عید مبعث

آزاد انسائیکلوپیڈیا، وکیپیڈیا توں

تعارف:

27 رجب المرجب1444ھ عید مبعث کے حوالے سے خصوصی تحریر

مَبعَث کا لغوی معنیاُٹھائے یا بھیجے جانے کا وقت یا جگہ ہیں ۔[۱]جب کہ اصطلاح میں ہمارے پیارے بنی حضرت محمد مصطفیﷺ کی بعثت یا وحی کے آغاز کے دن کو روز مبعث کہا جاتا ہے ۔27 رجب ،چالیس عام الفیل کو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پیغمبری پر مبعوث ہوئے ۔اسی لیے مسلمان 27 رجب کو عید مبعث کے عنوان سے مناتے ہیں ۔پیغمبر اکرمﷺ کی بعثت کا آغاز اور حجاز کی سرزمین سے بت پرستی ختم ہونےکا آغاز تھا۔

رسول اکرمﷺ 40 سال کی عمر میں منصب رسالت پر فائز ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ بروز پیر27 رجب سنہ 40 عام الفیل کو پیش آیا ۔یاد رہے کہ اس وقت ایران میں خسرو پرویز کی حکومت تھی ۔بعض دوسرے اقوال کے مطابق 17یا 18 رمضان یا ربیع الاول کے مہینے کی کسی تاریخ کو آپ منصب رسالت پر فائز ہوئے ،بہر حال اہل تشیع کے نزدیک27 رجب کو ہی آپ غاز حرا میں بنور پر فائز ہوئے ۔

بعثت رسول اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رونما ہونے والایہ الٰہی واقعہ، ایک ایسا تاریخی مسئلہ ہے جو پوری تاریخ بشریت کی طویل ترین عمر میں انسان کو پیش آیا ہے۔ انسان کی سر نوشت اور تاریخ بشریت میں اس سے بڑھ کر کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جو اس قدر مؤثر ہو اور نہ ہی اس عظیم واقعے سے بڑھ کر خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے دوسرا کوئی لطف و کرم ہوا ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس عظیم بعثت کو قبول اور اس پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور سعادت کی اس عظیم راہ کو سمجھ لیا ہے۔ یہ خود ایک طرح کی عظیم نعمت ہے جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے ۔پس ہر مسلمان کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنی شخصی اور دنیاوی زندگی بعثت نبویؐ کے مطابق گزاریں اور پورے ایمان ،عمل اور حرکت کے ساتھ ان اہداف اور مقاصد کے مطابق جو حضرت رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے مربوط ہیں متحرک ہو کر خود کو بعثت کی سعادت الٰہیہ اور معنویہ سے جوڑیں اور ان سے بہرہ مند ہونے کے لائق بنائیں ۔البتہ بعثت اور اس کی حقیقت کے بارے میںمکمل طور پر بحث و گفتگو کرناہماری بس کی بات نہیں۔ یہ حقیقت ہمارے اذہان سے بالاتر اورانسانی عقلیں اس تک رسائی  سے قاصر ہیں ۔

عصر حاضر کے مسلمانوں کے لیے بعثت کے دو اہم پیغامات:[سودھو]

بعثت کےسلسلے میں آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے دو باتیں قابل غور وخوض ہیں ۔

۱۔ بشریت کے لیے بعثت ایک فطری اور قطعی حقیقت[سودھو]

پہلی بات یہ کہ بعثت کا یہ واقعہ تاریخ بشریت کےلیے خدا وند متعال کا عظیم فضل و کرم ہےجیسا کہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید کی کئی آیات کریمہ میں باربار اس کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس حقیقت کا ظہور اس طرح ہےکہ بشریت کی زندگی پر غلبہ پیداکرے اور زندگی کو ایک نئی شکل اور رنگ دے دے۔ یہ حقیقت ایک نہ ایک دن ضرور پوری ہوگی: ’’ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ‘‘ { FR 4982 }بعثت کا مسئلہ اس عالم کی ایک طبیعی حقیقت اور بشریت کے لیے پیش آنے والی ایک یقینی اور قطعی حالت بھی ہے ۔حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت سے پورے عالم میں جو عدل و حق کا چرچا ہوا وہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ ایک خاص اور محدود زمانے میں کچھ لوگ تو اسے قبول کرلیں لیکن بشریت کا ایک عظیم حصہ اور انسانوں کاایک بڑا مجمع اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے بلکہ یہ واقعہ اس لیے رونما ہوا تاکہ پورے عالم اور (بالخصوص) انسانیت کو اپنے مطالبات اورتقاضوں کے مطابق ڈھال سکے ۔بشریت اور پورے وجودعالم کو(انسان کی خواہش کے مطابق) اس کے اوج کمال تک رسائی دلاسکے اور یہ کام ہوکر رہے گا اگر ایسا نہ ہو تو نقض غرض لازم آئے گا( یعنی خدا کے مقصد اور ہدف کا فوت ہونا لازم آئے گا)

البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس مقصد کی طرف حرکت ایک ایسی حرکت ہے کہ جو اپنی شایان شان شرائط اور علل و اسباب کا متقاضی ہے ۔ہم اس حقیقت کی طرف رواں دواں ہیں۔ بشر جو بھی قدم اٹھاتاہے چاہتے یا نا چاہتے حتیٰ سمجھے یا بنا سمجھے، بعثت کے اس حقیقت کےنزدیک ہوتا جارہاہے ۔آج پوری دنیا میں جو نعرے بلند ہورہے ہیںاسی بعثت الٰہی کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ اگرچہ عملی طور پر اس نعرے پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہاہے۔جیسے اجتماعی عدالت کا نعرہ ،آزادی کا نعرہ ،علم و دانش ،ترقی و تعمیر اور سطح زندگی کو اوج ترقی تک رسائی دلانے کا نعرہ یا ا سی طرح کے دیگر (ہزاروں )نعرے کہ اکثر ممالک ،ملتیں ،قومیں ،صاحبان فکر ونظر یا مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد روز بروز بلند کرتے نظر آتے ہیں، خود ا س طرح کے نعرے (درحقیقت )بعثت (عمومی)اور (بالاخص) حضرت ختمی مرتبتﷺ کی بعثت کا ہی مرہون منت ہیں ۔البتہ یہ نعرے اپنے ناقص وجود کے ساتھ (آج بھی) لوگوں کی دسترس میں ہیں اور بعض افراد ان کی طرف روبہ حرکت بھی ہیں ۔

آج ہم (مسلمان) اور پوری بشریت ان مفاہیم اور ان کی وقعت کا قائل ہوکر اپنی جدوجہد انہی کی طرف موڑتے دکھائی دے رہی ہے ۔جمہوری اسلامی ایران کے اندر ہمیں اس بات پر (صد افتخار حاصل ہے کہ ہم بھی اسی قافلے اور ان قوموں کا ایک حصہ ہیں جو دین کا نعرہ لگاتے ہوئے قرآن کی پیروی میں اپنی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں اور ہم بھی اسی قافلے کے ساتھ کمال کی سمت حرکت کررہے ہیں ۔

ہمیں فخرہے کہ ہم نے اس حقیقت کو سمجھا اور اس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اور اس سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ اس سمت ہم نے اپنی حرکت کا آغاز کیا ہے اور بہت سارا راستہ طے بھی کر چکے ہیں پوری دنیا اور پوری بشریت کو بھی چاہیے کہ (ہمارے ساتھ ساتھ) اس راہ کے قافلے میں شمار ہوں اور یہ راستہ طے(کرکے اپنی منزل مقصود تک پہنچیں)

۲۔آپؐکا نام ،یاد اور محبت و تکریم تمام ادوار میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کا واحد مرکز[سودھو]

دوسری بات جو خود پیغمبر اکرم ﷺ کی ذات سے متعلق ہے وہ یہ کہ آپؐ کا نام آپؐ کی یاد آپؐ کی محبت آپؐ کی عزت و احترام، تاریخ اسلام کے تمام ادوار میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کا واحد مرکز و محور رہاہے ۔دین اسلام میں حضور اکرمﷺ کی ذات مبارکہ کے علاوہ کوئی ایسانقطہ نہیں پایاجاتا جو اس طرح ہر اعتبار سے (عقلی،روحانی معنوی اور اخلاقی اعتبارسے)تمام اسلامی مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہو،یہی مرکزی نقطہ اور اصلی محور ہے ۔

اگرچہ قرآن کریم،کعبۃ اللہ ، واجبات اور عقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے کسی ایک پہلو(جیسے عقائد،محبت،روحانی قربت،تقلید وشباہت اور عملی اخلاقیات )سے متعلق ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ چیزیں مسلمانوں کے درمیان مختلف تشریحات اور تفاسیر کی حامل ہیں لیکن وہ چیزیںجو تمام مسلمانوں کی درمیان فکری و اعتقادی (بالخصوص جذبات اور احساسات)کے حوالے سے اتحادو یکجہتی کا محور بن سکتی ہے وہ خاتم الانبیاحضرت محمد بن عبداللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔یہ بہت بڑی بات ہے ۔لہٰذا روز افزوںاس محبت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے اور مسلمانوں اور اقوام عالم کے دل و دماغ میں آپؐ کے مقدس وجود کی معنوی اور روحانی عظمت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن کی، اسلامی تہذیب کے خلاف یلغار کا سب سے بڑا نشانہ حضور اکرمﷺ کا نورانی وجود ہے ۔(ملعون رشدی )کی شیطانی آیات نامی کتاب میں بھی آپؐ کی ذات مبارکہ ہی کو ہدف تنقیدبنایاگیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد اور احساسات پر کس طرح نظریں لگائے ہوئے ہیں ۔[۲]

عصرحاضر کے انسانوں کو بعثت کے پیغام کی اشد ضرورت[سودھو]

کیا آج سیکڑوں زبانیں،صدائیں اور قلم عالمی سطح پراستعماری طاقتوں کے پیسوں کی لالچ میں ان کے اہداف کی تکمیل کےلیے کوششوں میں مصروف نہیں ہیں؟ جو معنویات،دین ،اسلام اور ہر اسلامی تحریک کی مخالفت اور ا س ہٹ دھرمی پر مبنی نظام کے حق میں اور مادہ پرستی کے علمبرداری کا نعرہ لگاکر اس کو بہترین قرار دینے کی کوششیں کررہے ہیں اور یہاں تک کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ضرورت نہیں ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیںدین اسلام ان کی اکڑبازی اور ظالمانہ نظام پر کوئی قد غن لگائے۔کیا ایسے حالات میں بشریت اس طرح کی بعثت سےبے نیاز رہ سکتی ہے؟

کیا آج بشریت کو اپنے نفس کاتزکیہ اور پاکیزگی کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے ؟ کیا یہ انسانیت کے لیے باعث عیب نہیں ہے کہ جہاں بھی انسان موجود ہےوہاں اپنی راحت اور دوسروں کے لیے رنج و الم کا طلبگارہے ؟کیا بشریت کے لیے یہ باعث ننگ وعار نہیں کہ اس کی اکائیوں کے درمیان ارمان تک ناپید ہوتی جارہی اس کے باوجود ہر کوئی اپنی جگہ اپنی زندگی سے مطمئن دکھائی دے رہا ہے ؟جبکہ (حالت یہ ہے کہ)اگرکسی کے پاس روٹی کا صرف ایک ٹکڑا ہے تو وہ دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑنے پر مجبور نظر آرہاہے کہ کہیں دوسرا کوئی ظالم اس کےہاتھ سے چھین کر اپنے اپنے منہ میں نہ ڈا لے ؟کیا دنیا کی یہ حالت اچھی کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے ؟کیا بشریت کےلیے اس طرح کا نظم و نسق اور اس طرح کا بین الاقوامی نظام بہشت موعود کہلائے جانے کا مستحق ہے؟کیا اس کے خلاف،اس کی اصلاح کرنے اور ادب سکھانےکے لیے کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے ؟کیا انسان کوکسی قسم کی تحریک چلاکر ایک بعثت انجام نہیں دینی چاہیے؟کیا آج پوری دنیا یا کم ازکم دنیاکے ایک بڑے حصّے میں ’’جنگل کا قانون‘‘ اپنے پورے مفہوم اور مصداق کے ساتھ حکم فرمانھیں ہے؟کیا قسط نام کی کوئی چیز اس دنیا میں پائی جاتی ہے؟

آپ پوری دنیا اور اس پورے کرہ ارض کو ملاحظہ کریں کہ یہاں پر لوگوں بلکہ ایک ملت کے افراد جن میں چھوٹے بڑےمردعورتیں اور بچےبیمار تندرست سب شامل ہوتے ہیں جن کی تعداد کئی ملین افراد تک جاپہنچتی ہے،دوسرے لوگوں کے ذریعے ان کی جان لی جاتی ہےان کے گھروں کو ویران کردیا جاتاہے اور ان کی خواتین کی حرمتوں کو پامال کیا جاتاہے ان کے پاس دوانہیں ہے کھانےکو کچھ نہیں ہے کسی بھی قسم کی کوئی سہولت انھیں میسر نہیں ہے۔نہ ہی امن و امان نام کی کوئی چیز ان کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے اور پوری دنیا میں ان مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل توجہ تحریک دکھائی نہیں دے رہی  !بوسنیا ہرزگوینا کے تلخ ترین اور خون کے آنسوں رولانے والے واقعات جہاں چندوہ افراد  جو دوسروں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ان کے پاس اپنے ان گھناونے جرائم کے لیے کو ن سی دلیل ہے؟کیا کسی بھی قسم کا کوئی استدلال اپنے ان ناپاک جرائم کےلیے پیش کرسکتے ہیں؟اگر کوئی قومی یا دینی دلیل رکھتے ہوں تو بھی ان کا یہ طور طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ایک پوری ملت کو ملیامیٹ کردینا اور باقی ماندہ لوگوں کو خیمہ بستیوں میں پناہ لینے پر مجبور کردینایہاں تک کہ ان کی کوئی بھی چیز قابل احترام نہ رہ سکے ،یہ سب ’’جنگل کے قانون‘‘ کے نفاذ کا کھلم کھلا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟اگر اس دن جب بوسیناکے مسلمان صرب جارحین کے ہاتھوںظلم کا شکار ہورہے تھے، دنیامیں یورپ،امریکا،ایشیاءیا کم از کم مسلمان ممالک کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے آتاکوئی آگے بڑھ کر ان کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھ دیتاتو یہ بات سمجھ میں آتی کہ اگر دنیا میں کسی قسم کا کوئی انحرافی پہلو پایا جاتاہے تو اس کے مقابلے میں رشدوہدایت اور سلامتی کا احساس بھی پایا تا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔[۳]

بعثت بشریت کی سیر تکامل کی حرکت کا آغاز[سودھو]

حقیقت یہ ہے کہ ایک واقع بین تحقیق کے مطابق کہا جانا چاہیے کہ آج کی تاریخ میں جو واقعہ رونما ہوا (یعنی حضور اکرمﷺ کی بعثت ) وہ تاریخ بشریت میں پیش آنے والا عظیم واقعہ ہےجس نے انسانی زندگی میں مؤثر کردار اداکیا ہے ۔بعثت کا واقعہ بڑاحیران کن،انتہائی مہم،پر ماجرا ،قابل غور وخوص اور دقت طلب ہے ۔

البتہ تمام بعثتیں ایسی ہیں بعثت کے حوالے سے تمام انبیاء اکرم؊ اپنی آزمایشات کے دوران اپنی زندگی کے ایک مہم ترین مرحلے کو طے کر رہے ہوتے ہیں ۔حضرت موسیٰں ،حضرت عیسیٰں ،حضرت ابراہیمں اسی طرح تمام انبیاء کرام؊ کی بعثتوں کے دوران ایک عظیم کام انجام پذیر ہوچکا ہے لیکن خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی بعثت چند ممتاز خصوصیات کی حامل ہے جن کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے ۔

آج اسلام کی نسبت بنی نوع بشر بالخصوص ہم( ملت ایران) پر جو سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کی مناسبت سے میں چاہتاہوں کہ بعثت کے باب میں ایک خاص نکتے کو بیان کروں شایدیہی نکتہ انشاء اللہ ہمارے اندر اس سلسلے میں مناسب حرکت اور کوشش کا انگیزہ پیدا کر سکے اور ہمیں اپنی راہ پر گامزن رہنے میں معاونت اور مدد کرے۔

بعثت کا یہ عظیم سر چشمہ جو ایک ایسے ہی دن رسول اکرمﷺ کے دل میں ابھرا اور جاری ہوا اس کی حرکت کا مسیر بہت اہمیت کاحامل ہے یعنی مسئلہ یہی پر ختم نہیں ہوتاہے کہ پروردگار عالم کی طرف سے ایک حقیقت اور نور ایک ممتاز،بے مثال اور برگزیدہ بندے کے دل پر اترایہ(اس سلسلے کی)پہلی کڑی ہے اور اس (عظیم)کام کا آغاز ہے ۔البتہ اس واقعہ کا مہم ترین حصہ بھی یہی ہے ۔اس نور کا پیغمبر اکرمﷺ کے قلبِ مقدس میں منور ہونا اور آپؐ کی طرف سے وحی کی عظیم ذمہ داری کا تحمل کرنا وہی حصہ ہے جو بطور صریح ،عالم خلقت ،عالم وجود میںانسان اور اس مادی دنیا کو معدن غیب سے نزدیک کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ قرار پایا۔

یعنی وصل واتصال کا ذریعہ یہی ہے ۔اگرچہ خداکی برکت ہمیشہ اس طور طریقے اور انداز کے ساتھ جو ہم اب ذکر کریں گے۔بشر کی کے لیے اور اس راہ کی میں جاری وساری رہی ہیں لیکن ان کا حلقۂ وصل و اتصال وہی بعثت کالحظہ ہے جو عالم غیب سے حقائقِخدا کا سر چشمہ ،بعثت کا سرچشمہ(جو خود اپنی جگہ ایک مکمل اور کافی کلام ہے)حضرت پیغمبر اکرمﷺ کی روح مبارکہ میں سرازیر اور (ہمیشہ کےلیے)رواں دواں ہے اور حضرت پیغمبر اکرم ﷺکے دل میں جوش پیدا کیا پس پہلا قدم اس بعثت کا محقق ہونا ہے ۔

اس ملکوتی انسان کے سامنے حقائق پر مبنی ایک دروازہ کھل جاتاہے اور آپؐ جو امتحان دینے ،اس عظیم بار کو اپنے دوش مبارک پر اٹھانے اور طرح طرح کے مصائب و آلام کو تحمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرنے لیے ایک عظیم حرکت کو اس پہلے لحظے سے ہی آغاز فرمارہےاس لیے بعثت کا مسئلہ تعلیم وتربیت سے متفاوت اور جداگانہ ہے یعنی بعثت، تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔البتہ تعلیم و تربیت کا الٰہی دسترخوان ہمیشہ پیغمبروں اور اولیاء الٰہی کے لیے کھلا ہے’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْآسْمَآءَ‘کا یہ سلسلہ آخری دم تک موجود تھا۔ 

پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ حضرت احدیت کے خصوصی اور ممتاز شاگرد کے عنوان سے ایک ایسا امر ہے جو ہمیشہ سے موجود رہاہےلیکن بعثت تعلیم و تربیت سے ہٹ کر کوئی اور چیز ہے ۔بعثت میں تعلیم و تربیت ،تہذیب اور تزکیہ (نفس) بھی شامل ہے اور ان کے ساتھ ساتھ کتاب و حکمت کانزول بھی ہے لیکن صرف انہی چیزوں پر بعثت کادارومدار نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز بھی ہے جسے ابھارنا کہتے ہیں ۔

یہ انسان ہے جسے ابھارا جاتاہے کہ جو سرمایہ اس کے حوالے کیا گیا ہے اس سے استفادہ کرے اور اس کے ذریعے بشریت کو جس منزل تک پہنچانا مراد ہے پہنچائیں یعنی اپنی تحریک کا آغاز کرے یہی بعثت کا معنی ہے ۔

اس پہلے قدم اور حرکت کے بعد کہ جس کا آغاز پیغمبر اکرمﷺ کے قلب مقدس میں وحی الٰہی کے ذریعہ جوش پیدا کرنے اور آپؐ کی طرف سے وحی کی عظیم ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر لینے سے ہوااس وقت سے ہی بعثت کا مضمون (جو کہ ایک جدیدمضمون نئی دنیاکو آباد کرنے اور غلط اور باطل نظریات کو مٹاتے ہوئے ظلم و عدوان کے ساتھ سختی سے نمٹنے سے عبارت ہے)خارج میں تحقق پانا شروع کیا جس کے لیے جدوجہد اور مبارزہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچانے کےلیے پیغمبراکرم ﷺ کی۲۳ سالہ جدوجہد[سودھو]

اس لحاظ سے بعثت کے بعد سب سے پہلا قدم،تحریک جدوجہد اور حرکت سے عبارت ہے ۔کوئی بھی پیغمبر نہ توبغیر مبارزہ کےاس راہ کو طے نہیں کرسکاہے نہ اس بار کو منزل مقصود تک پہنچاسکا ہے اور نہ ہی اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاسکا ہے ۔ایسانھیں ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میںجن کے درمیان اور جس معاشرے میں بعثت انجام پایا ہووہاں کے لوگ اس نئی دنیا کی پیشکش کو جسے بعثت پیش کرتی ہے آسانی کے ساتھ قبول کریں۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام ؊کے ساتھ جنگ و جدال شروع ہوتی ہے اور پیغمبران الٰہی ایسے افراد ہوتے ہیں کہ جن کے دشمن بھی دیگر لوگوں سے زیادہ ہوا کرتے ہیں اور ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔بعثتیں اپنے ابتدائی ایام سے ہی ا س طرح کی دشمنیوں کو مول لیتی ہے ۔ ختمی مرتبتﷺ کا مبارزہ اور جدوجہد بھی (بالکل اسی طرح) پہلے دن سے ہی شروع ہوا اور آپؐکا یہ مبارزہ آپؐکی حیات کے آخری لمحوں تک (پورے ۲۳ سالوں)پر محیط رہا۔

آپ توجہ فرمائیں کہ یہ۲۳سال کتنے مبارک سال تھے ۲۳ سالہ زندگی کوئی اتنا طویل عرصہ اور دراز مدت تو نہیں ہے ۔آپ ایسے بہت سارے افراد کو جانتے ہوں گے کہ جنہوں نے ۲۰ سال۲۳ سال یا۲۵ سال کے عرصے میں کوئی قابل ذکر کام انجام نہ دیا ہو کیونکہ اکثر لوگوں کی حیات تو اپنی نجی زندگی میں گزرجاتی ہے ۔اگر عظیم اور نامور ہستیوں (چاہے ان کا تعلق دانشورں سے ہو،فلاسفروں یا سیاستدانوں سے )کے کارناموں کو دیکھیں تو ۲۳ سال کے عرصے میں ان کے کام کی کمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔(البتہ لوگوں کی استعداد کے اعتبار سے اس میں فرق ہوسکتاہے )نہیں معلوم کہ انھوں نے اتنے عرصے میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔

مگر آپ دیکھیں کہ پیغمبر اکرمﷺ کی حیات مبارکہ میں سے آپؐ کی بعثت کے ۲۳سال کا عرصےکتنا بابرکت تھا!جاہلیت کے مرکز میں وہ بھی جہالت سے پر صدیوں کے قلب میں(نہ صرف ایک خاص علاقے میں بلکہ بشری جاہلیت کی صدیاں بیت چکی تھیں اور ظلم و ستم کا گھٹاٹوپ اندھیراا ور تاریکیوں کا دور دورہ تھا)آپؐ نے ایک مضبوط عمارت کی بنیاد ڈالی۔ایک ایسے شعلے اور چراغ کو روشن فرمایا کہ جس کی نورانیت پوری تاریخ میں روز افزوںبڑھتی جائے گی اور بہت سارے لوگوں کی دستگیری کرتی رہے گی اور انھیں راہ ہدایت پر پہنچابھی دے گی۔

قرآن کریم میں بعثت کا پیغام[سودھو]

بعثت کے پیغام کو قرآن کریم اور نمایاں چیزوں میں تلاش کیا جاسکتاہے ۔میں یہاں پر اس پیغام کے دوحصوں کی طرف اشارہ کرناچاہتاہوںآپ توجہ فرمائیں کہ یہ چیزیں ہم مسلمانوں کے لیے کس قدر اہم ہیں اور کس طرح ہمیں راستہ دکھاتی ہیں ۔

ایک پیغام یہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ منجملہ ان میں سے ایک آیت یہ ہے :’’بسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘{ FR 5211 }یعنی اندھیرے سے نکال کر نور میں داخل کرنے کا پیغام ۔نور اور ظلمت(تاریکی)کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ مختلف مواقع پر انسان ان کی شناخت میں غلطی کر بیٹھے۔اسلام اور بعثت کا پیغام انسانوں کو جہالت کی تاریکی،برے عادات کی تاریکی،بداخلاقیوں کی تاریکی،انسانوں کے درمیان فتنہ و فساد کی تاریکی ،انسانوں کے ذہنوں پر مسلط ہونے والے خرافات کی تاریکی جو پنجہ آزمائی کرتے ہوئے انسانوں کو سیدھے راستے سے منحرف کردیتے ہیں ،ظلم و ستم کی تاریکی(یہ ساری چیزیں تاریکیاں ہیں)سے نکالتاہے اور اس کے مقابلے میں جو نور ہے اس کی طرف ہدایت کرتا ہے۔قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مکرر اس موضوع پر بات کی گئی ہے یعنی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہدف کے اعتبار سے ایک تغیر اور تبدیلی ناگزیر ہے ۔

ایک اور نمایاں نکتہ اخلاقیات اور تزکیہ نفوس کا مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تاکید کی گئی ہے اور تمام اسلامی فرقوں کی کتابوں میں یہ حدیث نبوی ؐ موجود ہے کہ ’’بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ اَلٓاَخْلَاق‘‘[۴]

غورکیجئے کہ جس معاشرے میں اخلاقیات(اخلاق حسنہ اور مکارم اخلاق)رائج ہوں ،انسان اچھے اور نیک صفات ( جیسے عفور ودر گذر،احسان،عدل وانصاف،علم اور حق طلبی)سے متصف ہوں ،لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک ہو رہاہو،ان کے درمیان بری صفات نہ پائی جاتی ہوں تو وہ کیسی بہشت میں رہ رہےہوںگے۔

آج انسان انہی چیزوں کے ہاتھوں تکالیف اٹھارہاہے ۔ دنیا میں انسانوں کو درپیش مسائل اور پریشانیاں اور دنیا میں سیاسی بغاوتوں کی جڑیں بھی انہی اخلاقی تباہ کاریوں سے جاملتی ہیں۔ لوگوں کو درپیش مسائل کے کثرت کیوجہ بھی غالباً ان کی اپنی جہالت ہی ہے۔ دین اسلامجہالت کوختم کرتاہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان پیغامات کی قدر کریں ۔[۵]

بعثت درحقیقت انسانوں کی بے شمار ضروریات کا جواب ہے[سودھو]

اگر کوئی شخص بعثت کے مضامین کو اس دائرےتک محدود کردے جو ہم اپنی ناقص عقل کے ذریعے حاصل کرتے ہیں تو اس نے یقیناًبعثت کی حقیقت اور اس عظیم ذمہ داری کی حقیقت کے ساتھ ظلم کیا ہے ۔کیوں کہ بعثت پیغمبر اکرم ﷺکے مضامین کو ہماری ناقص عقلوں کے مطابق محدود نہیں کیا جاسکتا اگر ہم ایک ہی جملے میں بعثت اور اس کے حدود کی اجمالی تعریف کرناچاہیں تو(اگرچہ یہ کام ناممکن ہے)یہ کہہ سکتے ہیں بعثت کا تعلق انسانوں سے ہے اور یہ انسانوں کے لیے ہے ۔انسان لامتناہی ہے ۔وہ عظیم پہلوؤں کا مالک ہے ۔وہ جسم،مادّہ اور دنیاکے چند روزہ زندگی تک محدود نہیں ہے ۔اسی طرح صرف معنویات تک بھی محدود نہیں ہے ۔تاریخ کے کسی ایک دور تک بھی محدود نہیں ہے ۔انسان ہمیشہ اور ہر حال میں انسان ہی ہے ۔اس کے وجود کے پہلولامتناہی اور ناشناختہ ہیں ۔آج بھی انسان ایک ناشناختہ موجود ہے ۔بعثت اس انسان کے لیے اور اس انسان کے مستقبل کے لیے اور اس  کی ہدایت کے لیے ہے۔

البتہ ہر دور میں اور ہر زمانے میںہر فرد اور ہر انسانی معاشرہ اپنی گنجائش اور صلاحیت کے اعتبار سے اس سے استفادہ کرتا ہے، جیسا کہ صدر اسلام کے مسلمانوں نے بعثت کے مفہوم اور اس کی حقیقت سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی اور اس درخشاں نور کو اس زمانے کی پوری دنیا تک پھیلایا اور بہت سے انسانوں کی صحیح راستے اور بندگی کی حقیقت کیطرف راہنمائی کی۔

اس کے بعد ایک دور میں دنیا میں علم و ثقافت کا ایسا راستہ کھولا کہ آج بھی تاریخ کی اونچی دیواروںسے اور مدتیں گزر جانے کے باوجود اس کی روشنی دیکھی جا سکتی ہے اور آج بھی دنیا اس علمی و تہذیبی ترقی سے استفادہ کر رہی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں جب بھی مسلمانوں نے اسلام سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا ہے کامیاب رہے ہیں۔ جس انسان نے بھی اپنی صلاحیت کے  مطابق اسلام سے فائدہ اٹھایااس نے اپنے آپ کو کامیاب بنادیا۔

جو کچھ ایران میں رونما ہوا) یعنی وہ عظیم انقلاب اور  اس اسلامی نظام کی تشکیل( وہ اس چیز کی ایک جھلک تھی جسے اسلام انسانوں کے لیے لایا ہے۔ ایرانی قوم کی بہت بری حالت تھی اوریہ قوم تاریکیوں میں زندگی گذار رہی تھی۔ وہ اپنے انسانی مقام و مرتبے سے بھی بہت دور ہو چکی تھی۔ اسلام سے دوری کی وجہ سے اس پر علمی، انسانی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ظلم ہو رہا تھا۔ اسلام سے آشنائی اور اس کی معرفت کی برکت سے ہماری قوم نے ایک عظيم تحریک کے ذریعے اپنے آپ کو اسلام کے سرچشمے تک پہنچا دیا۔ اسلامی احکام پر عمل کیا اس کے عظیم احکام پر عمل اور اسلام کے احکام پر غور و خوض کا موقع اپنے لیے فراہم کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا اسلام کی حقیقت پر گہرائی سےدیکھا اور قرآن کی معرفت حاصل کی۔

حوالہ جات[سودھو]

  1. Lua error in ماڈیول:Citation/CS1/ar at line 3440: attempt to call field 'set_selected_modules' (a nil value).
  2. رسول اکرمﷺ کی بعثت کے مناسبت سے چالیس ممالک سے آئے ہوئے قرا،حفاظ اور روشن ضمیر لوگوں کے اجتماع سے رہبر معظم کا خطاب. 
  3. عید مبعث کے موقع پر مملکت کے اعلیٰ عہدیداروں سے خطاب:۱۹۹۳؍۰۱؍۲۰. 
  4. بحارالانوار،ج۶۷،ص۳۸۲. 
  5. عیدمبعث کے موقع پر حکومتی کارندوں سے ملاقات:۱۹۹۷؍۱۱؍۲۸.