آرام جان بیگم
آرام جان بیگم، مغل شہنشاہ نور الدین محمد جہانگیر کی پانچویں بیگم تھی۔آرام جان بیگم سوائے حسن وجمال ظاہری کے عقل و دانش اور عیش و نشاط کا کافی سرمایہ رکھتی تھی۔ اگرچہ جہانگیر کی اور بیگمات بھی خوش سلیقہ اور جدت طبع میں طاق تھیں لیکن اس کی ذکاوت کو نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ وہ شاعرہ بھی تھی۔ اس کے فارسی کے اشعار اور قصائد کی تعداد کافی تھی لیکن وہ طبع نہیں ہو سکے۔[۱]
اس کی حاضردماغی اور برجستہ گوئی درج ذیل واقعہ سے منسوب اے۔
ایک دفعہ جہانگیر ایک شہزادے کے ساتھ شطر نج کھیل رہا تھا اور باہم یہ شرط بر بازی مقرر ہو چکی تھی کہ ان دونوں میں سے جو شخص مات کھاجائے گا وہ حسب شرط طے شدہ کے مقابلے میں اپنی خاتون ہار جائے گا۔ اب اتفاق ایسا ہوا کہ اُس مقابل شہزادے کی بازی بڑھتی ہی چلی جارہی تھی اور جہانگیر کی آنکھوں میں شکست کی ڈراونی تصویر سامنے آگئی۔ وہ اس سے بہت خوفزدہ ہوا اور اُٹھ کر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ سب سے پہلے اپنی چہیتی بیوی نور جہاں بیگم کی طرف آیا۔ نورجہاں بیگم نہایت ہی ذکی الطبع عورت تھی اس نے تمام باتیں سن کر عرض کیا، ظل سبحانی؛
تو بادشاه جهانی جهان ز دست مده
کہ بادشاہ جہان را جهان بکار آید
جہانگیر یہاں سے مایوس ہوکر اپنی ایک اور بیوی حیات النساء بیگم کے پاس پہنچا۔ ان نے بھی واقعہ سن کر مندرجہ زیل شعر پڑھا۔ ،
جہاں خوش است ولیکن نجات می باید
اگر حیات بناشد جہاں چہ کار آید
لیکن اگر اس سے بھی جہانگیر مطمئن نہ ہوا اور اسی فکر کے عالم میں اپنی تیسری بیگم جس کا شاعرانہ تخلص فنا تھا، کے پاس کیا۔ اس نے بھی واقعہ کر کچھ دیر سوچ و بچار کے بعد ایک معقول شعر جواب میں کہا۔
جہان و حیات ہمہ بے وفا است
فنا را نگاہ دار کہ آخر فنا است
سب کی طرت سے مایوس ہو کر جہانگیر نے آرام جان بیگم کو بلایا اس نے شہنشاہ کی بات سن کر کہا کہ آپ میرے سامنے کھیل و بازی کا وہ نقشہ رکھیں ، تو است دیکھ کر شاید میرے ذہن میں کوئی چال آجائے ۔ جہانگیر نے شطرنج کی وہ بازی اس وقت جس نہج پر تھی اپنی ملکہ کو دکھانے کا انتظام کیا، ملکہ نے شاید جھروکے سے جا کر اس بساط کو دیکھا تھا۔ جب آرام جان بیگم نے شطرنج کی بساط پر سجی وہ بازی دیکھ لی تو کہا ، جہاں پناہ ؛
شاہا دو رخ بدہ و دلا م را مدہ
پیل و پیادہ پیش کن اسپ کشت مات
جهانگیر اس شعر کوسن کر پڑھک گیا اور بے اختیارآرام جان کا ماتھا چوم لیا اوراس کی روشن دماغی پر عش عش کرتا ہوا گیا اور اس شہزادے سے بازی جیت لی۔ اس واقعے سے آرام جان کی طباعی اور ذہانت کا بخوبی اندزه ہوتااے۔[۲]