جرنیل کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔محمد بن قاسم کے بعد سندھ کے لیے کوئی بھی اس کا ہم پلہ حکمران مامور نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی پیش قدمی رُک گئی۔ تاہم اتنا ضرور ہوا کہ سندھ کے ذریعے ہندوستان میں اسلام متعارف ہو گیا۔ اہلِ سندھ نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیا۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور عراق روانگی کے بعد تقریباًتین سو سال کا زمانہ جس میں بنو امیہ اور بنو عباس کے گورنر سندھ پر سرفرازہوتے رہے انہوں نے عرب ہند تعلقات کو علمی وتہذیبی بنیادوں پراستوار کیا، اہل سندھ کا علمی و تہذیبی رشتہ منقطع نہیں ہونے دیا گیا۔ سندھ کی فتح‘ سیاسی‘ تہذیبی اور علمی اعتبار سے ایک جمہوری اور روشن خیالی دور کا آغاز تھا۔ ہزاروں برسوں کے سندھیوں سے ابن قاسم نے سندھیت نہیں چھینی۔ آج بھی سندھی ٹوپی اور اجرک ان کا نشان امتیاز ہے۔ قاسم نے اس خطے کو کیا دیا؟ اس نوجوان کی بدولت یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا۔ پنجاب، دہلی، آگرہ اور پورا برصغیر گجراتی ہوں یا بلوچ، میراٹھی ہوں یا پختون، آج بھی اپنی شناخت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ محمد بن قاسم نے ان سے ان کی زبان و لباس کی پہچان نہیں چھینی۔ حجاج بن یوسف کا یہ بھتیجا کسی سے کچھ لے کے اپنے وطن عرب نہیں گیا بلکہ یہاں کے لوگوں کو کچھ دے کر ہی گیا ہے۔ یہ وہ بے مثال رواداری ہے کہ سندھیوں کی نظر میں محمد بن قاسم محبوب بن گئے، جن کی آواز پر وہ جان دینے کو ہروقت تیار رہتے تھے۔ اور جب انہیں قید کرکے واسط کی جیل میں بھیجا جارہاتھا تو یہاں کے لوگ غم میں آنسو بہائے اور جب ان کا انتقال ہوگیا تو یادگار کے طور پر ان کا مجسمہ بنایا۔ اس محبت اور رواداری سے ہندومسلمانوں میں اس قدر قریبی تعلقات قائم ہوگئے کہ خاص عرب میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگیوں میں ہندوشریک ہوتے تھے چنانچہ برہمنوں کا ایک خاندان اپنے آپ کو اسی بناپر حسینی برہمن کہتا ہے کہ بقول ان کے ان کے بزرگوں نے کربلا میں سادات کا ساتھ دیا تھا” (آئینہٴ حقیقت۱/۱۰۱ بحوالہ اسلام امن وآشتی کا علمبردار ص:۷۳) ( تاریخ سندھ – اعجاز الحق قدوسی صفحہ۔ 228-229]) کیا سندھ میں اسلام صرف صوفیاء کی بدولت پھیلا؟ جب سندھ میں اسلام کی اشاعت کی بات آتی ہے تو یہی سیکولر طبقہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسلام عرب فاتحین و حکمرانوں کی وجہ سے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کے سلسلوں کی بدولت پھیلا ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوفیاء بھی تو اسلام کے ہی نمائندے تھے ،یہ سیکولر لوگ اس مسئلے میں اسلام کے خیر خواہ کیسے ہوگئے۔ ؟ اصل میں ایسا کہنے کی ایک وجہ ہے. تاریخ دیکھی جائے تو برصغیر میں اسلام کو مکمل طور پر صوفیاء کا کارنامہ قرار دینے کی بات سب سے پہلے مستشرق مصنفین خصوصا پروفیسر آرنلڈ نے کی تھی ، اسی وجہ سے پروفیسرآرنلڈکی کتاب پریچنگ آف اسلام کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں ہندوستان کے حوالے سے بحث میں اسلام کی اشاعت کا سارا سہرا صوفیائے کرام کے سر ڈال دیا گیا ہے اور کم از کم اس اعتراض سے ہندی مسلمانوں کو نجات ملی جو دوسرے انگریز موٴرخوں نے کی کہ اسلام کی جبری اشاعت ہوئی ہے اور سلاطین وقت نے تلوار کے ذریعہ لوگوں کواسلام قبول کرنے پرمجبور کیا۔۔۔۔لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کتاب کا یہ مقصد بالکل نظر نہیں آتا ۔ اس کتاب کی زمانہ تصنیف پر بھی نظر رکھی جائے۔ایک طرف الزام و اتہام کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا تو دوسری طرف ایسا کہنے والوں کے ہی طبقے کا ایک رائٹر اس کتاب کے ذریعے یہ لکھ رہا ہے کہ اسلام تو صوفیاء نے پھیلایا … یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آرنلڈ نے یہ کتاب انہی اپنے لوگوں کے رد میں لکھی گئی ؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔اس کتاب میں کہیں آ پ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ آرنلڈ نے اسلام تلوار کے ذریعے پھیلنے کی بات کرنے والے انگریز موٴرخوں کی پھیلائی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہو ، انکی تحریر پر تنقید کی ہویا ان کی عصبیت کا پر دہ فاش کیا ہو ۔چنانچہ اس کتاب کی تصنیف کے مقاصد کا یقین دلاتے ہوئے عہد حاضر کے ایک مبصر نے لکھا کہ: یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اسلام کے مخالفین اس کے ایک پہلو کو بغیر کسی خاص سبب کے وکالت کرنے لگیں۔اصولی طور پریہ ممکن نہیں کہ اصل کا مخالف فرع کی حمایت کا بیڑا اٹھالے،اس کے لیے کسی بہت خاص وجہ اور سبب کی موجودگی ضروری ہے۔ظاہر ہے مقصداسلام سے ہمدردی ہرگز نہ تھی بلکہ پیش نظرانہیں مقاصد کا حصول تھاجن کے لیے اول الذکرذریعہ استعمال کیا گیا تھا۔راستہ بالکل مختلف تھالیکن نتائج وہی حاصل کرنے تھے۔ مقاصد کے گھناؤنے پن کو البتہ بڑی چابک دستی سے ہمدردی کے دبیز تہوں کے نیچے چھپا دیا گیاتھا۔ مسلمانوں میں تصوف اور صوفیائے کرام کی غیر معمولی مقبولیت کے سہارے ان کی سوچ کے دھارے کو غیر محسوس طور پرایک نیا رخ دینے کی یہ نہایت شاطرانہ چال تھی۔۔ اس کاوش کے ذریعے ایک طرف مسلمان ہیروز اور ان کی محنت کو سائیڈ لائن لگانے کی کوشش کی گئی دوسری طرف مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام تو تلوار اٹھائے بغیر بھی پھیل سکتا ہے جس طرح ان صوفیوں نے سارے ہندوستان کو مسلمان کردیا ، اس لیے محمد بن قاسم وغیرہ کی طرح کے کسی جہادی کام میں اپنے آپ کو کھپانا ، اسکا انتطام کرنا بے فاعدہ ہے۔۔۔اسی ذہن سازی کے سلسلے میں اگلا کام ان دوسرے انگریز مورخین نے کیا ، ایم۔اے۔ٹائیٹس نے مسلمان بادشاہوں بالخصوص محمد بن قاسم اور اورنگ زیب سے متعلق سخت بہتان تراشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ میں مندروں کے انہدام اور لوگوں کو جبری مسلمان بنانے کا جو منصوبہ بند پروگرام شروع کیاتھا،عہدعالم گیری تک جاری رہا ۔حالانکہ حقیقت اس سے بالکل الٹ ہے۔ اس طرح ’ لارڈالن برو‘نے محاربہ قابل کے بعد ۱۸۴۲ء میں سلطان محمود غزنوی کے مقبرے سے صندل کے کنوار اکھڑواکر غزنی سے آگرہ تک اس کا جلوس اس اعلان کے ساتھ نکالا کہ سلطان یہ کنوار سومناتھ سے لے گیاتھا۔ بعد میں جلد ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو گئی کہ یہ باتیں غلط ہیں اور اس کا تعلق سومنا تھ سے نہیں ہے،بلکہ یہ مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ( جیمس فرگیسن،اسلامی فن تعمیر ہندوستان میں،ص:۱،جامعہ عثمانیہ،حیدر آباد،۱۹۳۲ء) خلاصہ یہ کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے اور ایک سکیم کے تحت ہے کہ اسلام کی اشاعت میں صرف صوفیاء اورعرب تجار کا صرف حصہ ہے۔برصغیر میں اسلام کی اشاعت کی اس کامیابی کے پیچھے مندرجہ ذیل اسباب عوامل کار فرما تھے: ۱۔ عرب تجار کی تبلیغی مساعی۔۲۔ سلاطین کے حملے اوررعایا سے رواداری ۳۔ علماء کی تدریسی،تقریری اورتحریری خدمات۔۴۔ صوفیاء کرام کی جدوجہد۔۵۔ انسانی مساوات وبشر دوستی کا اسلامی عقیدہ۔ ۶۔ ذات پات کی تفریق سے نفرت وبیزاری۔ ان میں سے ہر عامل نے اپنے اپنے خطوط پر نمایاں کردار اداکیا۔سلاطین نے ملک فتح کرکے یہاں کے باشندوں کو ایک مرکز سے جوڑااور مسلمانوں کو ا ن کے درمیان رہنے کاموقع فراہم کیاجن کی معاشرت ،تہذیب اور عادات واطوار سے مقامی باشندے متأثر ہوئے اور اس طرح گاہے بہ گاہے وہ مسلمان معاشرہ میں اسلام قبول کرکے ضم ہوگئے۔ اگر مسلمان ہندوستان میں سیاسی افق پر کمزور ہوتے تو بقول ایک ہندودانشور کہ یہ بھی امکان تھا کہ ہندی ادیان کے گھنے جنگل میں اسلام کی شخصیت ہی گم ہوجاتی قطع نظر اس کے مسلمانون کی تعداد کتنی ہوتی؟( این۔سی۔مہتا،ہندوستانی تہذیب میں اسلام کا حصہ،ص:۱۰،نظامی پریس ،بدایوں،۱۹۳۵ء) اگر سلاطین نہ ہوتے تو پھر صوفیائے کرام جو سلاطین وقت سے الگ تھلگ ہوکر دین کی دعوت کو عام کیے ہوئے تھے کیسے اور کیوں کر یہاں آتے اور کون انہیں اپنے کفرستان میں قال اللہ وقال الرسول کی آواز بلند کرنے کی اجازت دیتے،جسے سن کر دیکھ کراور ان کے کشف وکرامات سے متاثر ہورکربہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی تعداد کاکوئی حتمی ریکارڈ تو نہیں ملتا البتہ تاریخ اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتاہے کہ ان پاک نفوس کی برکت اور ان کی مساعی سے بے شمارلوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اسی طرح مسئلہ صرف قبول اسلام تک محدود نہیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دینی فہم کی بھی ضرورت تھی جس کے لیے یہ علماء کرام تھے ۔ ان کی تعلیم وتدریس کے ذریعہ پرورش وپرداخت کرتے تھے ۔ اسی طرح مناظرے کی گرم بازاری نے بھی اسلام کو وسعت دینے میں کافی تقویت پہونچائی ہے۔اسی طرح عرب تجار نے بھی ملک کے ایک حصے میں اپنے اخلاق وکردار اورصفائی معاملات کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں کوشاں تھے۔ اگر صرف انہیں لوگوں کواسلا م کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے تو پھر شمالی ہند کے لوگوں کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔ اس موضوع پر تفصیلی تحریر پہلے پیش کی جاچکی ہے. سندھ اور اشاعت اسلام : سندھ کے مایہ ناز مورخ رحیم داد خان مولائی شیدائی اپنی کتاب جنت السندھ میں رقمطراز ہیں کہ عربی فتوحات کی وجہ سے سندھ باب الا سلام بنا اور یہ مقام ایک معلم کی حیثیت سے سارے ہندوستان کی رہنمائی کرنے لگا ( جنت السندھ ۔ ص ۱۰۲) آگے لکھتے ہیں ” محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرنے کے بعد بڑے بڑے شہروں مثلاً دیبل نیرون کوٹ سیوستان برھمن آباد الور ملتان دیپالپور قنو چ میں جامع مسجدیں تعمیر کرائیں جن میں ائمہ خطبہ مقرر کیے اور مسلمانوں کے حسن خلق کو دیکھ کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے دیبل اور دیگر شہروں سے کئی سو علماء پیدا ہوئے جن کا تذکرہ علامہ سمعانی نے کیا ہے۔۔۔ عرب حکمرانوں نے سندھ میں جن نئے شہروں کی بنیاد رکھی۔ مثلاً منصورہ محفوظ اور بیضاء یہ حقیقت میں اسلامی نشرو اشاعت کے عظیم ادارے تھے۔عمر بن عبد العزیز کا زمانہ سن ۹۹ ہجری سے سن ۱۰۱ ہجری تک تقریباً ڈھائی سال کا قلیل عرصہ رہا۔ اس قلیل عرصے میں اسلام سندھ میں انتہائی سرعت سے پھیلا ۔عمر بن عبد العزیز نے اسلام کی اشاعت کے لیے سلطنت کے صوبوں کی طرف مبلغین و اعظین مفتیان کرام کو روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو حدیث فقہ حلال حرام وغیرہ سے واقف کریں اور اس نے اسلامی دنیا میں رہنے والے سب غیر مسلموں کے طرف اسلام اختیار کرنے کے دعوت نامے ارسال کیے ( جنت السندھ ۔ ص ۱۰۳) رحیم داد خان عرب حکمرانوں کی اسلام کے لیے خدمات کا تذکرہ کر تے ہوئے قمطراز ہیں کہ ’’ولید بن عبد الملک نے سلطنت کے چاروں طرف قرآن کریم کے حافظ مقرر کیے کہ لوگ قرآن کی تعلیم حاصل کریں اور ان حفاظ کے لیے وظائف جاری کیے نیز قرآن مجید کا سب سے پہلا سندھی ترجمہ بھی اسی عہد میں ہوا‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ قرآن مجید تو خلافت راشدہ کے عہد میں مرتب و مدون ہو چکا تھا مگر اس میں اعراب و نقاط نہیں تھے جس سے عرب تو اسے آسانی سے پڑھ لیتے تھے مگر عجمی قاریوں کو تلاوت میں دشواری پیش آتی تھی۔حجاج بن یوسف ویسے تو ظلم و زیادتی کے حوالے سے مشہور تھے مگر قرآن مجید کی اشاعت کے سلسلے میں یہ نیک عمل ان کا یاد گار ہے کہ انہوں نے عجمیوں کی سہولت کے لیے قرآن کریم کو اعراب لگوائے۔ اورکئی نسخے لکھوا کر مشرقی صوبوں کے طرف بھیجے جس سے نو مسلموں کو بھی تلاوت کرنے میں آسانی میسر ہوئی‘‘۔ (جنت السندہ ۔ ص ۱۰۲) محمد بن قاسم کے بعد متعدد مسلم حکمراں آئے اور تھوڑی تھوڑی مدت میں بدلتے رہے جس کی وجہ سے پہلے کے بنسبت نظم و نسق خاصا اثر انداز ہوا۔ البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخلاقی سے باز رہنے کی بات تھی۔ جس کا سردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سارے ہندو سرداران اسلام میں داخل ہوگئے جن میں سرفہرست ”جے سنگھ“ بن داہر تھا۔ سندھ کے ایک اور گراں قدر محقق و مورخ ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی رقمطراز ہیں کہ ’’ سندھ نے اس زمانے میں ممتاز علماء پیدا کیے جن میں مختلف علوم مثلاً حدیث تفسیر نحو ادب فقہ اور شعر و شاعری میں بہت بڑا مقام پیدا کیا ہے‘‘ (سندھ سیاحن جی نظر میں ص ۲۱) محمد بن قاسم کی موت کیسے ہوئی ؟ سیکولر طبقہ کے متعصبین نے محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے بھی ایک روایت کی بنیاد پر محمد بن قاسم کا مذاق اڑیا ہے ۔ چچ نامہ کی اس روایت کا خلاصہ یہ ہے: محمد ابن علی عبدالحسن ہمدانی کہتے ہیں ک جب رائے داہر قتل ہوگیاتو محمد بن قاسم نے اسکی لڑکیوں کو اپنے محل میں قید کردیا اور پھراپنے حبشی غلاموں کے ہاتھ انہیں اپنے حاکم سلیمان بن عبدالملک کو بھجوا دیا۔ جب خلیفہ نے انہیں اپنے حرم میں بلایا تو راجہ داہر کی بیٹیوں نےخلیفہ سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیوں کہ محمد بن قاسم نے انہیں پہلے ہی استعمال کر لیا تھا۔ اس بات پر وہ بہت ناراض ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں بند کر کے واپس لے آؤ۔ محمد بن قاسم کو خط ادھفر میں ملا ۔اس کے حکم پر عمل کیا گیا تاہم بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے محمد بن قاسم کی راستے ہی میں موت واقع ہو گئی۔ بعد میں خلیفہ کو راجہ داہر کی بیٹیوں کا جھوٹ معلوم ہو گیا۔ اس نے محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا۔ حجاج نے ان لڑکیوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔ یہ روایت کس حد تک درست ہے: غور کیا جائے تو اس روایت میں بہت سے تضادات اور بترتیب تاریخی غلطیاں ہیں۔ چچنامہ کے مطابق “محمد ابن علی ابو حسن حمدانی کہتے ہیں کہ جب رائی داہر مارا گیا، (تو) اسکی دو بیٹیوں کو انکے محل میں قید کر دیا گیا اور محمد بن قاسم نے انہیں اپنے حبشی غلاموں کی حفاظت میں بغداد بھجوادیا۔” اس ہی کتاب (چچنامہ) میں ہمیں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ محمد بن قاسم آودھافر کے اندر “ہار رائی چندر” کے خلاف اپنے فوجیوں کو تھکا دیا: “آج ہم اس بدبخت کافر کا قلع قمع کرنے آئے ہیں،” اور اس ہی سے تھوڑا سا آگے ہم پڑھتے ہیں، “اگلے دن تختِ حکومت سے ایک اونٹ سوار فرمان لیکر آتا ہے۔” اس سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن قاسم کو خلیفہ کے وہ فرمان تب موصول ہوئے جب ملتان کی فتح کے بعد جب وہ کانوج پر حملے کرنے پر غور کر رہا تھا۔ اب چچنامہ کا کاتب کہتا ہے، “ملعون داہر غروبِ آفتاب کے وقت قلع راور میں، 10 رمضان، سنہ 712 93 ہجری ، بروز جمعرات مارا گیا۔” ( See supra, p. 2. 4. £. & D., Vol. I, p. 208. 5. Ibid., p. 209. 6. Ibid., p. 170.) ہم یہ جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم کو وہ جان لیوا فرمان آودھافر میں (96 A.H) میں ملے۔۔۔!! سزا کے عمل درآمد میں یہ کئی سالوں پر پھیلی بےجا تاخیر جس کے دوران بہت سے خطوط محمد بن قاسم نے حجاج کی طرف بھیجے اور موصول کئے جنکا ذکر ہی نہیں ملتا۔ جیسا کہ محمد ابن عبد الحسن حمدانی، محمد بن قاسم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ راجا داہر کی موت کے بعد اسکی بیٹیوں کو قید کیا گیا اور بعد میں خلیفہ کی طرف بھیج دیا، تو وہ یقیناً زیادہ سے زیادہ دو ماہ کے عرصہ میں دارالحکومت پہنچ گئی ہونگی؛ اور پھر یہ بات کہ خلیفہ نے انہیں اپنے بستر پر بلایا اور “کچھ دن کے بعد” یہ خبر ملی کہ محمد قاسم نے انہیں خلیفہ کے پاس بھیجنے سے پہلے اپنے ساتھ رکھا اور (محمد بن قاسم کیلئے) سزائے موت کے فرمان جاری کئے تو یہ فرمان زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر اندر ہی محمد بن قاسم کو مل چکے ہونگے نہ کہ راجہ داہر کی موت اور راور سے اسکی بیٹیوں کے خروج کے “کئی سال بعد”۔۔!!! کیونکہ اسی چچ نامہ میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے لوگوں کی بدھ مندر کے تعمیر کروائے جانے کی درخواست حجاج کو بھیج دی تھی اور اسکا جواب “کچھ دن بعد” ہی موصول ہوگیا تھا نہ کہ کئی مہینے یا سالوں کے بعد۔ ۔۔!! یہ سب نکات اس کہانی پر سے پردہ ہٹانے کیلئے کافی ہیں ۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے ایسے پوائنٹس ہیں جو اسکے رد میں دلیل دیتے ہیں تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی نے بھی اسے لیے لکھا کہ : “محمد بن قاسم کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے حکم سے کچے چمڑے میں بند کر کے لے جایا جانا من گھڑت قصہ ہے، عرب مورخین نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔( تاریخ سندھ – اعجاز الحق قدوسی صفحہ۔ 228-229]) عرب مورخین میں مشہور مسلمان مورخ أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري نے مسلمانوں کے ابتدائی دور کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔ البلاذري نے ایک کتاب فتوح البلدان کے نام سے ہے جس کا انگریزی ترجمہ فلپ کے ہِٹی(Philip K Hitti) نے ‘The Origins of the Islamic State’کے نام سے کیا ہے۔ البلاذري کے مطابق714ء میں حجاج کی موت کے بعد اُس کے بھائی سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اُس نے عنان حکومت سنبھالتے ہی حجاج کے رشتہ داروں اور منظورِنظر افراد کو قید کروا دیا۔ محمد بن قاسم بھی حجاج بن یوسف کے پسندیدہ افراد میں گنا جاتا تھا(یاد رہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا داماد بھی تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ بھانجا یا بھتیجا بھی تھا)۔ چنانچہ سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب ان گرفتاری کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کردیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انہیں واسط کے قید خانے میں قید کروادیا۔ مورخین نے لکھا ہے جب سلیمان نے محمد بن قاسم کے قتل کے احکامات دے دئے تو حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو خبر مل گئی ۔ تو آپ خبر ملتے ہی فوراً سلیمان کے دربار میں پہنچے۔ اور سلیمان سے کہا کہ یہ کیا تم ظلم کرتے ہو۔ حجاج کے گناہوں کی سزا ایک بے قصور کو دیتے ہو۔ اور وہ بھی اس شخص کو جس نے اسلام کی بے حد خدمت کی ہے۔ سلیمان چونکہ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بے حد عزت کرتا تھا۔ تو آپ کے سمجھانے پر بے حد نادم ہوا۔ اور فوراً قتل کے احکامات کی واپسی کا خط لکھ کر حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خود یہ خط لے کر واسط کے قید خانے کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب آپ واسط کے قید خانے کے قریب پہنچے تو دیکھا لوگ ایک جنازہ اٹھائے آرہے ہیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ فاتح سندھ کو شہید کر دیا گیا ہے اور یہ اسی کا جنازہ ہے۔ اس عظیم شخصیت کی شہاد ت پر آپ کو بے حد دکھ ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کافی دیر تک روتے رہے۔


مئی  ,29  1453 : رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ دنیا کے ایک قدیم اور عظیم شہر کی فصیلوں اور گنبدوں پر سے 19ویں قمری تاریخ کا زرد چاند تیزی سے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا ہے جیسے اسے کسی شدید خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس زوال آمادہ چاند کی ملگجی روشنی میں دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہر کی فصیلوں کے باہر فوجوں کے پرے منظم مستقل مزاجی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کے دل میں احساس ہے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ شہر قسطنطنیہ (موجودہ نام: استنبول) ہے اور فصیلوں کے باہر عثمانی فوج آخری ہلہ بولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عثمانی توپوں کو شہر پناہ پر گولے برساتے ہوئے 47 دن گزر چکے ہیں۔ کمانڈروں نے خاص طور پر تین مقامات پر گولہ باری مرکوز رکھ کر فصیل کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔


21 سالہ عثمانی سلطان محمد ثانی غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حتمی یلغار فصیل کے ‘میسو ٹیکیون’ کہلانے والے وسطی حصے سے کی جائے گی جس میں کم از کم نو شگاف پڑ چکے ہیں اور خندق کا بڑا حصہ پاٹ دیا گیا ہے۔ سر پر بھاری پگڑ باندھے اور طلائی خلعت میں ملبوس سلطان نے اپنے سپاہیوں کو ترکی زبان میں مخاطب کیا: ‘میرے دوستوں اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!’ اس کے ساتھ ہی نقاروں، قرنوں، طبلوں اور بگلوں کے شور نے رات کی خاموشی کو تار تار کر دیا، لیکن اس کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنائی دیے جا سکتے تھے جنھوں نے فصیل کے کمزور حصوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک طرف خشکی سے اور دوسری طرف سے سمندر میں بحری جہازوں پر نصب توپوں کے دہانوں نے آگ برسانا شروع کر دی۔ کریک فائر


عرب بحری بیڑے کے پاس آتشِ یونانی کا کوئی جواب نہیں تھا بازنطینی سپاہی اس حملے کے لیے فصیلوں پر تیار کھڑے تھے۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے نے ان کے حوصلے پست اور اعصاب شکستہ کر دیے تھے۔ بہت شہری بھی مدد کے لیے فصیلوں پر آ پہنچے اور پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے اکٹھا ہونے والے حملہ آوروں پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسرے اپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے شہر کے متعدد چرچوں کی گھنٹیاں پوری طاقت سے بجانا شروع کر دیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو ابھی تک سو رہے تھے۔ ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ میں اکٹھی ہو گئی۔ دفاعی فوج نے جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’


روشنی پھیلنے تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو چکا تھا۔ جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔ 1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔


شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ ‘تاریک دور’ سے گزر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔ ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔ تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا: بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت (اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں) قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ ‘قسطنطنیہ’ بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔ عرب بحری بیڑے کے پاس آتشِ یونانی کا کوئی جواب نہیں تھا آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔ عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔ عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔ اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔ اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبدالملک نے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا، اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔ مسجد ابوایوب انصاری مسجد ابو ایوب انصاری آج بھی ترکوں کے لیے مقدس مقام کا درجہ رکھتی ہے

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔ شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔ سلیمان عالیشان سلیمان عالیشان نے قسطنطنیہ کو نئی بلندیوں سے روشناس کروایا


سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: ‘جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔’ صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔ اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار، اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔ سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔ سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دارالخلافہ، اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔ سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے ‘میرا سلطان’ میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔ یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔ 29 مئی 1453 کو جمعرات ہی کا دن تھا۔

خلافتِ عثمانیہ کا عروج و زوال - عمر ابراہیم - ما ئیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق on April 17, 2020


پندرہویں اور سولہویں صدی میں، مسلم کلاسیکی تاریخ سہ پہر کے بعد شام کا رخ کررہی تھی، سائے گہرے ہورہے تھے، ماضی مستقبل سے بہتر لگ رہا تھا۔ دمشق، بغداد، اندلس، اور خراسان کی شان وشوکت عرصہ ہوا قصۂ پارینہ ہوچکی تھی۔ اگرچہ تہذیبِ اسلامی روبہ زوال تھی، مسلمانوں کے ایک گروہ نے ایک آخری بھرپور کوشش کی کہ کسی طور بقائے باہمی ممکن بنائی جاسکے۔ یہ عثمان ترک تھے۔ بیشتر دنیا اُن کی طاقت کے آگے لرزاں رہی۔ عربوں کی پہلی فتح کے ہزار سال بعد، جب سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ وقوع پذیر ہوچکے تھے، عثمان ترکوں نے عرب دنیا کو ازسرِنو تعمیر کیا، تاہم اندلس وہ واپس نہ لے سکے۔ انھوں نے اسپین کی جگہ بلقان کی ریاستوں پر فتوحات حاصل کیں، اور رومانیہ سے پولینڈ کی جنوبی سرحدوں تک پہنچ گئے۔ اُن کا دارالحکومت بغداد نہیں بلکہ استنبول تھا، اور انھوں نے ہمیشہ کے لیے بازنطینی سلطنت کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا تھا۔ وہ باسفورس کے پانیوں سے تین براعظموں میں دور تک واحد مقتدر قوت تھے۔ وہ سائبیریا کے برف زاروں سے ترکی تک سو سال کا طویل فاتحانہ سفر طے کرکے قدیم چین کے دروازے پردستک دے رہے تھے، جہاں وہ Tu K’ueکے نام سے پکارے گئے۔ ترک محض طاقت کی علامت نہ تھے، بلکہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوںکے بھی مالک تھے، انھوں نے ایک ایسی عالمی سلطنت مستحکم کی، جو چھے صدیوں تک قائم رہی، اور بیسویں صدی تک یہ سفر جاری رہا۔ عثمانی سلطنت میں مذہبی رواداری، بین المذاہب معاشرتی زندگی، اور انصاف کی فراوانی تھی۔ یہ سن 1492ء تھا، استنبول کی بندرگاہوں سے، ابھی جب کہ ترکوں کے ہاتھوں بازنطینی قسطنطنیہ کی فتح کو چالیس سال ہی گزرے تھے، ایک چھوٹی سی غیر ملکی کشتی آتی ہوئی نظر آئی۔ سلطان بایزید ثانی کا وفد وزیراعظم کی سربراہی میں کسی کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا۔ کشتی میں آنے والے بھی کسی ملک کے نمائندے لگتے تھے۔ آخر کون تھے یہ مہمان؟ جب کشتی حدِّ نگاہ میں داخل ہوئی، توصاف دیکھا جاسکتا تھا کہ آنے والے کوئی مسافر نہ تھے بلکہ تھکے ہارے پناہ گزین تھے، جو اپنا وطن کھوچکے تھے، ایسا نقصان اٹھا چکے تھے کہ جس کی تلافی ممکن نہ تھی، وہ پوری ایک تاریخ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ انھوں نے ترک عثمان حکومت کی جانب سے پناہ کی دعوت قبول کرلی تھی۔ یہ اندلس کے سفاردی یہودی پناہ گزین تھے۔ یہ غرناطہ، قرطبہ، اشبیلیہ اور میڈرڈ کے رہنے والے تھے۔ یہ وہ شہر تھے جو کبھی عظیم سہ مذہبی ریاست کا حصہ تھے۔ ان سفاردیوں کو اندلس سے ملکہ ازابیلا کے حکم پرجلا وطن کردیا گیا تھا۔ انھوں نے جبراً عیسائی بن جانے یا موت پر جلا وطنی کو ترجیح دی، اور عثمانی خلافت کے سائے میں پناہ لینا پسند کیا، اور استنبول میں بودو باش اختیارکی۔ یہودیوں کے اس نئے گھر میں، جہاں ترک مسلمانوں کی عمل داری تھی، ہزاروں آرتھوڈکس عیسائی بھی آباد تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آرتھوڈکس عیسائیوں کی سر قبیلی آماج گاہ تھی۔ استنبول میں پہلے ہی سے کئی یہودی مہاجرین آباد تھے۔ عثمانی ترک سلطنت دراصل ہم آہنگ اور باہم مذہبی معاشرت کی تجسیمِ نو تھی۔ یہاں وہ سارے مذاہب پھر سے یکجا ہوگئے تھے، جن کی تہذیبی آبیاری گزشتہ مسلم ادوار میں ہوئی تھی۔ ترکی واحد مسلم مثالی معاشرہ نہ تھا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں، یہودی اور عیسائی پوری مسلم دنیا میں آباد تھے۔ مصر، عراق، شام، اور ہندوستان میں عیسائیوں کی بڑی بڑی اقلیتیں موجود تھیں۔ مراکش کے شہروں سے پورے شمالی افریقا میں، مصر سے ایران تک بڑی بڑی یہودی کمیونٹیز پھل پھول رہی تھیں۔ مگر عثمانی ترک سلطنت میں یہ رویہ کوئی خاموش غیر سرکاری پالیسی نہ تھا، بلکہ اعلانیہ اور واضح تھا۔ سلطانوں کے فرمان میں صاف لکھا تھا کہ ’’ترک گورنر ہرگز کسی یہودی کو داخل ہونے سے نہیں روکیں گے، اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہونے دیں گے، بلکہ عزت و تکریم سے اُن کا خیر مقدم کریں گے۔‘‘ یہودیوں کی استنبول آمد کے صرف چھے سال بعد، عثمانی سلطنت اپنی سیاسی و عسکری قوت کے اوج پر پہنچ گئی تھی۔ ترک اور اُن کی افسر شاہی نے بیس لاکھ اسکوائر میل سے زائد زمین اور لاکھوں میل ملحقہ سمندری علاقوں کا انتظام خوبی سے سنبھالا ہوا تھا۔ ترکوں کی گرفت میں وہ زمینیں اور لوگ تھے، جو عمان سے بحرہند اور جنوب مغربی ایشیا میں دور تک، جنوبی پولینڈ اور روس سے یورپ کے شمال مشرقی علاقوں تک، اور مراکش سے پورے شمالی افریقا تک پھیلے ہوئے تھے۔ ترک بیڑے بحر روم پر راج کرتے تھے۔ ترک نقشہ ساز عالمی مہم جوئیوں میں اُسی طرح مصروف تھے، کہ جس طرح اُن کے دشمن اسپین سے شمالی و جنوبی امریکہ میں نئی دنیائیں تلاش کررہے تھے۔ یہ عظیم سلطنت اپنے اندر ایک کائنات تھی۔ یہاں عرب، بازنطینی، یونانی، سرب، بوسنیائی، کروٹس، پولس، یوکرائنی، چیک، سلووک، ہنگرین، آسٹریائی، رومانینز، فارسی، قفقازی، بربر، آذربائیجانی، آرمینی، جارجیائی، صومالی، اور ایتھوپین ہم آہنگی سے مساویانہ زندگی گزار رہے تھے۔ زبانیں اور لب و لہجے بے شمار تھے۔ ایسی ریاست میں اسپین کے لٹے پٹے یہودیوں کا خیرمقدم کیوں نہ کیا جاتا؟ بغداد اور قرطبہ سے قاہرہ تک، اور پھر استنبول کی خلافت میں دیگر مذاہب اور نسل کے لوگوں کو ہمیشہ حمایت اورسرپرستی حاصل رہی ہے۔ سلطان کے شاہی محافظ اور دستے زیادہ تر بلقانی مسیحی نوجوانوں پر مشتمل تھے۔ تاہم انھیں شادی اور خاندان تشکیل دینے کی اجازت نہ تھی، تاکہ وہ ساری زندگی شاہی خدمات میں پوری طرح صرف کرسکیں۔ یہاں تک کہ چند عیسائی اعلیٰ وزارتوں تک پہنچے، اور سلطان سلیمان کے دور سے تین نسلوں تک نمایاں وزارتی حیثیتوں میں کام کرتے رہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ عظیم الشان سلطنت دیگر حکومتوں کی طرح موروثی انتظامیہ پرقائم نہ تھی، بلکہ قابلیت کی بنیاد پر نوجوان حکام کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ یہ تعلیمی اداروں سے امتیازی کارکردگی کی بنیاد پرچنے جاتے تھے، اور سینئرعہدوں تک پہنچتے تھے۔ اس پر مزید انوکھی بات یہ ہے کہ اکثر غیر مسلم ہوتے تھے۔ البتہ عثمانی خلافت موروثی تھی۔ استنبول کا سلطان حرمین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا والی کہلاتا تھا، اور خلیفۂ وقت خدا کا زمین پر نمائندہ تھا۔ ترک حکومت نے ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا کہ جس میں مسلمانوں کے لیے شرعی قوانین، اور دیگر کے لیے اُن کی شریعتوں کے قوانین لاگوکیے گئے تھے۔ تاہم ریاست کے کاروباری معاملات کے لیے سول قوانین بنائے گئے تھے۔ دیگر مذاہب اور نسلوں کے لیے برداشت اور ہم آہنگی کا رویہ اسوۂ حسنہ اور خلافتِ راشدہ کے طرزِ حکمرانی کا ہی تسلسل تھا، جسے خوبی سے قائم رکھا گیا تھا۔ طاقت، انصاف، اور موافقت کے اس ماحول نے ترک سلطنت کی عظمت مستحکم کردی تھی۔ اس معاملے میں سلطان سلیمان اوّل کا کردار سب سے نمایاں رہا، اس کا زرّیں دور 1526ء سے 1566ء تک طویل اور عظیم الشان تھا۔ یہ1566ء کے موسم خزاں کی ابتدا تھی۔ سلیمان توپ قاپی محل کی بالکونی میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا، باسفورس کے پانیوں میں شام ڈھل رہی تھی، چاند ٹھنڈی لہروں پر جھلک رہا تھا، ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ 71 سالہ بوڑھا، گوکہ اب تک وہ روئے زمین کا سب سے طاقت ور حکمران تھا، آج بالکل تنہا تھا۔ اُس کی چہیتی یوکرائنی نژاد بیوی خرم سلطان آٹھ برس ہوئے دنیا سے رخصت ہوچکی تھی، اُس کے چہیتے بیٹے بھی خانہ جنگی یا صحت کی خرابی سے چل بسے تھے۔ اُسے اس مرحلے پر یہ خبر بھی ملی تھی کہ ہنگری، جسے وہ چھے بار مغلوب کرچکا تھا، پھر مشکلات کھڑی کررہا تھا۔ اب اس عمر اور تنہائی میں کیا میدانِ جنگ اُس کے لیے کسی دلچسپی کا حامل ہوسکتا تھا؟ جبکہ وہ دس سال سے میدانِ جنگ سے دور رہا تھا۔ یہ بہت مشکل لگ رہا تھا۔ یہ وہ حکمران تھا کہ جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ انجیلی ہم نام (حضرت سلیمان علیہ السلام) کی مانند ہے، جسے زوال نہیں۔ آسٹریائی سفیرBaron de Busbecq، جو سلیمان عالیشان کے دور میں استنبول میں تعینات تھا، 1555ء میں سلطان سے ملا تھا کہ جب اُس کی عمر ساٹھ برس تھی، وہ اپنی یادداشتوں میں سلطان کی بابت لکھتا ہے: ’’اُس کا تاثر ایک ایسا چہرہ، جس پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی، ایک تمکنت، کہ جس میں باوقار سی اداسی محسوس ہوتی تھی۔ وہ گئے برسوں سے بوجھل معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اُس کا رکھ رکھاؤ اور حلیہ ایک عظیم الشان ریاست کے شاندار حکمران کا سا تھا۔‘‘ خلیفہ سلیمان کے بارے میں ایک تلخ تصور یہ ہے کہ یورپ میں کسی بھی مقامی حکمران سے زیادہ وہ پروٹسٹنٹ ازم کی پیش قدمی میں مددگار ثابت ہوا۔ ابتدا میں فرانسیسی بادشاہ فرانسس اوّل سے اُس کے اتحاد کے باعث ایسا ہوا، فرانسس پروٹسٹنٹ مفادات کے لیے کام کررہا تھا، جبکہ مخالفت میں زیادہ طاقت ور کیتھولک قوتیں اسپین کے چارلس پنجم کے ساتھ میدان میں تھیں۔ بزلہ سنج اور منصف ہونے کے ساتھ ساتھ، سلیمان ایک ماہر جنگجو، عسکری چالوں میں مشاق، ہتھیاروں کی پہچان اور سپہ سالاری میں عمدہ صلاحیتوں کا حامل تھا۔ سن 1521ء میں اُس نے بلغراد فتح کیا، اور اگلے ہی سال جزیرہ رہوڈز کو سرنگوں کیا، سن 1526ء میں ہنگری کو پسپا کیا، اور وسطی یورپ میں ویانا کے دروازے تک پہنچ گیا، 1529ء کے ستمبر سے اکتوبر تک اُس نے ویانا کا محاصرہ کیے رکھا۔ سن 1534ء میں سلیمان کی فوجوں نے فارس کے خلاف کامیاب جنگی مہم چلائی، عرب دنیا میں وہ شمالی افریقا تک فتح کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا، اور بحر احمر کی بندرگاہ عدن پر جاکر رکا۔ تاہم مالٹا میں اُسے ناکامی کا سامنا ہوا۔ سلیمان عربی، فارسی شاعری میں صوفیانہ درک بھی رکھتا تھا، خود بھی شاعرتھا۔ اپنے ایک دوہے میں لکھتا ہے: مری تنہائی کی دولت، مری محبت، مری چاندنی مری مخلص دوست، مری رازداں، مرا وجود، مری سلطانہ سب حسیناؤں سے حسین…۔ مری بہار کا سماں، مری مسکراتی صبح، مری دلگداز شام مری محبوب، مرا گلاب، اس دنیا میں مرے دل کا سکون یہ حسین زلفیں، یہ ابرو، یہ نگاہیں مرے محبوب، ترے حُسن کے گیت ہمیشہ گنگناؤں گا میں، ایک دکھی دل لیے، آنکھوں میں آنسو پیے، خوش ہوں… تاہم شاعری اُس کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ سے زیادہ کچھ نہ تھی، تلخ سیاسی فیصلوں کے کرب سے بچنے کے لیے جہاں وہ پناہ لیتا تھا۔ یہ فیصلے اسے ہر روز ہی لینے پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر، اسے اپنے ہی دوبیٹوں کو سزائے موت دینی پڑی تھی۔ بایزید اور مصطفیٰ، جنھیں بغاوت کی سازشوں میں ملوث ہونے پرگرفتار کیا گیا تھا۔ کیسی کیسی تلخ یادیں بوجھ بن چکی تھیں۔ ایک دن مؤرخ کو یہ لکھنا پڑا کہ سلطنتِ عثمانیہ میں شہزادوں کی بغاوتوں کی روایت نے حالات انتہائی مشکل بنادیے تھے۔ بعدازاں قفس کے قانون کا نفاذ شاید سنگین ترین غلطی ثابت ہوا۔ اس قانون کے تحت ممکنہ جانشینوں کو نظربند رکھا جاتا تھا کہ کہیں اقتدار کی خاطر بغاوتیں نہ کرتے پھریں۔ مگر پھر یہی قانون آگے چل کر خلافتِ عثمانیہ کے زوال کا ایک سبب قرار پایا۔ ترک بدقسمتی سے شاہی جانشینی کوکوئی منظم ادارتی شکل نہ دے سکے تھے۔ یہ ایک خطرناک حقیقت تھی کہ اس عظیم الشان ریاست کے معماروں نے اس سلسلے میں بڑی غفلت کا ارتکاب کیا تھا۔ جس طرح بازنطینی ممکنہ حریف جانشینوں کو مروا دیا کرتے تھے، کچھ یہی رویہ عثمان ترکوں نے بھی اختیار کرلیا تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ سلطان سب سے بڑے بیٹے کے بجائے جس بیٹے کو بھی زیادہ اہل سمجھے، یا چہیتا خیال کرے، اُسے اپنا ولی عہد نامزد کرسکے۔ وجہ اس کی جو بھی بنی، نتیجہ اقتدار کی خونیں کشمکش کی صورت میں سامنے آیا، اور اس میں سلطان کی بیویوں کے سازشی کردار کلیدی ثابت ہوئے۔ یوں کئی صدیوں تک یہ محلاتی سازشیں سلطنتِ عثمانیہ کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُس شام سلیمان کو ہنگری کے بارے میں فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئی۔ اگلی صبح اُس نے سیاسی مشیر محمد پاشا اور قانونی مشیر ابوسعود کو طلب کیا، اور ہنگری کے معاملے میں رائے مانگی۔ ’’ہم آپ کی یہ مہم انجام تک پہنچائیں گے‘‘ انھوں نے انتہائی مؤدبانہ لہجے میں گزارش کی۔ دوماہ بعد نومبر میں، سلیمان عالیشان نے جنگ کا حکم دے دیا۔ شمال میں ہنگری کے محاذ پر فوجیں روانہ کردی گئیں۔ وہ بھی اُن سے ایک مقام پر آملا تھا۔ ترک آسٹریا اور عالم عیسائیت کی سرحدوں پر صف بہ صف ہوگئے تھے۔ موسم انتہائی سرد اور نم تھا۔ وہ پہلے بھی کئی بار اس مقام پراپنی فوج کی قیادت کرچکا تھا، مگر اِس بار وہ بیمار اور ضعیف تھا، زندگی کے دن پورے ہورہے تھے، عجیب مایوسی ماحول پر طاری تھی۔ اُس کا سارا تزک واحتشام ایک غیرمحسوس اداسی لیے ہوئے تھا۔ گو کہ اُس کی فوجیں بڑی زورآور تھیں، مگر زندگی ساتھ چھوڑ گئی۔ سلیمان عالیشان دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا، مگر تاریخ آگے بڑھ گئی۔ مؤرخین نے اُس کی موت کو ترک عثمانوں کے زوال کا اشارہ قرار دیا۔ سوسال بعد ایک اور ترک سلطان نے ویانا کا محاصرہ کیا، اور اُس کی شکست خلافتِ عثمانیہ کی آخری یورپی مہم ثابت ہوئی۔ تاہم باسفورس کی سدا بہار لہروں پر زندگی جھلملاتی رہی۔ مرمرہ میں بڑے بڑے جہازوں کی آمد اور چھوٹی کشتیوں کی سیر جاری رہی۔ ایک اور سلطان اقتدار میں آچکا تھا، مگر اُس کا کام دربار تک محدود ہوچکا تھا، اور معاملات درباریوں کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ عظیم الشان سلطنت تین سو پچاس سال قائم رہی، تاہم زوال پذیر رہی۔ اس کمزور صورتِ حال کی وجہ سلیمان جیسی قیادت کی کمی تھی۔ دھیرے دھیرے ترک انتظامیہ کے تاروپود بکھرنے لگے، ماتحت ریاستیں ایک ایک کرکے آزاد ہوتی چلی گئیں۔ کریمیا، ایران، آرمینیا، اور جارجیا آزاد و خودمختار ہوگئے۔ رومانیہ نے 1877ء میں آزادی حاصل کی۔ بلغاریہ نے 1908ء میں اعلانِ آزادی کیا۔ البانیہ 1917ء میں الگ ہوا۔ یمن 1918ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ نہ رہا۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست نے اس عظیم خلافت کا حتمی طور پر خاتمہ کردیا۔



بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط -3: تذکرہ حضرت سید احمد شہید on January 04, 2017


برصغیر میں اسلام کے احیاء کی تحریک اور یہاں انگریزوں کا قبضہ ،1857 کی جنگ آزادی، مجاہدین آزادی اوران پر آزمائشیں ، مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ، بہادر شاہ محمد ظفر کی گرفتاری و جلاوطنی , ہندوستان سے آزادی ، اور عالم اسلام میں اسلامی و سیاسی بیداری ، عثمانی سلطنت کا عروج و زوال ، عالمی جنگیں اور خلافت ا سلامی کا اختتام ، تحریک پاکستان - ان تمام حالات کی تاریخ پر میرا حاصل مطالعہ روزنامہ جسارت ( سنڈے میگزین )میں گزشتہ دیڑھ سال سے مسلسل جاری ہے - یہ تاریخی سلسلہ مزید بھی جاری رہے گا - ان شااللہ تاہم احباب کے پرزور اصرار پر بلاگ کی زینت بنا رہا ہوں - آپ کی رائے اور مشوروں کا منتظر - نجیب ایوبی


سولھویں صدی عیسوی میں حضرت مجدد الف ثانی (رح ) کے فقید المثال تجدیدی خدمات اورپھر سترہویں صدی عیسوی میں حضرت شاہ ولی الله (رح ) کی اصلاحی تحریک کے بعد اسلام کے نظام کو عملا نافذ کرنے کی جدوجہد کا رونما ہونا ایک فطری امر تھا -

شاہ ولی الله کی افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کو مرہٹوں خلاف حملے کی دعوت بھی اسلامی نظام کو عملا جاری کرنے کی ایک کوشش تھی - ستر ہویں اور اٹھارویں صدی اپنے آغاز سے اختتام تک پر ہنگام صدی کے طور پر یاد رکھی جائے گی -

برصغیر میں احیائے اسلام کی پہلی مکمل تحریک اگر کوئی کہی جاسکتی ہے تو وہ " تحریک مجاہدین " ہی کہلائے گی - جس کا سہرا سید احمد شہید کے سر ہے - حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی (رح ) کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعز یز نے شاہ صاحب کے علمی کام کو آگے بڑھایا - درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رہا - شاہ عبدالعز یز (رح ) کے حلقہ میں سینکڑوں طالبان علم اپنی پیاس بجھا رہے تھے - ان ارادت مندوں کے پاس اگر کوئی کمی تھی تو وہ تھی مجاہدانہ صلاحیت کے حامل ایک انقلابی رہنما کی ، جس کی سبیل بھی الله نے خود پیدا فرمادی - شاہ علم الله ایک انتہائی دین دار بزرگ گزرے ہیں - ان کے خاندان میں سید احمد شہید 1831 عیسویں میں بھارت کے صوبے رائے بریلی میں پیدا ہوۓ ، اپنے والد( شاہ علم اللہ) کے انتقال کے بعد سترہ سال کی عمر میں تلاش روزگار کے سلسلے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ رائے بریلی سے نکل کر لکھنؤ آ گئے ، مغل سلطنت کی دگرگوں معاشی صورتحال کے باعث کسی کو بھی نوکری نہ مل سکی ، قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ،سید احمد نے وہاں سے دار ا لسلطنت دہلی کا ارادہ فرمایا - دہلی پہنچے ، روزگار کی تلاش جاری تھی کہ شاہ عبدالعز یز کے درس و تعلیم کے بارے میں معلوم ہوا - سید احمد اپنے ساتھیوں سمیت شاہ عبدالعز یز کی درس گاہ پہنچ گئے - جہاں شاہ عبدالعز یز اور شاہ عبدا لقا در سے ملاقات ہوئی - اس ملاقات کے بعد آپ نے تقریبا دو سال کا عرصہ اس درسگاہ میں گزارا، تعلیم مکمل فرمائی اور واپس بریلی چلے آئے - بریلی کے نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی - اور دوران ملازمت لشکر کے سپاہیوں میں دعوت و تبلیغ جاری رکھی جس کے نتیجے میں سپاہیوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے ساتھ شامل کرلیا - اس دوران آپ کی دعوت نواب کے لشکر سے نکل کر قرب و جوار میں پھیل چکی تھی - شاہ ولی الله کے پوتےاور شاہ عبدالغنی کے صاحبزادے جناب شاہ اسمعیل شہید ( رح ) ، جو اپنے چچا شاہ عبد العزیز کے زیرتربیت تھے ، سید احمد شہید کی دعوت جہاد کے نتیجے میں آپ کے دست راست کے طور پر آخر وقت تک ( شہادت ) شامل رہے - " تحریک مجاہدین " کیا تھی ؟ کن حالات میں لڑی گئی اور اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے ؟ ان کو جاننے اور سمجھنے کے لئے محض ایک مضمون ناکافی ہے - ممتا ز مورخ غلام رسول مہر لکھتے ہیں " یہ ایک شخصیت کی سیرت نہیں بلکہ ایک اہم دینی تحریک کی مفصل سرگزشت ہے ، جو اس عاجز کے علم کے مطابق پاک و ہند کی اسلامی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یگانہ تحریک تھی - یہ جن حالات میں شروع ہوئی وہ ہمارے عہد کے حالات سے بہت مشابہ تھے - لہٰذا اس سرگزشت میں ہمارے لئے عبرت و موعظت کا زیادہ سے زیادہ سرمایہ موجود تھا - اس کے باب میں بیگانوں کی غلط فہمیاں اور مغالطہ انگیزیاں چنداں تعجب خیز نہ تھیں ، لیکن جن یگانوں نے ان پر قلم اٹھایا وہ بھی اس کی عظمت یا صاحب دعوت کی بلند نگہی اور عزیمت کا صحیح اندازہ نہ کر سکے - یا تو ٹھوکریں کھا کھا کر اس کی آبرو لٹاتے رہے قلت معلومات کی بناء پر تذبذب میں پڑ کر کوئی واضح راہ فیصلہ پیدا نہ کرسکے -تاریخ پاک و ہند میں جس عہد کو مسلمانوں کا دور زوال کہا جاتا ہے ، یہ اسی کا ایک باب ہے " تحریک مجاہدین کی ابتداء : ابتدا میں یہ تحریک توحید کے مسخ شدہ تصورات کو آلائشوں سے پاک کرنے کی تحریک تھی ، لیکن تحریک کے قا ئدین (سید احمد شہید ، شاہ اسمعیل شہید ) اس کے آخری مرحلے یعنی جہاد بالسیف کی بابت مکمل یکسو تھے - شروع میں اس تحریک کو خالصتا اصلاحی بنیادوں پر استوار کیا گیا - مثلا توحید کے مسخ شدہ تصور کو اصل شکل میں لانا اور وہ عوامل جنہوں نے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے ان کو دور کرنا ، ہندو رسومات سے مسلمانوں کو نجات دلانی ، صوفیا ئے کرام کے نام پر اسلام میں جھوٹے افکار سے نجات دلوانا - اس مقصد کے لئے سید احمد شہید نے غازی آباد ، میرٹھ ، سہا رن پور، مرا د نگر ، سدھانہ ، مظفر نگر ، دیوبند ، تھانہ بھون ، روہیل کھنڈ، لکھنؤ ، بریلی سمیت کئی علاقوں کا دورہ کیا - آپ کے ساتھ معتمد ساتھیوں کی جماعت بھی ہوتی - اسی کے ساتھ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ احیا ئے حج کی مہم چلائی - اسلام کے اس اہم فریضے کو جسے اجتماعی حیثیت میں توک کردیا گیا تھا - بادشاہ سلامت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ " حج " کو نظرانداز کیا جاچکا ہے - کچھ علمائے وقت نے حالات کی سختی کے پیش نظر فتوی جاری کردیا تھا کہ ان حالات میں حج فرض نہیں ہے - چناچہ آپ نے حج جیسے اہم فریضے کو دوبارہ نافذ کیا - آپ کے حج سے واپسی پر لوگ جوق در جوق آپ کی بیعت حاصل کرتے رہے - ہزاروں سرفروشوں کی صورت میں آپ کو جا ں نثار میسر آچکے تھے - شاہ اسمعیل جیسے شعلہ بیاں خطیب نے جہاد کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن کردیا تھا - عالم باالعمل سید احمد شہید کی قیادت میں سرفروشان اسلام (جو زوال پزیر مسلم حکمرانوں سے مایوس ہو چکے تھے ) مجتمح ہونا شروع کردیا تھا - شاہ ولی الله ( رح ) کے نقطہ نظر کہ " مسلمان جہاد سے دور رہ کر کبھی بھی اسلامی احکامات کو نافذ نہیں کر سکتے " کو عملی جامہ پہنانے کا اس بے بہتر موقع شاید ہی کوئی اور ہوتا - ہندوستان کی مجموعی صورتحال انتہائی ابتر ہو چکی تھی ، مسلمان بادشاہت عملا معطل ہو چکی تھی -

مسلمان ریاستوں کے بیشتر حکمرانوں نے برطانوی انگریزوں سے وفاداری کا حلف اٹھا لیا تھا - مسلمان بے یارو مددگار تھے - انگریز تجارتی افسران کی فوج ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) , سکھ سرداروں ، مرہٹہ حکمرانوں نے اس کسمپرسی میں مسلما نوں اور ہندوو ں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی تھی -

یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر سکھ اور بقیہ پر انگریز اپنی عملداری قائم کر چکے تھے - ا س سے پہلے کہ ھم جہاد کے اگلے مرحلے کا ذکر کریں ضروری ہوگا کہ ھم اس وقت کے ہندوستان کی سیاسی ، اقتصادی اور زبوں حالی کا جائزہ لیں تاکہ اس وقت کا پس منظر نمایاں ہوکر سامنے آ سکے -( میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس پس منظر کو جانے بغیر ھم اس تذکرے کو محض تقدس و ثواب کی حد تک تو پڑھ سکتے ہیں ، کوئی خاطر خواہ تجزیہ نہیں کرسکتے )- اس موقع پر چند اہم واقعات اور عوامل جن کا جاننا ہم سب کے لئے ازحد ضروری ہےجن میں تجارتی کمپنی " ایسٹ انڈیا کمپنی " کا ہندوستان میں آنا ، جنگ پلاسی اور میسور سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان کی شہادت اور ریاست حیدر آباد دکن کے نظام کا انگریزوں سے معائدہ شامل ہیں - آئیں مختصرا ان عوامل کا جائزہ لیں - تجارت کی آڑ میں انگریز کا ہندوستان میں داخل ہونا ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہندوستان پر انگریز خاصی حد تک اپنا خونی اقتصادی تسلط قائم کر چکا تھا - ( آج کے حالا ت میں اور اس وقت کے حالات میں حیرت انگیز مماثلت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے -) ایسٹ انڈیا کمپنی جو بظاھر ایک تجارتی کمپنی تھی ، ا س کمپنی کو تجارتی مقاصد کے لئے 1600 عیسویں میں ملکہ برطا نیہ نے ایک اجازت نامے کے ذریعے ہندوستان میں رسائی دلوائی - 1613 عیسویں میں سورت کے مقام پر پہلا گودام بنانے کا اجازت نامہ ملا - 1662 تک اس کمپنی نے بمبئی تک اپنا عمل دخل حاصل کرلیا - یہ کمپنی درحقیقت جزائر شرق الہند میں کاروباری مقاصد اور سامان کی ترسیل و تجارت کے لئے قائم ہوئی تھی جو سماٹرا اور جاوا سے تجارتی سامان ( مصا لحہ جات ) برطانیه لے جاتی تھی - 1623 عیسویں میں ولندیزیوں نے جب جزائر شرق الہند سے انگریزوں کو دیس نکالا دیا تب سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی شکل میں نئی تجارتی مندی تلاش کرلی - ذرا اندازہ کیجئے ایسٹ انڈیا کمپنی جو خالصتا تجارتی کمپنی تھی لیکن اس کے پاس ڈھائی لاکھ کی سپاہ موجود تھی ، تجارتی اور جنگی جہازوں کی تعداد 2690 تھی - جس کا جواز دیا جاتا کہ فوج تو سمندری قزاقوں سے سامان تجارت کو بچانے کے لئے ہے - اصل مقصد یہ تھا کہ جہاں تجارت میں نفع کھٹائی میں نظر آئے وہاں سپاہ کے ذریعے نفع حاصل کرلیا جائے - جنگ پلاسی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خفیہ مقاصد کھل کر عیاں ہو گئے - ایسٹ انڈیا کمپنی کی اقتصادی دہشت گردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کمپنی کے ایک ذاتی ملازم شیخ دین محمد نے اپنے سفر نامے میں لکھا " جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت بڑی تعداد میں ہندو زائرین نظر آئے - پندرہ دن میں ہم بھاگلپور پہنچ گئے - شہر سے بھر اپنا کیمپ لگایا - یہ شہر صنعتی ا عتبار سے اہم تھا - اور ان کی اپنی فوج- بھی تھی - ہمیں پتا چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک کیپٹن بروک بھی قرب و جوار میں موجود ہے - اسے کبھی کبھار قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے - ایک دن بروک نے چند قبائلیوں کو گرفتار کرلیا ، اور ان کو عبرت کا نمونہ بنا دیا - کچھ لوگوں کو کوڑے مارے گئے اور کچھ کو پھانسی پر لٹکادیا گیا - لاشیں کچھ دن درختوں پر لٹکتی چھوڑ دیں تاکہ باغیوں کو واضح نظر آئے اور وہ عبرت حاصل کریں - کرنل گرانٹ کے حکم پر ہم نے کچھ قبائلیوں کی ناکیں اور کان کاٹ ڈالے - اور دو سو کے قریب باغیوں کو گرفتار کرلیا - اس کے بعد ہم نے کلکتہ کی جانب اپنا مارچ جاری رکھا " بنگال کا قحط اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا ریکارڈ منافع : بنگال میں ان دنوں قحط پڑا ، چاول جو عام دنوں میں ایک روپے میں ١٢٠ سیر( یعنی ڈھائی من) دستیاب ہوتا تھا ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری کے بعد ایک روپے میں تین سیر ملنے لگا - عام طور پر قحط سالی میں لگا ن معاف کردیا جاتا یا پھر اس میں تخفیف کردی جاتی ، مگر اس مرتبہ قحط میں لگان بڑھا دیا گیا - اس قحط میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک اور خوراک نہ ملنے سے مر گئے - جو کل آبادی کا تہائی تھے - جولاہوں ( کپڑا بنانے والے ) کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے برطانیہ کے بنے ہوۓ کپڑوں کو مقبول بنانے کے لئے مقامی صنعت کو تباہ کیا گیا - کپڑوں کی ہندوستانی اور بنگال کی مشہور صنعت کو بے رحمی سے تباہ کیا گیا - ماہر اور کاریگر حضرات کے دونوں ہاتھ کاٹ دے گئے - تاکہ وہ کپڑا نہ بنا سکیں - جس نے مقامی صنعت کو تباہ برباد کر کے رکھ د یا - بنگال جو ریشم کی بنت میں دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا تھا ، وہاں کے کاریگر یا تو برطانیہ منتقل کردئیے گئے ، جو زائد از ضرورت تھے ان کو " ٹن ٹا" کروادیا گیا - ٹیکس کی شرح : مغل دور میں مقامی افراد چالیس فیصد ٹیکس دیتے تھے - ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی شرح بڑھا کر ساٹھ فیصد کردی تھی - روز مرہ کی اشیا پر بھی ٹیکس لگادیا گیا . یہاں تک کہ نمک پر بھی ٹیکس دینا پڑتا تھا - کارپوریشن جس نے دنیا بدل دی روبنسن نے اپنی کتاب" "The Corporation that Change the World میں لکھتا ہے " اس کمپنی ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) نے دنیائے معیشت کی تاریخ بدل دی - صدیوں سے دولت کا بہا ؤ مغرب سے مشرق کی طرف تھا ، جنگ پلاسی سے پہلے تجارتی توازن سارے ممالک کے خلاف اور بنگال کے حق میں تھا - بنگال وہ جگہ تھی جہاں یو رپ کا سونا گم ہوجایا کرتا تھا - اور جہاں سے سونا چاندی واپس آنے کے امکا نا ت صفر تھے - 1600 عیسویں میں ہندوستان اور چین کی معیشت یورپ کی معیشت سے دوگنی تھی - اس کمپنی ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) نے ساری دولت لوٹ کر انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا - اس کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لئے دو حربے استمعال کئے - پہلا یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو رشوت سے قابو کرو ، دوسرا یہ کہ عوام کو تقسیم کرو جنگ پلاسی کی فتح سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پچیس لکھ پاونڈ کا مال غنیمت ہاتھ لگا - اندازہ لگائے کہ ڈھاکہ جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی جو معاشی اور انسانی قتل عام کی بدولت گھٹ کر صرف بیس ہزار رہ گئی- گورنر جنرل بنٹنگ نے 1834 عیسویں کو اپنی رپورٹ میں تحریر کروایا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی ترین صورتحال کی کوئی مثال نہیں ملتی ، ہندوستان کی زمین جولاہوں کی ہڈیوں ( فاسفورس ) سے سفید ہوگئی ہے " ایسٹ انڈیا کمپنی محض 187 سول سرونٹس ( ا فسران) جو بنگال میں ڈیوٹی پر مامور تھے ، تین کروڑ بنگالیوں پر حکومت کر رہے تھے - ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اور ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر لکھتا ہے " ھم نے ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر محض زراعتی ملک کی کردی ہے " جنگ پلاسی : انگریزوں کے ان عزائم کو جان لینے کے ساتھ ہی بنگال میں وہاں کے نواب صوبیدار نواب علی وردی خان نے اپنے نواسے نواب سراج الدولہ کو بنگال کا جانشین مقرر کیا - اس موقع پر یہ وصیت کی " مغربی قوتوں کی اس قوت کو ہمیشہ نظر میں رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہیں - اگر میری عمر کا پیمانہ لبریز نہ ہوچکا ہوتا تو اس خطرے کو میں از خود ختم کردیتا ، اس کام تکمیل اب تمہارے ذمے ہے " چناچہ بنگال کے نواب سراج الدولہ نے اس وصیت پر بھرپور عمل شروع کیا - بڑے پیمانے پر فوج تشکیل دی ، خصوصی توپ خا نه بنوایا - جس پر ماہر توپچیوں کو مامور کیا گیا - 1757 عیسویں کو کلکتہ کے مقام پر نواب بنگال سراج الدولہ اور انگریز جنرل کلائیو کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں - جنگ او ر اس کی تیاریوں کی خبر پہلے ہی کلائیو کو مل چکی تھی - انگریز جنرل نے رشوت اور مال غنیمت میں حصہ دینے کا لا لچ دے کر میر جعفر جو نواب کی فوج میں اہم مقام رکھتا تھا - ایک لاکھ تیس ہزار روپے کے لالچ میں لائیو کا وفادار بن گیا - اسی لالچ میں میر جعفر نے توپ خانے کے دیگر سپاہیوں اور کمان داروں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا - تیئیس جون کو جب جنگ کا آغاز ہوا تو میدان کا نقشہ ہی کچھ اور تھا - انگریز سپاہی آسانی کے ساتھ پلاسی کامعرکہ جیت چکے تھے - میر جعفر اور اس کے ساتھیوں کی غداری کی بدولت نواب سراج الدولہ کا توپ خانہ ایک بھی گولہ برسائے بنا خاموش ہوگیا - نواب کی وفادار فوج بدحواس ہوکر ادھر ادھر بکھر چکی تھی - نواب سراج الدولہ نے بمشکل بھاگ کر اپنی جان بچا نے کی آخری سی کوشش کی اور قریبی دیہات میں پناہ لی ، لیکن میر جعفر کے ساتھیوں نے ڈھونڈھ نکالا اور بیدردی سے قتل کردیا - جنگ سے فارغ ہوکر کلائیو سیدھامرشد آباد پہنچا ، جہاں فرمانروا مغل سلطنت شاہ بہادر عالم سے میر جعفر کی تقرری کا پروانہ حاصل کیا اس طرح میر جعفر کو گدی پر بیٹھا دیا گیا - لیکن غدار میر جعفر کی حکمرانی چند دنوں کی بہار ثابت ہوئی - 1759 میں پورا بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کی دسترس میں آگیا - میر جعفر کو بیدخل کردیا گیا - اس جنگ پلاسی کی کامیابی کے بعد انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی چھتری تلے اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مختلف حیلے بہانوں سے پوری سرزمین ہند کو اپنے قبضے میں لینے کی کوششیں تیز تر کردیں میسور کا شیر ٹیپو سلطان - میسور کے حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے طویل عرصہ تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپاہ کو جنوبی ہند سے دور رکھا اور متعدد معرکوں میں انگریزوں کو شکست دی - مسلمانوں اور ہندو مرہٹوں کو ساتھ ملا کر ٹیپو سلطان نے انگریز یلغار کو روکے رکھا ، مگر اپنوں کی غداری نے 1799 عیسویں میں انگریز سپاہ کو راستہ دے دیا - ٹیپو سلطان جرات اور بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہوچکا تھا - ٹیپو کی شہادت کے ساتھ ہی جنوبی ہند میں انگریز کے خلاف مزاحمت بھی دم توڑ چکی تھی - نظام دکن کی بےبسی اس کے صرف ایک سال کے بعد 1800 عیسویں میں مالی ا عتبار سے مضبوط ریاست حیدر آباد د کن کے نظام نے بھی انگریز سپاہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ، بظاھر جنگ تو نہیں ہوئی مگر انگریز اور نظام کے درمیان ایک معا یدہ مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کروائی گیی - - سید احمد کی تحریک مجاہدین کا مندرجہ بالا پس منظر انتہائی اختصار کے ساتھ آپ سامنے رکھ چکا ہوں اب سید احمد کی تحریک جہاد کا ذکر کرتے ہیں (جاری ہے )



بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک (انیسویں صدی - سیاسی جدوجہد کا آغاز ) " ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر 25‎‎‎ on May 10, 2017


برصغیر میں مجدد الف ثانی رح نے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں گم شدہ اسلامی تعلیمات کو ازسر نو زندہ کیا - اکبر کے بعد اس کا پڑ پوتا اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوا اورنگزیب عالمگیر کے پچاس سالہ دور اقتدار میں اسلام کی نشاط ثانیہ کا عمل بہت تیز ہوا ، اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مخلوط ہندو تہذیب کے اثرات نے اپنا سر اٹھانا شروع کردیا - اس یلغار کو شاہ ولی الله نے اپنی اصلاحی دعوت اور لٹریچر کی بدولت روکا- سولہویں صدی کے آغاز پر ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں تجارت کی غرض سے قدم رکھا ، بنگال میں ، کلکتہ اور دیگر علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششیں شروع کردیں ، سترھویں صدی کی ابتدا میں شاہ ولی الله کے خانوادے سے شاہ عبدا لعزیز کی شکل میں عظیم رہنما سامنے آئے ، جن کے مکتب سے دو عظیم مجاہدین شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید نے اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھایا- بنگال میں نواب سراج الدولہ نے اور میسور میں سلطان ٹیپو نےایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کی بھرپور مزاحمت کی ، مگر میر جعفر اور میر صادق کی سازشوں کی بدولت جنگ پلاسی میں سراج الدولہ اور میسور میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوئی - اٹھارویں صدی میں سید احمد شید اور شاہ اسماعیل شہید نے مرہٹہ حکمرانوں کے خلاف جدوجہد شروع کی ، اور باقاعدہ فوج ترتیب دے کر جہاد کا آغاز کیا - سکھ راجہ رنجیت سنگھ ان کے مقابلے پر آیا - سرحد میں جا کر جہاد کا آغا ز کیا - ابتدائی معرکوں میں کامیابی ہوئی اور بالا کوٹ کے آخری معرکے میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید ھوئے - 1857 میں انگریز فوج میں سور کی چربی والے کارتوسوں کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے دیسی سپاہی انگریز فوج کے خلاف ہوگئے - اور ملک بھر بھی انگریز کے خلاف بغا وت پھوٹ پڑی - باغی سپاہی دلی آگئے اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما بنا لیا - جنرل بخت خان ، فیروز شاہ دلی میں ، جھانسی میں رانی لکشمی بائی ، کانپور میں تا نیتا توپی ، اودھ میں بیگم حضرت محل سب نے بغاوت کا علم بلند کردیا - ساڑھے چار ماہ یہ کشمکش جاری رہی ، لکشمی بائی ما ری گئی - حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی - انگریز اب دلی پر حملہ کرچکا تھا - ستمبر کے درمیانی ہفتوں میں قلعہ کا محاصرہ کرلیا گیا - مرزا الہی بخش کی مخبری اور ورغلانے پر بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی - ہڈسن نے بادشاہ کو گرفتار کرلیا - شاہی گرفتارشدگان میں شہزادے بھی شامل تھے - بعد میں ان شہزادوں کے سر تن سے جدا کرکے بادشاہ کے سامنے لائے گئے - بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم سمیت ایک کال کوٹھری میں منتقل کردیا گیا - جس کے بعد دلی کی تباہی و بربادی کی المناک داستان رقم ہونا شر وع ہوئی- اس موقع پر انگریز نے اس آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کیلئے لوگوں میں سے کچھ کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تاکہ وہ اس تحریک آزادی کو ہنگامہ اور غدر ثابت کرسکیں اور یوں انگریز باوجود ظلم کرنے کےبیگناہ ثابت ہو سکے - اور ایسا ہی ہوا - آزادی کی اس تحریک کو غدر اور ہنگامہ تعبیر کیا گیا - انگریز فوج بد مست ہاتھی کی مانند ہندوستان میں قتل عام کرتی پھرتی تھی - پھانسیوں اور سزاؤں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا - اردو کے مایہ ناز شاعر مرزا غالب نے اپنے خطوط میں دلی کی تباہی کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے - بالاخر ستائیس جنوری کو بادشاہ کو عدالت میں پیش کیا گیا -ایف جے ہیرٹ وکیل سرکار تھا جبکہ بادشاہ کی جانب سے غلام عباس وکیل صفائی مقرر ہوئے- اور طویل ترین جرح کے بعد بالآخر بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کا ملزم قرار دیتے ہوئے عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی گئی ,بادشاہ کو جلاوطن کر کے رنگون روانہ کردیا گیا - بادشاہ بہادر شاہ ظفر اسیری و جلاوطنی میں رنگون میں انتقال فرما کر وہیں دفن ہوئے - اس کے بعد انگریز نے مسلمان مجاہدین و علماء کرام پر اپنا گھیرا تنگ کیا اور چن چن کر پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا - ہزاروں علماء کرام کو پھانسی دی گئی اور کالا پانی کی سزا سنائی گئی - اسی طرح امبیلا میں انگریز فوج نے مسلمانوں کو اپنے تسلط میں لینے کی کوشش کی تو مجاہدین نے شدید مزاحمت کی ،انگریز جنرل چیمبر لین زخمی ہو ا اور اس کی فوج نے پسپائی اختیار کی - جس کی سزا مولانا جعفر تھانیسری اور دیگر علماء کو کالا پانی کی صورت میں بھگتنا پڑی -

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ 1865 ء میں مقدمہ چلا کر مولانااحمدالله عظیم آبادی ، مولانایحییٰ علی ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری ، مولانا جعفرتھانیسری کو غیر آباد جزیرے انڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی ، مفتی احمدکاکوروی اورمفتی مظہرکریم دریابادی کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی ، مولانایحییٰ علی ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی وغیرہ کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری اورمولانا جعفر تھانیسری ا ٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد ا پنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری اپنی کتاب کالاپانی میں اس عزیمت کی داستان کو اسطرح بیان کرتے ہیں ”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریز نے ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔" 1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء نے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمد گنگوہی ، مولاناقاسم نانوتوی ، اورمولانامنیرنانوتوی کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ جاری ہوا ؛ لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی-حاجی امدادالله مہاجرمکی نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔ 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اختیارات واپس لیکر باقائدہ طور پر اپنی حکمرانی کا اعلان کردیا تھا -1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے نظریہ اسلام پر براہ راست حملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا گیا - حکومت برطانیہ کا نمائندہ لارڈ میکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کا ایک مفصل پروگرام بنایا،جس کی برطانوی ایوان بالا سے باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی ( یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے) - اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجس میں ایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگا مگردماغ گورا یعنی انگریزکی طرح سوچے گا“۔ بہر حال 1857ء سے شروع ہونے والی آزادی اور اسلام کی بالا دستی کے لئے یہ جدوجہد اور مزاحمت اب پوری آدھی صدی گزار کر انیسویں صدی میں داخل ہو چکی تھی - عام ہندوستانی چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو حالا ت و واقعات کی اس چکی میں پس کر ادھموا ہوچکا تھا - معاشی حالت پہلے ہی دگرگوں تھی - سماجی مقام بھی غارت ہوگیا تھا - ایسے میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی خرابیوں کی نشان د ھی کا فریضہ اٹھایا اور جہاد اور جدوجہد کو کلیتا غدر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا - روشن خیالی کی پہلی لہر کو ہندوستان میں اپنے کاندھوں پر بیٹھا کر لانے کا سہرا بجا طور پر سر سید احمد خان کے سر جاتا ہے - سر سید کے نزدیک جدید تعلیم کے ذریعے انگریزوں کی خوشنودی اور پھر سرکاری انتظامیہ کی قربت اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کا آسان ہوجانا گویا یہی سارے مسائل کا حل تھا - چنانچہ ان کی تمام تر جدوجہد انگریز سے راہ و رسم بڑھانے اور مسلمانوں کو ان کی چاپلوسی کی ترغیب دلانے میں ہی گزرتی نظرآئی - مولانا حالی نے سر سید کے خیالات کو آگے بڑھایا ،جبکہ علامہ شبلی نے ان خیالات کے آگے علمی بند باندھا اکبر الہ آبادی نے مغربی طرز فکر اور اس کی اندھی تقلید کو اپنے مخصوص ظریفانہ کلام کے ذریعے انگریز سازش کو طشت ازبام کردیا - مسلمان اور ہندو قائدین دونوں ہی انگریز کے جابرانہ تسلط سے نکلنے کی کوششوں میں تھے - اس صدی کو سیاسی جدوجہد کے نکتہ آغا ز کہا جاسکتا ہے - انگریز کے حاشیہ برداروں اور بہی خواہوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مختلف لبادے اوڑھ کر انگریز کے ساتھ راہ رسم کو عین شریعت قرار دیا اور حالات کی مجبوری کا رونا روتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہرممکن طریقے سے قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں - جدید تعلیم اور روشن خیالی ، تہذیب و تمدن کے نام پر صدیوں سے جاری نظام کی جگہ مغربی طرز زندگی کو پروموٹ کیا گیا - دوسری جانب انگریز سے پیچھا چھڑوانے والی سوچ کے حامل قائدین کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے انگریز کی سازش کو بھانپتے ہوۓ انگریز کے خلاف سیاسی جدوجہد کا عملا آغاز کردیا تھا - شخصیات کے حوالے سے اٹھاریوویں صدی کا اختتام اور انیسویں صدی کا اوائل بہت اہمیت کا حامل ہے سر سید احمد خان ، علامہ شبلی نعمانی ،مولانا ابولکلام آزاد ، مولانا عبید اللہ سندھی ، علامہ محمد اقبال ،قائد اعظم محمد علی جناح ، مہاتما گاندھی ، رام پرساد بسمل ، مولانا حسرت موہانی ،مولانا محمد علی جوہر ، اور ظفر علی خان جیسی عظیم شخصیات تاریخ کے صفحات پر اپنا کردار نقش کر چکی ہیں - سیاسی جدوجہد ، انگریز سے آزادی اور آزاد مملکتوں کے قیام کے حوالے سے بھی انیسویں صدی کو نمایاں مقام حاصل ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سیاسی بلوغت کے حوالے سے انیسویں صدی نے معراج کمال حاصل کرلیا تھا - سیاسی و مذہبی تحریکوں کے باب میں ریشمی رومال تحریک ، شدھی تحریک ، تحریک خلافت ، تحریک پاکستان،خاکسار تحریک ، سقوط حیدر آباد دکن شامل ہیں - اسی دوران عالمی منظر نامے پر عثمانی خلافت کا خاتمہ اور پہلی عا لمی جنگ عظیم جس کی ابتداء 1914 کو ہوئی - نومبر 11, 1918 کویہ خونی جنگ بند ہو گئی۔ لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔ اس جنگ کے اثرات ہندوستان پر بھی براہ راست پڑے ،اس لئے کہ یہاں کے باشندے بھی جبری طور پر اس جنگ میں جھونک دئیے گئے تھے - اس جنگ میں ایک طرف جرمنی ، آسٹریا ، ہنگری ،سلطنت ترکی اور بلغاریہ ، اور دوسری طرف برطانیہ ، فرانس ، روس ، اٹلی ، رومانیہ ، پرتگال ، جاپان اور امریکاتھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی ۔ اور صلح کی درخواست کی ۔28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اور ترکی کے بہت سے عرب مقبوضات ترکی کے سلطان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی پر بھی سیاسی تسلط کی بدولت ترکی کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں نے اپنے آلہ کار کے طور پر کمال اتاترک کو ترکی کا والی بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنا لیا اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباًً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ ناکارہ ہوگئے۔ پہلی عالمی جنگ کے ٹھنڈا پڑنے کے ساتھ ہی مشرق وسطی اور برصغیر میں سیاسی ہلچل مچ گئی - عرب مملکتوں میں انگریز اپنا قدم رکه چکا تھا - جس کے سبب وہاں کی حکومتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز ہوگیا - ترکی کی خلافت عثما نیه اپنے آخری انجام کو تھی - ساری دنیا کے مسلمانوں کی نگاہیں خلیفتہ المسلمین پر تھیں - ہندوستان میں بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے منظر نامے کو بغور دیکھا جارہا تھا (جاری ہے )


سلطان الپ ارسلان سلجوقیؒ…(۱) مسلم سپہ سالار ۔ ابن سلیمان (شمارہ 476) سلجوقیوں کا ظہور اور عروج تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے۔ وہ صفحۂ تاریخ پر اس وقت نمودار ہوئے جب خلافتِ عباسیہ کے شجرِ اقبال کو گھن لگ چکا تھا۔

سلجوقی خلفائے عباسیہ کے پشتیبان بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف عباسی خلافت کو مٹنے سے بچا لیا بلکہ ایک بار پھر دنیا میں مسلمانوں کی عظمت و سطوت کا سکہ بٹھا دیا۔ وہ جہاں اسلام کے بازوئے شمشیر زن ثابت ہوئے وہاں انہوں نے تہذیب و تمدن اور علم و ہنر کی ایسی شمعیں بھی روشن کیں کہ سارا جہان ان سے منور ہوگیا۔ سلجوقی فرمانروائوں میں سلطان طغرل بیگ، سلطان الپ ارسلان اور اس کے فرزند ملک شاہ کوتاریخ میں لازوال شہرت حاصل ہے۔ ان تینوں میں الپ ارسلان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے سلطان طغرل بیگ کی تاسیس کی ہوئی سلجوقی سلطنت کی بنیادیں اتنی مضبوط کردیں کہ دنیا میں صدیوں تک عہد سلاجقہ کے سیاسی اور تمدنی اثرات محسوس کیے جاتے رہے۔
سلطان الپ ارسلانؒ کے خاندان کا تعلق وسط ایشیا کے غزترکوں کے ایک قبیلے سے تھا جو چوتھی صدی ہجری کے وسط میں یا اس سے کچھ پہلے مشرف بہ اسلام ہو گیا تھا۔ قبول اسلام سے قبل وسطِ ایشیا کے ترک قبائل عام طور پر خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتے تھے۔ قرنِ اول اور قرنِ دوم کے مسلمانوں کی عالمگیر فتوحات کے زمانے میں اسلامی مقبوضات کی سرحدیں ترکوں کی بودوباش کے علاقوں سے جاملیں، چنانچہ مسلمان تاجروں سے ان لوگوں کا اکثر میل جول رہنے لگا۔ انہی کے زیر اثر ترکوں میں آہستہ آہستہ اسلام پھیلنا شروع ہوگیا اور وہ تہذیب کے سانچے میں ڈھلنے لگے۔ ترکوں کا جو قبیلہ اسلام قبول کرتا وہ اسلامی سلطنت کی سرحدوں پر بس جاتا ان لوگوں کو عام طور پر ترکمان کہا جاتا تھا۔ غزترکوں کے ایک قبیلے نے چوتھی صدی ہجری کے وسط میں یا اس سے کچھ پہلے اپنے وطن سے ہجرت کر کے ماوراء النہر کارخ کیا اور وہاں پہنچ کر نواحِ جند میں اقامت اختیار کرلی۔ یہاں کچھ عرصے کے بعد یہ قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ اس قبیلے کا سردار سلجوق بن دقاق( یاتقاق) تھا۔
یہ سلجوق سلطان الپ ارسلان کا مورثِ اعلیٰ تھا اور اسی کے نام کی نسبت سے اس کے خاندان اور نسل کو سلجوقی، آلِ سلجوق، سلاجقہ یاسلاجیق کہا جاتا ہے۔ سلجوق ایک مردِ مجاہد تھا۔ جب کبھی وحشی ترک اس کے علاقے کی طرف بڑھتے وہ ان کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا اور اپنے کافر بھائی بندوں سے لڑبھڑکر مسلمانوں کے مال و جان کو بچا لیتا ۔

سلجوق کی وفات کے بعد اس کے بیٹے اسرائیل (ارسلان) نے تیس بتیس برس تک ماوراء النہر کے سلجوقی ترکوں کی قیادت کی اور ان لڑائیوں میں نمایاں حصہ لیا جو سامانیوں، الک خانیوں اور غزنیوں میں ہو رہی تھیں۔ ۴۱۶ھ میں سلطان محمود غزنویؒ نے اسرائیل کو گرفتار کر کے قلعہ کالنجر(ہندوستان) میں قید کردیا۔ جہاں اس نے سات سال بعد۴۲۳ھ میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا قتلمش غزنویوں سے بچتا بچاتا اپنے عزیزوں کے پاس بخارا پہنچ گیا۔ یہی قتلمش سلاجقۂ روم کا مورثِ اعلیٰ ہے جو۷۰۰ھ/۱۳۰۰ء تک ایشیائے کو چک کے حکمران رہے اور پھر ترکانِ عثمانی ان کے جانشین بنے۔ سلجوق کا دوسرا بیٹا میکائیل غالباً اس کی زندگی ہی میں کسی جنگ میں مارا گیا تھا مگر اپنے پیچھے طغرل بیگ اور چغری بیگ دائوددونامور بیٹے چھوڑ گیا تھا۔ سلجوق کی وفات کے بعد سلجوقی دوگروہوں میں بٹ گئے تھے ایک گروہ نے اسرائیل کو اپنا سردار بنا لیا تھا اور دوسرے نے طغرل بیگ اور چغری بیگ دائود کو۔ آئندہ تیس بتیس برس جہاں اسرائیل ماوراء النہر کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتا رہا وہاں طغرل بیگ اور چغری بیگ دائود اپنے ساتھی قبائل کے ساتھ نواح جند میں خاموشی سے زندگی گزارتے رہے۔ جب تک سلطان محمود غزنویؒ زندہ رہا اس کی بے پناہ فوجی قوت اور تدبر کے سامنے سلجوقیوں کے کسی گروہ کو سراٹھانے کی ہمت نہ پڑی یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل کی گرفتاری اور قید کا کڑواگھونٹ بھی طوعاً وکرہاًپی لیا لیکن جونہی سلطان محمود نے۵۲۱ھ میں وفات پائی سلجوقیوں نے اس کے جانشین سلطان مسعود کے خلاف اپنی تک و تاز کا آغاز کردیا۔ مسعود اپنے عظیم باپ کی خوبیوں سے عاری تھا اس لیے وہ اپنی وسیع و عریض سلطنت کو نہ سنبھال سکا۔ کئی سال تک غزنویوں اور سلجوقیوں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہیں، کبھی غزنویوں کو ہزیمت ہوئی اور کبھی سلجوقیوں کو۔

بالآخر ۵۳۱ھ میں طغرل بیگ اور چغری بیگ دائود نے سرخس اور مرو کے درمیان ایک خونریز جنگ میں مسعود غزنوی کو فیصلہ کن شکست دی۔ اس کے نتیجہ میں غزنوی سلطنت اپنے مشرقی علاقوں( غزنی پنجاب وغیرہ) میں سمٹ کررہ گئی اور سلجوقی خراسان کی قسمت کے مالک بن گئے۔


وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی جارہی ہے کہ 57 سے زیادہ اسلامی ممالک اپنی اصلیت، روح اور پالیسیوں کے اعتبار سے خالصتاً ’’قوم پرست سیکولر‘‘ ریاستیں ہیں۔ اُمت ِ مسلمہ کے اجتماعی مفاد کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ جب کبھی ان کے اپنے ملک، اپنی اتھارٹی اور اپنی سرحدوں کے تحفظ کا معاملہ آن پڑتا ہے تو ہر ملک کا حکمران اور بہت حد تک عوام بھی دین تو ایک طرف، مسلک تک بھول کر صرف اور صرف قوم پرست محبِ وطن بن جاتے ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں میں اس مسلم اُمّہ کے بیشتر ممالک سے، بحیثیتِ مجموعی ایک ’’یہودی امت‘‘ کی حیثیت سے صرف اسرائیل نے جنگ کی ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کسی یہودی نے ان تمام جنگوں میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی یا جرمن ہے۔ اپنی بساط کے مطابق اس سے جو بن پڑا، اس نے رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر اسرائیل کی نذر کردیا۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد 1948ء میں اُس سے لڑنے والے صرف عرب ممالک ہی تھے۔ اسی لیے دنیا اسے عرب اسرائیل جنگ کہتی ہے۔ ملائشیا سے ایران تک پھیلی ہوئی امت کے ملک اس جنگ میں خاموش تماشائی تھے۔ اگلی جنگ جو 1967ء میں ہوئی، اس میں بھی صرف عربوں نے حصہ لیا اور عربوں نے ہی شکست بھی کھائی۔ تیسری جنگ مصر اور اسرائیل کی قومی ریاستوں کے درمیان ہوئی اور مصر فتح یاب ہوا۔ چوتھی جنگ لبنان، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہوئی اور باقی مسلم دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ اس جنگ میں اسرائیل کو ہزیمت اٹھانا پڑی، لیکن اس جنگ کی کوکھ سے ایک اور طرح کا تنازع کھڑا ہوا، اور وہ بہت خطرناک تھا۔ حزب اللہ کی کامیابی کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر عرب بالادستی کی مذموم جنگ شروع ہوگئی۔ آج اس جنگ کا ایندھن سادہ لوح مسلمان ہیں، مگر اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے جس گرم جوشی، جذبے اور کٹ مرنے کی ضرورت تھی وہ صرف اور صرف ’’مسالک کی بالادستی‘‘ کے نعرے سے ہی پیدا کیا جاسکتا تھا۔ ہر مرنے والا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھوں ہی مرا، اور ہر مارنے والے نے بھی مسلمان ہی کو مارا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کو جنت کا پروانہ دینے والے ایک مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اور دوسرے کو ایک اور مسلک والے نے جنت کی بشارت دی ہوتی ہے۔


قوم پرستی ایک ایسی لعنت ہے کہ یہ دین تو دورکی بات ہے، مسلک تک فراموش کرا دیتی ہے۔ جہاں کہیں اپنے ملک کا مفاد آگیا تو پھر کون سنّی کون شیعہ! ترکی کو صدیوں پرانا خلافتِ عثمانیہ کا خواب یاد آجاتا ہے، اور قطر کو ہزاروں سال پرانی بابل و نینوا کی سرزمین سے اپنا تعلق۔ پڑوس میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ہم مسلک تھے، لیکن ایسے ایک دوسرے پر برسے کہ جیسے صدیوں کی دشمنیاں نکالیں گے۔ ان ساری منافقتوں کے باوجود ہر لڑنے والے نے یہی نعرہ بلند کیا کہ ہم اسلام کی سربلندی اور امتِ مسلمہ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان دنوں ایک اور محاذ گرم ہوگیا ہے، اوراس محاذ میں کسی کو بھی مسلک یاد رہا اور نہ اسلام۔ آذر بائیجان اپنے پڑوسی عیسائی ملک آرمینیا سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک خطے ’’نگورنو کارا باخ‘‘ پر لڑ رہا تھا۔ دونوں میں لڑائی تیز ہوئی تو ترکی سب مسلکی اختلاف بھول گیا، اور آذربائیجان کے ساتھ عسکری طور پر شانہ بشانہ بھی کھڑا ہوگیا۔ دوسری جانب ایران کو روس کے ساتھ 1804ء کی جنگ بھی یاد آئی اور سوویت یونین کے بالشویکوں کے ساتھ لڑائیاں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے بظاہر اس سارے معاملے میں غیر جانب داری دکھائی اور فوری جنگ بندی پر زور دیا، لیکن آذربائیجان کی حکومت ایران پر براستہ روس آرمینیا کے عیسائیوں کی حمایت کا الزام لگاتی ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ کون کیا کررہا ہے، اور کون کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ معاملہ ایک وضاحت کا ہے جو ہر مسلمان کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اس وقت خطے میں جتنی بھی جنگیں چل رہی ہیں اور مسلمانوں کا کشت و خون ہورہا ہے، اس کے پیچھے نہ دین ہے اور نہ مسلک۔ یہ علاقائی بالادستی کی جنگیں ہیں۔ یہ بتانِ رنگ و بُو ہیں جو دلوں میں بسے ہوئے ہیں اور ہر ملک اپنی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق اپنی بالادستی قائم کرنے یا اپنی سرحد کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات اس جنگ کے شعلوں کی تپش سے اُڑ کر طاقتور اسرائیل کی گود میں جاکر بیٹھ چکے ہیں۔ نگورنو کارا باخ کا معاملہ بھی انسانی تاریخ میں قومی ریاستوں کے تصور سے جنم لینے والا المیہ ہے۔ یہ خطہ ہمیشہ سے ایرانی اور رومی جنگوں کا مرکز رہا ہے اور دونوں ممالک اس پر آج تک اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے صرف تین سو سال کے اندر یہ حصہ دیگر آرمینیائی علاقوں کی طرح عیسائی ہوگیا تھا۔ ایران کے ساسانی حکمرانوں نے 387 عیسوی میں اس کے کچھ حصے کو رومن بادشاہ سے چھین کر اپنا حصہ بنا لیا۔ جب مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت میں آگئے۔ خطے پر بنوامیہ، بنوعباس، سلجوق اور عثمانی حکومت کرتے رہے ہیں، اور آخرکار سوویت یونین نے قبضہ کیا تو پھر کیا آرمینیا کے عیسائی اور کیا آذربائیجان کے مسلمان… سب کی عبادت گاہیں بند کردی گئیں اور ہر مذہب کو ’’افیون‘‘ قرار دے کر ملک بدر کردیا گیا۔ سوویت یونین کا حصہ بننے سے پہلے خلافتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد تھوڑے عرصے کے لیے اس پر برطانیہ نے بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس دوران نگورنو کارا باخ والے سوویت بالشویکوں کے ساتھ ہوگئے کہ وہ ہمیں آزادی دلائیں گے، لیکن انہوں نے اسے آذربائیجان صوبے کا حصہ بنادیا۔ جب سوویت یونین ٹوٹا، ریاستیں آزاد ہوئیں، تو نگورنو کاراباخ والوں کے دل نے ایک بار پھر آزاد ہونے کی انگڑائی لی اور 1988ء سے لے کر آج تک آزادی کے لیے ہلکی پھلکی اور تیز جنگیں جاری ہیں۔ ترکی اسے ترک خلافت کا حصہ سمجھتا ہے اور آذربائیجان کا ساتھ دیتا ہے، جب کہ ایرانی اسے ساسانی و صفوی دورِ حکومت کی یادگارخیال کرتے ہیں۔ ہر طرف جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں، زمین پر انسانی بالادستی کی جنگ ہے، مگر فریب کے لیے نعرہ اللہ کی بالادستی کا لگایا جاتا ہے۔ یمن سے لے کر شام تک کے سرحدی علاقے اسلام سے پہلے ایرانیوں کے زیرتسلط تھے، پھر رومیوں کے قبضے میں چلے گئے، ان میں الگ جنگ شروع ہے۔ آج یوں لگتا ہے کہ’’بتانِ رنگ و بو‘‘ کا تعصب واپس لوٹ آیا ہے۔ مگر اب شاید پوری مسلم امت کے لیے انہی تعصبات کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آچکا ہے۔ فارس اور عرب کی تباہی کی روایات تو احادیث میں موجود ہیں مگرآذربائیجان کے ترکوں کے بارے میں بھی رسول اکرمؐ کی کئی احادیث ملتی ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ’’ترک دو مرتبہ خروج کریں گے، ایک مرتبہ آذربائیجان اور دوسری مرتبہ فرات کے کنارے۔‘‘(کتاب الفتن،1925)۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ترک دو مرتبہ خروج کریں گے، ایک آذربائیجان کے کھنڈرات میں اور دوسری مرتبہ جزیرہ میں۔ پازیب والی عورتوں کو پیچھے پالن میں بٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرے گا اور اس کی طرف سے ان پر بہت آفت آئے گی۔ اس کے بعد کوئی ترک باقی نہیں رہے گا۔‘‘ (کتاب الفتن،905) ۔ ملحمۃ الکبریٰ کا آغاز ہے جس میں عرب، فارس اور ترک سب کوچ کرجائیں گے۔ باقی وہی رہے گا جو اللہ کے دین پر خالص ہوگا۔



چینی سنکیانگ جوکبھی اسلامی مشرقی ترکستان ہوتاتھا ! تحریر :رضی الدین سید on May 04, 2019


سال ۲۰۰۹ میں بیجنگ اولمپکس کھیلوں کے ابتدائی ایام میں چین کی بعض تنظیمیں حکومت کے خلاف بعض امور پر احتجاجی مظاہرے کررہی تھیں، جن کاچرچا عالمی میڈیا میں دیر تک ہوتا رہا۔ ان مظاہرین میں عام طور پر تبّت کے باشندے شامل تھے، جن کے مطابق چین نے ان کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہوا تھا۔یاپھر معروف چینی تنظیم ’’فالان گونگ‘‘کے کارکنان تھے جنہیں چین میں خلافِ قانون قراردے دیا گیا ہے۔ لیکن اُنہی دنوں چین میں کچھ اور افراد بھی احتجاجی مظاہرے کررہے تھے، جن کے مقاصد مذکورہ بالا تنظیموں سے بالکل مختلف تھے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں ان مظاہرین کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا، اور جو کچھ کیا گیا، وہ بھی ان پر ’’دہشت گرد‘‘ ہونے کا لیبل لگاکر کیا گیا۔ ان مظاہرین میں سے بیشتر کو یا تو گرفتار کرلیا گیا تھا یا انہیں سزائے موت سنادی گئی تھی۔ مظاہرین اصل میں چین کے عظیم صوبے ’’سنکیانگ‘‘ (Xinjiang) یا ’ژونگ جیانگ‘کے باشندے تھے، جو چین کا واحد مسلم صوبہ ہے جسے چین میں شمولیت سے پہلے سینکڑوں سالوں تک ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ صوبہ جوعظیم دیوارِ چین سے متصل شاہراہِ ریشم پر کشمیر کے ساتھ واقع ہے، دسویں صدی عیسوی کے وسط میں اسلام سے آشنا ہوا تھا۔ سنکیانگ کے باشندوں نے جو ’’یوغیر‘‘ کہلاتے ہیں، ۱۷۵۹ء تک اپنے خطے پر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے حکمرانی کی تھی۔ بعدازاں اس ملک پرمعروف چینی حکمران، مانچو خاندان، نے حملہ کیا اور اپنی حکمرانی قائم کرلی، جو ۱۸۶۴ء تک برقرار رہی۔ ۱۰۵ سالہ اس عہد کے دوران ’’یوغیر آبادی‘‘ نے کم ازکم ۴۲ بار بغاوت کی۔ حتیٰ کہ اپنے ملک ’’مشرقی ترکستان‘‘ سے مانچو خاندان کو نکال باہر کیا، اور ایک معزز فرد یعقوب بیگ کی سربراہی میں ایک بار پھر خودمختار حکومت قائم کی۔ یہ ایک ایسی حکومت تھی جسے اس وقت کی عثمانی خلافت نے بھی سندِ قبولیت عطاکی تھی، جبکہ برطانیہ اور روس کے زاروں نے بھی اسے تسلیم کر لیا تھا۔ یہی وہ خطہ ہے جسے کبھی ’’کاشغر‘‘ کے تاریخی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ علامہ اقبال ؒکے مندرجہ ذیل شعر میں ہم نے ’’کاشغر‘‘ کا نام بے دھیانی میں کئی بار دہرایاہوگا: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کرتابہ خاکِ ’’کاشغر‘‘ تو کاشغر اسی مسلم مملکت کاایک حصہ تھا۔ ’’اُرمچی‘‘ جو چین کا ایک معروف شہر ہے، وہ بھی اسی سنکیانگ صوبے کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اپنی دوبارہ آزادی کے محض ۱۳سال بعد ۱۸۷۶ء میں مانچو چینی حکومت نے نئے فوجی حملے کے بعد اس ملک کو ایک بار پھر اپنے قبضے میں لے لیا اور مشرقی ترکستان کو ’’سنکیانگ‘‘ کا نیا نام دے دیا۔ تاہم اس بار بھی ’’یوغیر‘‘ تحریکوں نے مانچو قبضے کے خلاف بغاوتیں جاری رکھیں۔ آخری بار ۱۹۴۴ء میں وہاں ایک بار پھر ’’جمہوریہ مشرقی ترکستان‘‘نامی ریاست قائم ہوگئی۔ ۱۹۴۹ء میں جب چین میں کمیونسٹ پارٹی کادور دورہ شروع ہوا تو اس کے بعد اس ریاست کے خلاف ایک بار پھر متشدّدانہ کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ ۱۹۵۰ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے ریاست کو اپنے قبضے میں لے کر اسے مملکت چین کاحصہ قرار دے دیا، اور مختلف چینی خاندانوں کوآبادکرنے کاسلسلہ شروع کیاتاکہ خطے پرمکمل چینی و آہنی گرفت حاصل کی جاسکے۔چنانچہ مختلف چینی خاندانوں کو سنکیانگ میں آبادکرنے کے باعث حال اب یہ ہوگیاہے کہ ۱۹۴۹ء کی محض چھ فیصدغیرمسلم چینی آبادی کاتناسب بڑھ کر ۲۰۰۹ء میں چالیس فیصدتک پہنچ گیاہے ۔سادہ سے الفاظ میں اس کامطلب یہ ہے کہ دوکروڑکی کل آبادی میں سے اس صوبے میں غیرمسلم چینی آبادی کی تعداداب ۸۰ لاکھ سے بھی زائدہوگئی ہے۔ اگرچہ مسلم افرادچین کے دیگرصوبوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں لیکن اکثریتی مسلم آبادی کے لحاظ سے سنکیانگ ہی واحد مسلم اکثریتی چینی صوبہ ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سنکیانگ اور تبت ہی وہ دو صوبے ہیں، پورے چین کے مقابلے میں جہاں مقامی چینی آبادی اقلیت میں پائی جاتی ہے۔ چین کے لیے اس صوبے کی بڑی اہمیت ہے۔ ملک کے تمام ایٹمی دھماکے اسی صوبے میں کیے گئے تھے اور خطے کے قدرتی وسائل کابڑاحصہ بھی سنکیانگ ہی میں پایا جاتاہے جس میں کوئلے کے ذخائرکاتناسب پورے ملک کے لحاظ سے۳۸فیصد،اورپٹرول وقدرتی گیس کے ذخائرکاتناسب ۲۵ فیصد ہے، جوایک بہت بڑی شرح ہے۔ اس کی وجہ سے صوبے میں قدرتی طورپرمعاشی خوشحالی بھی درآئی ہے۔لیکن حیرت انگیرطورپراس کابیشترفائدہ باہرسے آئے ہوئے محض چینی غیرمسلم افرادکوپہنچاہے۔ چین میں تبّتی افراد کا آج جو حال پایا جاتا ہے، ’’یوغیر‘‘ مسلم افراد بھی خود کو اسی کے مشابہ پاتے ہیں۔ تبّتیوں کی طرح ’’یوغیریوں‘‘ نے بھی عشروں پرمحیط چینی حکومت کے جبروستم کو سہا ہے۔ انہیں نہ تو وہاں بنیادی شہری حقوق دیے گئے ہیں اور نہ کسی قسم کی سیاسی ومذہبی آزادی انہیں حاصل رہی ہے۔ جب بھی یہاں آزادی کی کوئی تحریک چلی، تو سابقہ وموجودہ چینی حکومتوں نے اسے بری طرح کچل دیا۔ یہ حکومتیں ہمیشہ اس بات کی خواہشمندرہی ہیں کہ یوغیری باشندوں سے اپنی قومی ومذہبی شناخت ختم کروا دیں۔ چونکہ اسلامی تحریکوں کو اسلام کے باعث ہمیشہ جذبہ ملتا رہا ہے، اس لیے حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اسلام کاکوئی ہلکا سا غیرضرر رساں اظہار بھی صوبے میں نہ ہونے پائے! وہ امور جنہیں انجام دینا سنکیانگ کے مسلمانوں کو چینی حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دیا گیا ہے، ان میں مذہبی کتابوں کا مطالعہ، سرکاری تعلیمی اداروں میں اسلامی لباس کا استعمال اور متفرق مذہبی تقریبات کا انعقاد شامل ہیں۔ صوبے میں یہ ہدایات بھی چینی حکومت ہی جاری کرتی ہے کہ مساجد کا امام کون ہوگا؟ اور قرآن کا کون سا نسخہ اس کے لیے قابل قبول ٹھہرے گا؟ وغیرہ۔ حال ہی میں متعارف کیے گئے ضوابط کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکوں پر نماز پڑھنے، اساتذہ کو داڑھیاں رکھنے اور طلبہ وطالبات پر جامعات میں قرآن پاک لانے کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جون ۲۰۱۴ء میں ایک مقامی عدالت نے پانچ اماموں کواس بنیادپرسات سال قید کی سزا سنائی تھی کہ انہوں نے مسلم حاجیوں کے سفرِسعودی عرب کے سلسلے میں انتظامات میں حصہ لیاتھا۔ان پریہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ سزاسنائے جانے کے ایک سرکاری اجتماع میں انہوں نے ملزموں کوقرآنِ پاک کے نسخے بھی فراہم کیے تھے۔ اکتوبر ۲۰۱۴ء میں چین کی حکومت نے مزیداقداما ت کیے ہیں۔ سنکیانگ کے اسکولوں میں بچوں کو مذہبی رجحانات سے دور رکھا جائے گا اور نہ تو اسکول میں اور نہ گھر میں مذہبی روایات پر عمل کرنے دیا جائے گا۔ (جنگ کراچی۔ ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۴ء) ’’یوغیری‘‘ افراد چین کی وہ واحد قومیت ہیں جنہیں سیاسی خلاف ورزیوں پرپابندی کے ساتھ سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ امریکا کی جاری کردہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو دوسرے ممالک کی طرح چین نے بھی اپنا لیا ہے اورمسلمانوں کودبانے اورخاموش کرنے کے لیے اسے ایک حربے کے طور پر اختیار کیا ہے۔ حتیٰ کہ جو نوجوان اپنے حقوق کے لیے خاموش احتجاج بھی کرتے ہیں، انہیں بھی ’’دہشت گردوں‘‘ کے زُمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ محض اس بنیاد پر بھی انہیں قیدوبند کی سزائیں سنائی جاتی ہیں کہ انہوں نے آزادی سے متعلق اخبارات کی خبریں پڑھی اورسنائی تھیں۔ دوسری طرف بعض افراد کو چین نے محض اس لیے سزا دی تھی کہ انہوں نے ’’ریڈیو آزاد ایشیا‘‘ سننے کاجرم کیاتھا۔یہ ایک ایساچینل ہے جو امریکا اپنے طور پر انگریزی زبان میں دنیا کے لیے جاری رکھتاہے۔ وہاں حالات اتنے نازک ہیں کہ مسلم طلبہ کی کسی بھی حرکت کوحکومتِ چین ناپسندیدہ قراردے کرتشدداورقیدکی بنیادبنادیتی ہے۔ جون ۲۰۰۹ء میں چینی حکام نے ضلع ’’کالپن‘‘ (سنکیانگ) کی ایک قدیم مسجد کو اس الزام کے تحت زمین بوس کردیاتھاکہ وہاں ناجائزاندازسے تزئین ومرمت کی جارہی تھی۔نیزیہ کہ وہاں غیرمنظورشدہ مذہبی سرگرمیاں انجام دی جارہی تھیں اور قرآن پاک کے نسخوں کا ڈھیر لگایا جارہا تھا۔ چینی مسلمانوں پربرسوں سے ڈھائے جانے والے یہ مظالم وہاں کی کمیونسٹ گرفت کے باعث باہرکی آزاددنیا میں نہیں آنے پاتے ۔اسی لیے آج خودآزادمسلم برادران بھی اپنے ہم مذہب ترک چینی بھائیوں کے حالات سے مطلق واقف نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ دنیامیں ترکوں کی اکثریت ترکی کی حدود سے باہرہی پائی جاتی ہے۔وسط یورپ سے لے کروسط ایشیا کے مشرقی کناروں تک جووسیع وعریض خطّہ پایا جاتا ہے، ترکوں نے اسے اپنا مقدس خون دے کر اسلامی وطن میں تبدیل کیا تھا۔ مشرقی ترکستان کی کل آبادی مختلف ترک قبائل پر مشتمل ہے، جن میں سب سے بڑاقبیلہ ’’یوغور‘‘ہے۔ کاشغر کے علاوہ ’’خُتن‘‘کامعروف علاقہ بھی اسی خطے میں پایا جاتا ہے، جس کے بارے میں مشہورہے کہ وہاں کے ’’ہرن‘‘بہت خوبصورت ہوتے ہیں ۔ترک قوم یہاں قبل ازاسلام سے پائی جاتی ہے لیکن اس نے اسلام اس وقت قبول کیاتھاجب ایک اموی سپہ سالار’’قُتیبہ‘‘۸۶ھ میں یہاں داخل ہوئے تھے۔ معروف مغربی مصنف پیٹرفلیمنگ نے گزشتہ صفحات پر ذکر کیے گئے چینی مانچو خاندان کے بارے میں لکھاہے کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں مشرقی ترکستان میں دس لاکھ افراد قتل کیے گئے تھے (کتاب NEWS FROM TARTARY، لندن۱۹۳۶ء۔بحوالہ ڈان۔کراچی)۔ اسی طرح جب چینی حکومت نے انیسویں صدی کے آخرمیں مشرقی ترکستان پر جبراً قبضہ کیا تھا تو اس نے ہزاروں ترکوں کو قتل کروایا اور مسلم سربراہ ’’یعقوب بیگ‘‘ کی نعش کو قبر سے نکال کر جلایا تھا۔ ترک اور ترکستان کے الفاظ کا استعمال کرنا اور ترکی یا دیگر اسلامی ممالک سے اسلامی لڑیچر یا مقامی اخبارات کا منگوانا بھی وہاں اسی دور میں ممنوع قرار دے دیا گیا تھا، تاکہ مسلم عوام کو ان کی شاندار تاریخ سے کاٹ دیا جائے اور دنیا کے دیگر خطّوں میں پھیلے ہوئے اپنے ہم مذہب بھائیوں سے لاتعلق کردیا جائے۔ اسی طرح وہاں کے سرکاری محّلات، دفاتر، مساجد، کتب خانے اور حمام سب کے سب نیست ونابود کرکے ان کی جگہ چینی طرزکی عمارتیں، قلعے اور بت خانے قائم کیے گئے۔ ترکوں پر پابندی عائد کی گئی کہ گھروں سے باہر وہ صرف چینی لباس پہنیں اور سوّر کا گوشت کھائیں۔ اخلاقیات پر کاری وار کرنے کی خاطر ان کے علاقوں میں جگہ جگہ شراب خانے اورافیون خانے بھی قائم کیے گئے۔ ’’مانچو خاندان‘‘ کے بعد جب چین پراشتراکیت کاکامل غلبہ ہوا تو ان کے سرخ حکام نے سنکیانگ کے مسلم باشندوں پر ظلم وتشدد مزید تیز کردیا۔ انہوں نے سینماؤں میں ایسی فلمیں دکھانی شروع کیں، جن میں مذہب کونعوذبااﷲ مکروہ شکل میں پیش کیاگیاتھا۔بعض مساجدمیں ایک گوشہ ’’ماؤزے تنگ‘‘ کے نام سے بھی کھولاگیا، جہاں ان کامجسمہ رکھاجاتاتھا۔ایسے پوسٹر چسپاں کیے جاتے تھے جن کی عبارتیں ان الفاظ پر مشتمل ہوتی تھیں۔’’مذہب افیون ہے،اسلام سامراج کی خدمت کرتا ہے اور دولت مندعربوں کی ایجادہے ۔کمیونزم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کے خلاف جنگ کرے‘‘۔یہ معلوم کرنے کے لیے کہ لوگ کس حدتک مذہب کے عادی ہیں، رمضان کے مہینے میں دوپہر کے وقت لوگوں کوکھانے پر مدعو کیا جاتا تھا اور جو لوگ شریک ہونے سے بازرہتے تھے، انہیں پکڑ کرسزائیں دی جاتی تھیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ انہی ماؤزے تُنگ کو اب چین میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بلکہ اب وہاں اقرار کیا جارہا ہے کہ ماؤ نے لاتعداد خواتین کی عصمت دری کی تھی اور ہزاروں ہزار افراد کو ہلاک کیا تھا۔ لوس اینجلس ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ امریکا نے سنکیانگ کی ۲۰۰۹ء کی اپنی اشاعتوں میں بیان کیا کہ وہاں پُرتشدّد مظاہرے مسلسل جاری ہیں، جن کی زد میں چینی پولیس کے افراد آرہے ہیں۔ ان اخبارات کے مطابق اس مسلم صوبے میں چین نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس والوں کو تعینات کر رکھا ہے جن کے وہاں اب مستقل رہنے کے بھی امکانات پائے جاتے ہیں۔ یوغیر کے ایک بیرونی گروپ نے مذکورہ اخباروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ حکومت چین کی جبرکی پالیسی کے باعث صوبے کے حالات تشویشناک حدتک خراب ہوگئے ہیں۔اخبارات نے بیرونِ ملک پناہ گزین ایک چینی مسلم کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ وہ بہت طویل مدت سے اپنی ماں کی خیریت معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن فون پر ماں نے بس ہیلو کرکے ’’میں ٹھیک ہوں‘‘ کہا اور فون بند کردیا۔ ایسا رویہ اس نے انجانے خوف کے تحت اپنایا تھا۔ (روزنامہ ڈان۔ ۱۲ستمبر ۲۰۰۹ء) یوغیری مسلمانوں پربے رحمانہ تشدد و بربریت کو دنیا پر واشگاف کرنے اوراپنے جائز انسانی حقوق کے لیے قزاقستان کے شہر الماتے میں جولائی ۲۰۰۹ء میں بھی ان کے بھائی بندوں نے زبردست مظاہرے کیے تھے۔ اسی اخبار کی ۲۰ستمبر ۲۰۰۹ء کی ایک رپورٹ کے مطابق الماتے میں ۵۰۰۰ یوغیریوں نے جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے،ایک بڑے ہال میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیاتھا۔ اپنے ہاتھوں کو وہ فضا میں لہر رہے تھے جن میں سفیدہلال والے نیلے پرچم تھے یہ پرچم سنکیانگ کی تحریک آزادی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔وہ باربار نعرے لگارہے تھے کہ ’’یوغیرستان کوآزادی دو‘‘۔’عالمی یوغیرکانگریس‘ کے وائس سیکریٹری جنرل نے پریس سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ ’’اُرمچی میں ہمارے مسلم بھائیوں پرخونی حملے کیے گئے ہیں،اس لیے اس معاملے میں ہم ہرگز خاموش نہیں بیٹھیں گے‘‘۔واضح رہے کہ قزاقستان میں چین سے نکالے گئے مسلمانوں کی ایک بہت بھاری تعداد آباد ہے۔ او آئی سی نے بھی کسی نہ کسی طرح بالآخر چین کے وحشیانہ تشدّد کی پرزور مذمت کردی تھی۔ دوسری طرف حکومتِ چین نے جولائی ہی میں مزیدہنگاموں کے پیش نظرجمعہ کی نماز کے علاوہ عام نمازوں پربھی پابندی لگادی تھی۔ ایک اور خبر کے مطابق اسی صوبے کی علاقائی حکومت نے ۱۰ لاکھ مسلمانوں کے لیے ایک حراستی مرکز قائم کیا ہے، جہاں سے ان مسلمانوں کی نگرانی کی جاتی رہے گی (روزنامہ جنگ کراچی ۱۱جولائی ۲۰۰۹ء اور ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۸ء)۔ ریاستی حراست کا مطلب ان مسلمانوں کو چینی لادینی نظام کو قبول کروانا اور اسلام سے جبری منحرف کروانا ہے ۔واضح رہے کہ ایسے ریاستی جبر و تشد د کی خبریں ہمیں آئے روز ملتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سنکیانگ کے حراستی مرکز میں ایک ایغور مسلم موسیقا ر عبدالرحیم حیات کے انتقال کے بعد ترک وزارتِ خارجہ بھی بہت ناراض ہوئی اور اس نے چینی حکومت سے سنکیانگ کے تمام حراستی متشدد کیمپس بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ترک حکومت کے ایک بیان کے مطابق ’’اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ان حراستی مراکز میں مسلم افراد کی ذہنی صفائی کی جاتی ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔بلکہ جو مسلمان حراست میں نہیں ہیں، ان پر بھی تشدد کیا جاتا ہے‘‘ (جنگ کراچی۔ ۱۱فروری ۲۰۱۹ء)۔ واضح رہے کہ بی بی سی اور انڈپینڈنٹ جیسے مغربی اخبارات و ابلاغ میں سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر آج کل بہت کچھ پیش کیا جارہا ہے ۔لگتا ہے کہ مغرب میں چین کے ان ظالمانہ و استحصالی رویے کے خلاف بے چینی بڑھتی جارہی ہے،خواہ اس کا مقصد ان قوتوں کا چین کے خلاف محاذ بنانا ہی ہو، جو ان کا قدیم کھیل رہاہے ۔بعد میں یہی قوتیں پھرآزاد کردہ ان مسلمانوں کے خلاف بھی اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ تاہم اس مہم کا یہ فائدہ ضرور ہورہا ہے کہ دنیا بھر کو ایغور مسلمانوں کی بے بسی اورغلامی کی زندگی کا صحیح ادراک ہورہا ہے۔ مشرقی ترکستان جو کبھی ایک اسلامی ریاست ہوتا تھا، جہاں کبھی علم وتہذیب کے بڑے سرچشمے پائے جاتے تھے، اور جہاں کبھی اسلامی شریعت پر خود حکومت کی جانب سے عمل درآمد ہوتا تھا، وہ آج ایک گُھٹا ہوا، غریب، پسماندہ اور آہنی شکنجوں تلے دبا ہوا خطہ بنا ہوا ہے، جس کے بارے میں نہ تو آج کے جدیدجمہوری و روشن خیال مغربیوں کوکوئی فکرہے اور نہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی آبادی اورہر طرح کے وسائل رکھنے والے مسلمان ملکوں میں ان کے حق میں کوئی آواز اٹھانے والا ہے۔ حتیٰ کہ افسوسناک طور پر ہمارے ہاں کے دینی جرائد و اخبارات میں بھی ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اسی صوبے سنکیانگ کے بارے میں علامہ اقبال کے دستِ راست اورمحقق سیدنذیرنیازی اپنی کتاب ’’اقبال کے حضور‘‘(حصہ اول)میں حاشیہ جاتی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان یہاں طویل عرصے تک حکومت کرتے رہے ۔تاآنکہ آپس کی خانہ جنگی میں ایک فریق نے چین سے امدادطلب کرلی۔یہ ۱۷۵۸ء کا واقعہ ہے جب ایک چینی لشکر ’’زنگیریا‘‘ میں داخل ہوا اور آتے ہی قتل وغارت گری شروع کردی۔ مجبوراََ اہل ’’زنگیریا‘‘ نے چین کی اطاعت قبول کرلی۔ رفتہ رفتہ ’’خطاوختن‘‘ اور ’’یارقند‘‘ بھی اس کے قبضے میں آگئے اور سارے ملک میں جبرو قہر کا ایک ایسا دور شروع ہوا، جس سے تنگ آکر کچھ لوگوں نے ترکِ وطن اورکچھ لوگوں نے چین کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ اول ۱۸۲۷ء اور پھر ۱۸۴۹ء میں!۔ لیکن ناکام رہے۔ اس پر آبادی کا ایک حصہ مغربی ترکستان (یعنی موجودہ ترکی۔سیّد) میں ہجرت کرگیا‘‘۔ نذیر نیازی لکھتے ہیں ’’یعقوب خان نے چینیوں کے خلاف کامیابی سے جنگ کی اور ایک صدی کی غلامی کے بعد چینی ترکستان ایک بار پھر آزاد ہوگیا۔ لیکن ۱۸۶۴ء میں چینی پھر اس پر قابض ہوگئے۔ اب ایک طرف روس اور دوسری جانب چین کا زور بڑھنے لگا، حتیٰ کہ یہ اسلامی خطہ، سنکیانگ کے نام سے چینی سلطنت کا ایک جزو لاینفک بن گیا ’’خالدشلڈرک‘‘ نے ’’اسلامستان‘‘ کے نام سے ایک آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن وہ ایک بے سروپا سی بات تھی کہ اُدھر سننے میں آئی اور اِدھر ختم ہوگئی۔ ۳۳۔۱۹۳۲ء میں البتہ چینی حکومت کے خلاف ایک مسلمان سردار لشکر نے خروج کیا، مگرناکام رہا۔ یہ سردارِ لشکر بڑا کم سن تھا اور اس کا نام بھی چینی تھا۔ شخصیت اس کی بڑی پراسرار تھی اور اس کی کارروائیوں سے حکومت بھی دیر تک پریشان رہی‘‘ (کتاب اقبال کے حضور۔ سید نذیر نیازی۔ ص:۱۴۰)۔ روزنامہ جنگ کراچی لکھتا ہے کہ اس وقت (۲۰۱۴ء میں) بھی ’گوانتا نامو‘ میں چینی ایغور مسلمان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد قیدو جبر کی سزائیں بھگت رہی ہے۔ (مورخہ ۔۱۲؍فروری ۲۰۱۴ء) اس ضمن میں علامہ اقبال کا مزیدبیان ہے کہ’’پچھلی صدی میں تو چینی ترکوں نے اپنی ریاست (بھی)قائم کرلی تھی، مگرانگریزوں نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ علامہ کے اس بیان کی وضاحت میں،ان کے ہمرازودوست اور ادیب سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ مشرقی یا چینی ترکستان اسلامی خطہ ہے جہاں صدیوں سے مسلمان برسراقتدار رہے‘‘۔ کہاجاتاہے کہ کاشغر (چینی ترکستان) کو سپہ سالارقُتیبہ نے ۷۱۵ عیسوی میں فتح کرلیا تھا۔ خلیفہ ہشام (بنوامیہ) نے بعد میں ۷۴۳۔۷۲۴ء میں اپنے گورنر نصرابن سیارکے ذریعے اس علاقے پر قبضہ مزید مستحکم کرلیا۔ بعدازاں ۷۵۱ء میں عربوں نے روس میں تاشقند کو بھی زیرنگیں کرلیا تھا اور انیسویں صدی کے اختتام تک یہ علاقہ مسلم حکومتوں ہی میں شامل رہا تھا۔ سنکیانگ کا موجودہ چینی مسلم صوبہ کبھی ایک باقاعدہ مسلم حکومت ہوا کرتی تھی جہاں شریعت کا نفاذ تھا۔ اسے تب ’’مسلم ترکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔



جارج بش قدیم صلیبیوں کے لباس میں، ایک مصور کا تخیل


صلیبی جنگیں (انگریزی: Crusades)



مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جسے قرون وسطی میں لاطینی کلیسیا نے منظور کیا، جس میں خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی

مہمات جن کا مقصد ارض مقدسہ کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔ تعارف 1095ء سے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے مسیحیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران میں نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر عمر ابن الخطاب کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور مسیحیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ،تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔ اسباب صلیبی جنگوں کے اصل اسباب مذہبی تھے مگر اسے بعض سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہ مذہبی اسباب کچھ معاشرتی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ پیٹر راہب جس نے اس جنگ کے لیے ابھارا، اس کے تعلقات کچھ مالدار یہودیوں سے بھی تھے۔ پیٹر راہب کے علاوہ بعض بادشاہوں کا خیال تھا کہ اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے معاشی حالات سدھر سکتے ہیں۔ غرض ان جنگوں کا کوئی ایک سبب نہیں مگر مذہبی پس منظر سب سے اہم ہے۔ مذہبی اسباب

یوروشلم کی پرانی تصویر فلسطین یسوع مسیح کی جائے پیدائش تھا۔ اس لیے مسیحیوں کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور ان کے لیے زیارت گاہ تھا۔ حضرت عمر کے زمانہ سے وہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور بڑے بڑے انبیا کے مقبرے یہاں تھے اس لیے بیت المقدس کا شہر اور زمین ان کے لیے مسیحیوں سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھی۔ مسلمانوں نے متبرک مقامات کی ہمیشہ حفاظت کی۔ چنانچہ غیر مسلم زائرین جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے یہاں آتے تو مسلم حکومتیں انہیں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتیں۔ ان کے گرجے اور خانقاہیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ حکومت نے انہیں اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا لیکن خلافت اسلامیہ کے زوال اور انتشار کے دور میں ان زائرین نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں ان کی تنگ نظری اور تعصب کی بدولت مسلمانوں اور مسیحیوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ جاہل اور متعصب زائر جب واپس جاتے تو مسلمانوں کی زیادتیوں کے فرضی افسانے گھڑ کر اہل یورپ کے جذبات کو بھڑکاتے۔ یورپ کے مسیحی پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف تھے اب ان حالات میں ان کے اندر نفرت و حقارت کے جذبات نے مزید تقویت پائی۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے دوران یورپ کی مسیحی سلطنتوں اٹلی، فرانس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ نے سر زمین فلسطین کی دوبارہ تسخیر کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے ایک بار پھر مسیحی مملکت میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس دوران میں سارے یورپ میں ایک افواہ خواص و عام میں بے حد مقبول ہو گئی کہ یسوع (عیسیٰ) دوبارہ نزول فرما کر مسیحیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے لیکن ان کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افواہ نے مسیحیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ مسیحی مذہبی رہنماؤں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائروں کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہو گئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے اور باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنے برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے۔ چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات اور ان کی سیاہ کاریوں، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔ مسیحی اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکے تھے۔ ایک حصے کا تعلق یورپ کے مغربی کلیسیا سے تھا جس کا مرکز روم تھا۔ دوسرا مشرقی یا یونانی کلیسیا جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ دونوں چرچ کے ماننے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ روم کے پوپ کی ایک عرصہ یہ خواہش تھی کہ مشرقی بازنطینی کلیسیا کی سربراہی بھی اگر اسے حاصل ہو جائے اور اس طرح وہ ساری مسیحی دنیا کا روحانی پیشوا بن جائے گا۔ اسلام دشمنی کے علاوہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس نے اعلان کر دیا کہ ساری دنیا کے مسیحی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ اس کے سب گناہ دھل جائیں گے۔ اور فتح کے بعد جو مال و زر حاصل ہوگا وہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ نتیجہً مسیحی دنیا مسلمانوں کے خلاف دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئی۔ پوپ اربن ثانی مغربی یورپ کے کلیسیا کا سربراہ تھا۔ وہ بڑا جاہ پرست اور جنگ باز مذہبی رہنما تھا۔ یورپ کے حکمرانوں میں اس کا وقار کم ہو چکا تھا۔ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اس نے مسیحیوں میں مذہبی جنگی جنون پھیلانا شروع کر دیا۔ جنگ کے نام پر مسیحیوں کی بالادستی اور مسلمانوں کی شکست و ریخت کا قائل تھا۔ اس نے چرچ کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مناسب سمجھا کہ مسیحی دنیا کو مذہبی جنگوں کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس طرح اس نے صلیبی جنگوں کی راہ ہموار کی۔ سیاسی اسباب عساکر اسلام نے اپنے عروج کے زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں زیر و زبر کر دی تھیں۔ افریقا، ایشیا، جزائر بحیرہ روم (صقلیہ و قبرص) وغیرہ اور اسپین و پرتگال سب ان کے زیر نگیں تھیں۔ اب گیارہویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت بدل چکی تھی مصر میں عبیدی سلطنت روبہ زوال تھی۔ سسلی میں مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے بحیرہ روم کے مسیحی زور پکڑ چکے تھے سپین میں اگر یوسف بن تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو اسپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہوچکا ہوتا۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے اس سیاسی غلبے کے خلاف یورپ کے مسیحیوں کا اجتماعی رد عمل تھا۔ سلاجقہ کا دور مسلمانوں کے عروج کا آخری شاندار باب ہے۔ انہوں نے ایشیائے کوچک کے تمام علاقے فتح کرکے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے راہیں کھول دی تھیں۔ اور اگر ملک شاہ سلجوقی کے بعد کوئی نامور حکمران تخت نشین ہوتا تو شاید قسطنطنیہ کی تسخیر شرمندہ تعبیر ہوجاتی۔ قسطنطنیہ مسیحی یورپ پر اسلامی یلغار کو روکنے کے لیے آخری حصار کا کام دے رہا تھا۔ لہٰذا سلجوقیوں کی قوت سے خوفزدہ ہو کر بازنطینی حکمران مائیکل ڈوکس نے 1094ء میں مغربی ملکوں کو ترکوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف متوجہ کیا اور ان سے امداد طلب کی۔ چنانچہ ساری مسیحی دنیا نے اس کی استدعا کو فوراً قبول کر لیا اور میدان عمل میں نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک سیلاب سرزمین اسلام کی طرف امڈ آیا۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مشرق کے بازنطینی کلیسیا اور مغربی کلیسیا کے درمیان میں سمجھوتہ ہو گیا اور دونوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔ عالم اسلام میں باہمی اتحاد کا فقدان تھا۔ بغداد کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافت، سلجوقی اور اسپین کے حکمران انحطاط کا شکار تھے ان کے درمیان میں باہمی اشتراک کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ لہٰذا صلیبیوں کے لیے اس سے نادر موقع اور کون سا ہو سکتا تھا۔ معاشرتی اسباب یورپ معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں پسماندہ تھا۔ سماجی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے مساوات، اخوت اور عدل و انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا یورپ کا مسیحی معاشرہ ابھی تک اس سے محروم تھا۔ غریب اور نادار لوگ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یورپ کا نظام جاگیرداری پر مبنی تھا۔ جاگیر دار غریب عوام کا خون چوس رہے تھے اور ان کے حقوق انہیں میسر نہیں تھے۔ صاحب اقتدار اور مذہبی گروہ نے ان لوگوں کی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ اخلاقی انحطاط سے بھی عوام کی حالت اچھی نہ تھی۔ یورپ کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے عوام کی توجہ اندرونی مسائل اور ان کی زبوں حالی سے ہٹانے کے لیے بیرونی مسائل کی طرف موڑ دی۔ ان لڑائیوں میں رضاکاروں کی معتدبہ تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے یونانی حسن کی لطافتوں کے لمس کی خاطر اس سفر میں شامل ہوئے تھے۔ مشہور فرانسیسی مورخ لیبان کا بیان اس دور کے معاشرہ کی صحیح ترین عکاسی کرتا ہے۔ ” جنت ملنے کے علاوہ ہر شخص کو اس میں حصول مال کا ذریعہ بھی نظر آتا تھا۔ کاشتکار جو زمیندار کے غلام تھے وہ افراد خاندان جو قانون کی رو سے وراثت سے محروم تھے وہ امرا جنہیں جائداد کا کم حصہ ملا تھا اور جن کی خواہش تھی کہ دولت کمائیں وہ راہب جو خانقاہی زندگی کی سختیوں سے تنگ تھے۔ غرض کل مفلوک الحال اور محروم الوارث اشخاص جن کی بہت بڑی تعداد تھی اس مقدس گروہ میں شریک تھے۔ “ گویا ان مذہبی راہنماؤں نے اپنی عیاشیانہ زندگی کو چھپانے کی خاطر عوام کی توجہ ان معاشرتی برائیوں سے ہٹانے کی کوشش کی۔ معاشی اسباب اسلامی دنیا کی خوشحالی اور دولت و ثروت کے چرچے یورپ میں عام تھے۔ یورپ ابھی تک خوشحالی کی ان منازل سے نہ گزرا تھا جن کا مشاہدہ مشرق کی اسلامی سلطنتیں کر چکی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے وہ تمام عناصر جنہیں حصول زر کے ذرائع یورپ میں میسر نہ تھے اپنی قسمت آزمائی کے لیے اس مذہبی مہم میں شامل ہو گئے۔ ان کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور مال و دولت کے جمع کرنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی تصدیق صلیبیوں کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے جو انہوں نے ہنگری سے گزرتے ہوئے وہاں کے مسیحی باشندوں کے ساتھ روا رکھا۔ یورپ کے نظام حکومت میں جاگیرداری نظام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ معاشی نظام میں اس کی خرابیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ دولت کے تمام ذرائع امرا اہل کلیسا اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا عوام مفلوک الحال تھے۔ کاشتکاروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ چنانچہ مذہبی طبقہ نے مذہب کی آڑ میں عوامی رد عمل کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان لوگوں کی توجہ ملک کے معاشی مسائل سے ہٹی رہے۔ اس کے علاوہ قانون وراثت کے تحت محروم افراد نے بھی محض زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کے تحت اس کو ہوا دی ۔ فلسطین اور شام پر قبضہ کرنے کے بعد اٹلی کے باشندے اپنی سابقہ تجارتی ترقی کو بحال کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی غلبہ کی بدولت اطالوی تاجروں کی تجارتی اجارہ داری ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا ان کا خیال تھا کہ اگر صلیبی جنگوں کی بنا پر فلسطین اور شام کا علاقہ مسلمانوں سے مستقل چھین لیا جائے تو یورپ کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔ صليبى جنگیں عموماً مذهبى جنگیں تصوركى جاتى ہیں مگر حقيقت ميں يہ یورپ كى ان جنگی مهمات كا حصہ تهيں جو بحيرہ روم اور بحيرہ احمر كى تجارت پر قبضہ جمانے کی غرض سے مسلمانوں کے خلاف لڑی گيئں بيت المقدس پر قبضہ جمانا اور اسے مكمل عيسائى شہر ميں تبديل كرنا محض ايک جنگی نعرہ تها يورپ کے سنار اور تاجر "جنگی فتووں" کے لیے مسیحیت کے مركز "ويٹی كن" كو بهارى رشوت ادا كر کے جذباتى مسیحیوں كى فوج تيار كرواتے تھے تا كہ يورپ سے مشرقى ايشياء تک ان کے تجارتى بحرى راستے مسلمانوں سے محفوظ ہو سكيں اور مسلمان عرب تاجروں كى بجائے يورپين تاجر زيادہ سے زيادہ منافع كما سكيں۔ فوری وجہ پوپ کی بلائی گئی کونسل فوری وجہ پوپ اربن دوم کا فتوی جہاد تھا۔ فرانسیسی پیٹر جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کو بری طرح محسوس کیا۔ یورپ واپس جا کر مسیحیوں کی حالت زار کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں پیش کیں اور سلسلہ میں سارے یورپ کا دورہ کیا۔ پیٹر کے اس دورہ نے لوگوں کے اندر مذہبی دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی لیکن بدقسمتی سے اس راہب نے زائرین کی سیاہ کاریوں کے بارے میں مکمل خاموشی برتی۔ پوپ چونکہ مغربی کلیسیا کا روحانی پیشوا تھا اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت کا حقدار ہوگا لوگ جوق در جوق سینٹ پیٹر کی قیادت میں فلسطین پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوئے۔ پہلی صلیبی جنگ (1097ء تا 1145ء) پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔ راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ مسیحیوں کا ایک انبوہ کثیر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا۔ ان لوگوں نے راستہ میں اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ بلغاریہ سے گزرنے کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ پہنچے تو رومی شہنشاہ نے ان کی اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے ان کا رخ ایشیائے کوچک کی طرف موڑ دیا۔ جب یہ اسلامی علاقہ میں داخل ہوئے تو سلجوقی حکمران قلج ارسلان نے ان کے لشکر کو تہ و بالا کر دیا اور اور ان کی کثیر تعداد قتل ہوئی۔ صلیبیوں کی یہ مہم قطعاً ناکام رہی۔ صلیبیوں کا دوسرا بڑا گروہ ایک جرمن راہب گاؤس فل کی قیادت میں روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے اہل ہنگری تنگ آ گئے اور انہوں نے ان کو نکال دیا یہ جماعت بھی اسی طرح کیفرکردار کو پہنچی۔ صلیبیوں کا تیسرا گروہ جس میں انگلستان، فرانس اور فلانڈرز کے رضاکار شامل تھے اس مقدس جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان رضاکاروں کے ہاتھوں دریائے رائن اور موزیل کے کئی ایک شہر کے یہودی نشانہ ستم بنے۔ یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو اہل ہنگری نے ان کا صفایا کرکے ہنگری کی سرزمین کو ان کا قبرستان بنا دیا۔ سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا 1097ء میں روانہ ہوا اس میں انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ ٹڈی دل کا یہ لشکر ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اور مشہور شہر قونیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلج ارسلان نے شکست کھائی۔ فتح مند مسیحی پیش قدمی کرتے ہوئے انطاکیہ پہنچ گئے نو ماہ کے بعد انطاکیہ پر بھی قبضہ ہو گیا۔ وہاں کی تمام مسلمان آبادی کو تہ تیغ کرتے ہوئے صلیبیوں نے مسلمانوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ بچے بوڑھے جوان کوئی بھی ان سے بچ نہ سکا۔ تقریباً ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ انطاکیہ کے بعد فتح مند لشکر شام کے متعدد شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے حمص پہنچا۔ سقوط بیت المقدس بیت المقدس پر مسیحیوں کا قبضہ حمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا چونکہ فاطمیوں کی طرف سے شہر کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا تھا۔ اس لیے 15 جون 1099ء کو بیت المقدس پر ان مذہبی جنونیوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کی حرمت کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ یورپی مورخین بھی ان شرمناک مظالم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسیحیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس رویہ سے بالکل الٹ تھا جو عمر ابن الخطاب نے چند صدیاں پیشتر بیت المقدس کی فتح کے وقت مسیحیوں سے اختیار کیا تھا۔ بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرے کو بیت المقدس کا بادشاہ بنایا گیا۔ اور مفتوحہ علاقوں کو مسیحی مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس میں طرابلس، انطاکیہ اور شام کے علاقے شامل تھے۔ اس شکست کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی تھی، بدنظمی اور انتشار کا عمل تھا۔ سلجوقیوں کے انتشار کے دوران میں عماد الدین زنگی کی زبردست شخصیت ابھری۔ عماد الدین نے زنگی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو پھر حیات نو بخشی، موصل، حران، حلب وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرکے زنگی نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ عماد الدین نے جس جرات اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زبردست شکستیں دیں وہ تاریخ اسلام کا قابل فخر باب ہے۔ عماد الدین نے قلعہ اثارب اور مصر کے سرحدی علاقوں سے مسیحیوں کو نکال کر خود قبضہ کر لیا۔ محاذ شام پر صلیبیوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور زنگی نے شام کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ عماد الدین زنگی کا سب سے بڑا کارنامہ بعلبک پر دوبارہ اسلامی قبضہ ہے۔ دوسری صلیبی جنگ (1187ء تا 1144ء)

لوئی ہفتم عماد الدین کی وفات کے بعد 1144ء میں اس کا لائق بیٹا نور الدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔ صلیبیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے باپ سے کم مستعد نہ تھا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے مسلمانوں میں جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی اور مسیحیوں سے بیشتر علاقے چھین لیے اور انہیں ہر محاذ پر شکستیں دیتا ہوا ڈیسا، (روحا) کے شہر پر دوبارہ قابض ہو گیا۔ مسیحیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھر پوپ یوجین سوم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔ 1148ء میں جرمنی کے بادشاہ کونراڈ سوم اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں 9 لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی اس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ پہلے صلیبی معرکوں کی طرح ان فوجیوں نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتیں دوبارہ کیں۔ لوئی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلجوقیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ چنانچہ جب وہ انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہوچکی تھی۔ اب اس باقی ماندہ فوج نے آگے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا لیکن سیف الدین زنگی اور نور الدین زنگی کی مشترکہ مساعی سے صلیبی اپنے عزائم میں ناکام رہے۔ لوئی ہفتم اور کونراڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں دھکیل دیا گیا۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ ناکام ہوئی۔ مصر پر نور الدین کا قبضہ صلاح الدین ایوبی اس دوران میں حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی۔ مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مسیحیوں کے طوفان کو روک سکتا اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئےنور الدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نور الدین نے اپنے بھائی اسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ اسد الدین نے مصر میں داخل ہو کر مسیحیوں کا قلع قمع کیا۔ لیکن شاور نے غداری کی اور شیر کوہ کے خلاف فرنگیوں سے ساز باز کر لی۔ 1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور اسکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام محاربات میں شیر کوہ کا ہمرکاب رہا تھا۔ شاور سعدی اپنے جرائم کی وجہ سے قتل ہوا اور شیر کوہ خلیفہ عاضد کا وزیر بنا اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اس کی جگہ لی۔ خلیفہ نے الملک الناصر کا لقب دیا۔ خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔ مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا۔ حطین کا معرکہ

صلاح الدین ایوبی کا دمشق میں مجسمہ مصر کے علاوہ صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران میں صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔ 1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج مسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔

بیت المقدس کی فتح (1178ء)


نقشے کا سرخ حصہ ان علاقوں کو ظاہر کرتا ہے جو صلاح الدین ایوبی نے فتح کیے


نقشے کا سرخ حصہ ان علاقوں کو ظاہر کرتا ہے جو صلاح الدین ایوبی نے فتح کیے حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ صلیبیوں کے برعکس سلطان نے مسیحیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انہیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان نے خود ادا کیا اور انہیں آزادی دی۔ بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا ۔ تیسری صلیبی جنگ (1189ء تا 1192ء)

رچرڈ شیر دل بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا۔ اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں پھر تہلکہ مچ گیا۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا، شاہ فرانس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔


مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہوتے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور پانچ سو مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال اسباب لے کے شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔

رچرڈ شیر دل

عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران میں سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔


باربروسا کی ہلاکت باربروسا کی ہلاکت

اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا اور تقریباً چھ لاکھ مسیحی ان جنگوں میں کام آئے۔ معاہدہ کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں: بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔ ارسوف، حیفا، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔ زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔ صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔ چوتھی صلیبی جنگ (1195ء) ایوبی سلطان ملک العادل کے ہاتھوں مسیحیوں نے عبرتناک شکستیں کھائیں اور یافہ کا شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔ پانچویں صلیبی جنگ (1203ء) اس جنگ کے دوران میں صلیبیوں نے بیت المقدس کے بعد قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ چھٹی صلیبی جنگ (1227ء)


پوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی فوج شام کے ساحل پر حملہ آور ہوئی۔ عادل ایوبی نے دریائے نیل کا بند کاٹ کر ان کی راہ روکی۔ مسیحی مایوس ہو کر 1227ء میں واپس لوٹ گئے۔ ساتویں صلیبی جنگ (1227ء) ملک کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان میں اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے جانشین صالح نے دوبارہ صلیبیوں سے چھین لیا اور اس پر بدستور مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ آٹھویں صلیبی جنگ (1248ء) فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا مگر صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست کھائی اور فرار کی راہ اختیار کی۔ نویں صلیبی جنگ (1268ء) ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر شام و فلسطین سے صلیبیوں کا وجود ختم کر دیا گیا۔ صلیبیوں کے اندر مزید جنگ کا حوصلہ نہ رہا دوسری جانب مسلمان بدستور اپنے علاقوں کی حفاظت میں مستعد تھے۔ جب اس قدر طویل جنگوں کے خاتمہ کے بعد مسیحیوں کا سوائے تباہی اور شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا تو ان کا جنگی جنون سرد پڑ گیا۔ اس طرح صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا۔ دیگر صلیبی جنگیں بچوں کی صلیبی جنگ ان کے علاوہ 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی گئی جسے "بچوں کی صلیبی جنگ" کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ ان بچوں میں سے کوئی بھی بیت المقدس تک نہ پہنچ سکا بلکہ فرانس کے ساحلی علاقوں اور اٹلی میں ہی یا تو تمام بچے غلام بنا لیے گئے یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنے یا آپس میں لڑکر ہی مرگئے۔ بچوں کی صلیبی جنگ پانچویں صلیبی جنگ سے قبل ہوئی تھی۔ ترکوں کے خلاف صلیبی جنگیں سلطنت عثمانیہ کے یورپ میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے بھی یورپیوں سے صلیبی جنگوں کے ناموں کا استعمال کیا اور 14 ویں اور 15 ویں صدی میں تین جنگیں لڑی گئیں: جنگ نکوپولس 1396ء : شاہ ہنگری سجسمنڈ آف لکسمبرگ کی جانب سے بلائی گئی صلیبی جنگ جسے عام طور پر جنگ نکوپولس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ موجودہ بلغاریہ کی حدود میں نکوپولس کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بایزید یلدرم نے فرانس اور ہنگری کے مشترکہ لشکر کو عظیم الشان شکست دی۔ جنگ وارنا 1444ء: پولینڈ اور ہنگری کی مشترکہ فوج مراد ثانی کے ہاتھوں شکست کھاگئی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی عظیم فتوحات میں سے ایک ہے۔ 1456ء کی صلیبی جنگ : عثمانیوں کی جانب سے بلغراد کا کیا گیا محاصرہ ختم کرنے کے لیے لڑی گئی۔ اس وقت عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح تھا جو بلغراد کو فتح کرنے میں ناکام رہا اور صلیبی لشکر نے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں 29 اگست 1521ء کو عثمانی سلطان سلیمان اول نے بلغراد کو فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنادیا۔ نتائج دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسلط کی گئی تھیں اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں۔ یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ فغاں اور اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا۔ یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں اجنبیت کی ایک مستقل دیوار جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان میں حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے۔ اور آج فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کا قیام اور نیو ورلڈ آڈر اسی کی ایک کڑی ہیں۔ یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر و رسوخ کا پتہ چلا یوں اصلاح کلیسیا جیسی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ تاکہ حکومت پر ان کا اثر رسوخ کم کیا جاسکے۔ جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا ہوا اور احیائے علوم کے لیے یورپ میں فضا سازگار ہو گئی۔ یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔ اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی فنی تعمیرات سے متاثر ہوا۔ دسویں صلیبی جنگ

11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے شہر نیو یارک اور دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے بالترتیب ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارات پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ امریکا نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کی جو اس وقت افغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکا نے اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ (انگریزی: War on Terror) قرار دیا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے مسترد کرنے پر افغانستان کے خلاف کارروائی کی گئی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز تھا۔ اس جنگ کو اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قصر ابیض میں ایک خطاب کے دوران میں صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔ انہوں نے 16 ستمبر 2001ء کو اپنے خطاب کے دوران میں کہا: ” ہمیں کل اپنے کاموں پر واپس جانے کی ضرورت ہے اور ہم جائیں گے۔ لیکن ہمیں مستعد رہنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے خبیث لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ہم نے طویل عرصے سے اس طرح کی بربریت نہیں دیکھی۔ کوئی شخص اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ خوش کش حملہ آور ہمارے معاشرے میں چھپ بیٹھیں گے اور پھر ایک ہی دن اپنے ہوائی جہاز، ہمارے امریکی ہوائی جہاز، اڑا کر معصوم لوگوں سے بھری عمارات سے ٹکرا دیں گے اور کسی قسم کی پشیمانی ظاہر نہیں کریں گے۔ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ میری توجہ اس امر پر مرکوز ہوگی کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی مدد کرنے والے سب افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاؤں۔ جو دہشت گردوں کو پناہ دیں گے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم 21 ویں صدی میں اپنی پہلی جنگ فیصلہ کن انداز میں جیتیں، تاکہ ہمارے بچے اور ہماری آنے والی نسلیں 21 ویں صدی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔ “ جارج بش کی تقریر میں crusade کے الفاظ پر یورپ اور مسلم ممالک میں کڑی تنقید کی گئی۔ بعد ازاں اس لفظ کے استعمال کی کئی وضاحتیں پیش کی گئیں۔




شیعہ، خوجے اور بوہرے ـــــــــ ایک جائزہ : محمود دریابادی on October 06, 2017


کچھ دنوں قبل بوہرہ فرقے کے تعلق سے ایک تحریر نظر سے گزری تھی.اسی وقت سے خیال تھا کہ اس پر کچھ لکھوں گا....مگرہجومِ کار نے اجازت نہیں دی.... آج شب عاشور وقت نکال کر چند سطریں..سپرد موبائیل.. کررہا ہوں... یہ تواکثر احباب جانتے ہوں گے یہ تشیع کے بطن سے نکلا ہوا ایک.فرقہ ہے....وہی شیعیت جس کا آغاز خلافت عثمانی میں ابن سبا اور اس کے متبعین کے ذریعئے ہواتھا ان کے جہاں اوربہت سےغلط عقائد تھے وہیں بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی حضور کے بلا فصل جانشین.وصی اور حقیقی وارث ہیں... اگلے کچھ برسوں میں یہی شیعیت اس قدر تقسیم در تقسیم سے دوچار ہوئی ہےکہ اصل کی شناخت مشکل ہوگئی... مثلا شیعوں کے نزدیک حضور کے بعد حضرت علی پہلے .حضرت حسن دوسرے.حضرت حسین تیسرے.زین العابدین چوتھے اور امام باقر پانچویں امام ہیں

j

اختلاف کا آغاز پانچویں امام تک سارے شیعہ متفق نظر آتے ہیں.مگر چھٹے امام سے اختلاف شروع ہوتا ہے...اثنا عشری شیعے. بوہرے اور خوجے وغیرہ باقر کے لڑکے جعفر صادق کو امام مانتے ہیں..مگر ایک طبقہ باقر کے دوسرے لڑکے زید کو امام تسلیم کرتا ہے.یہ زیدی فرقہ کہلاتا ہے. اگرچہ یہ فرقہ اعتقادی اور جذباتی طور پرشیعوں کے مقابلے میں ہمیشہ اہل سنت سے قریب رہاہے .. مشہور مصنف قاضی شوکانی اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے...یمن کے حوثی بھی زیدی ہیں مگر آجکل ایرانی اثرات نے انھیں شیعوں سے زیادہ قریب کردیا ہے.... اگلا اختلاف امام جعفر کو چھٹا امام ماننے والے اثنا عشری.بوہرے اور خوجے ساتویں امام میں پھر مختلف ہوگئےہیں.اثنا عشری جعفر صادق کے لڑکے موسی کاظم کو ساتواں امام مانتے ہیں.مگر بوہرے خوجے جعفر صادق کے دوسرے لڑکے اسماعیل کو اپناامام تسلیم کرتے ہیں.. اس کے بعد بالترتیب امام رضا.علی نقی.علی تقی اور حسن عسکری.اثنا عشریوں کے آٹھویں نویں دسویں آور گیارہویں امام ہیں.....مگرحسن عسکری کے فرزند بارہویں امام مہدی اثناعشری عقیدے کے مطابق چھ سال کی عمر میں اصلی قران.عصائے موسی.انگشتری سلیماں اور تابوت سکینہ جیسے انبیا کے موروثی تبرکات لے کر سامرّہ (سرّمن راء) کے غار میں غائب ہوگئے...مبینہ طور پر اس وقت تک غائب رہیں گے جبتک دنیا میں ۳۱۳پکے اور مخلص شیعہ نہ ہوجائیں....چنانچہ بارہ صدیاں گزر گئیں ساری دنیا کے شیعوں کی زبانیں ..عجل اللہ فرجہ.. عجل اللہ فرجہ..کہتے کہتے خشک ہوئی جارہی ہیں مگر غالبااب تک مطلوبہ مقدار میں مخلص شیعے فراہم نہیں ہوسکے ہیں..جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حسن عسکری لاولد فوت ہوئے تھے.... اسی فرضی بارہویں امام کو امام زمانہ.امام غائب.مہدی موعود وغیرہ بھی کہتے ہیں....اسی مہدی موعودنےمسلمانوں کےاندربابیت، بہائیت.مہدویت،قادیانیت،دینداریت اور شکیل حنیف جیسے گمراہوں کو جنم دیا ہے.... بارہواں امام تو خیر ! ذکر شیعوں کے بارہویں امام کا تھا جو کمسنی میں اپنے وزن سے کہیں زیادہ بھاری بھرکم اشیا لے کرپردہ غیب میں"تشریف بری" کرگئے... ا بتدا میں موصوف کی غیبت "غیبوبت صغری "تھی.یعنی مخصوص افراد کو ان سے ملنے اور عام شیعوں کے پیغامات عریضے وغیرہ پہونچانے کی اجازت تھی....انھیں مخصوصین میں یعقوب کلینی بھی تھے...اسی زمانے میں کلینی نے..اصول کافی..نامی کتاب مرتب کی.جو اثنا عشری شیعوں کے نزدیک صحیح ترین آحادیث کا مجموعہ ہے...اس کتاب کو امام غائب کا سرٹیفکٹ بھی حاصل ہے.اسی کتاب میں امام غائب کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں... "ھذا کافٍ لشیعتنا".. اسی بنیاد پر اس کتاب کا نام اصول کافی رکھا گیا ہے..... اس زمانے کی حکومت کو جب پتہ چلا کہ کچھ لوگ کسی غائب کا نمائندہ بن کر خلق خدا کو ٹھگ رہے ہیں تو تحقیقات شروع ہوئی، نام نہاد نمائندوں کو تلاش کیا جانے لگاتو سارے نمائندے خود بھی انڈر گراونڈ ہوگئے... اور امام کی غیبت صغری اب "غیبوبت کبری " میں بدل گئی جو تاہنوز جاری ہے.....اس کے بعد سے شیعوں کی درخواستیں اور عریضے امام زمانہ تک پہونچانے کا کام سمندر کے سپرد کردیا گیا ہے...چنانچہ شعبان کی پندرہویں شب کو شیعے اپنی تمنائیں مرادیں اور ضروریات لکھ کر سمندر میں ڈالتےنظر آتے ہیں.جن علاقوں میں سمندر نہیں ہے وہاں عریضوں کوبہتے پانی دریا نہر وغیرہ میں اس امید کےساتھ پوسٹ کیا جاتا ہے کہ یہ بالاخربہتے ہوئے سمندر تک پہونچ جائیں گے......


بوہرے اور خوجے. پہلے گزر چکا کہ چھٹےامام جعفر تک اثنا عشری.بوہرے اور خوجے متفق تھے البتہ ساتویں امام شیعہ اثنا عشریوں کے نزدیک موسی کاظم بن جعفراور بوہروں خوجوں کے نزدیک اسماعیل بن جعفر ہیں.... اب آگے مستنصر باللہ تک بوہرے اور خوجے متفق نظر آتے ہیں جو ان کا اٹھارواں امام ہے...مستنصر کے دو لڑکے تھے."مستعلی" جس کو بوہرے انیسواں امام اور "نزار " جس کو خوجے انیسواں امام مانتے ہیں... آج کل کریم آغا خان خوجوں کا انچاسواں امام ہے ...پیرس میں رہتا ہے انتہائی دولت مند ہے.مغربی معاشرت کا عادی ہے ریس کے گھوڑوں کاشوقین ہے...کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے تو وہاں اسےکسی سربراہ مملکت جیسا سرکاری پٹروکول دیا جاتا ہے...خوجے عام طور پر تجارت پیشہ اور متمول ہوتے ہیں.کچھ دنوں قبل تک ہندوستان کی سب سے مالدار شخصیت کہےجانے والے "پریم جی " بھی خوجہ ہیں... باطنی مذاہب. یوں تو شیعہ بوہرہ اور خوجہ سارے "باطنی " مذہب ہیں...جس میں نصوص کے ظاہری معنی جو بھی ہوں مگر امام کی طرف سے ملنے والی سینہ بسینہ تعلیم کی بنیاد پر بتائے جانے والے باطنی معنی ہی معتبر سمجھے جاتے ہیں...چنانچہ نماز روزہ حج زکوۂٰ سے لے کر شیطان فرعون ہامان وغیرہ تک کے حقیقی معنی وہی سمجھے جاتے ہیں جو امام نے خاموشی سے بتائے ہوں.... ان میں سب زیادہ باطنیت کا شکار خوجہ فرقہ نظر آتا ہے...چنانچہ خوجے نہ تو نماز پڑھتے ہیں.نہ روزہ حج زکات سے انھیں کوئی مطلب ہے....ان کی مسجدیں نہیں ہوتیں....جہاں ان کی قابل ذکر آبادی ہوتی ہے وہاں پر ایک عمارت جماعت خانہ کے نام سے ضرور ہوتی ہے..جہاں مختلف موقعوں پر کئی طرح کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں مرد وعورتیں مشترکہ طور پر شامل ہوتے ہیں.میوزک وغیرہ بھی ہوتا ہے....جماعت خانے کے ایک گوشے میں گرجاوں اور مندروں کی طرح موم بتیاں اور ناریل بھی دکھائی دیتے ہیں..... مجموعی طور پر خوجے صلح کلی مزاج رکھنے والے ہوتے ہیں.ان کےسربراہ آغا خاں کی طرف سے ان لوگوں کے لئے ہاوسنگ سوسائیٹاں، کوآپریٹو بنک،مفت علاج ومعالجہ کے لئے شاندار اسپتال وغیرہ کی سہولتیں دی جاتی ہیں... مذہب کے بارے میں عام خوجوں کو خود بھی کوئی معلومات نہیں ہوتی.اور نہ ہی ان مذہبی کتابیں ملتی ہیں ان کے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے مذہب پر کبھی بات نہیں کرتے.... ان لوگوں کے درمیان اصلاحی کام کرنے کی شدیدضرورت ہے...کچھ لوگوں نے ان کے درمیان کام کیا ہے الحمداللہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں ایک بڑی تعداد مذہب حق اختیار کرچکی ہے.ان کو سنی خوجہ کہا جاتا ہے..الحمد اللہ سنی خوجوں کی مسجدیں ہیں قبرستان بھی ہیں.....لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان اثنا عشریوں نے بھی محنت کی اور ایک تعداد شیعہ خوجہ بن گئی ہے..ان شیعہ خوجوں کی بھی اپنی مسجدیں اور قبرستان ہیں...ممبئی جیسے شہر میں شیعوں کی سرگرمیوں کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے یہی شیعہ خوجہ ہیں... بوہرے اب آتے ہیں ایک اور باطنی فرقے بوہروں کی طرف.... پہلے گزر چکا کہ اٹھارویں امام کے بعد بوہرے اور خوجے الگ ہوگئے تھے.خوجوں نے نزار اور بوہروں نے مستعلی کو انیسواں امام مانا تھا...آگےبوہروں کا اکیسواں امام "طیب عامر " غائب ہوگیا....بوہروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس کے بعد بھی امامت کا سلسلہ جاری رکھتا ہے اور چھبیسویں ویں امام سلیمان کو غائب مانتا ہے یہ سلیمانی بوہرہ کہلاتے ہیں...یہ بوہروں میں ایک چھوٹی سی ناقابل ذکر جماعت ہے...اس لئے ہم آگے اسی بوہرہ جماعت کا ذکر کریں گے جو اکیسویں کو غائب مانتے ہیں یہ داودی بوہرہ ہیں جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں... داعی مطلق اکیسویں امام کی غیبت کے بعد داودی بوہروں میں "داعی مطلق " کا سلسلہ شروع ہوتا ہے..... یہ امام کے بعد ان ہی کے نامزد کردہ ان کے نمائندے اور نائب ہوتے ہیں...ہر داعی اپنے بعد کا داعی نامزد کرتا ہے جس کو "نص " کرنا کہتے ہیں....بوہرے اپنے داعی کو " سیدنا "کا لقب دیتے ہیں..ان داعیوں کو تمام بوہروں کے جان مال کا مالک اور بڑی حد تک خدائی اختیارات کا حامل بھی سمجھا جانے لگا ہے......داعی کی اجازت کے بغیر کوئی بوہرہ نہ تو شادی کرسکتا ہے نہ اپنے بچے کا نام رکھ سکتا ہے...حج وعمرے کے لئے بھی اجازت جس کو "رضا "کہتے لینا ضروری ہے...ہر موقعے پر داعی کی خدمت میں "نذرانہ " دینا لازم ہے....میت کی تدفین کے لئے بھی داعی کی اجازت درکار ہوتی ہے.....چنانچہ باغیوں کو ان کے قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاسکتا. غرض بوہرہ داعیوں کی ایک اپنی ریاست ہوتی ہے عرب ممالک میں انھیں " سلطان البواھر " بھی کہا جاتا ہے... بوہرہ داعی ہر علاقے میں عامل مقرر کرتا ہے جس کا کام مقامی.بوہروں کے مذہبی امور نکاح وغیرہ انجام دینا اور نذرانوں کو داعی کے دفتر تک پہونچاناہے.....چند عاملوں کے اوپر ایک "مکاثر " ہوتا ہے جو عاملین کی کارکردی پر نظر رکھتا ہے ...مکاثر کے اوپر "ماذون" ہوتا ہے....ماذون کے اختیارات بہت ذیادہ ہوتے ہیں.....داعی کا دفتر ایک سکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے.مختلف امور کے الگ الگ نگراں ہوتے ہیں...مثلا اہل سنت اور دیگر اسلامی فرقوں سے تعلقات کے لئے الگ ذمہ دار ہے جو وقت ضرورت مسلمان مشاہیر سے رابطے میں رہتا ہے اور داعی کے حکم کے مطابق مشترکہ مسلم معاملات میں بوہروں کی نمائندگی کرتا ہے....حکومتی سطح پر وزرا سے رابطے کا الگ ذمہ دار ہے جو آنے والی ہر حکومت تک بوہروں کی ہمدردی پہونچاتا ہے.....چنانچہ چند سال قبل ممبئی میں ان کے سیفی اسپتال کے افتتاح کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ آئے تھے.اور پچھلے دنوں وزیر اعظم مودی نے موجودہ داعی سے اس کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی.....اس سے قبل کے وزرائے اعظم نہرو،اندرا، راجیو گاندھی وغیرہ سے بھی اس وقت کے داعیوں کے اچھے تعلقات رہے ہیں.... حد تو تب ہوگئی جب موجودہ ترپن ویں داعی مفضل سیف الدین جو اس سال پاکستان میں محرم کی مجلسیں پڑھ رہا ہے.سے مشہور مبلغ مولانا طارق جمیل نے بھی اس کی قیام گاہ پر ملاقات کرکے اس کی اڑھائی ہوئی شال قبول کی ..... اس کا ویڈیوشوشل میڈیا پربھی دیکھا گیا...اسی سےاندازہ ہوتا ہے کہ بوہروں کاشعبہ رابطہ عامہ کتنا مضبوط اور مستعد ہے..... بوہرہ داعی ہر سال الگ الگ ملک میں محرم کی مجلسیں پڑھتا ہے...جہاں بھی یہ مجلسیں ہوتی ہیں وہاں بڑی تعداد میں ساری دنیا سے بوہرے پہونچتے ہیں....ان مجلسوں میں تبرا بھی کیا جاتا ہے مگر چونکہ یہ مجلسیں گجراتی زبان میں ہوتی ہیں اس لئے عموما مسلمانوں کے سمجھ میں نہیں آتیں.... دراصل غالبا ۱۹۹۰ میں اس وقت کے داعی برہان الدین نے ممبئی میں محرم منایا تھا اور آخری مجلس میں اس نے ام المومنین اور خلفاء ثلاثہ پر تبرا کیا...چونکہ ممبئی میں گجراتی عام طور پر سمجھی جاتی ہے اس لئے اسی وقت ہنگامہ ہوگیا...کچھ مسلمان اس کی مجلس میں گھس گئے مار پیٹ ہوئی...دوسرے دن بڑا احتجاجی جلسہ ہوا تین دن کے اندر عوامی طور پر معافی کا مطالبہ کیا گیا...مگر معافی کے بجائے مضحکہ خیز وضاحتی بیان دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی .... پھر وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا...ہزاروں مسلمانوں نے بوہرہ علاقے کو گھیر لیا ...توڑ پھوڑ ہنگامے ہوئے.دو بوہرے ہلاک بھی ہوئے....بہر حال بعد از خرابی بسیار برہان الدین نے ٹیلیویزن پر اس وقت کے وزیر اعلی شرد پوار کی موجودگی میں تحریری معافی مانگی....تب جاکر یہ معاملہ ختم ہوا.... بغیر نص کے دعوت پہلے گزر چکا کہ داعی کے لئے انتہائی ضروری یہ ہے کہ اس کو اس سے پہلے کے داعی نے نامزد کیا ہو اسی کو "نص " بھی کہتے ہیں...مگر بوہرہ تاریخ میں نص سے متعلق بھی ایک تنازعہ موجود ہے...... کہتے ہیں کہ چھیالیسویں داعی بدرالدین نے کی موت نص کرنے سے پہلے ہی ہوگئی تھی..اس لئے سینتالیسویں داعی عبد القادر نجم الدین کو شرعی داعی نہیں کہا جاسکتا.... سورت میں بوہروں کا سب سے بڑا مذہبی مدرسہ جامعہ سیفیہ ہے.اس کے ایک سینئر شیخ نے اپنے درس میں یہی بات کہہ دی تھی کہ موجودہ دعوت بغیر نص کے چل رہی ہے......نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں بعد پر اسرار طور پر ان کی موت ہوگئی.... موجودہ داعی مفضل سیف الدین کے بارے میں بھی تنازعہ ہے...پچھلے داعی برہان الدین کے بھائی حذیفہ نے باقاعدہ عدالت میں دعوی کیا ہے کہ نص میرے بارے میں ہے اس لئے داعی ہونے کا حق مجھے ہے....برہان الدین نے حذیفہ کو ماذون بھی بنایا تھا....مگر عام بوہروں نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا...اور پھر حذیفہ کا انتقال بھی ہوگیا ہے..... بوہرہ باغی گروپ اکیاونویں داعی طاہر سیف الدین کے وقت سےجب عام بوہروں پر ان کی زیادتیاں،چیرہ دستیاں اور ناانصافیاں زیادہ ہونے لگیں تو بوہروں کے درمیان اصغرعلی انجینئر، نعمان کنٹراکٹر وغیرہ کی قیادت میں اصلاحی تحریک شروع ہوئی...اس دوران نعمان کی لڑکی کی شادی میں کوئی بوہرہ قاضی نکاح پڑھانے کو تیار نہیں ہوا...اس کے انتقال پر کسی بوہرہ قبرستان میں اسے دفن نہیں کرنے دیا گیاـ ممبئی مرکنٹائل بنک ایک بوہرہ اللہ بخش نے قائم کیاتھا.زین الدین رنگون والا مینجگ ڈائرکٹر بھی بوہرہ تھے .یہ لوگ بھی بوہرہ سربراہ کے مظالم سے تنگ آکر اصلاحی تحریک کے ساتھ ہوگئے...چنانچہ داعی مطلق نے فرمان جاری کردیا کہ سارے بوہرے اس بنک کا بائیکاٹ کریں اپنا سارا سرمایہ نکال لیں...اس کی ملازمت چھوڑدیں.... تقریبا سارے بوہروں نے وہاں کے اپنے اکاونٹ بند کردئے...سرمایہ دوسری بنکوں میں منتقل کردیا...نوکریاں چھوڑدیں.....اس کا دوسرا فائدہ یہ ہواکہ یہ نوکریاں دوسرے مسلم نوجوانوں کو مل گئیں... اس اصلاحی تحریک کو عام مسلمانوں کی ہمدردیاں اور انصاف پسند غیر مسلموں کی حمائت بھی حاصل تھی یہ تحریک اور بھی کامیاب ہوتی مگر بوہرہ داعیوں کی دولت ان کی دادودہش نے بہتوں کو خاموش کردیا نیـز یہ تحریک بوہروں تک محدود رہنے کے بجائے چھاگلہ، حمید دلوائی وغیرہ کے اٹرات کا شکار ہوکر مسلم پرسنل لا اور کامن سول کوڈ وغیرہ کے سلسلے میں عام مسلمانوں کی مخالفت کرنے لگی جس کی وجہ سے مسلمان بھی اس سے دور ہوتے چلے گئے... بوہرہ کالونی.. اکیاون ویں داعی طاہر سیف الدین کی موت کے بعد اسیے بھنڈی بازارممبئی کےبوہری محلہ میں دفن کیا گیا...پھر اسکی قبر پر عالیشان مقبرہ تعمیر ہوا....۱۹۷۸ میں اس کے افتتاح کے لئے صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد، شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم، قاری باسط مصری، قاری خلیل الحصری.متعدد مسلم ممالک کے وزرا اور سفرا بھی شریک ہوئے...کچھ اورعلما کا نام بھی لیا جاتا ہے مگر مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے.... پچھلے سال باونویں داعی برہان الدین کو بھی وہیں دفن کیا گیاہے.... اب مقبرے کی آس پاس کی تمام عمارتیں بوہروں نے زبردستی زور دباو اور لالچ دے کر خرید لی ہیں...ساری بلڈگیں توڑ کر از سر نو تعمیر کی جارہی ہیں.....حکومت سے پلان منظور کرالیا گیا ہے....آس پاس کی مساجد اور مزارات کو بھی ہٹانے کا پروگرام تھا مگر مقامی لوگوں کی مخالفت کے ڈر سے ایسا نہیں ہوپایا ہے.....وہ دن دور نہیں جب بھنڈی بازار جیسا مسلم اکثریتی علاقہ بوہرہ اکثریتی علاقہ ہوجائے گا... حرف آخر ابتدا میں صرف بوہروں پر ہی لکھنے کا ارادہ تھا مگر لکھتے لکھتے پوری شیعت بیان ہوگئی... شیعوں اور بوہروں کے کچھ اور چھوتے چھوٹے فرقے ہیں جیسے "نصیری " جو حضرت علی کو خدا مانتے ہیں انھیں علوی بھی کہا جاتا ہے....شام کا" بشار رجیم "اسی فرقے سے تعلق رکھتا ہے.....اسی طرح شیعوں کا ایک فرقہ "اخباری" کہلاتا ہے...یہ تقلید کے بجائے ظاہری روایات پر عمل کرتے ہیں.....بوہروں کا ایک فرقہ" دروزی " اور ایک "علوی" بھی ہے..... یہ سب چھوٹے فرقے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات بھی دستیاب نہیں ہے....



ریشمی رومال تحریک - قسط نمبر-67 - آزا د ہندوستان منشور ( دوسرا حصہ ) ( دوسرا حصہ ) on August 12, 2017



بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-67 ریشمی رومال تحریک - آزا د ہندوستان منشور ( دوسرا حصہ )


ریشمی رومال تحریک کا راز آشکار ہوچکا تھا جس کو بنیاد بنا کر سرکار برطانیہ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سزاؤں کا سلسلہ شروع کردیا تھا - اس تحریک کے دو اہم ترین کردار جن میں شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مولانا عبید الله سندھی ہیں - عبید الله سندھی 28 مارچ 1872میں ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے - دوران تعلیم اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے - اور پھر مزید تعلیم کے حصول کے لئے دیوبند چلے آئے - ایک عظیم کردار شیخ الہند مولانا محمود حسن کا ہے جنہوں نے عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کر نا شروع کیا اور مولانا عبید اللہ سندھی کا انتخاب کیا - قائدین تحریک اس بات پر یکسو تھے کہ مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہئیے - لیکن مسلمانوں میں ہی موجود کچھ عناصر اس تحریک کے حوالے سے خبریں انگریز حکام تک پہنچا رہے تھے - جس کے سبب انگریزوں کے خلاف اس تحریک کو بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ مگر اس سے کوئی انکار نہیں کہ اس تحریک نے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔ ہندوستان میں شیخ الہند کی گرفتاری کا ڈر مستقل طور پر موجود تھا اس خیال سے شیخ الہند نے مولانا ابو لکلا م آزاد سے بھی مشا ورت کی کہ ان حالات میں کیا راستہ اختیار کیا جائے ؟ مولانا آزاد کا مشورہ تھا کہ ہندوستان میں رہ کر ہی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی جائے اور اگر گرفتاری ہوتی بھی ہے تو کوئی پرواہ نہ کی جائے - جبکہ شیخ الہند اور کچھ احباب کا خیال تھا کہ ان حالات میں گرفتاری سے تحریک کا کام متاثر ہو سکتا ہے - لہذا انھوں نے طے کیا کہ حجاز جایا جائے - چناچہ شیخ عازم حجاز ہوئے - جہاں آپ نے حج کی سعادت حاصل کی اور ترک حکام سے ملاقاتیں کیں - غالب پاشا جو حجاز کا گورنر تھا اس سے بھی ملاقات کی - انور پاشا اور جمال پاشا سے بھی ملاقاتیں کیں اور منصوبے سے آگاہ کیا -جس پر انور اور جمال پاشا نے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا - غالب پا شا نے ہندوستان کی کامل آزادی کے لئے ایک اچھی تجویز پیش کی کہ ایک کامل آزادی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں ہندوسستان کی آزادی کی قرارداد منظور کروائی جائے اور اس کے لئے ترک حکومت کے بھرپور تعاؤن کا یقین بھی دلایا - شیخ الہند نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں کسی طرح افغانستان پہنچا یا جائے - کیونکہ ہندوستان سے ہوکر جانا خطرے سے خالی نہ تھا - مگر انور پاشا نے منع کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند کو بتایا کہ روس نے اپنی فوجیں ایران کی سرحد پر کھڑی کیں ہوئی ہیں اور ڈر یہ ہے کہ اسطرح آپ ایران اور افغانستان کے راستے میں ہی گرفتار کرلئے جائیں گے - لہذا مناسب ہوگا کہ آپ ترک علاقے میں ہی قیام کریں تا وقتیکہ سرحدوں کے حالات بہتر نہ ہوجائیں - اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے شیخ نے حجاز میں رکنے میں عافیت جانی مگر بہت کام کی تحاریر اور حکومتی اہلکاروں کے خطوط جن میں سفراء اور حکام کی جانب سے بہت اہم باتیں درج تھیں اور ان جن میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق دستاویز بھی شامل تھیں- (ان کو ہم آزادی ہند کے منشور سے تعبیر کر سکتے ہیں ) ان کو محفوظ رکھنے کے خیال سے ایک لکڑی کے صندوق میں چرمی جامے میں محفوظ کرنے کے بعد لکڑی کو چیر کر چرمی جامہ اس کے اندر چھپا دیا گیا ، اسطرح کہ دیکھنے والے کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ اس کے اندر کیا ہے - یہ صندوق بمبئی کی بندرگاہ پہنچا اور تلاشی کے مراحل سے ہوتا ہوا با حفاظت بندرگاہ سے باہر آگیا - صندوق میں موجود خطوط رازداری کے ساتھ جن جگہوں پر پہنچانے تھے پہنچ چکے تھے - مگر اس دوران ایک صاحب کو جنہیں اس تمام تر کاروائی کا علم ہوچکا تھا انہوں نے اس اہم راز کو حکام تک پہنچا کر اپنی وفاداری کی پوری قیمت وصول کرلی - جس کا خمیازہ بہت سے رہنماؤں کی گرفتاری سے چکانا پڑا - شریف مکہ حسین بن علی نے انگریزوں سے اندر خانہ ساز باز کی ہوئی تھی اور ایک طریقے سے وہ حجاز میں انگریزوں کے نمائندے کا کردار ادا کرہا تھا شیخ الہند محمود الحسن کو تفتیش کے بہانے روک لیا اور پھر گرفتاری کا اعلان کرکے پہلے جدہ پہنچایا جہاں سے سرکار برطانیہ کے حوالے کردیا - اور یوں یہ گرفتار شدگان مالٹا کے قید خانے میں منتقل کردئیے گئے - گرفتار شدگان میں شیخ کے ہمراہ چار شاگرد بھی تھے - جن میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی بھی شا مل تھے - اس موقع پر مولانا محمود حسن نے نے سید حسین مدنی اور دیگر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا " انگریز سرکار کی نگاہ میں میں تو مجرم ہوں ،مگر تم تو بے قصور ہو اپنی رہائی کی کوششیں کرو تو چاروں نے جواب دیا حضرت جان تو جا سکتی ہے مگر آپ سے جدائی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ شیخ الہند محمود حسن اور دیگر اسیران مالٹا کی ایک علیحدہ داستان ہے جس پر پھر کسی مضمون میں بات کی جاسکتی ہے یہاں تاریخ کے اس سلسلے میں اشارتا ہی بات کی جاسکتی ہے -( تحریک سید احمد شہید -سرگزشت مجاہدین میں اس کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ موجود ہے ) جنگ عظیم کے اختتام پر جب کچھ گرد بیٹھی اور انگریز سرکار معاشی دباؤ کا شکار ہونے لگی تب کہیں جاکر سیاسی اقدامات کرنے پر مجبور ہوئی - چناچہ جنگ کے ختم ہونے کے ساڑھے تین سال بعد شیخ الہند اور انکے تمام ساتھیوں کو بالآخر انگریز کی قید سے رہائی مل گئی۔ اب ذرا ان حالات پر نگاہ ڈالتے ہیں جو عبید الله سندہی کے ساتھ پیش آئے - سب سے پہلا مرحلہ تو کابل کے سفر کے اخراجات کا تھا - پھر ایک لمبی مدت تک کے قیام اور دیگر معاملات پر بھی ایک خطیر رقم کی بہرحال ضرورت پڑنی تھی - دوسرا مسئلہ رازداری کا تھا - دونوں ہی بہت اہم توجہ طلب امور تھے - ما لی معاملات میں مدد کے لئے مولانا ابولکلام آزاد نے پہل کی اور معروف تاجر حاجی عبداللہ ہارون مرحوم سے مدد طلب کی جنہوں نے بلا تامل پانچ ہزار روپے نقد مولانا آزاد کے حوالے کئے - رقم کا بندوبست تو ہوگیا تھا مگر اس ممکنہ سفر کو رازداری مطلوب تھی - لہذا طے پایا کہ کسی کو بتائے بناء نجی مصروفیت کا کہہ کر سندھ کی جانب روانہ ہو جائیں - چناچہ اوائل 1915 میں بہاولپور کے راستے سندھ میں داخل ہوئے اور ایک دیہات میں اپنی شنا خت چھپا کر کچھ عرصہ قیام کیا - یہاں غالبا تین ماہ قیام رہا اور پھر یہاں سے نکلے تو اچانک15 اگست کو سورایک ( بلوچستان ) کے بارڈر سے افغانستان پہنچ گیۓ - ان کا یہ پانچ ماہ کا دورانیہ سرکار برطانیہ کے مخبروں کی نظروں سے بچتا بچاتا گزرا - عبید الله سندھی کے ساتھ شیخ عبدالرحیم سندھی بلوچستان تک ساتھ گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان بارڈر کراس کرانے تک عبید الله سندھی کے ساتھ تھے - جب مولانا عبید الله سندھی کی با حفاظت کابل پہنچ جانے کی خبر ملی تب مولانا عبدالرحیم واپس لوٹ آئے - ( حاجی عبداللہ ہارون بہت بڑے تاجر تھے اور مسلمانوں کی ہر نازک موقع پر ہر ممکن مالی مدد کرتے تھے - اسی طرح مولانا عبدالرحیم سندھی نومسلم تھے اور ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے - اسلا م لانے کے بعد تمام عمر اسلا م کی ترویج و تبلیغ میں صرف کی )- مولانا عبید الله سندھی منصوبے کے مطابق قندھار سے ہوتے ہوئے اکتوبر میں کابل پہنچے - کابل کے بارے میں جو تاثر آج قائم ہے کہ یہ ایک لٹا پٹا اجڑا ہوا شہر ہوگا ، ایسا ہر گز نہ تھا - اس کے برعکس اس وقت کابل مشرق وسطی اور برصغیر کا جدید ترقی یافتہ شہر تھا جس کی بہت بڑی سیاسی اہمیت بھی تھی - ایران - روس - بھارت ان سب کی سیاسی جوڑ توڑ کا مرکز کابل ہی تھا - یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جمال الدین افغانی جس پان اسلاما ئیزشن کی بات کرتے تھے اس میں بھی کابل کو نمایاں اہمیت دی گئی تھی - دوسرے الفاظ میں جمال الدین افغانی کے فلسفے اور تحریک کو عملی جامہ پہنانے کا وقت قریب سے قریب تر آ تا جارہا تھا - ( یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمال الدین افغانی کی زندگی میں عثمانی سلطان نے ان کی اس تجویز کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا یہاں تک کہ ان کو جلاوطن کیا - گرفتار رکھا اور قید میں رکھکر زہر دیکر مروادیا - مگر جب عثمانی سلطنت اور خلافت ختم ہونے کو تھی تب جمال الدین افغانی کے ویژن پر عمل کرنے میں سب سے زیادہ جلدی بھی ترکی کوتھی نیرنگی سیاست شاید اسی کا نام ہے )- عبید اللہ سندھی کابل پہنچنے کے بعد حکام اور افغان امراء و خوانین سے ملاقاتیں کرتے ہیں -جن میں امیر حبیب الله خاں ، اس کے بیٹے سردار عنایت الله خاں ، اور سردار نصرللہ خاں شامل تھے - ان سیاسی ملاقاتوں کا مقصد کابل میں ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اور عبوری حکومت کا قیام تھا - اسی دوران جرمن اور ترک اعلی سطحی وفود کابل میں موجود رہے - اسی دوران جاپان ، ترکی اور جرمنی مختلف وفود بھیجے گئے -ان خطوط و مراسلات میں مولانا عبید اللہ سندھی کی مکمل معاونت شامل رہی - افغانستان میں ایک سیاسی جمیت جنود الله قائم کی اور اس کی تنظیم سازی میں شامل رہے اسی طرح کابل میں ہندوستانی جا معہ کے قیام کی کوشش بھی کرتے رہے اور اجازت بھی حاصل کرلی تھی - جس کی برطانیہ نے زور دیکر مسترد کروادیا - مولانا عبید الله سندھی 1923 میں ماسکو گئے جہاں سے ترکی ( استنبول ) سے گزرتے ہوئے مکہ معظمہ چلے گیے اور پھر 1939 میں ہندوستان واپس آ گئے- مولانا عبید اللہ سندھی اور کے جذبہ جہاد کی تشریح کے لئے ان کا اپنے شاگردوں سے کیا گیا ایک خطاب سے اقتباس ملا حظہ کیجئے ، کہتے ہیں " ہم نے اخروٹ ( ضلع سکھر ) میں چار طلبہ کی ایک جماعت بنائی تھی جس کا مقصد جہاد کرنا تھا -اور میں اس جماعت کا امیر تھا - یہ جماعت مولانا اسماعیل شہید کے اسوہ جہاد پر بنائی گئی تھی- ہم نے اس جماعت کے ساتھ جہاد کا کام شروع کردیا اور جب ہم بعد میں دیوبند گئے تو حضرت شیخ الہند سے اس کا تذکرہ ہوا - حضرت شیخ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور ہمیں اپنی جماعت میں شامل کرلیا " اسی خطاب میں ایک مقام پر کانگریسی اور گاندھی جی کی سیاست کی وضاحت اسطرح کی کہ" ہمارا اور گا ندہی کا ایک مسلئے پر اشتراک ہے اور وہ ہے عدم تشدد کا مسئلہ - لیکن اس میں بھی ہمارے اور گاندھی جی میں فرق ہے - وہ کسی صورت میں تشدد کے روادار نہیں -جبکہ ہم ضرورت پڑنے پر اعلان کرکے تشدد کرنے کے حق میں ہیں " انہوں نے مزید وضاحت کی " کہ شروع شروع میں ہم عدم تشدد کو گاندھی جی کا فلسفہ سمجھتے تھے مگر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے نبی اکرم ( صعلم ) مکہ معظمہ میں قیام کے زمانے میں عدم تشدد کے پابند تھے - اب اگر ہم عدم تشدد کی بات کرتے ہیں تو گویا فقط امام ولی اللہ کی اتباع کی دعوت دے رہے ہیں- جس طریقے پر یورپی قوموں نے انقلاب منظم کیا اسی طریقے پر میں امام ولی اللہ کی دعوت انقلاب کو منظم کرونگا " آزادی کی جدوجہد کا آغاز ہوچکا تھا یا غستان میں جہاد بھی منظم ہوچکا تھا - امیر حبیب الله خاں کے بارے میں عبید اللہ سندھی کا گمان بالکل درست ثابت ہورہا تھا کہ امیر حبیب الله خاں انگریزوں کے زیر اثر ہے اور وہ کھل کر کبھی بھی جہاد کا اعلان نہیں کرے گا - عبید اللہ سندھی سمجھتے تھے کہ انگریز کے دے ہوئے پیسے سے ہی حبیب الله خاں قبائلی مجاہدین کی مدد کرتا ہے - انگریز نے بھانپ لیا تھا کہ یاغستانی قبائل کو جہاد کے لئے منظم کیا جارہا ہے تو اس نے منفی پروپگنڈا پھیلانا شروع کیا کہ جہاد تو امیر کی اجازت کے بناء ہو ہی نہیں سکتا - اور اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے - عبید الله سندھی پندرہ اگست 1915 کو اپنے وطن سے نکلے اور 25 سال تک جلاوطنی میں گزارے ور آزاد ہندوستان کی وکالت میں دن رات ایک کیا جب کابل میں حالات ان کے خلاف ہوئے تب مولانا اپنے ساتھیوں کے ساتھ روس چلے گیۓ اور سات ماہ تک وہاں کے نظام اور انقلاب کا مطا لعہ کیا - (جاری ہے )

بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک : قسط نمبر1 حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ : نجیب ایوبی on January 03, 2017




برصغیر میں اسلام کے احیاء کی تحریک اور یہاں انگریزوں کا قبضہ ،1857 کی جنگ آزادی، مجاہدین آزادی اوران پر آزمائشیں ، مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ، بہادر شاہ محمد ظفر کی گرفتاری و جلاوطنی , ہندوستان سے آزادی ، اور عالم اسلام میں اسلامی و سیاسی بیداری ، عثمانی سلطنت کا عروج و زوال ، عالمی جنگیں اور خلافت ا سلامی کا اختتام ، تحریک پاکستان - ان تمام حالات کی تاریخ پر میرا حاصل مطالعہ روزنامہ جسارت ( سنڈے میگزین )میں گزشتہ دیڑھ سال سے مسلسل جاری ہے - یہ تاریخی سلسلہ مزید بھی جاری رہے گا - ان شااللہ تاہم احباب کے پرزور اصرار پر بلاگ کی زینت بنا رہا ہوں - آپ کی رائے اور مشوروں کا منتظر - نجیب ایوبی دین اسلام کی تعلیمات اور احکامات زمانے ، اقتدار اور معاشرتی بگاڑ کے سبب فراموش کی جانے لگیں ، اور ان تعلیمات میں معا شرتی خرابیاں گڈ مڈ ہونی شروع ہوجائیں تو ایسے وقت میں کوئی شخص یا تنظیم ، اسلامی تعلیمات کو از سرنو نافذ کرنے کی جدوجہد کرے اسے اسلامی احیائی تحریک کہا جا سکتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اسلام کی تجدید یا احیاء اسلام کا عمل احیائی تحریک کہلاتا ہے - اور جو افراد ایسی تحریک بپا کریں ، وہ مجدد کہلاتے ہیں۔ نبی مہربان حضرت محمد( ص ) اور خلفائے راشدین کے سنہری ترین دور کے بعد بتدریج دین اور احکامات الہی میں آہستہ آھستہ بگاڑ کی صورت در آئی ، سیاسی ، بادشاہی اور ذاتی پسند و ناپسند کے عوامل نے اصل دین کی شکل کو تبدیل کردیا -


ایسے نازک وقت میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے تجدید احیائے اسلام کا فریضہ سر انجام دیا - اسی لئے آپ کو مجدد الف اول یعنی ایک ہزار سالہ پہلے مجدد کہا جاتا ہے اور پھر ان کے بعد شہنشاہ اکبر کے دین الہی کی گند اور خرافات کو رد کرنے والے حضرت شیخ احمد سرہندی کو مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے ۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لئے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں نے میل جول کی وجہ سے پھیل گئی تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے لہٰذا میں ان دونوں بزرگوں کی تحریک کو ایک ہی حاشئے ( عنوان ) میں رکھنا چاہتا ہوں - مجدد الف ثانی : آپ کی تحریک بدعات اور عقائد اکبری کے خلاف پہلی موثر تحریک ثابت ہوئی - تصوف کی آڑ میں وحدانیت اور تعلیمات قران و سنت سے دوری اس دور کا سب سے بڑا فتنہ بن کر اپنے پنجے گاڑ چکا تھا - آپ نے تصوف کو شریعت کے تابع کرنے کا بیڑا اٹھایا - آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

بدعات کی سرکوبی کا عزم : مغل بادشاہ اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ” لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ “ اپنے ان فتووں اوراصلاحی تعلیمات کے اظہار کی پاداش میں حضرت مجدد الف ثانی کو سخت ترین آزمائش

اور دور ابتلاء سے بھی گزرنا پڑا۔

شہنشاہ اکبر کے دور کا بگاڑ عوام الناس میں اور خواص میں یکساں سرایت کرچکا تھا اکبر بادشاہ کے بعد جہانگیر تخت نشین ھوا ، بعض امراء نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا: ” سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔


بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن حضرت مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امراء نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔ احوال دور اکبری : دربار اکبری میں ’’دین الہٰی اکبر شاہی ‘‘ کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کیا گیا جس میں دیگر تمام ادیان کی تعلیمات کو جمع کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام اور ذبیحہ گاؤ سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ۔ اس کے بر عکس سور کا گوشت حلال کیا گیا ۔ شراب حلال طیب ہو گئی غیر مسلموں کا ٹیکس (جزیہ ) موقوف کر دیا گیا ۔ نماز ،روزہ اور حج کی اجتماعی شان ختم کر دی گئی ۔ یہ تمام فرائض انفرادی عبادت قرار دئے گئے - اسلامی ہجری کیلنڈر کی بجائے نیا سن الہٰی رائج کیا گیا ۔ دیوان حکومت میں نماز با جماعت ختم کر دی گئی ۔ حیات اخروی اور تصور آخرت کی جگہ عقیدہ تناسخ نے لے لی تھی ۔ خواص اور دربار سے وابستہ امراء پر لازم تھا کہ وہ خاصان بارگاہ اکبری تو کلمہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے لا الہ الااللہ اکبر خلیفۃ اللہ پڑھیں ۔ کئی جگہ سے مسجدیں ختم کر کے ان کی جگہ ہندوؤں نے مندر تعمیر کر لئے تھے ۔ عہد اکبری کے اس فتنہ الحاد کی تفصیلات خود حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ سے بھی کافی حد تک معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک جگہ مجدد الف ثانی لکھتے ہیں "

ترجمہ :ہندو کفر مسلمانوں کی بے شمار مسجدیں گرا کر ان کی جگہ اپنے عبادت خانے مندر تعمیر کر رہے ہیں ، (جلد اول کے مکتوب 47 میں قدرے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ) پچھلے ایا م یعنی عہد اکبری میں ' کافر لوگ اس دار السلام میں کفر کے احکام سینہ زوری کے ساتھ جاری کرتے رہے اور مسلمان احکام اسلام کی اعلانیہ ادائیگی سے عاجز ٹھرے – اگر وہ ایسا کرتے تو ہلاک کر دئیے جاتے – ہائے افسوس اور ہائے بربادی  ! ہمارے پروردگار عامل کے محبوب حضرت محمد ص کے ماننے والے ذلیل و خوار اور ان کے منکر معزز و باوقار ، مسلمان اپنے زخمی دلوں سے اسلام کی تعزیت کرنے میں مصروف تھے اور دشمن مذاق و تمسخر سے ان کے دلوں پر نمک پاشی کرتے – ہدایت کا آفتاب پردوں میں مستور ، علمائے سو دنیا کمانے کے لئے ملحد حکومتی کارکنان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اپنا علم ان کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ، گمراہ اور منحرف صوفیاء شریعت کی پابندی کو نارسیده ظاہر پرستی کا کھیل قرار دیتے اور طریقت کے مقابلے پر لا کھڑا کر رہے تھے ’’

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام تر قوتیں اور صلاحیتیں انہی ہر سہ طبقات کی اصلاح کے لئے وقف کر دیں اور مستقل مزاجی سے سالہا سال تک کام کرتے رہے ۔اس کام کے لئے آپ نے اپنا اثر و رسو خ ،اپنا علم اور تصنیف و تالیف ، طلبہ و فقراء کی جماعتیں ،غرض ہر ممکن ذریعہ استعمال فرمایا ۔مگر ایک نہایت مؤثر اور عظیم ذریعہ آپ کی مکتوب نگاری تھی ۔آپ متعلقہ لوگوں کو مختلف مواقع پر خط لکھتے رہے جن کی نقلیں ملک میں پھیل جاتی تھیں اور خواص کی یا د دہانی کے ساتھ ،عوام کی تربیت اور ان کے شعور کی بیداری کا کام بھی ان مکتوب سے انجام پا رہا تھا ۔اور یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہو گا کہ اس مرد فقیر نے اپنی خانقاہ میں بیٹھ کر قلم کی قوت سے انقلاب پیدا کر دیا ۔ یہی صریر خامہ آخرکار بر صغیر پاک و ہند میں فتنہ الحاد کے لئے صور اسرافیل ثابت ہوئی ۔ جہانگیر جس نے ابتداء میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو قید میں ڈالا ،آخر میں حلقہ بگوش عقیدت ہوا اور اپنے بیٹے شہزادہ خرم (شاہ جہاں) کو آپ کے حلقہ بیعت میں شامل کیا ۔اسلامی احکام از سر نو جاری کر دئیے گئے اور بدعت کی جملہ ترمیمات موقوف ہوئیں ۔دین الہٰی اکبر شاہی اپنی تمام تر خرافات و بدعات سمیت رخصت ہو ا۔دربار حکومت کی روش ، اسلام کے حق میں ادب و احترام سے معمور ہو گئی ۔حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال سے تین چار سال بعد عالمگیر پیدا ہوا یعنی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مغل دربار میں ہادم شریعت اکبر کو جلوہ گرپا یا تھا اور ان کے جاتے جاتے اس تخت پر خادم شریعت عالمگیر متمکن ہونے والا تھا ۔یہ انقلاب صرف ایک مرد فقیر کی مساعی کا نتیجہ تھا۔ (جاری ہے )



ر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط 2 -تذکرہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی (رح )‎ on January 03, 2017


برصغیر میں اسلام کے احیاء کی تحریک اور یہاں انگریزوں کا قبضہ ،1857 کی جنگ آزادی، مجاہدین آزادی اوران پر آزمائشیں ، مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ، بہادر شاہ محمد ظفر کی گرفتاری و جلاوطنی , ہندوستان سے آزادی ، اور عالم اسلام میں اسلامی و سیاسی بیداری ، عثمانی سلطنت کا عروج و زوال ، عالمی جنگیں اور خلافت ا سلامی کا اختتام ، تحریک پاکستان - ان تمام حالات کی تاریخ پر میرا حاصل مطالعہ روزنامہ جسارت ( سنڈے میگزین )میں گزشتہ دیڑھ سال سے مسلسل جاری ہے - یہ تاریخی سلسلہ مزید بھی جاری رہے گا - ان شااللہ تاہم احباب کے پرزور اصرار پر بلاگ کی زینت بنا رہا ہوں - آپ کی رائے اور مشوروں کا منتظر - نجیب ایوبی


حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ہندوستان کے عظیم ترین علماء میں سے ہیں۔ آپ 1703 عیسویں میں دہلی میں پیدا ہوۓ - آپ کی پیدائش کے چار سال بعد ہی مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کا انتقال ہوگیا - اورنگ زیب نے اپنے پچاس سالہ دور حکمرانی میں شیخ سرہندی مجدد الف ثانی ( رح ) کی دینی خدمات اور رہنمائی کے سبب دور اکبری کی خرافا ت ، ملحدانہ عقائد ، اور جاہلانہ رسوم کو نہ صرف منسوخ کیا بلکہ اسلام کے حقیقی تصور حکمرانی کا عملی نمونہ بھی پیش کیا - لیکن عالمگیر کے دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد مغل شہزادوں کی با ہم چپخلش ، اقتدار کے حصول کی خاطر خونی لڑائیاں ، محلاتی سازشیں اور ہندو تہذیب سے مرعوب و متاثر ذہنیت نے ایک مرتبہ پھر اسلامی تعلیمات کو پرا گندہ کرنا شروع کیا - اورنگ زیب عالمگیر کی وفات نے اکبری دور کے پرانے پٹارے کو ازسر نو کھول دیا - اکثریتی ہندو تہذیب جو مسلمانوں کےسیاسی اقتدار کے سبب کھل کر اپنا کام نہیں کر پارہی تھی ، اورنگزیب کی وفات کے بعد سازشی ذہن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اپنا اثر دکھانے لگی - مگر اب کی بار مخلوط تہذیب کی ضرب بہت کاری تھی - اکبر نے دین اکبری کے نام پر دین الہی کی بنیاد رکھی تھی ، جس کو مجدد الف ثانی نے مسمار کیا - مغل شہزادوں ، فرخ سیر شاہ عالم اور رنگیلا شاہ کی بدمست زوال پزیر سلطنت نے نشاط ثانیہ کی جانب مائل اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اسلام کے دائرے میں رہتے ہوۓ خوش کن اصلاحات اور متبرک القابات ، تعبیرات و تاویلات کے جزدانوں میں لپیٹ کر اسلامی معاشرے کی جڑوں میں بیٹھنا شروع کردیا - تصوف ( روحانی طہارت ) کو تارک الدنیا ، مجذوبی ، مجاوری ، اور قبر پرستی کا لبادہ اوڑھا یا گیا جس نے ا عمال و عقائد کو بگا ڑنا شروع کردیا- راہبانہ گمراہی نے اصل دین اور اقامت دین کی جدوجہد کا تصور ہی ختم کردیا تھا - مسیحیت ، مجوسیت ، یونانی فلسفہ اسلامی تعلیمات اور عقائد کے ساتھ خلط ملط ہوچکا تھا یہاں تک کہ فلسفہ کے نام پر آخرت ، جنت ،دوزخ ، سزا و جزا ، فرشتوں ، تعداد ازواج مطہرات ، نام احمد ، محمد پر کھلے عام مباحث ہوتے - اسلام کو دور جاہلیت کی تعلیمات کہا گیا - جو ناخوا ند ہ قوم کے لئے تھا - الغرض کم و بیش وہی حالت لوٹ آئی جو مجدد الف ثانی کے دور میں تھی - مولانا سید ابولاعلی مودودی مرحوم و مغفور علیہ رحمہ نے اپنی مشہور تصنیف " تجدید احیائے و دین" میں ان حالات کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے " ایک طرف ان کے زمانے اور ماحول کو اور دوسری طرف ان کے کام کو جب آدمی بالمقابل رکھ کر دیکھتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں اس نظر ، ان خیالات ،اس ذہنیت کا آدمی کیسے پیدا ہوگیا ؟ فرخ سیر ,محمد شاہ رنگیلے اور شاہ عالم کے ہندوستان کو کون نہیں جانتا ؟ اس تاریک زمانے میں نشو نما پاکر ایسا آزاد خیال مفکر و مبصر منظر عام پر آتا ہے جو زمانہاور ماحول کی ساری بندشوں سے آزاد ہوکر سوچتا ہے - تقلیدی علم اور صدیوں کے جمے ہوۓ تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسلۂ زندگی پر محققانہ و مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے - اور ایسا لٹریچر چھوڑتا ہے جس کی زبان ، انداز بیان ، خیالات ، نظریات ،مواد تحقیق اور نتائج مستخرجہ ، کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر نہیں دیتا - حتی کہ اس کے اوراق کی سیر کرتے ہوۓ یہ گمان تک نہیں ہوتا یہ چیزیں اس جگہ سے لکھی گئیں تھیں ، جس کے گرد و پیش عیاشی ، نفس پرستی ،قتل و غارت جبر و ظلم اور بدامنی و طوائف الملوکی کا طوفان برپا تھا " خود شاہ صاحب ایک جگہ اپنے وقت کے حالات اس طرح لکھتے ہیں

" ہمارے زمانے کے سادہ لوح اجتہاد سے بالکل برگشتہ ہیں -اونٹ کی طرح ناک میں نکیل پڑی ہے ، کچھ نہیں جا نتے کہ کدھر جا رہے ہیں -ا کا کاروبار ہی دوسرا ہے " " یہ وصی ( شاہ ولی ) ایسے زمانے میں پیدا ہوا ہے جب لوگوں میں تین چیزیں خلط ملط ہو گئیں ہیں ١- دلیل بازی - یہ لوگوں میں یونانی علوم کے اختلاط کی وجہہ سے ہے ٢- وجدان پرستی - یہ صوفیوں کی مقبولیت اور ان کی حلقہ بگوشی کی بدولت ہے - جس نے مشرق سے لیکر مغرب تک لوگوں کو گھیر رکھا ہے - یہاں تک کے ان لوگوں کے اقوال و احوال لوگوں کے دلوں پر کتاب و سنت اور ہر چیز سے زیا دہ تسلط رکھتے ہیں - ان کے رموز و اشارات اس قدر دخل پا گئے ہیں کہ جو ان رموز و اشارات کا انکار کرے وہ نہ مقبول ہوتا ہے نہ صالحین میں شمار کیا جاتا ہے - منبروں پر کوئی وا عظ ایسا نہیں جس کی تقریر اشارات صوفیہ سے پاک ہو - اور درس کی مسندوں پر کوئی عالم ایسا نہیں جو ان کے کلام میں ا عتقاد اور خوض کا اظہار نہ کرے - ورنہ اس کا شمار گدھوں میں ہونے لگتا ہے -"

شاہ ولی الله کی شہرت صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔ عالم عرب میں بھی ان کی شہرت ہے اور یورپ و امریکہ میں بھی ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔ وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔ اندازہ کیجئے کہ شاہ ولی الله علیہ رحمہ نے کس قدر مشکل حالات میں کس قدر محاذوں پر بیک وقت توجہ فرمائی اور کتنا کام کیا - آپ نے "حجۃ اﷲ البالغہ" جیسی شہرہ آفاق کتاب لکھی، موطا امام مالک کی شرح لکھی۔ مسلکی گروہ بندی کو کم کرنے کی طرح ڈالی ، ایک ایسے وقت میں جب کوئی شخص ان اصطلاحوں پر سوچنے اور لکھنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اﷲ کا ایک بڑا اور غیر معمولی کارنامہ "رجوع الی القرآن" کی تحریک ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے لیے نسخہ شافی یہی تھا کہ وہ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور قرآن مجید کو اپنی زندگی اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنائیں۔ آپ نے الله اور الله کے بندوں کے درمیان تعلق کو جوڑنے کی شعوری کوشش کی - قرآن سے براہ راست تعلق استوار کرنے کی ضرورت کو ابھارا - تعلیم قران کو لازمی قرار دیا تاکہ ملحدانہ عقائد اور اسلام کے نام پر کی جانے والی اسلام سے دور کرنے والی اختراعات کو روکا جاسکے آپ نے بتایا کہ بچے کو سب سے پہلے قرآن پڑھانا چاہئے تاکہ وہ احکم الحاکمین کے پیغام کو سمجھ لے ۔ چوں کہ ہندوستان میں عربی زبان کا رواج نہیں تھا اس لئے انہوں نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کیلے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔ "مقدمہ در قوانین ترجمہ" اور "تفسیر قرآن کے اصول" جیسی تصانیف کے ذریعے مسلمانوں اور علمائے کرام کی رہنمائی کی بنیاد فراہم کی ۔ "اصول تفسیر" لکھ کر آپ نے تفسیر کے اصول بیان کئے - تاکہ من پسند احکامات اور ان کی من چاہی تعبیرات و تشریحات کا سدباب ہوسکے - اس لحاظ سے آپ نے صرف معاشرے کی خرابی بیان نہیں کی بلکہ" روٹ کاز " تک پہنچ کر مرض کی تشخیص کی اور اس بیماری سے بچنے کی دوا تجویز کی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنے شفا خانے میں اس دوا کو بنانے کا ا ہتمام بھی فرمایا - شاہ صاحب کی اس کتاب کا نام "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر" ہے ۔ عربی اور فارسی میں تراجم شایح ہوۓ اور تفسیر کے بنیادی اصول کے طور پر بطور ریفرنس پڑھایا گیا - آپ کے علمی کارناموں کی ایک لمبی تفصیل ہے جو ایک مضمون میں بیان ہی نہیں کی جاسکتی - البتہ انتہائی اختصار کے ساتھ کام لیتے ہوئے چند ایک کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں مگر قرآن حکیم کا ترجمہ ، فارسی زبان میں ترجمہ ، : اس ترجمے کے منظر عام پر آتے ہی آپ پر تنقید و تضحیک کا دروازہ کھل گیا- توہین قران کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی گئی - جس کی وجہہ ظاہر ہے یہی تھی کہ اس ترجمے کی رو سے ملحدانہ خیالات ، شرک کی متفرق اقسام اور اسلامی اصلطاحات کی من چاہی تعبیرات کا راستہ روکا گیا تھا -

مگر آپ ہر قسم کی تنقید و تضحیک کے باوجود اپنے عظیم مشن پر کاربند رہے علم حدیث کی ترغیب و اشاعت : حدیث کے نام پر منگھڑ ت باتوں ، خیالات اور کہانیوں کی روک تھام کا بندوبست فرمایا - علم الحدیث کی تدریس کا نہ صرف بندوبست کیا بلکہ عام مسلمانوں کو اس جانب خاص رغبت بھی دلوائی - آپ نے تدوین حدیث کے سلسلے میں گراں قدر کام سر انجام دیا حدیث و فقہ میں تطبیق اور فقہی مسائل میں راہ ا عتدال: آپ نے اہل سنت اور اہل حدیث کے درمیان باہم اتفاق کا راستہ استوار کرنے کی بنیاد فراہم کی - حنفی ہونے کے باوجود دیگر مسالک کے مظبوط دلائل کو قبول کیا - جس سے مخالفت کم ہوئی اور افہام تفہیم اور دلیل کی راہ ہموار ہوئی - اسی بناء پر آپ کو مسلک ا عتدال کا سب سے بڑا دا عی قرار د یا گیا شیعہ و سنی اختلاف میں بھی آپ نے اعتدال کی راہ اختیار فرمائی - " ازالہ الخفا عن خلا فہ الخلفائی " جیسی تصنیف کے ذریعے سنی اور شیعوں کو عقلی و فکری رہنمائی فراہم کی - آپ کی تصنیف حجتہ الله البلاغہ" احکام شریعت کی ترجمانی کرتی ہے - اس زمانے کی تمام خرابیوں کی نشاندھی اور اسلام کی رو سے رہنمائی فرمائی گئی ہے - تفصیل کے ساتھ عقائد و اعمال ، عبادات ،سیاسیات ،معاشیات ، تجارت ، عمرانیات ، حدیث ، سنت کا مقام ،، احسان و تزکیہ ، اور جہاد جیسے معاملات و موضو عا ت پر مفصل روشنی ڈالی - عملی اور علمی دونوں ہی میدانوں میں آپ نے امت کی رہنمائی اور اصلاح کا جو گراں قدر کام کیا اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے مسلمانوں کا سکھوں ، ہندووں کے ساتھ ثقا فتی اور معاشرتی اختلاط اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی خرابیوں سے آپ بخوبی آگاہ تھے ، اس لئے آپ اسی زوال پزیر معاشرے میں اپنی زندگی گرار رہے تھے - آپ کفار کے غلبے پر اس کے تدارک کے لئے جہاد ہی کو حتمی علاج تصور کرر ہے تھے - شاہ صاحب کی تحریک محض کفار و مشرکین کی سرکوبی کی تحریک نہیں تھی بلکہ برصغیر سے نکل کر پورے عالم اسلام میں اسلام کی نشاط ثانیہ کی تحریک تھی- ایک سیاسی نظام کا خاکہ : آپ کے نزدیک کفار سے جہاد کے ساتھ ہی ایک منظم سیاسی حکومت کا قیام بھی ضروری ہے - سیاسی حکومت کا خا کہ اور اس کے خد و خال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ "ایک ایسی حکومت ہونی چاہیے جس میں ہر چار روز کی مسافت پر ایک عادل حاکم مقرر ہو ،جو مسلم کردار کا نمونہ اور عدل و انصاف کا مجسمہ ہو ، قوی اور طاقتور ہو ، ایسا کہ مظلوم کا حق وصول کرسکے -الله کی حدود قائم کرسکے ، اور ایسا سخت منتظم کہ بغاوت و سرکشی کا مادہ پیدا نہ ہو پائے -اسلامی شعائیر کا نفاذ کرسکے - شاہ صاحب کی سیاسی بصیرت و جہادی حکمت عملی : آپ نے ہندو ، سکھوں اور مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کو محسوس کرتے ہوئے اندازہ لگا لیا تھا کہ مر ھٹے اور سکھ مل کر مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا خا تمہ کردیں گے - چناچہ آپ نے ایک مسلمان سردار نجیب الدولہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ سکھوں اور جاٹ سرداروں کا زور توڑے - دوسری طرف افغا نستان کے مسلمان حکمران احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی - احمد شاہ ابدالی جب حملے کی نیت سے ہندوستان آیا تب نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مدد پر بھی آمادہ کیا - پانی پت کی لڑا ئی میں مرہٹوں کو شکست فاش ہوئی - بدقسمتی سے مغل شہزادہ " شاہ عالم " اس موقع کا فائدہ نہ اٹھا سکا - دوسری طرف احمد شاہ ابدالی واپس افغانستان لوٹ گیا - یوں ایک منظم اسلامی فلاحی ریاست کا خاکہ وجود میں آتے آتے رہ گیا - مگر اس مملکت کے قیام کی نظریاتی اور فکری اساس جو شاہ ولی الله نے اپنے قول و عمل سے فرا ہم کی تھی اس کے بیج برصغیر میں جا بجا بکھر چکے تھے -(جاری ہے )



بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-‎‎91‎: آزادی کے بعد - سازشوں کے جال ( چوتھا حصہ ) on December 21, 2017

آزادی کے بعد - سازشوں کے جال ( چوتھا حصہ )

ہند وستان پاکستان آزاد ہونے کے بعد سے ایک مسائل سے ہی دوچار تھے - انگریز سرکار ان نوآزا د ممالک کو بحالت مجبوری اقتدار تو منتقل

کرچکی تھی مگر کچھ عرصے تک وائس رائے کے نام پر اپنا نمائندہ بطور نگران اعلی برقرار رکھا ہوا تھا - ہندوستان کو تو ان کے علاقوں میں

قائم مسلمان ریاستوں پر تسلط کی کھلی چھوٹ تھی - جونا گڑھ کے بعد جموں و کشمیر پر فوج کشی اور پھر مملکت آصفیہ ( حیدرآباد دکن ) پر


جابرانہ قبضہ سب ایک ہی سلسلے کی ایک کڑی تھے - عثمانی سلطنت اور مملکت آصفیہ کا اختتام اس صدی کا سب سے زیادہ افسوسناک سانحہ

ہے - قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ آصف جاہی شاہی خاندان اور عثمانی سلطنت میں خونی رشتہ بھی شامل تھا -


آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کی اکلوتی شہزادی خدیجہ خیریہ عائشہ در شہوار آخری نظامِ حیدرآباد نواب میر عثمان علی خان کے بیٹےاعظم


جاہ کے عقد میں دی گئی تھیں۔


مارچ 1924 میں خلیفہ کے عہدے کے خاتمے کے بعد آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کو اپنے پیشرو وں کی طرح اہل خانہ سمیت ملک بدر کر دیا گیا۔ وہ فرانس کے شہر نیس میں قیام پزیر تھے ، جہاں نظامِ حیدرآباد نواب میر عثمان علی خان کے سب سے بڑے بیٹے اعظم جاہ کی بھی رہائش تھی - 12نومبر 1931ء کو ان دونوں کا نکاح پڑھایا گیا - ان سے دو نرینہ اولادیں 1933ء میں مکرم جاہ اور 1936ء میں مفکحم جاہ پیدا ہوئے- دونوں کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی اور دونوں نے ترکی النسل خواتین سے نکاح کیا ۔ پھر دونوں مملکتوں کا اختتام بھی انگریز سازش کی بدولت ہی ممکن ہوسکا -انگریز نے سب سے پہلے عرب قومیت کا نعرہ لگوا کر عربوں کو ترکوں سے لڑوایا پھر خلافت عثمانی کا خاتمہ کیا اسی طرح اپنے ہر دلعزیز دوست نظام دکن میر عثمان علی خان کو آسرے میں رکھ کر ہندوستان کی کمر تھپتھپائی اور مملکت آصفیہ بھی صرف تاریخ کی کتابوں تک محفوظ کردی گئی - اب انگریز نے نوآزا د ممالک میں اپنی سازشوں کا تا نا با نا بننا شروع کیا- سب سے پہلے پہلا ٹارگٹ تھا سیاسی اور مذہبی شخصیات کہ جن سے کسی بھی حوالے سے برطانیہ کے اقتدار کو کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس ہو - چناچہ آپ نے دیکھا کہ ایک ایک کرکے بہت سے اہم نام سازشوں کا شکار ہوکر موت کی گود میں سلا دئیے گئے - حیدرآباد دکن میں مملکت آصفیہ اور ان کے دوست یعنی انگریز سرکار کو سب سے زیادہ خطرہ نواب بہادر یار جنگ سے تھا - چناچہ سب سے پہلے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا - نواب بہادر یار جنگ کی شخصیت علمی و دینی دونوں اعتبار سے بے مثل تھی - سیاسی و قائدانہ صلاحیتوں سے بھی مالامال تھے - آپ 1903ءکو حیدر آباد دکن کے جاگیردار نواب نصیب بہادر جنگ کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ نے نوجوانی میں ہی اسلا م کی حقیقی دعوت کو سمجھا اور اللہ کے نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کا اعلان کیا - آپ نے اس حقیقت کو جا ن لیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ یہاں کے مسلمان( ریاست حیدرآباد ) سات صدیوں سے رہنے کے باوجود اکثریت میں نہیں ہیں - یہی حالت رہی تو مسلمان کبھی بھی عددی برتری حاصل نہیں کر پائیں گے - اس احساس نے انکو مجبور کیا کہ کوئی راست قدم اٹھا یا جائے چناچہ نواب بہادر یار خان نے 1927ءمیں اسلام کی دیوت کو عام کرنے کیلئے ’انجمن تبلیغ اسلام ‘ کی بنیاد رکھی - اس دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں آپ کے ذریعے پانچ ہزار سے زیادہ غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ انجمن تبلیغ اسلام کی کوششوں سے پچیس ہزار سے زائدافرادمسلمان ہوئے ۔ 1931ءمیں جب آپ حج کےلئے حجاز مقدس گئے - افغانستان کے سبق بادشاہ امان اللہ خان سے ملاقات ہوئی -اس کے بعد ترکی بھی تشریف لے گئے۔ اس وقت تک ترکی میں مغربی تہذیب کی برتری کے باعث ٹوپی پہننے کا رواج تقریباً ختم ہو چکا تھا۔دوسری طرف محمد بہادر خان ترکی ٹوپی پہننے کے عادی تھے۔ ترکی میں ان کی ترکی ٹوپی کو معمر خواتین و حضرات نے محبت اور احترام کی نظروں سے دیکھا ۔محمد بہادر خان جب وطن واپس آئے تو امت کی تنزلی پر ان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ حجاز و ترکی کے سفر نے آپ کی تقریروں و خطبات میں انقلابی اثر پیدا کردیا تھا انہوں نے پھر حیدرآباد شہر اور دہلی میں نہایت پر مغز تقاریر کے ذریعے اپنے سفر کے حالات اور مشاہدات بیان کیے۔ انہوں نے خصوصاً اسلامی ممالک کے حالات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ انکے حوالوں سے متاثر ہو کر خواجہ حسن نظامی نے انہیں ”دکن کا ابن بطوطہ“ کے خطاب سے نوازا۔ نواب بہادر یار جنگ پہلی بار آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شریک ہوئے جو جنوبی ہند کے شہر شولہ پور میں منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔ اپنی تقریر میں قائداعظم نے مسلم لیگی سیاست اور جماعت کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ قائد اعظم نے تقریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا ”میں انگریزی میں تقریر کرنے پر مجبور تھا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اکثر حاضرین میری باتیں نہیں سمجھ سکے ہوں گے۔“جب قائداعظم کی تقریر ختم ہوئی تو اچانک نواب صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ اردو میں ان کی تقریر کا ترجمہ فرما دیں۔ کسی قسم کی تیاری کے بغیر ایسی پیچیدہ تقریر کا اردو ترجمہ کرنا تقریباً ناممکن تھا مگر نواب بہادر یار جنگ نے اس چیلنج کو نہایت دلیری سے قبول کیا۔ وہ بلا جھجک کھڑے ہوئے اور قائد کی تقریر کافی البدیہہ اردو ترجمہ کر ڈالا۔ قائد اور مسلم لیگ کی بہترین ترجمانی کرنے کے باعث قائداعظم نے پھر انہیں اپنا ترجمان مقرر کر دیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں قائداعظم تقریر کرتے تو نواب بہادر یار جنگؒ کو ہی دعوت دی جاتی کہ وہ اس کا اردو ترجمہ عوام الناس کو سنائیں۔آپ انگریزی اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے۔ انگریزی بولنا مشکل کام نہیں لیکن قائداعظم جیسے قابل انگریزی دان کی تقریر کا فی البدیہہ ترجمہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ مگر ہر اجلاس میں نواب صاحب نے اپنے قائد کی انگریزی تقریر کا ایسا صحیح اور معیاری اردو ترجمہ سنایا کہ سامعین انگشت بدنداں رہ جاتے۔ مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1940ءکو بے پناہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی میں وہ قرارداد منظو ر ہوئی جو آج ”قراردادِ پاکستان“کے نام سے مشہور ہے۔اس تاریخی اجلاس میں مولوی فضل الحق نے ”قرارداد پاکستان“ پیش کی جو منظور ہو گئی۔ اسی تاریخی اجلاس میں نواب بہادر یار جنگ نے ایسی سحر انگیز تقریر فرمائی کہ سبھی کو مسحور کر دیا۔ جب ان کا خطاب ہوچکا تو قائداعظم نے صرف ایک جملے میں انہیں کچھ اس طرح خراجِ تحسینِ پیش کیا:”بہادر یار جنگ کے بعد کسی اور کا تقریر کرنا غلطی ہو گی“۔ ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ نے اپنے دائرہ کار سے ریاستوں کو باہر رکھا ہوا تھا۔ دوسری طرف کانگریس کا ریاستوں میں عمل دخل بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ نے مسلمان ریاستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے ”اسٹیٹس مسلم لیگ“ قائم کر دی جسے قائداعظم کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ نواب صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے:- ”اس جوان نے اگرکسی سے عشق کیا ہے تو وہ ایک بوڑھے (قائداعظم محمد علی جناح) سے کیا ہے“۔ قائداعظم کو بھی آپ کی بے پناہ صلاحیتوں کا علم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگرنواب صاحب مسلم لیگ اور ان کے دست راست بن گئے تو اسے بہت تقویت ملے گی۔ اسی لیے جب نواب بہادر یار جنگ باقاعدہ طور پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو قائد نے فرمایا:- ”مسلم لیگ تا حال بے زبان تھی‘ اب اسے زبان مل گئی“۔ قائداعظم کم ہی کسی کی تعریف کرتے تھے مگر ان کی زبان سے قائد ملت کی تعریف و توصیف میں کئی بار کلمات نکلے ہیں ۔ مثلاً ایک بار فرمایا :-”نواب صاحب بڑے نازک مواقع پر میر ے لیے رہبر اور مشیر ثابت ہوئے۔ خدا انہیں عمر دراز عطا کرے“ ۔ آپ کی شخصیت انگریز اور نظام دکن دونوں کے لئے ناقابل قبول تھی - چناچہ آپ کے بارے میں اصولی فیصلہ کرلیا گیا - جون 1944ءکو اپنے دوست جسٹس ہاشم خان کے گھر دعوت پر پہنچے، ابھی کھانے میں کچھ دیر تھی کسی نے نواب بہادر یارجنگ کے آگے حقہ رکھا۔ انہوں نے دوران گفتگو پہلا کش لیا تو چہرے کی رنگت بدل گئی۔ دوسرا کش لیا تو روح نے بدن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سازشیوں کا یہ پہلا وار تھا جو آزادی سے پہلے نواب بہادر یار جنگ پر کیا گیا-اس کے بعد انگریز سازشوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہندوستان میں انگریز کو مہاتما گاندھی اور جوہر لال نہرو میں سے کسی ا یک کا انتخاب کرنا تھا - بوڑھا اور ضدی گاندھی انگریز سرکار کے لئے بھی خطرہ بنتا جارہا تھا اس کے مقابلے پر نہرو نسبتا جوان اور انگریز کے زیادہ قریب تھا - مذہبی اعتبار سے تو گاندھی جی کا کوئی نعم البدل نہیں تھا مگر انگریز سرکار کی ترجیح تھی کہ نہرو ہی انگریز کے اشاروں پر بلا چوں چرا کام کرسکتا ہے - پھر مہاتما گاندھی قتل کروادیئے گئے - 1933 میں کے ایماء پر حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا تب بھی گاندھی جی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کانگریس کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا - چناچہ انگریز نے نہرو پر اعتماد کیا اور گاندھی جی کو مروانے کا فیصلہ کیا- امر واقعہ یہ ہے کہ 30 جنوری 1948ء کو گاندھی جب ایک مذہبی تقریب میں خطا ب کے لئے اسٹیج کی جانب بڑھے قاتل نتھو رام گوڈسے نے اپنی دھوتی میں چپے پستول سے یکے بعد دیگرے چار گولیاں ان پر داغ دین - بناء کسی طبی امداد کے مہاتما گاندھی کی روح پرواز کرگئی - نتھو رام گوڈسے کا تعلق ایک ہندو قوم پرست اور دہشت گرد تنظیم ہندو مہاسبھا سے تھا- یہ تنظیم سمجھتی تھی کہ گاندھی پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں گوڈسے اور اسکا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو عدالتی کارروائی کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئی دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام لکھا ہوا ہے۔ عموماً یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حالانکہ یہ متنازع ہے۔ گاندھی کے آخری الفاظ یہ تھے - " ہائے -رام !" تاریخی بددیانتی اور خیانت ہے کہ ہائے کا لفظ دانستہ حذف کردیا گیا - گاندھی کا قتل کسی طور پر بھی اچانک اور جذباتی عمل نہیں تھا - یہ ایک سوچا سمجھا اور دور رس منصوبہ تھا - اس سے پہلے بھی گاندھی پر تین بار قاتلانہ حملے ہوئے - جب انھوں نےکانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفی دیا تھا - (جاری ہے )

اسلام اور مغرب اقبال کیلانی اسلامی جنگیں ، دہشت گردی یا امن عالم کی ضمانت!؟

اللہ کی راہ میں مقدس جنگ 'جہاد فی سبیل اللہ ' کاایک حصہ ہے کیونکہ 'جہاد' غلبہ اسلام کے لئے 'مقابلے کی محنت' کو کہتے ہیں خواہ وہ علمی ہو، بدنی یا مالی۔ جہاد فی سبیل اللہ شریعت کی ایک جامع مانع اصطلاح ہے لیکن کچھ ہماری کم فہمی اور کچھ غیروں کی سازشوں سے اس کا مفہوم اتنابگڑا کہ جہاد کو صرف جنگی کاروائیوں کے لئے ہی بولا جانے لگاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف نبی اکرم ﷺ کی پوری مکی زندگی تنظیم وجہاد سے خالی قرار پائی حالانکہ مکی سورتوں میں جابجا جہاد کا ذکر ہے تو دوسری طرف مسلمان کا انفرادی جھگڑا بھی 'جہاد' سمجھا جانے لگا جبکہ اسلام کی رو سے ایسا نہیں کیونکہ اگر ڈکیتی کے دوران کوئی مسلمان اپنے جان و مال یا عزت کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ 'شہید' توہوگا لیکن اصطلاح میں اسے 'جہاد' نہیں کہتے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد اگر ابوجندل اور ابوبصیر وغیرہ کی انفرادی کارروائیوں کو 'جہاد فی سبیل اللہ' کا نام دیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان سے کیوں لاتعلق رہے؟یہی وجہ ہے کہ علماءِ دین ان کارروائیوں کو 'جہاد' کے بجائے مشاغبة (جھگڑا) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں...غرض 'جہاد' افراط و تفریط سے پاک اسلامی اجتماعیت کا ایک اہم نظام ہے جسے جمہوریت یا آمریت کے بالمقابل پیش کرکے دورِ حاضر میں اسلام کے مثبت امتیازی رویے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظر مقالے میں محترم پروفیسر صاحب نے جبروتشدد کے بالمقابل اگرچہ اسلامی جنگوں کا اعلیٰ مقصد اور امن کا پہلو اجاگر کرنے کی قابل تعریف کاوش فرمائی ہے لیکن وہ بھی عوامی روسے متاثر ہو کر اسلامی تعلیمات کی تشریح میں تقریباً ہر جگہ 'قتال' یا 'جہاد' کو مترادف ہی قرا ر دیئے چلے جارہے ہیں حالانکہ باریک بین محدثین اور فقہاء نے جہاد و قتال کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں تقسیم کیا ہے مثلا ً امام بخاری نے صحیح بخاری کی پہلی جلد میں کتاب الجہاد کے تحت احادیث جمع کی ہیں تو دوسری جلد میں مسلمانوں کے قتال کے لئے کتاب المغازي کا مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف بغاوت ہو یا سعودی حکومت کے خلاف بیت اللہ پر مسلح قبضہ کی کارروائی، ہرجگہ اسے بلا دریغ جہاد فی سبیل اللہ ہی نہ سمجھ لیا جائے تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں کے باوجود ہر جگہ نوجوانوں کی کسی خاص ردعمل کے تحت مشتعل ہو کر مسلح کاررائیوں کی غیر مشروط حوصلہ افزائی نہ ہو۔ اس طرح جہاد یا اِرہاب (دہشت گردی) میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اورغیروں کو بھی اسلامی اصطلاحات کی غلط توجیہات کی صورت اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی حریت و آزادی کی تحریکوں کی غیر مشروط حمایت کے لئے 'جہاد فی سبیل اللہ' کا نعرہ اس وقت بڑی تکلیف دہ صورت اختیار کرلیتا ہے جب آزاد ہونے والے علاقوں میں بے پناہ قربانیوں کے باوجود اسلام کی بجائے جمہوریت یا فسطائیت کے لادینی نظام ہی نافذ ہوتے ہیں۔ کاش اہل علم و قلم جوشیلے نعروں کے بجائے اپنی سنجیدہ تحریروں میں اسلامی تعلیمات کے مثبت پہلو بھی اجاگر کریں تاکہ مسلمان عوام میں بھیڑ چال کا مزاج تبدیل ہوسکے۔ (محدث) کتاب و سنت میں جہاد فی سبیل اللہ کی زبردست ترغیب کے بعد قدرتی طور پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی حرب وجنگ میں یوں بے دریغ مرنے اور مارنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مذہبی تعصب یا مذہبی جنون کانتیجہ ہے یا ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری کا نتیجہ ہے یا محض دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا اس کا مقصد ہے؟ جہاد کے حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے...تاریخ انسانی میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان کے پیچھے دوسرے محرکات کے علاوہ دو بڑے محرکات یہ رہے ہیں : 1۔ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری ۲۔ مذہبی جبر ہم بار ی باری ان دونوں محرکات کا تجزیہ کرکے یہ دیکھیں گے کہ ان میں سے کون سا جذبہ محرکہ جہادِ اسلامی کے پیچھے کارفرما ہے ۔ (ا) ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری ہمارے سامنے اس صدی کی دو عظیم جنگوں کی تاریخ موجود ہے، ان دونوں جنگوں میں فریقین کے اَغراض و مقاصد درج ذیل تھے ۔ جنگ ِعظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے اَغراض و مقاصد : 1۔ ۱۸۷۰ء میں جرمنی نے زبردستی فرانس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ 2۔ جرمنی کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور صنعتی ترقی روکنے کے لئے برطانیہ ان بحری تجارتی راستوں پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا تھا جن پر جرمنی قابض تھا جبکہ جرمنی ان بحری تجارتی راستوں کوبھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتا تھا جو برطانیہ کے قبضہ میں تھے۔ 3۔ ۱۹۰۷ء میں روس اور فرانس نے برطانیہ سے ترکی اور جزیرہ نمائے بلقان میں اپنی تجارت بڑھانے کے لئے معاہدہ کیا جبکہ جرمنی اور آسٹریلیا نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے جزیرہ نمائے بلقان پر قبضہ کرنے کامعاہدہ کیا۔ جنگ ِعظیم اوّل کے یہ تین بنیادی اسباب تھے۔ تینوں ہی ہوس ملک گیری، ہوس دولت اور وسعت ِتجارت کے جذبہ سے معمور ہیں... اب ایک نظر جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کے اغراض و مقاصد پر ڈالئے جو کہ درج ذیل تھے : 1۔ جرمنی نے ۱۹۳۸ء میں آسٹریا پر اور ۱۹۳۹ء میں چیکوسلواکیہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ 2۔ اٹلی پہلی جنگ ِعظیم کا فاتح تھا جسے شکوہ تھا کہ اسے فتح کے کماحقہ ثمرات نہیں ملے چنانچہ اس نے ۱۹۳۶ء میں ایتھوپیا پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ 3۔ ۱۹۳۹ء میں جاپان نے چین کے ایک صوبہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ 4۔ ۱۹۳۹ء میں سوویت یونین اور جرمنی نے ایک خفیہ معاہدے کے ذریعہ پولینڈ کے حصے بخرے کرکے آپس میں بانٹ لئے، بعد میں عدم اعتماد کی وجہ سے سوویت یونین نے فن لینڈ پر قبضہ کرلیا۔ یہ تھے وہ ارفع و اعلیٰ مقاصد جن کی وجہ سے پوری دنیا دوسری مرتبہ تباہی اور ہلاکت سے دوچار ہوئی ایک نظر عہد حاضر کی دو بڑی جنگوں کے اَسباب و علل پر بھی ڈالتے چلئے۔ افغانستان کے پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں پرمسلسل دس سال تک آگ اور بارود برسانے والے سوویت یونین کا مقصد صرف یہ تھا کہ کم و بیش آدھی دنیا پرپھیلی ہوئی اپنی عظیم سلطنت کو وسعت دے کر بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچ کر بین الاقوامی بحری تجارتی شاہراہوں پر اپنا قبضہ جما سکے۔ ہمارے عہد کی دوسری ہلاکت خیز جنگ 'جنگ ِخلیج' ہے جس کے بارے میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ یہ ڈرامہ بڑی فنکاری سے صرف عربوں کی دولت ہتھیانے کے لئے سٹیج کیا گیا تھا۔ عرب گیس اینڈ پٹرول انسٹیٹیوٹ کی اطلاع کے مطابق اس جنگ میں اسلحہ خریدنے پر عربوں کی جو رقم خرچ ہوئی وہ پٹرول کی سالانہ آمدنی سے دس گنا زیادہ ہے۔ خبر کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے مجموعی طور پر پٹرول برآمد کرنے والے ممالک کو سات سو بلین ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔( ماہنامہ 'صراطِ مستقیم' برمنگھم، جلد۱۶ شمارہ ۶، ۱۹۹۵ء)...یہ ہیں اقوامِ عالم کی جنگوں کے وہ جلیل و عظیم مقاصد جن کے لئے کرہٴ ارضی کے انسانوں کو بار بار آگ اور خون میں نہلایا گیا۔ آئیے اب ایک نظر اسلامی تعلیمات پر ڈالیں اور دیکھیں کہ جلب ِزر، حصولِ غنائم اور وسعت تجارت کی خاطر اسلام قِتال کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ زمانہ جاہلیت میں غنائم کاحصول اور جلب ِزر قتل و غارت کاایک بہت بڑا محرک تھا لیکن اسلام نے مسلمانوں کو ایسی تعلیم دی جس سے غنائم کے بارے میں ان کی سوچ یکسر بدل گئی۔ ایک آدمی نے عرض کیا: "یارسول اللہﷺ! ایک آدمی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہے اور ساتھ دنیا کا مال بھی حاصل کرنا چاہتا ہے(اس کے لئے کتنا ثواب ہے؟)" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کے لئے کوئی اجروثواب نہیں" (ابوداود) ... ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی لیکن اس کی نیت اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی تھی تو اسے وہی چیز ملے گی جو اس کی نیت تھی (یعنی وہ اجروثواب سے قطعاً محروم رہے گا)" (نسائی) ...ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص جہاد کے بعد مالِ غنیمت حاصل کرتا ہے وہ آخرت میں ایک تہائی ثواب حاصل کرے گا اور جو مالِ غنیمت نہیں پاتا وہ سارا اجر آخرت میں پائے گا" (نسائی) ...اس تعلیم نے زمانہ جاہلیت کی سوچ کو مکمل طور پربدل دیا۔ ایک اَعرابی جہاد میں شریک ہوا، جہاد کے آخر میں مالِ غنیمت سے اس کا حصہ نکالا گیاتو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ میں جہاد میں مال حاصل کرنے کے لئے شریک نہیں ہوا بلکہ اس لئے شریک ہوا کہ تیر آکر میرے حلق میں لگتا اور میں شہید ہوجاتا" (نسائی) ...غزوئہ بدر میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں صحابہ کرام میں اختلاف پیدا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الأَنفالِ ۖ قُلِ الأَنفالُ لِلَّهِ وَالرَّ‌سولِ.......١ ﴾...... سورة الانفال "لوگ تم سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں،کہو :یہ مال تو اللہ اور اس کے رسول کاہے" چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام کے تمام اختلافات ختم ہوگئے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔ اسلامی تعلیمات کے بعد اب چند مثالیں پیغمبر اسلام کی حیاتِ طیبہ سے ملاحظہ فرمائیں: ٭ ۷ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں، ان کے اَموال، ان کے کاروبار سے محروم کرنے والے درندہ صفت مجرم لوگ فاتح کے سامنے دست بستہ حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو انہیں ان کی جائیدادوں اور ان کے اَموال سے اسی طرح محروم کرسکتے تھے جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو کیا تھا لیکن تاریخ انسانی میں حسن عمل اور عظمت ِکردار کی ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ کرام نے کفار کی جائیدادوں اور اَموال کو چھوڑ اپنی چھینی ہوئی جائیدادوں اور اَموال کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مال اور جائیدادیں اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہو، انہیں واپس نہ لو"( غزواتِ مقدس از محمدعنایت اللہ وارثی، ص۳۵) صحابہ کرام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منفرد اور تابناک فرمان کے سامنے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔ کیا لوٹ مار کرنے، غنائم حاصل کرنے، دوسروں کی تجارت پر قبضہ کرنے، دولت سمیٹنے والے جاہ پسند اور اقتدار پرست فاتحین کا طرزِ عمل ایسا ہی ہوتا ہے؟ ٭ سقوطِ مکہ کے بعد حنین فتح ہوا تو مالِ غنیمت میں ۲۴ ہزار اونٹ، ۴۰ ہزار بکریاں اور ۶ ہزار کلو گرام چاندی حاصل ہوئی، اسیرانِ جنگ کی تعداد ۶ ہزار تھی۔ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دو ہفتہ انتظار فرمایا تاکہ اگر کوئی وفد تائب ہو کر گفت و شنید کے لئے آئے تو تمام اَموالِ غنیمت واپس کردیئے جائیں جب کوئی وفد نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اَموال لشکراسلام میں اس طرح تقسیم فرمائے کہ صرف اپنی چادر باقی رہ گئی۔ اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر مویشی ہوتے تو میں انہیں بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور تم مجھے ایسا کرتے ہوئے نہ بخیل پاتے، نہ بزدل، نہ جھوٹا۔ " کوئی ذی ہوش آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ تاریخ عالم میں ایسی زرّیں مثالیں پیش کرنے والا فاتح جس مذہب کی تعلیم لے کر آیا ہے وہ حصولِ غنائم کے لئے، دولت ِدنیا سمیٹنے کے لئے، جلب ِزر کیلئے اور دوسروں کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنے کیلئے قتال اور خون ریزی کی اجازت دے سکتا؟ ہرگز نہیں !! (۲) مذہبی جبر خون ریزی اور جنگ و جدل کا دوسرا بڑا جذبہ محرکہ مذہبی جبر رہا ہے،چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ۵۲۳ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے عیسائیوں کے مرکز نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کرکے لوگوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ عیسائیوں نے یہودیت اختیار کرنے سے انکار کردیا تو ذونواس نے حاکم نجران 'حارثہ' کو قتل کردیا۔ اس کی بیوی 'رومہ' کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کوقتل کیا اور ماں کو بیٹیوں کا خون پینے پر مجبور کیا۔بعد میں 'رومہ' کو بھی قتل کردیا۔ بشپ پال کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلائیں، گڑھے کھود کر ان میں آگ جلوائی جن میں عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں سب کو پھینکوا دیا۔ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار تک زندہ انسانوں کوآگ میں جلا دیا، اس واقعہ کا تذکرہ قرآنِ مجید سورئہ بروج میں ان الفاظ میں کیا گیاہے : ﴿وَما نَقَموا مِنهُم إِلّا أَن يُؤمِنوا بِاللَّهِ العَزيزِ الحَميدِ ٨ ﴾...... سورة البروج "اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لائے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے" (تفہیم القرآن: جلد ششم، سورئہ بروج، حاشیہ ۴) ۳۰۳ء میں شہنشاہ روم ڈریو کلیٹیان نے اپنی مملکت سے عیسائیت ختم کرنے کے لئے حکم جاری کیا کہ تمام کلیسا مسمار کردیئے جائیں۔ انجیلیں جلا دی جائیں، کلیساؤں کے اَوقاف ضبط کرلئے جائیں، جو شخص مسیحی مذہب پر اصرار کرے، اسے قتل کردیا جائے۔ اس حکم کے باوجود جن عیسائیوں نے عیسائیت ترک کرنے سے انکار کیا، ان کے بدن زخمی کرکے ان پرسرکہ اور نمک ڈالا جاتا، بعد میں ان کی بوٹی بوٹی کاٹی جاتی۔ بعض اوقات ان کو عبادت گاہوں میں بند کرکے آگ لگا دی جاتی، زیادہ لطف اٹھانے کے لئے ایک ایک عیسائی کو پکڑ کر دہکتے ہوئے اَنگاروں پرلٹا دیا جاتا یا لوہے کے کانٹے اس کے بدن میں بھونکے جاتے۔ (الجہاد فی الاسلام از ابوالاعلیٰ مودودی، ص۴۴۸) ۱۴۹۲ء میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو صرف آٹھ برسوں کی قلیل مدت میں وہاں کی عیسائی حکومت نے مسلمانوں سے اِسلام چھڑانے کی مہم شروع کردی۔ سپین کے ساڑھے تین لاکھ سرکردہ مسلمانوں کو ایک مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے ۲۸ ہزار ۵ سو ۴۰ مسلمانوں کوموت کی سزا سنائی اور بارہ ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں تھیں،نذرِ آتش کردیں۔بالآخر ۱۶۱۰ء میں تمام مسلمانوں کو ترکِ وطن کا حکم دے دیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ عربوں کا ایک قافلہ بندرگاہ کی طرف جارہا تھاکہ بلیڈا نامی ایک پادری نے غنڈوں کو ساتھ ملا کر قافلہ پر حملہ کردیا اور ایک لاکھ مسلمان قتل کرڈالے، اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں، گلیوں اوربازاروں میں قاتلانہ حملے شروع ہوگئے حتیٰ کہ ۱۶۳۰ء تک ایک بھی مسلمان سپین میں باقی نہ رہا۔( یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۷،۸۸) مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا ہرزگووینا کے شہریوں نے ایک ریفرنڈم میں ۴․ ۹۹ فیصد کثرت سے آزادی کی حمایت میں ووٹ دیئے جس کے نتیجہ میں بوسنوی مسلمانوں نے اپنی آزاد ریاست کا اعلان کردیا۔ اعلانِ آزادی کے دن سے لے کر آج کے دن تک مسلمانوں پر جو قیامت خیز مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس کی وجہ اس مذہبی جبر کے علاوہ او رکیا ہے کہ یورپی عیسائی برادری اپنے درمیان کسی آزاد مسلمان ریاست کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مذکورہ مثالوں میں خون ریزی، غارت گری، درندگی اور سفاکی کا جذبہ محرکہ صرف مذہبی جبر ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا اور مکروہ کردار ان اَقوام کا ہے جنہوں نے یہ پروپیگنڈہ کرتے کرتے زمین و آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں کہ" اِسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، مسلمان دہشت گرد اور ڈاکو ہیں"1 یہ پروپیگنڈہ اس قدر فنکاری اور عیاری سے کیا گیا ہے کہ ان کی اپنی خونخوار اور مکروہ تصویر اس پروپیگنڈے کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ لیکن کیا حقیقت بھی ایسی ہی ہے ؟ آئیے حقائق کی روشنی میں اس پروپیگنڈہ کا جائزہ لیں : دعوت اور اشاعت ِاسلام کے بارے میں قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کو جو بنیادی اَحکام دیئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: 1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں" (البقرة:۲۵۶) یعنی کسی کو دین منوانے کے لئے شریعت ِاسلامیہ میں زبردستی یا جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ اَنصار کے ایک قبیلہ بنو سالم بن عوف کے ایک آدمی کے دو لڑکے عیسائی تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنالوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر ابن کثیر) 2۔ سورئہ کہف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿فَمَن شاءَ فَليُؤمِن وَمَن شاءَ فَليَكفُر‌........٢٩﴾...... سورة الكهف "جس کا جی چاہے ایمان لائے، جس کا جی چاہے انکار کردے" آیت ِکریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اسلام میں زبردستی دین منوانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔ ہر آدمی کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تواِسلام قبول کرے،جو چاہے نہ کرے۔ اگر دین زبردستی منوانا مقصود ہوتا تو پھر جزا اور سزا کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس مضمون کی بے شمار آیات ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: (۷۳:۱۹)،(۷۶:۲۹)،(۸۰:۱۲)،(۸۱:۲۷۔۲۸) 3۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ دعوت جن حالات سے سابقہ پیش آرہا تھا، ان سے بعض اوقات آپ ا پریشان ہوجاتے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں باربار یہ وضاحت ارشاد فرمائی﴿وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ﴾ "اگر لوگ روگردانی کریں تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے" (سورئہ آلِ عمران :۲۰) یعنی اگر لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے۔ زبردستی منوانا نہیں۔ اس مضمون کی دوسری آیات میں سے چند ایک یہ ہیں (۵:۹۹)' (۱۶:۳۵)' (۴۲:۴۸)' (۸۸:۲۱، ۲۲) جہاد کے اَحکام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں"2 (سورئہ توبہ :۲۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جب کافر جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوجائیں تو جنگ بند کردو۔ جزیہ کا قانون بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا چاہتا۔سورئہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :"کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے"(سورة بقرہ:۱۹۳) یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ مسلمان نہیں ہوجاتے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کو غالب اور نافذ کرنے میں دشمنانِ اسلام کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں دور ہوجائیں۔ قرآنی احکام کے بعد سنت ِمطہرہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1۔ غزوئہ بدر میں کافروں کے ۷۰ آدمی قید ہوئے جنہیں رہاکرنے کے لئے دو شرطیں مقرر کی گئیں پہلی یہ کہ فدیہ اَدا کیا جائے۔ دوسری یہ کہ جو فدیہ نہ دے سکے وہ دس وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ چند آدمیوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پربطورِ احسان بھی رہا فرمایا۔ اگر زبردستی اسلام منوانا مطلوب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے یہی شرط مقرر فرماتے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے، اسے رہا کردیا جائے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا۔ 2۔ غزوئہ بنو نضیر میں یہودیوں پرمکمل غلبہ حاصل کرنے کے بعد از راہِ عفو وکرم ان کی جان بخشی کی اور پورے امن اور سلامتی کے ساتھ انہیں مدینہ منورہ سے نکلنے کا راستہ بھی دیا۔ اگر آپ تلوار کے زور سے اسلام منوانا چاہتے تو اس سے بہتر موقع اور کون سا تھا...؟ 3۔ سقوطِ مکہ کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجاری کردہ فرمان تاریخ کے اَوراق میں سنہری حروف سے ثبت ہے: "جو ہتھیار ڈال دے، اسے قتل نہ کیا جائے۔جو حرم میں داخل ہوجائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔ جو اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ جو حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لے لے، اسے قتل نہ کیا جائے" کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فرمانِ مبارک میں ان الفاظ کااضافہ نہیں فرماسکتے تھے "جو اسلام لے آئے، اسے قتل نہ کیا جائے!" یقینا ایسا ممکن تھا، لیکن تلوار کے زور سے اسلام منوانا چونکہ اسلام کے ارفع و اعلیٰ اصولوں کے خلاف تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ 4۔ حضرت عمر کا غلام 'اسبق' عیسائی تھا۔ حضرت عمر اسے اسلام کی دعوت دیتے تو وہ انکار کردیتا تو آپ فرماتے ﴿لاَ إِكراهَ فِى الدِّيْنِ﴾ یعنی دین منوانے میں زبردستی نہیں ہے۔ (ابن کثیر) حقیقت یہ ہے کہ اشاعت ِاسلام کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام ا کا طرزِ عمل اس قدر وسیع النظری اور عالی ظرفی پر مبنی ہے کہ تنگ نظر اور متعصّب دشمنانِ اسلام اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ جہاں اقوامِ عالم کی جنگوں کے سب سے بڑے مقاصد میں سے اولاً حصولِ دولت/ جلب ِزر، کمزور اقوام کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنا اور ثانیاً مذہبی جبر سرفہرست ہیں، وہاں جہادِ اسلامی کے مقاصد کو ان دونوں چیزوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس وضاحت کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جہادِ اسلامی کے مقاصد ہیں کیا...؟ ذیل میں ہم جہادِ اسلامی کے اغراض و مقاصد تحریر کر رہے ہیں تاکہ اقوامِ عالم کی جنگوں کے مقاصد کا جہادِ اسلامی کے مقاصد سے تقابل کیا جاسکے : جہاد اسلامی کے مقاصد جہاد اسلامی کے اہم ترین مقاصد درج ذیل ہیں: 1۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿أُذِنَ لِلَّذينَ يُقـٰتَلونَ بِأَنَّهُم ظُلِموا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلىٰ نَصرِ‌هِم لَقَديرٌ‌ ٣٩ ﴾...... سورة الحج "(قتال کی) اجازت دے دی گئی، ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جارہی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیاہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے"قرآنِ مجید کی یہ سب سے پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے۔ اجازت دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہے کہ چونکہ مسلمانوں پر مسلسل تیرہ سال تک بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے گئے، لہٰذا اب انہیں اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ بھی ظلم کرنے والوں کے خلاف جنگ کریں۔ جہاد کی اجازت دینے کے بعد دوسری آیت جس میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا گیااور جس کے بعد جنگ ِبدر پیش آئی، اس آیت کا مضمون بھی قابل غور ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقـٰتِلوا فى سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقـٰتِلونَكُم وَلا تَعتَدوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ١٩٠وَاقتُلوهُم حَيثُ ثَقِفتُموهُم وَأَخرِ‌جوهُم مِن حَيثُ أَخرَ‌جوكُم......١٩١ ﴾ ..... سورة البقرة "تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ ہو اورانہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے" اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے جہاد کے حکم کی وجہ واضح طور پر بیان فرما دی ہے چونکہ کفار نے تمہارے ساتھیوں کو قتل کیا ہے، تمہیں تمہارے گھر بار اور جائیدادوں سے نکال دیا ہے لہٰذا اب ان سے جنگ کرو۔دونوں آیتوں کو سامنے رکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جارہا ہو ان کے گھربار چھینے جارہے ہوں، ان کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کیاجارہا ہو، انہیں قتل کیا جارہا ہو تو ایسے ظالموں، قاتلوں اور مفسدوں کے خلاف جنگ کرنی چاہئے اور اگر کفار مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے نکال دیں یا ان سے اِقتدار چھین لیں تو مسلمانوں کو بھی طاقت حاصل ہونے پر کفار کو وہاں سے نکال دینا چاہئے اور ان سے اقتدار واپس لینا چاہئے۔ ہجرت کے بعد مکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں پر کفارِ مکہ کا ظلم و ستم بدستور جاری رہا تو ان کی فریاد وفغاں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿وَما لَكُم لا تُقـٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّ‌جالِ وَالنِّساءِ وَالوِلد‌ٰنِ الَّذينَ يَقولونَ رَ‌بَّنا أَخرِ‌جنا مِن هـٰذِهِ القَر‌يَةِ الظّالِمِ أَهلُها وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ وَلِيًّا وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ نَصيرً‌ا ٧٥ ﴾...... سورة النساء "آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا فرما دے" یعنی جن مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں بستے ہوں ان کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے دوسرے تمام مسلمانوں کو جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ تینوں آیات میں جو اہم اور مشترک نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ظلم و تشدد، خون ریزی اور دہشت گردی کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا ہے، خواہ ظالم طاقت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ پس جہاد کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دنیا سے ظلم وتشدد، جارحیت، خون ریزی،غارت گری، دہشت گردی اور بدامنی کا مکمل طور پر استیصال اور خاتمہ کرنا ہے۔ 2۔ سورئہ انفال میں جن لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کا ایک جرم درج ذیل آیت میں بتایا گیا ہے: ﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا يُنفِقونَ أَمو‌ٰلَهُم لِيَصُدّوا عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقونَها ثُمَّ تَكونُ عَلَيهِم حَسرَ‌ةً ثُمَّ يُغلَبونَ.......٣٦ ﴾...... سورة الانفال "جن لوگوں نے حق ماننے سے انکار کیا ہے، وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے مگر آخر کار یہی کوششیں ان کے لئے پچھتاوے کا سبب بنیں گی پھر وہ مغلوب ہوں گے" یعنی جرم یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ (دین اسلام) پر آنے سے روکتے ہیں۔ اسی طرح سورئہ توبہ میں اللہ نے جن مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کو جنگ کرنے کا حکم دیا ہے، ان کا جرم یہ بتایا گیاہے: ﴿اشتَرَ‌وا بِـٔايـٰتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَليلًا فَصَدّوا عَن سَبيلِهِ ۚ إِنَّهُم ساءَ ما كانوا يَعمَلونَ ٩ ﴾..... سورة البقرة "ان مشرکوں نے اللہ کی آیتوں کوبہت کم قیمت پر فروخت کیا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکا ہے، بہت ہی برا کام ہے جو یہ لوگ کررہے ہیں" دونوں آیتوں میں اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے خلاف مسلمانوں کوجنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ کی راہ سے روکنے کے تین مفہوم ہیں اور تینوں صورتوں میں جہاد کا حکم ہے: اوّلاً: مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے سے زبردستی روکا جائے، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ ثانیاً :جو لوگ مسلمان بننا چاہیں، انہیں زبردستی مسلمان بننے سے روکا جائے۔ ثالثاً: مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنایا جائے یہ تمام صورتیں اللہ کی راہ سے روکنے کی ہیں، ایسا کرنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی جبر ختم کرنا اسلامی عقائد اور نظریات کی نشوونما اور ارتقاء میں رکاوٹ بننے والی باطل قوتوں کا قلع قمع کرنانیز بحیثیت ِمسلمان اپنے قومی وجود اور قومی یکجہتی کی حفاظت کرنا بھی جہادِ اسلامی کے مقاصد میں شامل ہے۔ 3۔ سورئہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی جہاد کا مقصد بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ٢٩ ﴾...... سورة التوبة "جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخرت میں ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے، اسے حرام قرار نہیں دیتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں" مذکورہ آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں : ا-دین حق کو غالب کرنے کے لئے کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے ۔ ب- غیر مسلموں کو بزورِ تلوار مسلمان بنانا مطلوب نہیں بلکہ اسلام کوغالب کرنے میں ان کی فعال تخریبی قوتوں کا قلع قمع کرنا مطلوب ہے۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں بھی ارشاد فرمائی ہے : ﴿وَقـٰتِلوهُم حَتّىٰ لا تَكونَ فِتنَةٌ وَيَكونَ الدّينُ لِلَّهِ.......١٩٣ ﴾...... سورة البقرة "کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے" اس آیت میں دین اسلام کو غالب کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ ارشادِ مبارک ہے کہ دین کو غالب کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا فتنہ جب تک ختم نہ ہوجائے، اس وقت تک جنگ کرتے رہو۔ یاد رہے کہ دین اسلام کی بنیاد عقیدئہ توحید ہے جس کے مطابق اس دنیاکا خالق، مالک، رازق، معبود، آقا اور شہنشاہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے، باقی ساری مخلوق اس کے عاجز بندے اور دست بستہ غلام ہیں جو اس کے آگے جوابدہ ہیں لہٰذا کسی انسان کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود لوگوں کاآقا بن جائے اور دوسروں کو اپناغلام بناکر ان پر ظلم و ستم کرنے لگے، کسی پیشوا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا معبود بن کر ان سے اپنی پوجا کروانے لگے، کسی دولت مند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا رازق بن کر ان کو ذلیل و رسوا کرنے لگے،کسی طاقتور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کامالک بن جائے اور ان کی عزتوں سے کھیلنے لگے، کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کا شہنشاہ بن جائے اور رعایا کے حقوق پامال کرنے لگے گویا بنیادی طور پر دین اسلام امن، سلامتی، مساوات، عدل و انصاف اور اُخوت کا مذہب ہے اور ظلم و زیادتی، جبروتشدد، بدامنی و دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا شدید دشمن ہے لہٰذا دین اسلام کو غالب کرنے کا مطلب اَمن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات اور اُخوت کا قیام اور ظلم و زیادتی جبروتشدد، بدامنی، دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا خاتمہ اور استیصال ہے۔ بعض دیگر جنگی اُمور کا تقابلی جائزہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اس نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر معاملہ میں ہدایات دی ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں بھی مسلمانوں کو ایسے قواعد و ضوابط کا پابند بنایا گیاہے جوکہ اولاً: قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہیں۔ ثانیاً: ان قواعد و ضوابط میں کسی بڑی سے بڑی اتھارٹی کو تغیر و تبدل کا اختیارنہیں۔ ثالثاً: ان قواعد و ضوابط کا ہر وہ شخص پابند ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر کوئی فاتح یا سپہ سالار ان قواعد وضوابط پر دورانِ جہاد عمل نہیں کرتا تو شریعت کی نگاہ میں وہ قانون شکن اور مجرم ہے جس کی اللہ کے ہاں قیامت کے روز باز پرس ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں مغربی اَقوام کے بارے میں یہ حقائق تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں کہ : اولاً: سترہویں صدی کے ابتدا تک مغربی اَقوام کے ہاں قانونِ جنگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔3 ثانیاً: مغربی اَقوام کے وضع کردہ قوانین جنگ ان کے اپنے مفادات کے تابع ہی وضع کئے گئے ہیں جن میں حسب ِضرورت نہ صرف تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے بلکہ قانون بنانے والے جب چاہتے ہیں، اپنے ہی قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔4 ثالثاً: ان قوانین کی پابندی صرف وہ اَقوام کرتی ہیں جو باقاعدہ اس معاہدہ میں شریک ہوتی ہیں، دیگر اَقوام ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوتی ہیں۔ اسلامی جنگیں اور غیر مسلموں کی جنگوں کا تقابلی مطالعہ جہادِ اسلامی کے قواعد و ضوابط اور دنیاوی جنگوں کے خود ساختہ قوانین میں اس بنیادی فرق کی وضاحت کے بعد ہم جہادِ اسلامی اور اقوامِ مغرب کی جنگوں کے بعض اُمور کا تقابلی جائزہ پیش کر رہے ہیں جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گا کہ تاریخ کی میزانِ عدل میں خون ریزی ، غارت گری، دہشت گردی، درندگی، سفاکی اور بربریت اَقوامِ مغرب کی جنگوں کے پلڑے میں ہے یا جہادِ اسلامی کے پلڑے میں ؟ ۱۔ آدابِ قتال رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ جہاد مختلف مواقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں، وہ یہ ہیں: دورانِ جہاد دشمن کے مقتولین کامثلہ نہ کرنا(بخاری) ...دشمن کی اَملاک میں لوٹ مار نہ کرنا(ابوداود)... دشمن کو اَذیت دے کر قتل نہ کرنا(ابوداود)... زیردست دشمن کوآگ میں نہ جلانا (بخاری) ...دشمن کو امان دینے کے بعد قتل نہ کرنا (ابن ماجہ) ...دشمن کو دھوکہ سے قتل نہ کرنا(ابوداود) جنگ ِموتہ کے لئے لشکر اسلام کوروانہ کرتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں: "بدعہدی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، کسی بچے بوڑھے اور درویش کو قتل نہ کرنا، کھجور یا کوئی دوسرا درخت نہ کاٹنا، کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا" (رحمة للعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری: ۲/۲۷۱) حضرت ابوبکرصدیق نے لشکر اسامہ  کوروانہ فرماتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں: (موطا ٴ مالک) "خیانت نہ کرنا، مال نہ چھپانا، بے وفائی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا،بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، ہرے بھرے اور پھلدار درختوں کونہ کاٹنا، کھانے کے علاوہ جانوروں کو بے کار ذبح نہ کرنا" ایک فوجی مہم میں حضرت خالد بن ولید سے غلط فہمی میں کچھ لوگ مارے گئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: "اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں"(بخاری) بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ جنگ ِبدر سے چند یوم پہلے حضرت حذیفہ اپنے والد ِمحترم کے ساتھ مکہ مکرمی سے ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے، کافروں نے روک لیا اور اس وعدہ پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اگر جنگ ہوئی تو تم اس میں حصہ نہیں لو گے۔ حضرت حذیفہ نے وعدہ کرلیا اور مدینہ پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔جنگ کا موقع آیا تو حضرت حذیفہ نے عرض کیا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اب ہم کیا کریں؟" رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہم قریش سے کئے گئے معاہدے کوپورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے" چنانچہ حضرت حذیفہ خواہش کے باوجود جنگ ِبدر میں شریک نہ ہوسکے۔(حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو: حصہ دوم، ص۱۳۷) حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی ان اعلیٰ و ارفع تعلیمات اور ذاتی حسن عمل نے عہد شکنی ، دھوکہ دہی، خون ریزی، وحشت بربریت، درندگی اور خونخواری کی حامل جنگوں کا اصولاً خاتمہ کرکے جنگ کو ایک مقدس مشن کا مقام دے دیا اور یہ مقدس مشن 'جہاد فی سبیل اللہ' مسلمانوں کے لئے اسی طرح کی ایک عبادت بنا دیا گیا جیسی نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور صدقات وغیرہ عبادت ہیں۔ جنگ ِاُحد میں دشمنوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نچلا دانت مبارک توڑ دیا ،ہونٹ زخمی ہوگیا، خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور چہرئہ اقدس خون آلود ہوگیا۔ میدانِ اُحد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار ساتھیوں کی لاشوں سے اَٹا پڑا تھا، لاشوں کا مثلہ کیا گیا تھا۔ میدانِ جنگ کا یہ نقشہ دیکھ کر کسی بھی فوج کے سپہ سالار کی جو ذہنی کیفیت ہوسکتی ہے،اس کاندازہ لگانا مشکل نہیں۔ چنانچہ لمحہ بھر کے لئے انسانی جذبات غالب آگئے اور فرمایا: "اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہو جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کردیا" لیکن فوراً مقدس مشن کے علمبردار رحمة للعالمین، محسن اِنسانیت انے اپنی بددعاکو اِس دعا کے ساتھ بدل دیا "اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں" (الرحیق المختوم: ص۴۲۱) مخلوقِ خدا کے رحم و کرم کی یہ بارش،بنی نوع انسان کے لئے عفوو درگزر کا یہ فیضان اور اپنے قاتلوں اور جانی دشمنوں کے لئے ہدایت اور نیکی کی یہ دعائیں اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ مطلوب انسانوں کی ہلاکت اور بربادی نہیں بلکہ ہدایت اور فلاح ہے۔ سیرتِ طیبہ کا یہ پہلو عظمت ِکردار کی ایسی رِفعتوں اور بلندیو ں کا حامل ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین اور فاتحین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شانِ کریمی کے آگے اوندھے منہ پڑے نظر آتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان پر پیغمبر اسلام کا یہ وہ احسانِ عظیم ہے جس کے بار سے بنی نوع انسان تاقیامت سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے یہ پاکیزہ اور اعلیٰ و اَرفع تعلیمات اس وقت دیں جب اپنے وقت کی مہذب ترین اقوام ... روم و ایران ... جنگوں میں وحشی جانوروں سے برتر وحشت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ ۵۴۰ء میں نوشیروان نے شام پر چڑھائی کی تو اس کے دارالحکومت انطاکیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، باشندوں کا قتل عام کیا، عمارتوں کو مسمار کیا، جب اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو شہر میں آگ لگوا دی۔ (الجہاد فی الاسلام: ص۲۱۲) ۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے جب بیت المقدس پرقبضہ کیا تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ ہر طرف ان کے ہاتھ اور پاؤں کے انبار لگ گئے، کچھ آگ میں زندہ پھینکے جارہے تھے ،کچھ فصیل سے کود کر ہلاک ہو رہے تھے اور گلیوں میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ حضرت سلیما ن  کے ہیکل میں دس ہزار مسلمانوں نے پناہ لی تھی، عیسائیوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان: ص۸۲) آج کے مہذب ترین یورپ کا حال عہد ِقدیم کے وحشی یورپ سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا کے مسلمان شہریوں نے ریفرنڈم کے ذریعہ آزادی کا فیصلہ کیا تو متعصّب سرب عیسائیوں نے بوسنوی مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کئے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مسلمانوں کے سینوں پر خنجروں سے صلیب کے نشان بنائے گئے، بچوں کو ذبح کرکے ماں باپ کو ان کا خون پینے پر مجبور کیاگیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے معصوم بچے نکال کر ذبح کئے گئے ۔کم سن نوجوان اور بوڑھی خواتین کی آبروریزی کرکے انہیں قتل کیا گیا۔ مسلمان قیدیوں کے جسموں سے اس طرح خون نکالا گیا کہ وہ سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ زندہ انسانوں کے جسموں سے خنجروں کے ساتھ کھال اُتاری گئی۔ بستیوں کی بستیاں اور دیہاتوں کے دیہات نذرِ آتش کئے گئے۔ پناہ گزین زندہ جلا دیئے گئے، لاشوں کا مثلہ کیا گیا، سرکاٹ کر سڑکوں پر فٹ بال کی طرح روندے گئے۔5 قدیم اور جدید وحشی یورپ کے یہ واقعات کسی تبصرہ کے محتاج نہیں۔ یہ واقعات پڑھ کرکسی بھی ذی ہوش انسان کے لئے یہ فیصلہ کرنامشکل نہیں کہ دورانِ جنگ احترامِ آدمیت، امن، سلامتی، نیکی، احسان، رحمدلی، خداترسی اور شرافت کس پلڑے میں ہے اور ظلم، بربریت، دہشت گردی، شقاوت اور درندگی کس پلڑے میں ہے...؟؟ 2۔ غیر مقاتلین سے سلوک جنگ میں کسی بھی صورت میں حصہ نہ لینے والے اَفراد مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی اور معذور لوگ یا گوشہ نشین درویش وغیرہ کو اسلام نے قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ رسولِ رحمت کا ارشادِ مبارک ہے "عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو" (بخاری)... ایک دوسری حدیث میں ارشاد مبارک ہے "عورتوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرو" (ابوداود)... ایک جنگ میں کچھ لوگ جمع تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر بتایا گیا کہ ایک عورت کی لاش پر لوگ جمع ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا: "عورت تو قتال نہیں کر رہی تھی" (پھر کیوں قتل کی گئی؟) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کو پیغام بھجوایا کہ کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کیا جائے۔ (ابوداود) عہد ِنبوی کی مہذب اَقوام (قیصر و کسریٰ) کا حال یہ تھا کہ ۶۱۳ء میں ایرانی بادشاہ خسرو پرویز نے قیصر روم ہرقل کو شکست دی تو مفتوحہ علاقے میں تمام مسیحی عبادت خانے مسمار کردیئے اور ۶۰ ہزار غیر مقاتلین (عورتوں،بچوں، بوڑھوں) کو تہ تیغ کیا جن میں سے ۳۰ ہزار مقتولوں کے سروں سے شہنشاہِ ایران کا محل سجایا گیا۔ (غزواتِ مقدس: ص۲۵۷) ایک نظر ترقی یافتہ یورپ کے مہذب جرنیلوں کی غیر مقاتلین کے بارے میں تعلیماتِ عالیہ بھی ملاحظہ ہوں: "گولہ باری کے وقت محصورین میں عورتوں اور بچوں اور دوسرے غیر مقاتلین کا موجود ہونا ہی جنگی نقطہ نظر سے مطلوب ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں محاصر فوج محصورین کو خوفزدہ کرکے ہتھیار ڈالنے پر جلدی سے جلدی مجبور کرسکتی ہے۔" ( الجہاد فی الاسلام: ص۵۷۰) ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی ہند میں انگریزوں نے جس بے دردی اور سنگدلی سے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے "جنگ ِآزادی میں ۲۷ ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی، سات دن برابر قتل عام ہوتا رہا جس کا کوئی حساب نہیں، بچوں تک کو مار ڈالا گیا، عورتوں سے جو سلوک کیا گیا وہ بیان سے باہر ہے۔ اس کے تصور سے ہی دل دہل جاتا ہے۔ (تاریخ ندوة العلماء از مولوی محمد جلیس:حصہ اوّل، ص۴) ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس میں غیر مقاتلین کو تحفظ دینے کا معاہدہ طے ہوا لیکن اس معاہدہ کے بعد جب متحدہ ریاست بلقان اور ترکی کے درمیان جنگ ہوئی تو اس میں ۲ لاکھ چالیس ہزار غیر مقاتلین مسلمان تلوار کے گھاٹ اُتا ردیئے گئے۔ (الجہاد فی الاسلام: ص۵۷۱) جنگ ِعظیم اوّل اور دوم میں مہذب یورپ کے مہذب جرنیلوں نے جس سنگدلی اور بربریت کے ساتھ شہری آبادیوں پربمباری کی، اس نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کا تصور ہی ختم کردیا۔جنگ ِعظیم دوم میں جدید تہذیب و تمدن کے تین بڑے علمبرداروں(امریکہ کے ٹرومین،برطانیہ کے چرچل اور روس کے سٹالن) نے جاپان کا سلسلہ فتوحات روکنے کے لئے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر جاپان کی شہری آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ۶/ اگست کوہیروشیما اور ۹/ اگست ۱۹۴۵ء کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ڈیڑھ لاکھ غیر مقاتلین کی شہری آبادی کو آنِ واحد میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔(قومی ڈائجسٹ: جولائی ۱۹۹۵ء) اقوامِ مغرب کی مکاری اور عیاری واقعی قابل داد ہے کہ ایک طرف دورانِ جہاد صرف ایک خونِ ناحق پر ناراض ہونے والے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم... جس نے اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے مستقل ضابطہ بنا دیا کہ دورانِ جہاد کسی غیر متعلق بچے، بوڑھے، عورت ، مزدور اور تارک الدنیا درویش کوقتل نہ کیا جائے... کی تلوار انسانیت دشمن6 وہ پیغمبر خونی پیغمبر، اس کی تعلیمات دہشت گردی اور دوسری طرف ہزاروں نہیں لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کوبے دریغ قتل کرنے والے زہریلی گیسوں سے ہلاک کرنے والے، ایٹم بموں سے ہنستے بستے گھروں اور شہروں کوصفحہ ہستی سے مٹانے والے خون خوار درندے اور قصاب مہذب، امن پسند اور انسانیت کے خیر خواہ... ؟؟؟ ۳۔ اسیرانِ جنگ سے سلوک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کے خلاف سات جنگیں لڑیں،ان میں سے دو جنگوں میں دشمن کے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ غزوئہ بدر میں ۷۰ اور غزوئہ حنین میں ۶ ہزار۔جنگ ِبدر کے قیدی وہ لوگ تھے جنہوں نے ظلم و تشدد کرکے مسلمانوں کوجلاوطنی پر مجبور کر دیاتھا، اس کے باوجود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے اس شدت سے اس حکم پرعمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر گزارا کرتے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے۔ جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے، انہیں کپڑے مہیا کئے۔(تاریخ اسلام: ص۴۲) کچھ مدت بعد بعض قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا گیا بعض قیدیوں کوبلا فدیہ بطورِ احسان رہا کیا گیا اور بعض قیدیوں کودس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض رہا کیا گیا۔یاد رہے کسی ایک بھی قیدی کو نہ تو قتل کیا گیا، نہ کسی سے انتقام لیا گیا بلکہ ایک قیدی سہیل بن عمرو جوبڑا شعلہ بیان خطیب تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتاتھا، کے بارے میں حضرت عمر نے تجویز پیش کی کہ اس کے اگلے دو دانت تڑوا دیجئے تاکہ آئندہ یہ آپ کے خلاف شعلہ بار تقریریں نہ کرسکے۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز مسترد فرما کر اسیرانِ جنگ سے حسن سلوک کی ایسی زرّیں مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک جنگوں کی تاریخ میں اپنی مثال آپ رہے گی۔ غزوئہ حنین میں چھ ہزار اسیرانِ جنگ کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف بطورِ احسان بلا فدیہ رہا فرمایابلکہ رہائی کے وقت تمام قیدیوں کو ایک ایک چادر بطورِ ہدیہ عنایت فرمائی۔( الرحیق المختوم: ص ۶۷۱) اجتماعی قیدیوں کے ساتھ ساتھ ایک انفرادی قیدی کا تذکرہ بھی پڑھ لیجئے۔ یمامہ کا حاکم ثمامہ بن اثال گرفتار ہو کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا اور خود گھر جاتے ہی فرمایا "گھر میں جو کھانا موجود ہے، وہ ثمامہ کو بھجوا دیا جائے نیز فرمایا کہ روزانہ میری اونٹنی کا دودھ صبح و شام اسے بھجوا دیا جائے"۔ یاد رہے کہ ثمامہ ماضی میں نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کرچکا تھا بلکہ کئی صحابہ کرام کا قاتل بھی تھا۔ اس کے باوجود تین چار دن کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطورِاحسان بلا فدیہ رہاکرنے کا حکم دیا تو اس حسن سلوک اور فیضانِ عفووکرم سے متاثر ہو کر ثمامہ مسلمان ہوگیا۔ اب ایک نظر 'مہذب اور امن پسند' یورپ کے اسیرانِ جنگ سے'حسن سلوک' پربھی ڈال لیجئے: قیصر روم باسل (۹۶۳ء تا ۱۰۲۵ء) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیرانِ جنگ کی آنکھیں نکلوا دیں۔ ہر سو قیدی کے بعد ایک قیدی کی ایک آنکھ باقی رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔ (یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۲) ایک جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی تو تمام مسلم اسیرانِ جنگ کو سمندر کے کنارے لٹا کر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دیئے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پرواپس جائیں تو اس منظر کو دیکھ سکیں۔(ایضاً) ۱۷۹۹ء میں مہذب یورپ کے سب سے بڑے جنرل نپولین بونا پارٹ نے یافا کے چار ہزار ترک اسیرانِ جنگ کو محض اس عذر کی بنا پر قتل کرا دیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لئے خوراک مہیا نہیں کرسکتا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام : ص۵۴۶) جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) میں فلپائن کے ایک محاذ پر امریکہ اور فلپائن کی مشترکہ فوج کے ۷۵ ہزارفوجیوں نے جاپانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ فاتح فوج نے ۷۵ ہزار اسیرانِ جنگ کو شدید گرمی، بھوک اور پیاس کی حالت میں ۶۵ میل پیدل چلا کر نظر بندی کیمپوں تک پہنچنے کا حکم دیا۔بیشتر اسیرانِ جنگ طویل سفر کی ناقابل برداشت صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہوگئے۔ تاریخ میں اس سنگدلانہ اور بے رحمانہ سفر کوDeath March کا نام دیا گیا ہے۔(قومی ڈائجسٹ:جولائی ۹۵ء) قارئین کرام! تاریخ کے دو کردار، دو نظامِ حیات، دو عقیدے، دو نظریے اور دو راستے ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح رکھے ہیں، کیا یہ حقیقت سمجھنے میں کوئی دقت یا دشواری پیش آرہی ہے کہ کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد نیکی، احسان، امن، سلامتی، شرافت اور احترامِ آدمیت پرہے اور کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد ظلم، خون ریزی، غارت گری، انسانیت دشمنی، دہشت گردی، سنگدلی، بے رحمی اور وحشت و بربریت پر ہے؟ 4۔ مفتوحین سے سلوک فتح کے بعد فاتح قوم، مفتوح قوم سے بڑا سنگدلانہ اور بے رحمانہ سلوک کرتی ہے۔ قدیم اور جدید عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن پیغمبر اسلام نے اپنے دشمنوں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے بعد رحمدلی، خدا ترسی، عفووکرم اور حسن سلوک کی نادر مثالیں پیش کرکے جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے زرّیں باب کا اضافہ فرمایا۔ مکہ فتح ہوا تو تمام اکابر مجرمین، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کے حرم کے اندر خون بہانے والا عکرمہ بن ابی جہل، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرانے والا ہبار بن اسود (یاد رہے کہ اونٹ سے گرنے کے نتیجہ میں حضرت زینب کا حمل ساقط ہوگیا تھا) مکی زندگی میں بیت اللہ شریف کی چابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودینے سے سختی سے انکار کرنے والا عثمان بن طلحہ، مکہ مکرمہ میں داخلہ کے وقت لشکر اسلام کی مزاحمت کرنے والا صفوان بن امیہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کوشہید کرکے جسم مبارک کا مثلہ کرنے والا وحشی بن حرب، حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبانے والی ہند بنت عتبہ، سارے کے سارے مجرم موجود تھے ۔رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابِ عام فرمایا اور پوچھا: "تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟" لوگوں نے کہا: "آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا : ﴿لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ...﴾ "آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو" مفتوح قوم سے حسن سلوک کی اس پیغمبرانہ تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ عہد ِنبوت کے بعد مسلم فاتحین بھی اس طرزِ عمل پر کاربند رہے۔ عہد ِصدیقی میں جب حیرہ فتح ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق نے وہاں کے عیسائیوں کو از روئے معاہدہ یہ حقوق عطا فرمائے: "ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کئے جائیں گے، کوئی جنگی قلعہ نہیں گرایا جائے گا، ناقوس بجانے کی اجازت ہوگی، تہوار کے موقع پرصلیب نکالنے کی اجازت ہوگی" جزیہ کی شرح محض دس درہم سالانہ تھی جو کہ سات ہزار میں سے صرف ایک ہزار ذمیوں سے وصول کی جاتی، اپاہج اور نادار ذمیوں کی کفالت کا اسلامی بیت المال ذمہ دار تھا۔ ( تاریخ اسلام، ص۱۵۳) حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو مفتوح قوم کو ان الفاظ میں معاہدئہ امن لکھ کردیا "یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی، نہ وہ گرائے جائیں، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں کمی کی جائے گی۔ مذہب کے معاملہ میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا" (تاریخ اسلام، ص۱۸۹) عہد ِفاروقی میں ہی مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراح  کو رومیوں کے دباؤ کی وجہ سے شام کا ایک شہر چھوڑنا پڑا تو حضرت ابوعبیدہ نے ذمیوں کا جزیہ یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ سماں دیکھنے کا قابل تھاکہ مسلمان رخت ِسفر باندھ رہے تھے اور عیسائی زار زار رو رہے تھے، ان کے بشپ نے ہاتھ میں انجیل لے کر کہا "اس مقدس کتاب کی قسم! اگر کبھی ہمیں اپنا حاکم خود منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو ہم عربوں کو ہی منتخب کریں گے۔" (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۲۸) ۷۱۱ء میں مجاہد اسلام محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور صرف تین سال وہاں قیام کیا۔ ان تین برسوں میں محمد بن قاسم نے اپنے حسن سلوک اور حسن تدبر سے سندھیوں کو اس حد تک اپنا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اس کی ماتحتی میں اپنے ہی فوجی سرداروں سے لڑنا باعث ِفخر سمجھتے تھے۔ تین سال بعد جب محمد بن قاسم عراق واپس جانے لگا تو لوگوں کی اشکبار آنکھیں ان کے اندرونی غموں کی غمازی کر رہی تھیں۔ لوگ عرصہ دراز تک اس کی جرات ، نیک سلوک اور پروقار شخصیت کی باتیں کرتے رہے۔(اسلامی تاریخ پاک و ہند، از ہدایت اللہ خان چوہدری، ص۱۲) ۷۱۱ء میں مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو فاتح قوم کے حسن سلوک کی گواہی ایک انگریز موٴرخ ول ڈیوران نے ان الفاظ میں دی" اندلس پر عربوں کی حکومت اس قدر عادلانہ، عاقلانہ اور مشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اندلس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۳۲) ۱۰۷۱ء میں سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے دیو جانوس رومانوس کوشکست دی۔ قیصر گرفتار ہوکر ارسلان کے سامنے پیش ہوا تو اس نے پوچھا "اگر میں گرفتار ہو کر تمہارے سامنے پیش ہوتا تو تم مجھ سے کیا سلوک کرتے؟" قیصر نے جواب دیا "میں کوڑوں سے تمہاری کھال کھینچ لیتا۔" سلطان نے کہا "مسلمان فاتح اور غیر مسلم فاتح میں یہی فرق ہے۔" اس کے بعد قیصر کے ساتھ جزیہ کی انتہائی معقول شرائط طے کرکے اسے بے بہا تحائف عطا کئے، اس کی سلطنت اسے واپس کردی اور بڑے شان و احترام سے رخصت کیا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۲۸) ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا تو کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ دی او رہلکا سا ٹیکس (جزیہ) لگانے کے بعد سب کو مذہبی آزادی دے دی اور دورانِ جنگ عیسائیوں کا سپہ سالار رچرڈ اوّل بیمار ہوا تو صلاح الدین اسے کھانا، پھل اور دیگر مفرحات بھجواتا رہا۔(ایضاً : ص۸۳) ۱۱۹۳ء میں والی قرطبہ ابویوسف یعقوب بن منصور نے طلیطلہ کا محاصرہ کیا جس پرایک عیسائی شہزادی حکومت کررہی تھی۔ شہزادی نے ابویوسف کوپیغام بھجوایا کہ عورتوں پر حملہ کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں۔ ابویوسف نے شہزادی کو سلام بھجوایا اور محاصرہ فوراً اٹھا لیا۔" (ایضاً:ص۱۳۰) مسلم فاتحین کے اس حسن سلوک کے نتیجہ میں وہاں کے خاص و عام میں اسلام کس تیزی اور سرعت سے پھیلا، یہ تاریخ کا ایک الگ سنہری باب ہے جو ہمارے موضوع سے تعلق نہیں رکھتا، لہٰذا ہم اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہوئے اب مفتوح اقوام کے ساتھ غیر مسلم فاتحین کے 'حسن سلوک' کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں : ۶۱۳ء میں شہنشاہِ ایران خسرو پرویز نے قیصر روم ہرقل کو شکست دی تو ہرقل نے صلح کی درخواست کے لئے اپنا ایک وفد خسرو کے پاس بھیجا۔ خسرو نے سربراہِ وفد کی جیتے جی کھال کھنچوا دی اور باقی ارکانِ وفد کو قید کردیا اور صلح کی پیشکش کے جواب میں جو خط لکھا اس کا سرنامہ یہ تھا۔ خسرو، خداوند ِبزرگ، فرمانروائے عالم کی جانب سے اس کے احمق او رکمینہ غلام ہرقل کے نام" (الجہاد فی الاسلام، ص۲۰۹) خسرو نے صلح کے لئے جوشرائط مقرر کیں، وہ یہ تھیں: "ڈھائی لاکھ پونڈ سونا، ڈھائی لاکھ پونڈ چاندی، ایک ہزار ریشمی تھان، ایک ہزار گھوڑے کے ساتھ ایک ہزار کنواری لڑکیاں، ہرقل ادا کرے گا۔ ہرقل نے یہ سب کچھ دینا منظور کرلیا تو خسرو نے مزید مطالبہ یہ کیا کہ ہرقل زنجیروں میں جکڑا ہوا میرے تخت کے نیچے ہونا چاہئے اورمیں اس وقت تک صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشاہِ روم اپنے مصلوب خداکو چھوڑ کر سورج دیوتا کے آگے سر نہ جھکائے۔" (غزواتِ مقدس: ص۲۵۸) تیسری صلیبی جنگ میں برطانیہ کے 'شیردل' رچرڈ اوّل (۱۱۸۹ء۔ ۱۱۹۹ء) نے اسلامی فوج کے ایک دستے کو جو تین ہزار افراد پر مشتمل تھا، وعدہ معافی دے کر ہتھیار رکھوا لئے اور بعد میں سب کو قتل کرڈالا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۸۳) ۱۸۳۷ء میں فرانس نے الجزائر کا دارالحکومت قسطنطنیہ فتح کیا تو اس کی فوجیں تین دن تک قتل و غارت میں مشغول رہیں۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص۵۷۵) ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے جب دِلی فتح کی تو فاتح قوم نے مفتوح قوم کے ساتھ جس درندگی، وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا، تاریخ انسانی اس کے ماتم سے قیامت تک فارغ نہیں ہوسکے گی۔ انگریزوں کے ظلم اور بربریت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں : 1۔ دہلی میں جس شخص کے چہرے پر داڑھی نظر آتی یا جس کا پاجامہ اونچا ہوتا، اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا۔ (سوانح سیدعطاء اللہ شاہ بخاری از شورش کاشمیری: ص۱۳۷،۱۳۸) 2۔ سرہنری کاٹن کی یاداشتوں سے ایک اقتباس "میں نے اپنے سکھ اردلی کی خواہش پر ان بدبخت مسلمانوں کو عالم نزع میں دیکھا جن کی مشکیں کس کے زمین پربرہنہ ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے جسم پر گرم تانبے کی سلاخیں داغ دی گئی تھیں۔ میں نے انہیں پستول سے ختم کردینا ہی مناسب سمجھا، ان بدنصیب قیدیوں کے سڑے ہوئے گوشت سے مکروہ بدبونکل کر آس پاس کی فضا کو مسموم کر رہی تھی۔" (ایضاً: ص ۱۳۷،۱۳۸) 3۔ مسٹر ڈی لین ایڈیٹر 'ٹائمز آف انڈیا' کے مضمون کا ایک اقتباس "زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنا یا زندہ آگ میں جلانا اور انہیں مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کریں یقینا عیسائیت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے" (ایضاً) 4۔ جنرل نکلسن نے دریائے راوی کے کنارے جس بہیمانہ طریقے سے باغیوں کو قتل کیا، وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ انگریز موٴرخوں نے خود اسے انگریز قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔ بقول لارڈ الفسٹن "ہماری فوج کے مظالم کا تذکرہ روح میں کپکپی پیدا کردیتا ہے۔ جہاں تک لوٹ مار کا تعلق ہے، ہم نادر شاہ ایرانی سے بھی بازی لے گئے ہیں" (ایضاً:۱۳۶) ۱۹۱۸ء میں سوویت یونین نے قازقستان پرقبضہ کیا تو وہاں کی تمام مساجد اور دینی مدارس منہدم کردیئے۔ علماء اور اساتذہ کوفائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھون دیا گیا۔ ان ظالمانہ کارروائیوں میں دس لاکھ قازق مسلمان شہید کئے گئے۔ (ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، جولائی ۱۹۹۵ء) ۱۹۴۶ء میں یوگو سلاویہ میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو کیمونسٹوں نے چوبیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ سترہ ہزار سے زائد مساجد اور مدارس مسمار کئے اور بیشتر مساجد کی جگہ ہوٹل اور سینما جات تعمیر کردیئے۔ آج جس جگہ سربیا کے دارالحکومت بلغراد کااسمبلی ہاؤس واقع ہے وہاں بلغراد کی سب سے زیادہ خوبصورت وسیع و عریض مسجد واقع تھی جو ۱۵۲۱ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ (مجلہ الدعوة:فروری ۱۹۹۳ء) داروسکندر سے لے کر ترقی یافتہ یورپ کے مہذب جرنیلوں تک کی روایت یہی ہے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرتی ہے۔ شہریوں اور بستیوں کو تاراج کرتی ہے، سرسبزوشاداب کھیتوں اور باغات کو برباد کرتی ہے، گھروں اور عمارتوں کونذرِ آتش کرتی ہے، لیکن پیغمبر اسلام نے اس خونی روایت سے ہٹ کر ایک عظیم انقلابی اور اِصلاحی روایت کی طرح ڈالی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کامشن لوگوں کی جانیں لینا نہیں، جانیں بچانا تھا، زمین کے خطوں کوفتح کرنا نہیں بلکہ دلوں کوفتح کرنا تھا، انسانوں کو ذلیل اور رسوا کرنا نہیں بلکہ عزوشرف عطا کرنا تھا۔ شہروں اور بستیوں کو ویران کرنا نہیں بلکہ آباد کرنا تھا۔ درندگی، دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا نہیں بلکہ درندگی، دہشت گردی اور فساد فی الارض کا قلع قمع کرنا تھا۔ ہر وہ شخص جو ضمیر کی آواز رکھتا ہے، جس کا دل اور دماغ تعصب سے اندھا نہیں ہوا، وہ پیغمبر اسلام کی قائم کی ہوئی اس عظیم انقلابی اور اصلاحی روایت میں پیغمبر اسلام کے مقدس مشن کو بڑی آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔ ۵۔ جنگوں میں ہلاکت کے اعدادوشمار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سالہ مدنی زندگی میں سات جنگیں لڑیں جن میں طرفین سے کام آنے والے افراد کی تعداد درج ذیل ہے : غزوہ/سریہ مسلمانوں کا نقصان دشمن کا نقصان اسیر زخمی شہید اسیر زخمی مقتول ۱۔ غزوئہ بدر ... ... ۲۲ ۷۰ ... ۷۰ ۲۔ غزوئہ اَحد ... ۴۰ ۷۰ ... ... ۳۰ ۳۔ غزوئہ اَحزاب ... ... ۶ ... ... ۱۰ ۴۔ غزوئہ خیبر ... ۵۰ ۱۸ ... ... ۹۳ ۵۔ سریہٴ موتہ ... ... ۱۲ ... ... نامعلوم ۶۔ غزوئہ مکہ ... ... ۲ ... ... ۱۲ ۷۔ غزوئہ حنین ... ... ۶ ۶۰۰۰ ... ۷۱ کل تعداد ... ۹۰ ۱۳۶ ۶۰۷۰ ... ۲۸۶ غزوات اور سرایا میں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی کل تعداد = ۴۲۲7 پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالی مدنی زندگی میں پیش آنے والی سات جنگوں میں مسلم شہدا کی تعداد ۱۳۶ اور دشمن کے مقتولین کی تعداد ۲۸۶ اور طرفین سے کام آنے والے تمام اَفراد کی کل تعداد ۴۲۲ ہے اور اسیرانِ جنگ کی تعداد ۶۰۷۰ ہے۔ یاد رہے کہ اسیرانِ جنگ میں سے کوئی ایک بھی قتل نہیں کیا گیا بلکہ سارے کے سارے قیدی بخیریت رہا کئے گئے۔ سات جنگوں میں کام آنے والے افراد کی یہ محیر العقول تعداد اس زمانے کی ہے جس زمانے میں انتقام درانتقام کی شکل میں ہونے والی طویل جنگوں میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔آئیے ایک نظر آج کے مہذب اور امن پسند یورپ کی جنگوں پر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ دورِ جاہلیت کی وحشت اور بربریت سے کس قدر مختلف ہے؟ جنگ ِعظیم اوّل (۱۴تا ۱۹۱۸ء) میں مجموعی طور پر ۷۵ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ایک کھرب ۸۶ ارب ڈالر کے وسائل حیات کو نذرِ آتش کیا گیا۔(جہانگیر انسائیکلوپیڈیا آف جنرل نالج از زاہد حسین انجم : ص ۳۸۱) جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء ۔ ۱۹۴۵ء) میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ انسان ہلاک ہوئے، صرف ایک شہر سٹالن گراڈ میں دس لاکھ اَفرادلقمہ اَجل بنے۔ جرمنی میں ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کئے گئے۔جاپان کے دو شہر مکمل طور پر صفحہٴ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ بیک وقت چاربراعظموں ... یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ... پر مسلسل ۶ برس تک اس منحوس جنگ کے مہیب سائے چھائے رہے۔ چار براعظموں کے انسٹھ ممالک (پچاس اتحادی اور نو محوری) آپس میں دست و گریبان ہوئے جن میں سے صرف ایک ملک امریکہ کا اس جنگ میں تین کھرب ساٹھ ارب ڈالر کاخرچ اُٹھا۔ (ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور، جولائی ۱۹۹۵ء) مذکورہ اَعدادوشمار دیکھنے کے بعد ہم یورپ کے واقعتا مہذب، امن پسند اور سنجیدہ ماہرین حرب و ضرب سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے انقلاب کے لئے دو طرفہ کام آنے والے نفوس کی ایسی ناقابل یقین حد تک کم تعداد کی اگر کوئی دوسری مثال ہے تو پیش کیجئے، اگر نہیں (اور واقعی نہیں) تو پھر ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر اتنے عظیم سیاسی، تمدنی اور روحانی انقلاب کی خاطر دو طرفہ کام آنے والے ۴۲۲ نفوس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ناپید ہے او راس کے باوجود تمہارے نزدیک پیغمبراسلام کی تلوار انسانیت کی دشمن ہے، پیغمبر اسلام، خونی پیغمبر ہے، اس کی تعلیمات سے بوئے خوں آتی ہے، اس کا لایا ہوا دین قصاب کی دوکان ہے اور اس کا دیا ہوا فلسفہ جہاد، دہشت گردی اور فساد فی الارض ہے تو پھر جنگ ِعظیم اوّل اور دوم کی داستانیں پڑھ کر بتاؤ کہ کرئہ ارضی کو دو مرتبہ آگ اور خون میں نہلانے والے خونخوار اور سفاک درندوں کو کس نام سے پکارو گے۔ کروڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کوہلاک کرنے اور خون کی ندیاں بہانے والے قصابوں اور جلادوں کو کس لقب سے یاد کرو گے؟ سرسبز و شاداب وادیوں اور مرغزاروں کو تاراج کرنے اور شہری آبادیوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے والے دہشت گردوں اور مفسدوں کو تاریخ میں کون سا مقام دو گے؟ نسل انسانی کے گلے میں طوقِ غلامی کی لعنت ڈالنے والے اور تڑپتی لاشوں پر اپنی عیش و عشرت کے محل سجانے والے مغرور شہنشاہوں کے لئے لغت ِانسانی کے کون سے الفاظ استعمال کرو گے؟ المیہ یہ ہے کہ اہل کتاب عہد ِنبوت میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب جاننے اور پہچانے کے باوجود محض نسلی تعصب، حسد اور بغض کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تھے اور آج بھی ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہی تعصب، حسد اور بغض ہے۔ عہد ِنبوت میں اُمّ المومنین حضرت صفیہ کا بیان کردہ واقعہ اس دعویٰ کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ حضرت صفیہ  فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابویاسر بن اخطب کو سنا وہ میرے (یہودی) والد حیی بن اخطب سے کہہ رہا تھا "کیا واقعی یہ وہی (نبی) ہے؟" والد نے کہا "ہاں! خداکی قسم وہی ہے۔" چچا نے کہا "کیا آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں؟" والدنے کہا "ہاں! " چچا نے پوچھا "پھر کیا ارادہ ہے؟" والد نے کہا "خدا کی قسم! عداوت ہی عداوت، جب تک زندہ رہوں گا " (الرحیق المختوم، ص۲۸۴) عہد ِنبوت کو گزرے آج چودہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن افسوس کہ حریت ِفکر، آزادی رائے اور تہذیب ِجدید کے اس دور میں مغرب میں بسنے والا ترقی پسند انسان جو مادّی دنیا میں زمین سے چاند تک کا سفر طے کرچکا ہے، ایمان کی دنیا میں تعصب، بغض اور حسد کے مقام سے ایک انچ کاسفر بھی طے نہیں کرسکا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آج بھی اس کا اندازِ فکر وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ساری دنیا میں ہر طرف شرک و بت پرستی کا دور دورہ تھا، جہالت، وحشت اور بربریت کے منحوس سائے چھائے ہوئے تھے۔ خون ریزی، غارت گری، انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔ شہنشاہوں اور ان کے حواریوں نے ہر جگہ رعایا کو بدترین مظالم کا نشانہ بنا رکھا تھا۔مذہبی پروہتوں کی خانقاہیں عیش و عشرت کے اڈّے بنے ہوئے تھے، انسانیت بے بسی اور بے کسی کی خوفناک زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہوئی تھی کہ نجات کے لئے کہیں سے اُمید کی موہوم سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، انسانیت کے نجات دہندہ بن کر اُٹھے اور صدیوں پرانے جمے جمائے جاہلانہ نظام سے ٹکر لے کر انتہائی مختصر مدت میں محض چار سو بائیس (۴۲۲) افراد کی قربانی سے پورے جزیرئہ عرب میں ایک ایسا عظیم الشان تہذیبی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی انقلاب برپا کردیا جو پیغمبرانہ بصیرت کے بغیرممکن ہی نہیں اور پھر سات جنگوں میں صرف ۴۲۲ /افراد کا زیاں اور ۶۰۷۰ / اسیرانِ جنگ میں سے سارے کے سارے ۶۰۷۰ اسیرانِ جنگ کی بخیریت رہائی، کیا اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ پیغمبر اسلام خوں ریزی اور غارت، ہلاکت اور بربادی، دہشت اور بربریت، غلامی اور ذلت و نکبت کے نہیں، امن و سلامتی، رحمدلی وخدا ترسی، نیکی و احسان، شرافت و اُخوت، حریت و احترامِ آدمیت کے پیغمبر تھے؟ اہل مغرب کے نام دنیا کو آج جس بدامنی، دہشت گردی ،وحشت اور درندگی کا چیلنج درپیش ہے اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظریات ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ الہامی مذاہب میں اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب تغیر و تبدل سے غیر محفوظ ہیں لہٰذا اب اسلام ہی وہ الہامی مذہب ہے جسے عہد ِجدید کے اس خوفناک چیلنج کوقبول کرنے کے لئے آزمایا جانا چاہئے۔ اہل مغرب کے نام ہمارا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام سے تصادم کا راستہ نہ اپنائیں، اسے اپنا حریف نہ سمجھیں، اس سے خا ئف نہ ہوں۔ اسلام سراسر امن وسلامتی اور محبت و اُخوت کا مذہب ہے اور اپنے سے پہلے آئے ہوئے مذاہب کی تائید کرنے والا ہے۔ اہل مغرب کو حریت ِفکر کے اس عہد میں تعصب سے بالاتر ہو کرپورے صدقِ دل سے پیغمبر اسلام کی سیرتِ طیبہ اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کامطالعہ کرناچاہئے اور حقائق کی تہ تک پہنچنا چاہئے۔ یاد رکھئے، آج اہل مغرب کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت حق کو قبول کرکے دم توڑتی ہوئی انسانیت کو تباہی، ہلاکت اور بربادی سے بچا لیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا انتظار کریں جو تھوڑا ہی عرصہ پہلے دریائے آمو کے اس پار بسنے والی دنیا کی ایک عظیم الشان قوت پر پوری ہوچکی اور جس کاذکر اللہ نے اپنی کتابِ مقدس 'قرآن مجید' میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے : ﴿وَكَم أَهلَكنا قَبلَهُم مِن قَر‌نٍ هُم أَشَدُّ مِنهُم بَطشًا فَنَقَّبوا فِى البِلـٰدِ هَل مِن مَحيصٍ ٣٦ ﴾....... سورة ق "ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان ماراتھا، پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پاسکے ؟"


نوٹ

1. چند سال قبل امریکہ کے یہودی ایمرسن نے ایک فلم ’جہاد اِن امریکہ‘ بنائی جس میں مسلمانوں کو ڈاکو او ردہشت گرد دکھایا گیا ہے ۔ ( ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۴؍مئی ۱۹۹۵ء

2. جزیہ سے مراد وہ ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت غیرمسلموں سے وصول کرتی ہے جس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان کے جا ن ومال کی حفاظت کرتی ہے ۔ جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلموں کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے عقیدہ اور مذہب پر عمل کرتے رہیں لیکن انہیں اپنے عقیدہ اور مذہب کی اشاعت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

3. تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، الجہاد فی الاسلام : باب ہفتم ’جنگ تہذیب ِجدید میں‘‘

4. پہلی مرتبہ ۱۸۶۸ء میں جنیوا اور دوسری مرتبہ ۱۸۷۴ء میں بروسلز کانفرنس میں یورپ کی مہذب ترین حکومتوں میں یہ طے پایا کہ جنگ میں آتش گیر مادّہ او رزہریلی گیس استعمال نہیں کی جائے گی۔لیکن جنگ ِعظیم دوم(۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کرکے اس قانون کے پرخچے اُڑا دئیے۔ اگست ۱۸۶۴ء میں یورپ کی تمام حکومتوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے مطابق فوجی ہسپتالوں کا عملہ غیر جانبدار قرار دیا گیااور بیماروں ، زخمیوں کے علاج میں مزاحمت کوناجائز قرار دیا گیالیکن جنگ ِعظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) میں فریقین نے ایک دوسرے کے ہسپتالی جہاز بڑی دیدہ دلیری سے غرق کرکے اس قانون کی دھجیاں اُڑا دیں۔

5. تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مجلہ ’الدعوۃ‘ لاہور :اگست ۱۹۹۲ء ، فروری ۱۹۹۳ء … ہفت روزہ ’تکبیر‘کراچی: ۱۵؍جولائی ۱۹۹۳ء … ہفت روزہ ’زندگی‘ لاہور: ۱۳؍نومبر ۱۹۹۳ء

6. ہندوستان میں یوپی کے گورنر سر ولیم میور نے پیغمبر اسلام اکے خلاف کتاب لکھی جس میں اس نے لکھا ہے کہ ’’انسانیت کے دو سب سے بڑے دشمن ہیں: محمد ا کی تلوار اور محمد کا قرآن‘‘ (موجِ کوثر از شیخ محمد اکرم: ص ۱۶۳)

7. عام طو رپر مؤرخین او رسیرت نگاروں نے رسولِ اکرم ﷺ کے غزوات اور سریا کی تعداد ۸۲ لکھی ہے جودرست نہیں۔ غزوات کی تعداد صرف ۷ ہے ، البتہ حیاتِ طیبہ کی تمام چھوٹی بڑی کاروائیوں کی تعداد ۸۲ ہے جن کی تفصیل حسب ِذیل ہے

                                                       کارروائیوں کا مقصد           کارروائیاں              شہداء         مقتولیندشمن

1۔تبلیغ اسلام اور تکمیل معاہدات ۵ … … 2۔بت شکنی کی مہمات ۳ … … 3۔دشمن کی طرف سے ڈاکہ زنی کے بعد مسلمانوںکا تعاقب ۱۰ ۱۹ ۱۲ 4۔ذاتی نوعیت کے واقعات قتل ۵ … ۵ 5۔غلط فہمی کی بنا پرپیش آنے والے تصادم ۶ … ۱۲۷ 6۔سرحدوں کی حفاظت کے لئے کی گئی کارروائیاں ۳۸ ۷۳ ۱۱ 7۔دشمن کی طرف سے دھوکہ دہی اور بغاوت کے واقعات ۸ ۸۲ ۴۱۰ 8۔جنگیں (غزوات و سرایا) ۷ ۱۳۶ ۲۸۶

 کل تعداد ۸۲                          ۳۱۰         ۸۵۱
 ۲۸ کاروائیوںمیں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی تعداد : ۱۱۶۱

نوٹ: دونوں جدول ترتیب دینے میں زیادہ تر انحصار قاضی سلیمان منصور پوری ؒ مؤلف رحمۃ للعالمین کی تحقیق پر کیا گیا ہے ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، رحمۃ للعالمین : ج۲، باب غزوات و سرایا۔





اسلام اور مغرب شیخ ابراہیم محمد العقیل مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی تاریخی مہم

عیسائی مشنری اِداروں کی سرگرمیاں دنیا بھر میں زروں پر ہیں، بالخصوص پس ماندہ علاقوں اور افریقہ کے دوردراز دیہاتوں میں عیسائی مشنریوں نے اپنے بیسیوں مشن شروع کررکھے ہیں۔ مسائل میں گھرے فاقہ زدہ انسان پیٹ بھرنے کی خاطر دھڑا دھڑ عیسائیت قبول کررہے ہیں۔اسلام کی موٴثر دعوت سے عیسائی ہمیشہ سے ہی خائف رہے ہیں کیونکہ دیگر مذاہب مخصوص اَقوام تک محدود رہتے ہیں جبکہ اسلام کی دعوت ہر عقل وبصیرت رکھنے والے کو متاثر کرتی ہے ۔عیسائیوں نے اسلام کی قوت کے سامنے بند باندھنے کیلئے جدید ذرائع کے بھر پور استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے خزانوں کے بھی منہ کھول رکھے ہیں۔ عیسائیت کے ان تبلیغی مشنوں کا چرچا اخبارات میں آئے روز چھپتا رہتا ہے۔ پاکستان میں عیسائیوں کی حیران کن چلت پھرت اور اسلام کش سرگرمیوں کی رپورٹ 'محدث' کے گذشتہ شمارے میں شائع کی گئی تھی۔ عربی زبان میں اِسے حرکة تنصیریة یعنی 'عیسائی بنانے کی تحریک' سے موسوم کیا جاتاہے۔ عالم عرب میں بھی اس بارے میں بہت تشویش پائی جاتی ہے اور عربی مجلات ورسائل میں اس پر بیش بہا تحقیقی لٹریچر شائع ہورہا ہے۔اس موضوع کی اہمیت کی پیش نظر مجلس التحقیق الاسلامی کے 'شعبہٴ ترجمہ' میں مختلف عربی رسائل میں شائع ہونے والے اہم مقالات کے تراجم کئے گئے ہیں جنہیں محدث کی قریبی اشاعتوں میں شائع کیا جاتا رہے گا۔زیر نظر مقالہ کا ترجمہ مجلس التحقیق الاسلامی کے رکن جناب محمد اسلم صدیق نے کیا ہے ، جس پر مدیر مجلس التحقیق الاسلامی مولانا محمد رمضان سلفی نے نظر ثانی فرمائی ہے۔ (حسن مدنی) اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جن و انس اور عرب و عجم تمام کے لئے پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایاتاکہ آپ انہیں کفر و شرک کی آندھیوں سے نکال کر راہِ ہدایت پر گامزن کردیں،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : "اے نبی! ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں" (سبا:۲۸) ... فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ١٠٧ ﴾..... سورة الانبياء "اے پیغمبر! ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس لئے تاکہ تمام کائنات کے لئے رحمت کا ظہور ہو" اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اس کے بعد مسلمانوں کو یہ فریضہ تبلیغ انجام دینے کا فرض سونپا تو اب جن کے پاس یہ دعوت پہنچ چکی، ان کے لئے ہی دو راستے ہیں: یا تو اس دعوت کو قبول کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں، ایسے لوگ مسلمانوں کے بھائی ہیں۔ انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام فرائض کے وہ پابند ہوں گے جن کے تمام مسلمان پابند ہیں، فرمانِ الٰہی ہے: ﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ....١٠ ﴾.... سورة الحجرات "بے شک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں" اسی طرح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : «من أسلم من أهل الکتابين فله أجرہ مرتين وله ما لنا وعلیه ما علينا» "اہل کتاب (یہودونصاریٰ) میں سے جو شخص مسلمان ہو کیا تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔وہ ان تمام حقوق کے مستحق ہوں گے جن کے ہم مستحق ہیں اور ان تمام فرائض کے پابند ہو ں گے جن کے ہم پابند ہیں" دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے اِنکار کردیں تو اس صورت میں انہیں اختیار ہے کہ یا تو اسلام کے زیر نگیں اور امیرالمو منین کے تابع فرماں ہوکر جزیہ دینا قبول کرلیں یا پھرجنگ کے لئے تیار ہوجائیں، چنانچہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ٢٩ ﴾..... سورة التوبة "اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر ، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ ہی ان پر عمل پیرا ہیں تو مسلمانو! ان سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہو کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو" مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور اس کے اَحکام کا مطیع بنائیں، اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَقـٰتِلوهُم حَتّىٰ لا تَكونَ فِتنَةٌ وَيَكونَ الدّينُ لِلَّهِ.......١٩٣ ﴾..... سورة البقرة "تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور یہ دین اللہ کے لئے ہوجائے" تمام سلف اور مفسرین جیسے ابن عباس، ابوالعالیہ، مجاہد، حسن بصری اور زید بن اسلم رحمہم اللہ وغیرہ کا اس آیت کے مطلب پر اتفاق ہے کہ اس وقت تک کافروں سے لڑو جب تک کہ شرک ناپید نہ ہوجائے اور تمام لوگ ایک اللہ کو اپنا الٰہ نہ مان لیں۔اسی طرح پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں جب تک وہ کلمہ توحید کااقرار نہ کرلیں﴿فَإِنِ انتَهَوا فَلا عُدو‌ٰنَ إِلّا عَلَى الظّـٰلِمينَ ١٩٣ ﴾.... سورة البقرة "پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا او رکسی پر دست درازی روا نہیں" ... پھرفرمایا: "وہ شخص ظالم ہے جو لا اله الا اللہ کہنے سے انکا رکرے، ا س سے ہماری لڑائی ہے جب تک وہ لااله الا الله نہ کہہ دے" لوگوں کو اسلام کے تابع کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن کی یہ آیت ہے : ﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ......١٩ ﴾..... سورة آل عمران "اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے" اسلام ہی وہ نظامِ حیات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا۔ اُنہیں حکم دیا کہ وہ اپنے تمام فیصلے اسی کے مطابق کریں اور بصورتِ نزاع اسی کی طرف رجوع کریں۔فرمانِ الٰہی ہے : ﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ الكِتـٰبِ وَمُهَيمِنًا عَلَيهِ ۖ فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم عَمّا جاءَكَ مِنَ الحَقِّ......٤٨ ﴾...... سورة المائدة "پھر اے محمد! ہم نے تیری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور 'الکتاب' میں سے جوکچھ اس میں موجود ہے، اس کی تصدیق کرنے والی اور ا س کی محافظ و نگہبان ہے۔لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور جو حق تمہارے پا س آیا ہے، اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو" ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمام لوگوں کے درمیان اس کتاب کے ساتھ فیصلہ کیجئے جوتیری طرف نازل کی گئی اور جو تجھ سے پہلے انبیاء پر اُتاری گئیں اور تیری شریعت نے انہیں منسوخ نہیں کیا،خواہ وہ لوگ عرب ہوں یا عجم، اُمی ہوں یا اہل کتاب" (تفسیر ابن کثیر : ج۲، ص۱۰۵) اور اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو یہ حکم دیا کہ وہ راست بازی کے ساتھ تورات اور انجیل کی پیروی کریں اورانہیں اپنا دستورِ زندگی بنائیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لَستُم عَلىٰ شَىءٍ حَتّىٰ تُقيمُوا التَّور‌ىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَ‌بِّكُم.......٦٨ ﴾..... سورة المائدة " اے اہل کتاب! تم ہر گز کسی اَصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات، انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کی گئیں ہیں" اور ان کا اپنی کتابوں پر عمل کرنا ان سے تقاضا کرتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول مان کر اسلامی شریعت کو اختیار کرلیں کیونکہ ان کی کتابیں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیشین گوئی کرتی ہیں اورانہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع بننے کی دعوت دیتی ہیں۔ مسلمانوں کی عدل وانصاف پسندی تاریخ شاہد ہے کہ اہل کفر کو جو عدل و انصاف اور امن امان اسلامی حکومت کے تحت ملا وہ کہیں میسر نہیں آیا۔ لیکن اس کے برعکس عیسائیوں نے مفتوح مسلمانوں پر سفاکی و بربریت کے وہ پہاڑ توڑے کہ اس کی مثال نہیں ملتی حتیٰ کہ وہ روشن خیال عیسائی جنہوں نے ان کے مذہب پر تنقید کی تھی، وہ بھی اہل کلیسا کے ظلم سے نہ بچ سکے اور اہل کلیسا نے کرئہ ارض سے ان کا وجود مٹانے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ابوعبید بن الجراح  اہل حمص پرجزیہ فرض کرنے کے بعد یرموک کی طرف بڑھے تو حمص کے عیسائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ " اے مسلمانوں کی جماعت! رومی اگرچہ ہمارے ہم مذہب ہیں لیکن اس کے باوجود آپ ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ عہد وفا کرتے ہیں، نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، انصاف و مساوات برتتے ہیں۔ آپ کی حکمرانی خوب ہے لیکن رومیوں نے ہمارے اموال پر قبضہ کیا اورہمارے گھروں کو لوٹا" (فتوح البلدان از بلاذری: ۱۳۷ ،کتاب الخراج از ابویوسف بحوالہ تاریخ الحضارة العربیة از محمد کرد : ۱/۳۹) لبنان کے کچھ لوگوں نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کی تو صالح بن علی بن عبداللہ بن عباس نے ان میں سے بعض بے گناہوں کو قتل کردیا اور بعض کو جلا وطن کردیا تو امام اوزاعی نے انہیں لکھا: "آپ کو معلوم ہے کہ جبل لبنان کے جلاوطن ذمیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بغاوت میں شریک نہیں تھے۔ جن میں سے بعض کو آپ نے قتل کیا اور بعض کو جلا وطن کردیا۔ کیا مخصوص لوگوں کے جرم کی پاداش میں عام لوگوں کو پکڑنا اور انہیں ان کے گھروں اور جائدادوں سے بے دخل کرنا درست ہوسکتا ہے؟ ...اللہ کا فرمان ہے" کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا" اگر کوئی حکم سب سے زیادہ لائق اتباع ہو سکتا ہے تو وہ اللہ کا ہی حکم ہے۔ اگر کوئی وصیت سب سے زیادہ حفاظت و نگہبانی کی مستحق ہے تو وہ رسول اللہ کی ہی وصیت ہے۔ چنانچہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو کسی ذمی پر ظلم کرے گا، اس کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف دے گا، میں روز قیامت اس سے جھگڑوں گا" (صحیح سنن ابو داود:۲۶۲۶ ، فتو ح البلدان عن تاریخ الحضارة العربیة ۱/۴۰) اب ہم دیکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے مفتوح مسلمانوں پر کیاظلم ڈھائے : جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے اَندلس چھینا تو ان کے لئے عیسائیت کو قبول کرنا لازمی قرار دیا اور ارضِ اندلس سے مسلمانوں کو وجود مٹانے کے لئے انہیں لرزہ خیز مظالم سے دوچار کیا۔ پھر صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف وحشت و بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں جن کا اعتراف یورپ کی آئندہ نسلوں کو بھی کرنا پڑا ۔ اس کے بعد استعمار کا زمانہ آیا جس میں مسلمانوں کو سامراجیت کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا...مذکورہ بالا تمام تاریخی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر دنیا کا کوئی قانون انصاف و اَمن مہیا کرسکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے، اس سے انحراف کرئہ ارض کے چپہ چپہ کو ظلم و فساد سے بھر دے گا۔ یہ ہماری بات نہیں بلکہ مغربی عیسائیوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ مغربی مو ٴرخ ارنولڈ فتح مصر کے متعلق لکھتا ہے : "مسلمان فاتحین مسلسل فتوحات حاصل کر رہے تھے۔ جب مسلمان مصر میں داخل ہوئے تو عیسائی باشندوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا بنیادی سبب دراصل یہ تھا کہ عیسائی رعایا بازنطینی سلاطین کے ظلم و ستم سے نالاں تھی اور اہل کلیسا کے متعلق تلخ کینہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی۔" (الدعوة فی الاسلام:۱۳۲) ... ارنولڈ مزید لکھتا ہے : "وہ عیسائی قبائل جنہوں نے اسلام قبول کیا، انہیں اس پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے اختیار اور ارادہ سے ایسا کیاتھا۔ مسلمان معاشروں میں بسنے والے اس دور کے عیسائی یقینا مسلمانوں کی اس عالی ظرفی اور وسعت ِقلبی کی شہادت دیں گے" (ایضاً) فرنسی لیوٹی (Luit) لکھتا ہے کہ " میں نے اسلام کے متعلق صرف کتابیں پڑھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ میں نے شرق و غرب میں مسلمانوں کے درمیان ایک عرصہ گزارا ہے اور انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ اب اگر کوئی گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام انتشار، لاقانونیت اور تعصب پر اُبھارتا ہے تو میں کہوں گا کہ ایسے بے سروپا دعوؤں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں" (الإسلام والحضارة العربیة از محمد علی کرد: ۱/۳۸) مذہبی جبر تاریخ عالم شاہد ہے کہ مسلمان فاتحین نے کبھی دوسری اَقوام کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ جب تک وہ مسلمانوں کے زیرنگیں رہے، انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔مغربی مفکر جو سٹاف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "عرب دورِ حاضر کے سیاسی آدمیوں کی بہ نسبت زیادہ سیاسی حکمت ودانش اور بصیرت کے حامل تھے۔ وہ اس حقیقت کو خوب جانتے تھے کہ ایک قوم کے حالات دوسری قوم کے حالات سے باہم مشابہ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ انہوں نے مفتوح قوموں کی آزادیٴ فکر کو کبھی سلب نہیں کیا۔ انہیں اپنے قوانین،رسوم ورواج، عادات و اَطوار اور عقائد کو برقرار رکھنے کو مکمل آزادی دی۔" (الإسلام والحضارة العربیة از محمد علی کرد: ۱/۵۶) بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ صرف حکمت و دانش ہی نہیں تھی بلکہ ایک اللہ کی طرف سے ایک دستورِ حیات تھا جو ان سے تقاضا کر رہا تھا کہ ﴿لا إِكر‌اهَ فِى الدّينِ.......٢٥٦ ﴾...... سورة البقرة "دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے" جوسٹاف مزید لکھتا ہے کہ "علاقوں پرعلاقے فتح کرنا مسلمانوں کا مقصد ِاوّل نہ تھا اور نہ ہی یہ فتوحات انہیں برانگیختہ کرسکیں کہ وہ مغلوب قوموں پر ظلم و ستم ڈھاتے جیسا کہ عموماً فاتحین فتح کے نشے میں سرشار ہوکر مفتوح اَقوام پر وحشیانہ مظالم کرتے تھے اور نہ ہی انہوں نے مغلوبین کوتہ تیغ کیا ۔جس دین کو وہ چہار سوئے عالم پھیلا دینے کا عزم لے کر نکلے تھے ،کبھی کسی کو وہ دین قبول کرنے پر مجبو رنہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا غیر مطیع قومیں باغی ہو کر ان پرچڑھ دوڑتیں لہٰذا انہوں نے اس طو فان ہلاکت میں پڑنے کا خطرہ مول نہیں لیا لیکن اس کے بعد ملک شام پر قابض ہونے والے صلیبی اس ہلاکت کی لپیٹ سے نہ بچ سکے۔ بلکہ ہم نے دیکھا کہ جب مسلمان شام، مصر اور ہسپانیہ میں دا خل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ انتہائی نرمی اور عالی ظرفی کامظاہرہ کیا۔ ان کی عادات واَطوار عقائد اور مذہب سے بالکل تعرض نہیں کیا، نہ ہی انہیں دوگنے چوگنے محصولات اور ٹیکسوں کی زنجیروں میں جکڑا۔ صرف معمولی سا جزیہ لیا جاتا تھا جس کے عوض انہیں مکمل حفاظت اور اَمن وسلامتی کی ضمانت تھی اوریہ جزیہ ان ٹیکسوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھا۔ میں نے آج تک نہ ایسی فاتح قوم دیکھی ہے جس نے ایسی روا داری اوربلند ظرفی کا مظاہرہ کیا ہو، نہ ایسے دین سے آشنا ہوا ہوں جو اپنے دامن میں ایسی لطافت، نرمی اور فراخدلی رکھتا ہو" (الإسلام والحضارة العربیة: ۱/۱۴۴) عیسائیت کے مظالم اس کے بالمقابل عیسائیوں نے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے، ایک نظر اِسے بھی دیکھ لیجئے : جب مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقیاں عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کونہ روک سکیں اور مسلمانوں نے اس شرط پر کہ ان کے دین اور اَملاک سے تعرض نہیں کیا جائے گا، اپنی آخری پناہ گاہ غرناطہ بھی عیسائیوں کے حوالے کردی۔ ابھی تھوڑا عر صہ ہی گزرا تھا کہ عیسائی تمام عہد معاہدے توڑ کر سابقہ وحشت و بربریت اور تعصب کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آگئے اور مسلمانوں کو حکما ً مجبور کیا کہ وہ یا تو عیسائی ہوجائیں یا پھر اس ملک سے نکل جائیں پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اوران مظالم پرمسلمانوں سے پہلے خود ان کے مفکرین اور موٴرخین نے انہیں تنقید کانشانہ بنایا۔مشہور فرانسیسی مورخ والٹیر Voltaire لکھتا ہے: " جب مسلمانوں نے ہسپانیہ فتح کرلیا تو انہوں نے وہاں کے عیسائی باشندوں کو اسلام اختیار کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا۔ جبکہ سپینی جب غرناطہ پر قابض ہوئے تو کارڈینل خمنیس نے اپنے مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ تمام عربوں کو عیسائی بنا لیا جائے۔ چنانچہ پچاس ہزار مسلمان جبراً عیسائی بنا لئے گئے ۔" سپین کا مشہور موٴرخ فاریتی لکھتا ہے: "تین ملین عرب مسلمانوں کو جلا وطن کردیا گیا اور اس جلاوطنی کے دوران تقریباً ایک لاکھ مسلمان تہ تیغ کردیئے گئے اورکچھ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔" (ایضاً: ۱/۲۵۲،۲۵۳) اسلام کے متعلق عیسائیوں کا رویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام پر عیسائیوں کے دو گروہ ہوگئے تھے۔ ایک وہ گروہ تھا جو آپ پرایمان لایا،آپ کی تصدیق کی اور یقین کرلیا کہ آپ کی دعوت برحق ہے کیونکہ ان کی کتابیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارت دے چکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی بات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنی قوم سے کہی تھی: ﴿وَمُبَشِّرً‌ا بِرَ‌سولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ........٦ ﴾...... سورة الصف "بنی اسرائیل! میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا" اس گروہ میں سب سے اوّل اسلام لانے والے نجاشی تھے جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو پناہ دی۔ ان کی ہر طرح مدد کی اور انہیں قریش کے ظلم و ستم سے نجات دی۔ نجاشی کے ساتھ اس کی رعایا میں سے بھی کئی لوگ مسلمان ہوگئے تھے جو پہلے اپنے نبی  (عیسیٰ) پرایمان لائے پھر محمد پر ایمان لائے۔ ان کی توصیف اور عظیم اجروثواب کے متعلق کئی آیات نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنَّ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَمَن يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَما أُنزِلَ إِلَيكُم وَما أُنزِلَ إِلَيهِم خـٰشِعينَ لِلَّهِ لا يَشتَر‌ونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَليلًا ۗ أُولـٰئِكَ لَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم ۗ إِنَّ اللَّهَ سَر‌يعُ الحِسابِ ١٩٩﴾....... سورة آل عمران "اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اوراللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اوراللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا" پیغمبر صلى الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: "روزِقیامت تین آدمی ایسے ہوں گے جنہیں دوہرا اجر دیا جائے گا: ان میں سے ایک آدمی وہ ہوگا جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا اوراس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لایا۔ "(مسند احمد: ۵/۲۵۹) دوسرا گروہ وہ تھا جو آپ پر ایمان نہیں لایا۔ ان کے پھر دو فریق ہوگئے: ایک فریق ان لوگوں کا تھا جن سے جنگ کرنے کی نوبت نہیں آئی بلکہ وہ اس سے قبل ہی اسلامی حکومت کے تابع ہوگیا اور نبی سے مصالحت کرلی اور جزیہ ادا کردیا، ایسے عیسائیوں کو 'ذمی' کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ علاقہ نجران اور دومة الجندلسے تعلق رکھتے تھے۔ دوسرا فریق وہ تھا جنہوں نے اسلامی حکومت کی اطاعت قبول نہیں کی بلکہ مسلمانوں سے جنگ کی یہ وہ لوگ تھے جن کے خلاف آپ خود بھی نکلے اورلشکر بھی روانہ کئے۔ یہ وہ عیسائی تھے جن کا تعلق تبوک اور موتہ سے تھا۔ مسلمان اورعیسائی میدانِ کارزار میں! مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سب سے پہلا معرکہ 'موتہ' کے میدان میں لڑا گیا۔ پھر آپ تبوک کی طرف بڑھے لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی۔آپ کی وفات کے بعد خلفاءِ راشدین کا دور آیا۔ شام اور دیگر علاقوں میں 'یرموک' اور 'اجنادین' کے عظیم معرکے لڑے گئے۔ اللہ نے مسلمانوں کوکامیابی سے سرفراز فرمایا۔ اور بازنطینی حکومت تمام بلادِشام سے دستبردار ہوگئی۔ اسلامی فوجیں آگے بڑھیں، روم وایران جیسی سپر طاقتیں پارہ پارہ کردی گئیں۔ یرموک اور اجنادین کے عظیم معرکوں نے عیسائیوں کی قوت کو پاش پاش کردیا، اب بازنطینی حکومت کی قوت ٹوٹ چکی تھی لہٰذا وہ صلح پر تیار ہوگئے اور بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں۔ حضرت عمر نے خود معاہدہ لکھا اور ان پر جزیہ لازم قرار دیا۔ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی اور ان کی شرائط کو پورا کیا۔ اس کے بعد اُموی اور عباسی دور آیا۔فتوحات جاری رہیں حتیٰ کہ مسلمان یورپ کے اندر تک چلے گئے اور اندلس فتح کرلیا۔نصرانی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور مسلمان وسط فرانس تک پہنچ گئے اور بحرمتوسط کے جزیرہ روڈس Rhodes سے لے کر صقلیہ تک کے بڑے بڑے تمام جزیروں پر قبضہ کرنے کے بعد جزیرہ اٹلی Italiaپر بھی قابض ہوگئے۔ پھر عیسائی فرقہ کیتھولک کے مرکز روما اور فرقہ آرتھوڈکس Aurtodix کے مرکز قسطنطنیہ کامحاصرہ کرلیا۔ ان تمام فتوحات کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد اور جذبہ کارفرما تھا، وہ یہ کہ اللہ کا کلمہ اونچا ہوجائے اور لوگ لوگوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کے غلام بن جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کے بڑے بڑے لشکر بھی ان کامقابلہ نہ کرسکے۔ وہ تو روما اور قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق پیغمبر کی پیشین گوئی کو سچ کردکھانے کے لئے نکلے تھے، قریب تھا کہ پورا یورپ ان کے زیرنگیں ہوجاتا لیکن اللہ کو منظور نہ تھا اور مسلمان معرکہ بلاط الشہداء (جو مغربی کتب میں 'توربواتیہ' کے نام سے موسوم ہے) میں ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ یہ ۱۱۴ھ بمطابق ۷۳۲ء کا واقعہ ہے۔اس معرکہ میں مسلمانوں کا سپہ سالار عبدالرحمن الغافقی اور عیسائی فوجوں کی قیادت شارل مارٹل کر رہا تھا جسے عیسائی 'قائداعظم' کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اس نے یورپ کو مسلمانوں سے بازیاب کرایا تھا۔ مسلمانوں کی شکست کی وجہ موٴرخین یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے تھے۔ پورا اَندلس عیسائی بنا لیا گیا ! موٴرخین لکھتے ہیں: "عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا آغاز اندلس سے کیا، اس کے ساتھ ساتھ مشرق کے اسلامی ممالک پر بھی حملے کرنا شرع کردیئے" مشہور موٴرخ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ "مسلمان علاقوں کی طرف عیسائیوں کی پیش قدمی اور ان پر حملوں کا آغاز ۴۷۸ ھ سے ہوا پھر آہستہ آہستہ وہ طلیطلہ اور دیگر بلادِ اندلس پر قابض ہوگئے۔ ۴۷۴ھ میں انہوں نے جزیرہ طلیطلہ پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کرلیا پھر ۴۹۰ ھ میں انہوں نے بلادِ شام کی طرف پیش قدمی کی۔ (الکامل ۸/۱۸۵) اندلس کی تاریخ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔ عیسائیوں نے اسلام کو مٹانے کا عزمِ صمیم کرلیا تھا جس کی خاطر وہ تمام عہدوپیمان پامال کر دیئے گئے جو مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اس دور کا سپینی موٴرخ لکھتا ہے کہ " فرنینڈس جب غرناطہ کا حکمران بنا تو کلیسا کے متعصّب کیتھولک پادری اِصرار کے ساتھ اس سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ طائفہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجود ارضِ سپین سے مٹا دیا جائے جو مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں وہ یا تو عیسائیت قبول کرلیں یا اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مغرب کی طرف نکل جائیں" کلیسا کے متعصّب پادریوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے عیسائی حکمران بے بس ہوگئے۔ انہوں نے وہ تمام عہدوپیمان ایک طرف کردیئے جو غرناطہ پر قبضہ کے وقت مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اورنہایت ظالمانہ اور تشدد آمیز طریقے سے مسلمانوں کے تمام حقوق غصب کر لئے گئے۔ مساجد بندکردی گئیں، ان کے رسم و رواج، مذہب اور طرزِ معاشرت پرپابندی لگا دی گئی ۔انہیں اپنے عقائد اور شریعت پر عمل کرنے کی اجازت نہ تھی۔اسی طرح مسلمانوں سے کئے گئے تمام عہد نامے گویا ایک ایک کرکے پھاڑ دیئے گئے۔علامہ مقری لکھتے ہیں کہ "مسلمانوں نے غرناطہ عیسائیوں کے حوالے نہ کیا، جب تک انہوں نے ۶۷ شرائط تسلیم نہ کرلیں۔ ان میں یہ شرائط سرفہرست تھیں کہ ان کو پوری مذہبی آزادی ہوگی۔ مسلمان اپنے رسوم و رواج، روایات، زبان اور لباس کے استعمال کو قائم رکھنے کے مجاز ہوں گے۔ مسلمانوں کی اَراضی اور جائیداد کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا لیکن جونہی دغاباز عیسائیوں کو کنٹرول حاصل ہوا تو انہوں نے تمام عہدوپیمان پس پشت ڈال دیئے۔" ۹۰۵ھ میں ایک دفعہ پھر عیسائیوں نے اَندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی ٹھانی۔ غرناطہ کے تمام فقہا کو جمع کیاگیا اور انہیں تحفے تحائف سے نوازا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض نے عیسائیت قبول کرلی۔ بعض دیگر مسلمانوں بھی ان کی اتباع میں عیسائی بن گئے۔اُمرا اور وزرا کا طبقہ اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے پہلے ہی عیسائی بن چکا تھا۔ یہ وہ بدبخت تھے جنہوں نے دنیا کی خاطر اپنے دین کو بیچ ڈالا۔ ولا حول ولا قوة الا بالله العزيز الحکيم! غرناطہ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی یہ تحریک مرکزیت حاصل کرچکی تھی۔ محلہ بیازین (پرانا غرناطہ) کی مسجد کوگرجامیں تبدیل کردیا گیا تاکہ یہ تحریک پورے اندلس میں پھیل جائے۔پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرزمین اَندلس سے اسلام کا وجود مٹا دینے کا تہیہ کرلیا۔ اسقف ِاعظم (کارڈینلCordinal) نے اندھی مذہبی عزت سے مغلوب ہو کر اپنی مسلم کش پالیسی کی ابتدا اس طرح کی کہ غرناطہ کے علمی ذخیروں سے عربی زبان کی لاکھوں کتابیں میدان رملہ میں جمع کرکے جلا دیں اور سوائے طب کی تین صد کتب کے ایک بھی کتاب باقی نہ چھوڑی۔اس کے بعد پورے اندلس سے عربی کتب کو چن چن کر آگ کے حوالے کردیا۔ مشہور موٴرّخ لبون لکھتا ہے کہ "کارڈینل نے غرناطہ میں صرف عربوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اَسی ہزار قلمی مخطوطے جلا دیئے ۔ دوسرے شہروں میں جلائے جانے والے مخطوطے اس کے علاوہ تھے۔ اس طرح گویا اس نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اَوراق سے محو کردے گا لیکن اسے یہ یاد نہ رہا کہ مسلمانوں کے آٹھ سو سال کے کارنامے اور تہذیب و تمدن اور طرزِ معاشرت کے گہرے نقوش صدیوں تک ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔" امریکی موٴ رخ ولیم برسکوٹ لکھتا ہے کہ "کتب کشی کا یہ اندوہناک عمل انجام دینے والاکوئی جاہل یاگنوار نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب یافتہ پختہ عالم تھا۔اس پر طرہ یہ کہ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکل چکا تھا اوراس پر علم کی روشن صبح طلوع ہوچکی تھی" (دولة الاسلام فی الاندلس : ۶/۳۱۸ ) عربی کتب کو جلانے کا یہ عمل صرف اندھے تعصب کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ اندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی سوچی سمجھی اسکیم کارفرما تھی۔ کیونکہ کتب ِعربیہ کا وجود مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے عمل میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا اوردوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ کہیں عیسائی بننے والے مسلمان ان کتابوں کے مطالعہ سے دوبارہ اسلام کی طرف نہ پلٹ آئیں لہٰذا اس علمی وراثت کا قلع قمع ہی ان کے نزدیک ضروری ٹھہرا۔ مشہور مستشرق سیمونیٹ،کارڈینلکے اس گھناؤنے فعل کا دِفاع کرتے ہوئے اس منصوبے اور ہدف کی صراحت اِن اَلفاظ میں کرتا ہے: "کتابوں کو جلانے کا جو کام کارڈینل نے انجام دیا تھا، اس پر اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اس نے تو ایک نقصان دہ چیز کا خاتمہ کیا تھا اور وبا کے وقت متعدی عناصر کو ختم کرنا ہی دانشمندی اور قابل تحسین عمل ہوتا ہے۔ کیتھولک کے حکمران فرنینڈس اور آزابیلا کومسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے یہ حکم دینا پڑا کہ شریعت اور دین کے متعلق تمام مذہبی کتب مسلمانوں سے واپس لے کر جلا دی جائیں، صرف وہی کتابیں چھوڑی جائیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔" (ایضاً) اب ہم یہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ عیسائیوں نے اَرضِ اندلس سے اسلام کو مٹانے اور عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے کون کون سے اسلوب اختیار کئے: سب سے پہلے ۹۰۵ھ میں مسلمانوں کو دعوت وتبلیغ سے عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیاجس سے بعض وزرا اورامرا محض اپنے جان و مال کے تحفظ کی خاطر عیسائی بن گئے۔ ۹۰۶ھ کے بعد یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کو دنیاوی لالچ اور تالیف ِقلوب کے ذریعے عیسائی بنایا جائے اورانہیں دیگر رعایا کے برابر حقوق دیئے جائیں۔(دولة الاسلام فی الأندلس : ۶/۳۲۰ ) اس کے بعد حکومت نے یہ قانون پاس کیا کہ تین برس سے پندرہ برس تک کے مسلمان بچوں کو عیسائی نظریہٴ تعلیم پڑھایا جائے اوران پر عیسائیت کے تمام اَحکام لاگو کردیئے جائیں ۔اگر ان کے والدین اس پر رضا مند نہ ہوتے تو مسلمان بچوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتے اور ان کا بپتسمہ کردیتے۔ (بپتسمہ عیسائی مذہب کی ایک رسم ہے جس کی روسے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس پر مقدس پانی کے چھینٹے ڈالے جاتے ہیں اوراسے عیسائی مان لیا جاتا ہے) اس مذہبی جبر کا جواز یہ پیش کیا گیاکہ عرب بھی پہلے عیسائی ہی تھے۔ (الإسلام والحضارة العربیة: ۱/۲۵۳) ۹۰۷ھ میں فرنینڈس اور اس کی بیوی ازابیلا نے یہ قانون نافذ کیا کہ یا تو تمام مسلمان عیسائیت اختیار کرلیں یا پھر اَندلس سے نکل جائیں اوراس قانون کا جواز یہ بنایا گیا کہ اللہ نے ہم دونوں کو یہ فرض سونپا ہے کہ ہم ارضِ غرناطہ کو کفر سے پاک کریں لہٰذا مسلمانوں کا یہاں رہنا ممنوع ہے ۔ اس قانون کو نہ ماننے والوں کی یا تو جائیدادیں ضبط کر لی گئیں یا انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ جس پر مسلمانوں نے سلطانِ مصر کی طرف خط لکھا اورمسلمانوں کو جبراً عیسائی بنائے جانے کے متعلق انہیں آگاہ کیا لیکن عیسائی بادشاہ نے شاہِ مصر کی طرف ایک وفد بھیج کر اسے مسلمانوں کے متعلق مطمئن کردیا اورشاہِ مصر مسلمانوں کی کوئی مدد نہ کرسکا۔ جس طور پر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے تھے، انہیں تہ تیغ کیا اور انہیں تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جارہا تھا اورحکومت جس طرح بدعہدی کا مظاہرہ کر رہی تھی، یہ نہ صرف غرناطہ بلکہ پورے اَندلس کے مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت بن چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے پہاڑوں کو مسکن بنا کر اس ظلم کے خلاف بغاوت کردی۔ عیسائیوں نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ قانون جاری کیا کہ تمام مسلمانوں کے لئے اِعلانیہ یا خفیہ اسلحہ رکھنا ممنوع ہے۔ جن مسلمانوں نے اس قانون کی مخالفت کی، پہلے انہیں قید اور ضبطی جائیداد کی سزا دی گئی اور اس کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ۔ طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمان بھی اس قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ جہاں ان پر اسلحہ رکھنے پر پابندی تھی، وہاں یہ بھی پابندی تھی کہ وہ اپنی جائیداد نصرانی حکومت کی اِجازت کے بغیر فروخت کرکے نہیں جاسکتے۔جس نے اس قانون سے ذرا انحراف کیا، پہلے اس کی جائیداد ضبط کی گئی پھراُسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بہت سے عیسائیت اختیار کرنے والے مسلمان اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مغرب کی طرف چلے گئے اور وہاں پہنچ کر دوبارہ مسلمان ہوگئے۔ بعض وہ مسلمان جو دِل سے مسلمان تھے لیکن اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کرنے کے لئے انہوں نے اپنے مکانوں پر صلیبیں لگا لیں۔ چونکہ حکومت کے پاس ان کے ناموں کی لسٹیں موجود تھیں، اس لئے اس قسم کی تدبیریں انہیں نفع نہ دے سکیں اورانہیں ملک بدر کردیا گیا ۔ ان کی جلا وطنی کی داستان بڑی غمناک، دردناک اور تاریخ انسانیت کی دکھ بھریمثال تھی۔ پھر کیا ہوا کہ بعض مسلمانوں نے نااُمید ہو کر اپنے گھر گرا کر انہیں آگ لگا کرخود اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا اور بعض نے اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور پھر خود کشی کرلی۔ اور اکثر وہ بدنصیب تھے جو بھوک، شدت غم اور بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے!! اس کے بعد جبرا عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عیسائیت میں داخل ہونے یا اَندلس سے نکل جانے کے درمیان فیصلہ کرنے کا دور بڑا کٹھن دور تھا۔ بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی اوربہت سارے اَندلس کو خیر باد کہہ گئے ۔شروع میں اس قانون کو زیادہ سختی سے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن۹۳۰ھ میں پادریوں نے بادشاہ کو پھر بھڑکایا جس کے اثر میں آکر اس نے پھر ایک قانون جاری کیاجس میں یہ طے پایا کہ تمام مسلمان عیسائیت قبول کرلیں ورنہ سپین سے نکل جائیں۔ اس بار اس قانون کو سختی سے نافذ کیا گیا اور جس نے عیسائیت اختیار کرنے سے انکا رکیا اور مقررہ مدت میں سپین سے نہ نکلا، اسے ہمیشہ کے لئے جیل ڈال دیا گیا اور تمام مساجد گرجوں میں تبدیل کردی گئیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ ظلم ناقابل برداشت تھا، انہوں نے اندلس کے عیسائی شہنشاہ کے سامنے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ شہنشاہ نے بڑے بڑے علماء اور ججز پر مشتمل ایک عدالت قائم کی تاکہ مسلمانوں کے اس دعویٰ کا جائزہ لیا جائے ۔اس عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ مسلمانوں کو عیسائیت پہ مجبو رکرنا درست اقدام ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس طرح مسلمان موت، جلاوطنی، قید اور ضبطی جائیداد کے خطرے سے محفوظ ہوجائیں گے۔ ایک ذمہ دار مغربی مسیحی موٴرخ اس ظالمانہ فیصلہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے: " اس طرح مسلمانوں کو قانونی طور پر عیسائی تصور کرلیا گیا جو گویا ایک طاقتور نے کمزور پر، غالب نے مغلوب پر اور آقا نے غلام پر فرض کردی تھی۔اس فیصلہ کے بعد فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ تمام وہ مسلمان جنہیں جبراً عیسائی بنایا گیا ہے، انہیں سپین میں رہنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ اب وہ عیسائی بن چکے ہیں۔اسی طرح ان کی اَولاد کو بھی عیسائی بنا لیا جائے۔ جو عیسائیت سے مرتد ہو، اسے موت اور ضبطی جائیداد کی سزا دی جائے اورجو مساجد ابھی تک باقی ہیں، انہی گرجوں میں تبدیل کردیا جائے" (دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۵۱) اس کے بعد ایک محکمہ تفتیش قائم کیا گیا جس کا کام مسلمانوں سے عیسائی بننے والوں کی طرزِ معاشرت اور رہن سہن کی نگرانی کرنا تھا کہ آیا ان کی طرزِ معاشرت کیتھولک طرزِ فکر کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس محکمہ کا دوسرا کام یہ تھا کہ غیرکیتھولک عیسائیوں کو کیتھولک عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ وہ یہودی اور مسلمان جو درپردہ عیسائی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے محکمہ تفتیش کے کارندوں سے بچنے کے لئے پہاڑوں اور ٹیلوں میں پناہ لی جس پر یہ فرمانِ شاہی صادر ہوا کہ فرار ہونے والوں کو پکڑ کر محکمہ تفتیش کے حوالہ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کے لئے یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو انہوں نے اندلس سے فرار ہونا شروع کردیا تو حکومت نے ایک اور قانون جاری کیا کہ کسی بھی ملاح یا تاجر پر حرام ہے کہ وہ کسی نو عیسائی کو بغیر سپیشل پرمٹ کے اپنے ساتھ لے جائے۔(دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۳۲) پھر وہ دور آیا کہ اسلامی شعائر کو تبدیل کرنے کے بعد مسلمانوں کے طرزِ معاشرت، رسم و رواج، زبان، عربی لباس بلکہ عربی نام اور اَلقاب تک بدل ڈالے گئے۔ عورتوں کو پردہ کرنے اور مہندی لگانے سے منع کردیا گیا اور مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ عیسائیوں کی طرح پتلونیں اور ٹوپیاں پہنیں اور اپنے مکانوں کے دروازے، جمعہ، عیدین اوراپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر کھلے رکھیں تاکہ حکومتی کارندے گھروں میں ہونے والی رسومات کا جائزہ لے سکیں۔ اگر کوئی آدمی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے یا یہ کہتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام معبود نہیں تھے بلکہ صرف رسول تھے، پکڑ لیا جاتا تو اسے مرتد سمجھ کر موت کے سپردکردیا جاتا اورہر عیسائی کے لئے ضروری تھا کہ وہ عیسائی بننے والے مسلمانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور اس کی رپورٹ حکومت تک پہنچائے کہ آیا وہ اسلامی طرزِ معاشرت تو اختیار نہیں کرتے، جمعہ کے روز گوشت تو نہیں کھاتے۔ غرض رمضان کے روزے رکھنا یا اس کے دوران صدقہ کرنا یا غروبِ آفتاب کے وقت کوئی چیزکھانا پینا یا طلوعِ فجر سے پہلے کھانا ، پینا اور خنزیر کا گوشت نہ کھانا، شراب نہ پینا، وضو کرنا ، مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، اپنی اولاد کے سروں پر ہاتھ پھیرنا، مردوں کو غسل دینا، ان کی تجہیز و تکفین کرنا اورانہیں عیسائیوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنا، یہ سب اس بات کی علامات تھیں کہ یہ لوگ عیسائیت سے مرتد ہوگئے ہیں۔(دولة الإسلام فی الأندلس:۶/۳۴۵، ۳۴۶،۳۵۷، تاریخ الاحتلال الإسباني:۱۳/۱۳۱، انطونیو لورٹی کی کتاب المورسکیون) سب سے پہلے اسلامی شعائر کو جڑ سے اکھیڑا گیا۔ پھر ان عادات اور رسوم و رواج کو ختم کیاگیا جومسلمانوں کی شناخت تھے۔ اسی طرح اندلس سے اسلام کا وہ چراغ گل ہوگیا جس نے اپنی ضیا پاشیوں سے پورے اَندلس کو روشن کردیا تھا۔ پھرتقریباً ۱۷۰۳ء بمطابق ۱۰۱۰ھ میں عربوں کو مکمل طور پر ارضِ اندلس سے نکال دینے کا آخری فیصلہ ہوا۔ دو سال کے اندر نصف ملین مسلمان وہاں سے کوچ کرگئے اور جزیرہ نما اندلس سے اِسلام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ لا حول ولا قوة الا بالله العلی العليم صلیبی جنگیں مغربی موٴرخین نے صلیبی جنگوں کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے جیسے "دیارِمقدسہ کا قصد" "حضرت عیسیٰ کی خاطر جنگ"، "عیسائیوں کی سرگرمیاں، سمندر پار"، "حضرت عیسیٰ کی قبر مقدس کو آزاد کرانے کے لئے جنگ" وغیرہ وغیرہ۔(مدخل إلیٰ تاریخ حرکة التنصیراز ڈاکٹر ممدوح حسن:۱۰، ۱۱، ماہیة الحروب الصلیبیة از قاسم عبدہ قاسم : ۲۳۹) مسلمان موٴرخین ا بن جوزی، ابن اثیر، ابن کثیر وغیرہ نے ان جنگوں کو 'صلیبی جنگوں' کا نام دیا ہے۔ (الحروب الصلیبیة فی المشرق والمغرب:۱۸۶)تجزیہ نگاروں نے صلیبی جنگوں کے مختلف اَسباب و اَہداف ذکر کئے ہیں جیسے مسلمانوں سے جنون کی حد تک انتقام کا جذبہ،مسلمانوں کی معیشت اور دولت پر قبضہ کرنے اور نصاریٰ کی اِقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کا نشہ وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقی محرک اور اہم مقصد مذہب 'عیسائیت کی ترویج' تھی۔مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ اور اِقتصادی اور دنیاوی مفاد عام عیسائیوں کے مقاصد تو ہوسکتے ہیں جنہیں مشرق اسلامی میں اپنے مقدس مقامات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ چنانچہ عیسائی مدبرین اورقائدین نے ان جنگوں کے لئے حوصلہ افزا تعداد جمع کرنے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اُبھارنے کے لئے ان اسباب سے فائدہ اُٹھایا۔ ظاہر ہے ان اسباب کو سمجھنے کے لئے صلیبی فوجوں اور عوام کے نظریات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ ان قائدین اورمحرکین کے نظریات کا اِعتبار ہوگا جنہوں نے ان جنگوں کے شعلے بھڑکائے تھے۔ کیونکہ فوج ان کے بل بوتے پر چلتی ہے اور عوامُ الناس کو ویسے ہی ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ صلیبی جنگوں کا دورانیہ دو صدیوں پر محیط ہے، ان کا آغاز ۴۸۹ھ میں پطرس الناسک Pierre'l Ermite کے حملہ سے ہوا اور ۹۹۰ ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سقوطِ عَکّہ کے بعد ان کا اختتام ہوا۔اور اس کے ساتھ ہی صلیبی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔عکہ کی شکست اور مشرقِ اسلامی میں صلیبی حکومت کے خاتمہ کے بعد پوپ نیفولا چہارم نے ایک دفعہ پھر یورپی عیسائیوں کو اپنے مواعظ اور تقریروں سے مشتعل کرنے کی کوشش کی ۔ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں صلیبی ممالک کے چھن جانے کی خبر دی۔ عکہ او ربیت المقدس کو واپس لینے کے لئے اہل کلیسا کی کانفرنسیں منعقد کیں لیکن یورپیوں میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی کیونکہ وہ مسلسل خون آشام جنگوں میں تھک کر چور ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے اس نقصان کو محسوس کرلیاتھا جو دو صدیوں کے دوران اُنہیں برداشت کرنا پڑا۔ (الحروب الصلیبیة فی المشرق:۶۴۲) صلیبی حملوں کا عالم اسلام پر اثر صلیبی جنگوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مسلم اُمہ پر انتہائی برُے اثرات مرتب ہوئے : 1۔ مسلمانوں کو وحشیانہ طریقے سے ذبح کیا گیا۔ پہلے ہی حملے میں صلیبیوں نے اہل انطاکیہ کو نیست و نابود کردیا اور بیت المقدس میں ۷۰ ہزار سے زائد مسلمانوں کو ذبح کیا گیا۔ کتنے ہی ایسے علاقے تھے کہ وہاں کے محاصرے میں آئے مسلمانوں کو امن و امان کاوعدہ دے کر اس سے ہتھیار ڈلوا لئے گئے، پھر عہد شکنی کرکے نہایت وحشیانہ طریقے سے انہیں قتل کردیا گیاجیساکہ انگلستان کے بادشاہ رچرڈ نے کیا جو 'شیردل' کے نام سے مشہور تھا۔ (المنتظم: ۱۷/۴۷، تاریخ ابن خلدون: ۵/۲۵) 2۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیاگیا ۔حمص، بعلبک، حماة، عسقلان، قنسرین، طبریہ جیسے عظیم الشان شہر تاخت و تاراج کردیئے گئے۔ بعض شہر ایسے تھے جو مسلمانوں نے دورانِ محاصرہ خود اپنے ہاتھوں سے اُکھاڑ دیئے تاکہ صلیبی ان شہروں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں، شائد کہ انہوں نے سمجھ لیا تھاکہ دوبارہ وہ کبھی ان شہروں میں آباد نہ ہوسکیں گے۔(النوادر السّلطانیہ: ۲۳۵، السلوک لمعرفة دول الملوک:۱/۱۰۶)،مغربی مفکر جیک دی دنتیری لکھتا ہے کہ صلیبیوں نے حمص، بعلبک اورحماة کو باربار لوٹا تاکہ مسلمان انہیں ٹیکس دینے پر راضی ہوجائیں۔ دیکھئے ماہیة الحروب الصلیبیة : ۲۳۳ 3۔ لاکھوں مسلمانوں کو جلا وطن کردیا گیا کیونکہ صلیبیوں کامقصد نوآبادیاں قائم کرنا تھا۔ 4۔ صلیبی جنگوں سے اِستعماری طاقتوں کا راستہ ہموار ہوا اور یہی جنگیں بعد میں ترکوں کے تنزل اور انحطاط کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور مسلمان طویل عرصہ تک کے لئے سامراجیت کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔ صلیبی جنگوں میں جب تمام مسیحی دنیا کی مجموعی طاقت اِسلامی قوت کو ٹس سے مس نہ کرسکی اور انہیں یقین ہوگیا کہ مشرقی مسلمانوں کو عسکری قوت سے مغلوب نہیں کیا جاسکتا تو اس بات نے انہیں مسلمانوں کومغلوب کرنے کے لئے کوئی اور طریقہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ مسلمانوں پر فکری یلغار کی جائے ان کے دلوں سے روحِ جہاد نکال دی جائے۔ ان میں خانہ جنگی کروا کر ان کی جنگی قوت کو تباہ کردیا جائے اور اِقتصادی طور پر انہیں اپنا دست نگر بنا لیا جائے۔مغربی مصنف Kigk لکھتا ہے کہ " صلیبی جنگوں نے مغربی اقوام کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا، ان کے اَذہان کو کھولا اور وہ تہذیب و تمدن میں اَہل مشرق کے درجہ کو پہنچ گئے جو اس سے قبل علم و فلسفہ، اَدب و شاعری، تہذیب و شائستگی اور تمدن میں اہل مغرب پر فوقیت رکھتے تھے۔اس تہذیبی ترقی اور عسکری جنگ کی پے در پے شکستوں نے یورپین کو متوجہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ فکری جنگ کا آغاز کریں۔" مغربی مفکر Oman لکھتا ہے کہ " صلیبی جنگوں نے 'استشراق' کا بیج بویا۔ مغربی لوگ مختلف اُمور میں مسلمانوں کے رجحانات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے عربی زبان اور اِسلامی نظریات کو پڑھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے ۱۲۷۶ھ کو'میراہا' میں پادریوں کے لئے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ اس کے علاوہ پیرس اور لوفان میں مشرقی زبانوں کی تعلیم کے لئے مختلف کورسز شروع کئے گئے۔ (الحروب الصلیبیة لاحمد شبلی ۹۲) عسکری معرکوں میں جب عیسائیوں کی کمرٹوٹ چکی تو انہوں نے مسلمانوں میں عیسائیت کا پرچار کرنے کے لئے مختلف تبلیغی مشنز کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے تیرہویں عیسوی میں ملک شام میں دو یونیورسٹیاں قائم کی گئیں: ایک الفرنسیکانجو پوپ فرانسس کی طرف منسوب ہے۔دوسری ڈومنیکان جو پوپ ڈومنیک کی طرف منسوب ہے۔یہاں باقاعدہ عیسائی مشنری تیار کئے جاتے ہیں جو عربی زبان اور اسلامی علوم میں مکمل دسترس کے حامل ہوتے ہیں اوریہ دستور اس وقت سے آج تک رائج ہے۔ عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ادارے عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں عیسائیت پھیلانے والے ۳۸۷ عالمی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے ۲۵۴ ادارے خاطر خواہ نتائج حاصل کر رہے ہیں اوران کا دائرئہ کار کافی حد تک وسیع ہوچکا ہے۔ان میں ہرادارہ دس سالوں کے اندر دس ہزار گھنٹے تبلیغی سرگرمیوں پر صرف کرتا ہے اور دس ہزار ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ پھر ۲۵۴/اداروں میں سے ۳۳/ ادارے ایسے ہیں جو بہت بڑے تصور کئے جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں پر سالانہ سوملین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ ان بڑے اداروں میں سب سے بڑا ادارہ دنیا بھر میں ۵۵۰ ملین ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ اگرچہ عیسائیوں کے پا س مادّی وسائل کے بے پناہ ذرائع ہیں لیکن ان کا استعمال مناسب طریقے سے نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر ۱۹۱۸ء میں ایک عیسائی ادارے کے لئے ۳۳۶/ ملین ڈالر فنڈ اکٹھا کیا گیا۔ جو ایک ہفتہ کے اندر اندر ختم کردیا گیا۔اسی طرح ۱۹۸۸ء میں امریکہ میں ایک بہت بڑے عیسائی ادارے کیلئے ۱۵۰/ ڈالر جمع کئے گئے جو اچانک غائب کردیئے گئے۔ اس بددیانتی کی ذمہ داری بڑے بڑے مشنریوں خصوصاً امریکی پوپ باکیراور جیمی سواغارت پر عائد ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں چرچوں کی قیادت ہے۔ امدادی سرگرمیاں اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اپنے سیاسی اِختیارات، مالی وسائل اور ذرائع اِبلاغ کو بروئے کار لانے والے عیسائی مشنری عالمی چرچوں کی مادّی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں عیسائیت کا پرچار کرنے والی ایک عالمی تنظیم نے امدادی سرگرمیوں پر ۱۴۵ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے خرچ کئے اور ۴۱ ملین مشنری عیسائیت کی تبلیغ میں مصروفِ کار ہیں ۔ بڑی بڑی ۱۳ ہزار لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ ہر سال مختلف زبانوں میں ۲۲ ہزار پمفلٹ شائع کئے جاتے ہیں۔ صرف ایک سال کے اندر کتابوں کے ۴ بلین نسخے تقسیم کئے گئے۔ ۱۸۰۰ ٹی وی چینل دنیا کے کونے کونے میں عیسائیت کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ کلیسا کی عیسائی تنظیمیں ۳ ملین کمپیوٹر استعمال کر رہی ہیں اورکمپیوٹر کے عیسائی ماہرین کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایک جدید قسم کا مسیحی لشکر ہے۔ ۱۹۸۵ء میں ایشیا اور افریقہ میں مغربی عیسائی مشنریوں کی تعداد ۴ ملین تھی جبکہ مغرب میں ۳۵۰۰ عیسائی تنظیمیں تبلیغ میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان تنظیموں میں کام کرنے والے مشنریوں کی تعداد ۳۵ ملین ہے اور مغرب اس مشن پر کثیر سرمایہ صرف کر رہا ہے۔انٹرنیشنل کرسچین انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگارڈیوڈ وارمن لکھتا ہے کہ "عیسائی مشنریوں نے صرف سال ۱۹۷۰ کے دوران دنیا بھر میں ۷۰ بلین ڈالر خرچ کئے اور سال ۱۹۸۰ء کے دوران ۱۰۰ بلین ڈالر خرچ کئے گئے۔ اس کے بعد سال ۱۹۸۵ء کے لئے ۱۲۷ بلین ڈالر مختص کئے گئے اور اس بڑھتی ہوئی اِمدادی سرگرمیوں کے پیش نظر اس فنڈ کی مقدار ۲۰۰ بلین ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ " ۱۹۹۹ء کے اَعداد و شمار کے مطابق عیسائیت کے بارے میں رپورٹ عیسائی مشنوں کے اعداد وشمار سال1970ء سال 1999ء سال 2025ء ارٹوڈکس فرقہ کی تعداد 47,520,000 74,500,000 110,000,000 پروٹسٹنٹ فرقہ کی تعداد 147,369,000 222,120,000 271,755,000 کیتھولک فرقہ کی تعداد 233,800,000 321,358,000 461,808,000 افریقہ میں عیسائیوں کی تعداد 671,441,000 1,040,018,000 1,376,282,000 سمندرپار مشنریوں کی تعداد 120,257,000 333,368,000 668,142,000 ملکی مشنریوں کی تعداد 240,000 415,000 550,000 چرچوں کے فنڈز کی مقدار 70 بلین ڈالر 1,489 بلین ڈالر 26 بلین ڈالر امریکی عیسائیت پرلکھی جانے والی کتب 17,100 24,800 70,000 عیسائیت کے پرچار میں شائع ہونیوالے رسائل 23,000 33,700 100,000 شائع ہونے والی اناجیل کی تعداد 251 ملین 2,149,341,000 4,430,000,000 عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ریڈیواسٹیشن اور ٹی وی چینل 1,230 3,770 10,000 دنیا بھر میں عیسائیت کے فروغ کے لئے بننے والے منصوبہ جات کی تعداد 510 1,340 3,000

٭٭٭٭٭




ہورویکھو[سودھو]