فلسطین امام خمینی تے رہبر معظم دی نظر وچ
فلسطین کی تاریخ
[سودھو]فلسطین اور قدس
[سودھو]قدیم زمانے میں یہ سرزمین ارض کنعان کے نام سے پہنانی جاتی تھی کیونکہ کنعانیوں نے 2500 سال(ق۔م)میں جزیرۃ العرب سے ہجرت کے کے اس علاقہ میں سکونت اختیار کی تھی۔کریتی قبائل نے 1200(سال ق۔ م)میں ارض کنعان پر حملہ کیا اور غزہ اور یافا کے درمیان ساحلہ علاقہ میں قیام کیا۔کنعانیوں اور کریتی قابئل کے ادغام سے اس پورے علاقہ کے لیے فلسطین کا ام استعمال ہونے لگا ۔
یروشلم وہ شہر ہے جو اپنی تاریخ میں 16 مرتبہ ،کبھی طویل ،کبھی مختصر ،جنگی معرکوں سے گزرچکا ہے۔ان جنگی معرکوں کے دوران وہ دومرتبہ مکمل تباہی ،23مرتبہ فوجہ محاصروں ،52حملوں اور 44مرتبہ قبضوں اور قبضوں سے آزادی کے مراحل سے گذرا ہے۔یہ دنیا کا واحد شہر ہےجسے یہودی ،مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبر حجرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بہٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی۔مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہیں مصلوب کی اگیا تھا اور یہیں ان کا سب سے مقدس کلیساواقع ہے۔مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج پر جانے سے قبل اسی شہر میں واقع اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار برس تک اس شہر پر قبضے کے لیے آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں ۔
مسلمانوں کے ہاتھوں فلسطین کی فتح
[سودھو]رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ اول نے شام (جس میں موجودہ شام اور فلسطین شامل تھا) کی جانب لشکر روانہ کیا جو رومیوں کے قبضہ میں تھا۔اس لشکر کے سپہ سالار اساتہ بن زید تھےجنہوں نے کافی دور تک پیش قدمی کی اور اردن کے نزدیک پہنچ گئے لیکن مدینہ میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی وجہ سے یہ لشکر واپس بلالیا گیا۔حضرت عمر کے زمانے میں یہ علاقہ فتح ہونے کی بعد اگلے ساڑھے چار سو برس تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔خلیفۂ دوم کی خلافت کے زمانے میں ،بیت المقدسکے رہنے والوں اور خلیفۂ دوم کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔حضرت عمر بن خطاب ن ے وہاں کے شہریوں کے مطالبے پر حکم دیا کہ وہ کسی یہودی کو بیت المقدس میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔اس کے مقابلے میں وہاں کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا۔
فلسطین پر مکمل قبضے کے بعد کئی قبائل وہاں پر سکونت پزیر ہو گئے۔غیر عرب لوگ بتدریج عرب قبائل میں ضم ہو گئے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ خطہ مکمل طور پر ایک عرب علاقے میں تبدیل ہو گیا۔امویوں کے زمانے میں فلسطین ،دمشق کے تابع ہوا۔اس زمانے کے باقی ماندہ تعمیراتی آچار میں سے ایک ’’قبۃ الصخرہ‘‘ ہے جسے عبداملک بن مروان کے حکم پر 70 ہجری میں تعمیر کیا گیا۔عباسی دور میں فلسطین ،عراقی حکومت کے ماتحت رہا اور بنو عباس اور بنوامیہ کے درمیان ایک جنگ بھی اس علاقہ میں لڑی گئی جس میں عباسیوں کو فتح حاصل ہوئی۔فاطمیوں کی خلافت کے دوران یہ علاقہ مصر کا حصہ بنا۔1087ء میں سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کیا۔ان کے بیس سالہ دور حکومت میں عیسائی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا جس کے رد عمل میں یورپ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ایک متحد عیسائی لشکر نے یروشلم پر قبضہ کر لیا۔اس کو تاریخ میں صلیبی جنگیں کہتے ہیں۔یہ واقعہ 1099ء کا ہے۔اگرچہ سلجوقی حکومت کا دائرہ ایشیا ئے صغیر ،شام اور فلسطین تک پھیل گیا تھا اور قدس پر ان کا قبضہ بھی رہا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ فاطمیوں نے قدس پر اپنا قبضہ بحال کر لیا۔بعد میں صلیبی لشکر نے قدس پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
فلسطین،صلیبی جنگوں کے دوران
[سودھو]476ھ(1097ء) میں یورپی پادریوں کے اکسانے پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ عیسائی یورپ کے مختلف شہروں سے جمع ہوئے اور فلسطین کی جانب چل پڑے تاکہ اپنے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کو مسلمانوں سے چھین لیں۔اس لشکر نے اپنے راستہ میں آنے والے کئی مسلمان شہروں کو تباہ و برباد کر دیا۔چکونکہ سلجوقیوں کے ساتھ جنگ کی وجہ سے فاطمیوں کی طاقت میں کافی حد تک کمی آگئی تھی ،اس لیے وہ عیسائیوں کا مقابلہ نہ کرسکے جس کے نتیجہ میں 478ھ(1099ء)میں بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔بالآخر 670ھ (1291ء) میں مسلمانوں کی کامیابی کے ساتھ صلیبی جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔(1187ء میں مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم پر قبضہ کر لیا۔اگرچہ اس کے بعد مزید سوس ال تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہیں ،تاہم مسلمانوں کا قبضہ برقرار رہا۔گویا عیسائیوں کے اٹھاسی سالہ اقتدار کے بعد یروشلم پر اگلے آتھ سو برس یعنی پہلی جنگ عظیم تک مسلمانوں کا قجؓہ رہا۔صلیبی جنگوں کے کاتمے کے بعد دسویں صدی ہجری کی ابتدا تک یہ ملک مصر ی سلطنت کا حصہ تھا۔
فلسطین ،عثمانی دور میں
[سودھو]923ھ(1517ء) میں جب عثمانی ترکوں نے مصر پر قبضہ کیا تو فلسطین بھی عثمانی سلطنت میں شامل ہو گیا اور تقریباً چار سو سال تک یہ علاقہ عثمانی سلطنت کا یاک غیر اہم حصہ شمار ہوتا رہا۔اٹھارویں صدی عیسوی کے ااخر میں نپولین نے اس علاقہ پر حملہ کیا۔بتدریج فلسطین پر سے عثمانی کنٹرول کم ہوتا چلا گیا اور عثمانی سلطان کی جانب سے منصوب مصری حاکموں نے (جو خود کو خدیوکہلواتے تھے)فلسطین کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
یہودیوں کے ساتھ ناروا سلوک
[سودھو]70 ءمیں جب رومیوں نے یہودیوں کو جلاوطن کر دیا تو اس کے بعد یہ قوم اٹھارہ سو سال تک تتر بتر رہی۔اسے یہودیوں کی اصطلاح میں ’’Diaspora‘‘کہتے ہیں۔اس دوران میں اکثر جگہوں میں یہودیوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے۔تاہم سپین کے مسلم عہد اور شمالی یورپ کے بعض ممالک میں ان سے اچھا سلوک کیا گیا۔صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا بھی خوب قتل عام کیا۔عثمانی ترکوں کے عہد میں ان کے ساتھ ساتھ مناسب سلوک کیا گیا۔مغربی یورپ میں جمہوریت آنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے ساتھ سلوک میں بھی بہتری آتی گئی۔تاہم روس اور جرمنی میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک روارکھا گیا۔ستر ھویں صدی کے لگ بھگ یہودیوں میں اپنی کم مائیگی اور بے چار گی کا احساس پیدا ہونے لگا اور مختلف مقامات پر یہودیوں نے اپنی مقامی تنظیمیں بنانی شروع کر دیں ۔
صہیونزم کابانی
[سودھو]یوں تو یہودیوں میں یہ احساس بھی سترھویں صدی سے پیدا ہو گیا تھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے جہاں انھیں واپس جانا چاہیے ،مگر اس کو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل جرمنی کے ایک مشہور دانشور اور وکیل تھیوڈرہرزل نے دی جس نے 1895ء میں صہیونیت نے نام یہ یہ سروع کیا۔زایان یا صہیون دراصل یروشلم کے قریب ایک پہاڑی کا نام ہے۔ابتامیں یہ خٰال بھی تھا کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں یہودی امن سے رہ سکیں اور اس ضمن میں نظر انتخاب یو گنڈا پر گئی۔تاہم یہودیوں کی اکثریت نے اسے نامنظور کر کے فلسطین ہی کو اپنا مقصد قرار دیا۔
فلسطین کی جانب یہودیوں کی ہجرت
[سودھو]قتریباً 300 سال قبل از مسیح نبی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے نکلے اور شام کے راستہ سے ہوتے ہوئے سرزمین قدس کی جانب چل پڑے۔ادھر حضرت موسیٰ (ع) نے اصرار کیا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجائیں لیکن نبی اسرائیل نے حضرت موسی (ع) کی نافرمانی کی کیونکہ وہ لوگ ’’عمالقہ‘‘ سے الجھنااور جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے جو اس سرزمین پر رہتے تھے۔اسی نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال تک ان لوگوں پر اس شہر میں داخلہ حرام کر دیا گیا۔یکے بعد دیگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اس دنیائے فانی سے کوچ کیا اور ان کے قوم 40 سال تک تیہ کے بیابان میں سرگردان رہی۔اس دوران میں پرانی نسل کا خاتمہ ہو گیا اور نئی نسل وجود میں آگئی جس کی سربراہی یوشع بن نون کے ہاتھ میں تھی۔انہوں نے نئی نسل کو بیت المقدس میں داخل ہونے پر اکسایا۔مقدس سر زمین میں داخل ہوتئ وقت ’’اریحا‘‘ کے مقام پر ’’عمالقہ‘‘کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی اور ان کو شکست دینے کے بعد وہ لوگ ’’قدس‘‘ میں داخل ہو گئے۔یوشع بن نون کی وفات کے بعد حضرت طالوت اور ان کے بعد حضرت داؤد نے 40 سال تک ان کی سربراہی کی اور ان کے بعد حضرت سلیمان حاکم ہوئے۔حضرت سلیمان کے بعد فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہو گیا
1۔جنوب میں یہودا ،جس کا دار الخلافہ’’یروشلم‘‘ تھا۔
2۔شمال میں اسرائیل جس کا مرکز ’’شکیم‘‘تھا۔
یوم نکبہ
[سودھو]پندرہ مئی کو فلسطینی ہر سال سال یوم نکبہ یعنی وطن چھن جانے اور ملک پر غیر قوم قابض ہونے کا دن مناتے ہیں [۱]نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے سے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔اسرائیل کو کل رقبے کا کا چھپن(65)فیصد دیا گیا حالانکہ یہودیوں کی آبادی اس وقت کل آبادی کی ایک تہائی تھی اور فلسطینی ریاست کو چوالیس فیصد دیا گیا حالانکہ فلسطینیوں کی آبادی دو تہائی تھی۔یہ صریحاایک ناجائز تقسیم تھی۔چنانچہ فلسطینیوں اور ارد گرد کے عربممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ۔
مئی 1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلہ پر بحث کر رہی تھی،یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکا اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جاچکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کرچکا تھا۔ پس یہی ہے وہ دن جس کو تاریخ فلسطین میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔
مسئلہ فلسطین امام خامنہ ای کی نظر میں
[سودھو]فلسطین کا غمناک قصہ اور اس صابر ،بردبار اور استقامت کی پیکر قوم کی جانکاہ مظلومیت ،واقعی ہر حریت پسند ،حق پرست اور انصاف پسند انسان کو آزادہ خاطر کردیتی ہے اور دل کو درد و رنج کی آماجگاہ بنادیتی ہے۔فلسطین پر غاصبانہ قبضے،دسیوں لاکھوں انسانوں کی نقل مکانی اور اس قوم کی دلیرانہ استقامت کی تاریخ نشیب و فراز سے بھرئی ہوئی ہے۔ہوشمندانہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور پر قبضہ ہوجائے ،پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چاہر سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسادیا جائے۔ایک حقیقی وجود کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔اخلاق و تمدن اور انسانی حقوق کے دعویدار وں کے ہاتھوں جو المیہ اس دور میں رونماز ہوا اس کا ایک فیصد حصہ بھی آج تک میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں سامنے آیا۔مغربی میڈیا ،ذرائع ابلاغ ،سنیما،ٹلی ویژن اور مغربی فلمی اداروں نے ابھی اس ہولناس المیہ کی تصویر کشی نہیں کی اور نہ ہی انھوں نے کسی کو ایسا کرنے کی جازت دی،ایک قوم بڑے آرام کے ساتھ ساتھ اور بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے وطن سے بے وطن اور اپنے گھر سے بے گھر کردی گئی ۔
مسئلہ فلسطین کی اہمیت
[سودھو]مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے اہم اور ممتاز مسئلہ ہے اسلامی ممالک کے مشترکہ موضوعات میں مسئلہ فلسطین سب سے پہلا اور نمایاں مسئلہ ہے ۔،سئلہ فلسطین خصوصی اہمیت اور شرائط کا حامل ہے :
اول:ایک مسلمان ملک کو مسلمانوں سے غصب اور چھین کر مختلف اور گونا گوں ممالک سے لائے گئے غیر قانونی اور غاصب افراد کے حوالے کیا گیا ہے ۔
دوم:تاریخ میں واقعہ مسلسل ظلم و ستم ،قتل عام ،توہین اور جرائم کے ہمراہ انجام دیا گیا ہے ۔
سوم: مسلمانوں کا قبلہ اول اور بہت سے دینی و مذہبی مراکز اس ملک میں موجود ہیں جن کی تخریب اور توہین کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
چہارم: عالم اسلام کے حساس ترین نقطہ میں غاصب و جعلی حکومت کو تشکیل دیا گیا ،جس نے آغاز سے لے کر اب تک دنیا کی سامراجی اور ظالم طاقتوں کے لیے سیاسی ،نظامی اور فوجی چھاؤنی کا نقش ایفا کیا ہے اور مغربی سامراجی طاقتیں اسلامی ممالک کی پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کرنے اور اسلامی ممالک میں اختلاف ڈالنے اور امت اسلامی کے پہلو میں خنجر گھونپنے کے لیے اس سے استفادہ کرتی ہیں ۔
پنجم: صہیونیزم انسانی معاشرے کے لیے بہت بڑا سیای ،اقتصادی اور اخلاقی خطرہ ہے اس نے دنیا کے دیگر علاقوں پر تسلط اور قبضہ جمانے کے لیے اس نقطہ کو اپنا مرکز ی وسیلہ اور محرور قرار دیا۔
فلسطین پر مسلسل مظالم
[سودھو]عظیم ملت فلسطین جو عالمی صہیونزم اور اس کے غنڈہ صفت حامیوں سے مقابلے کاسنگین بوجھ اکیلے ہی اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے صابر اور بردباری کے ساتھ مستحکم اور ثابت قدم ہے۔فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی ،وسیع پیمانے پر گرفتاریاں،قتل و غارت ،اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر ،مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصیٰ ،اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں ،شہریوں کے بنیادئ حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں امریکا اور بعض مغربی حکومتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور افسوس کہ اس پر عالمی سطح پر مناسب رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔
فلسطینی ہویت کا خاتمہ اسرائیل کے وجود کاضامن
بنیادی طور پر صہیونی حکومت کی تشکیل کا طریقہ اور روش ایسی ہے کہ وہ توسیع پسندی،سرکوبی اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی سے باز نہیں آسکتی۔اس لیے کہ اس کا وجود اور تشکص فلسطین کے وجود اور تشکص کی بتردریج نابودی پر منحصر ہے کیونکہ صہیونی حکومت کا ناجائز وجود اسی صورت میں جاری رہ سکتاہے جب فلسطین کے وجود اور شناخت کے ویرانوں پر اس کی بنیاد رکھی جائے۔اس لیے فلسطینی تشخص کی حفاظت اور اس فطری وبرحق شناخت کی تمام نشانیوں کی پاسداری واجب ،ضروری اور مقدس جہاد ہے۔جب تک فلسطین کا نام ،فلسطین کا ذکر اور اس ملت کی ہمہ جہتی استقامت کا شعلہ فروزاں دہکتا رہے گا،اس وقت تک غاصب حکومت کی بنیادوں کا مستحکم ہوپانا ناممکن ہے ۔
مسئلہ فلسطین کا حل
[سودھو]فلسطینی قوم کا ریفرنڈم
مسئلہ فلسطین کے حل اور اس کہنہ زخم کو ٹھیک کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک روشن،منطقی رائے عامہ اور عالمی سیاسی اصولوں پر استوار منصوبہ پیش کیا ہے،ہم نہ ہی اسلامی ممالک کی فوجوں کی کلاسیکی جنگ کی تجویز پیش کرتے ہیں اور نہ ہو یہودی مہاجرین کو سمندر میں پھنکنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ہم فلسطینی قوم کے ریفرنڈم کی تجویز پیش کرتے ہیں۔فلسطینی قوم بھی دوسری ہر قوم کی طرح اپنی تقدیر کا فیصلہ کرسکتی ہے اور اپنے ملک کے نظام اور حکومت کو منتخب کرسکتی ہے ۔
رہبر انقلاب اسلامی ایران کا فلسطین کی عوامی جدوجہد کی حمایت میں پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب
[سودھو]مہمانان عزیز اور تمام حاضرین محترم کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ عالم اسلام کی دینی اور سیاسی شخصیات کے لیے جن موضوعات پر بحث کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ان میں مسئلہ فلسطین سب سے نمایاں ہے۔ اسلامی ممالک کے مشترکہ مسائل میں مسئلہ فلسطین کو اولیت حاصل ہے۔ اس مسئلے میں بڑی اہم اور انفرادی باتیں ہیں۔
اول یہ کہ ایک مسلم مملکت کو اس کی مالک قوم سے چھین لیا گیا اور اسے مختلف ممالک سے لاکر جمع کیے گئے اور ایک جعلی معاشرے میں تبدیل کر دیے جانے والے اغیار کے سپرد کر دیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کا یہ نرالا واقعہ مسلسل قتل عام، جرائم، مظالم اور توہین آمیز اقدامات کے ساتھ انجام دیا گیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دوسرے بہت سے دینی مراکز جو اس ملک میں واقع ہیں انہدام، بے حرمتی اور نابودی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے حساس ترین علاقے میں واقع یہ جعلی معاشرہ اور حکومت شروع سے تاحال استکباری طاقتوں کے لیے فوجی اور سیاسی چھاونی کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور مغربی سامراج نے جو گوناگوں اسباب و علل کی وجہ سے اسلامی ممالک کی پیشرفت اور باہمی اتحاد کا دشمن ہے اسے امت اسلامیہ کے پہلو میں کسی خنجر کی مانند اتار دیا ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ صیہونزم جو انسانی معاشرے کے لیے بہت خطرناک اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی ناسور ہے اس ٹھکانے کو اور اس تکیہ گاہ کو دنیا میں اپنے اثر و نفوذ کی توسیع کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔
اس سلسلے میں مزید نکات بھی بیان کیے جا سکتے ہیں مثلا اسلامی ممالک کو جو بڑا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، مسلمان قوموں اور حکومتوں کے لیے جو ذہنی الجھنیں پیدا ہوتی رہی ہیں، دسیوں لاکھ بے گھر فلسطینیوں کے رنج و آلام جن میں بہت سے افراد تو چھ عشرے گذر جانے کے بعد بھی پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، عالم اسلام کے اہم مرکز کی تاریخ کا سلسلہ یہاں پر آکر ٹوٹ گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت ان ساری باتوں کے ساتھ ایک نئی بنیادی اور اساسی چیز سامنے آئی ہے اور وہ ہے اسلامی بیداری کی مہم جو پورے علاقے پر محیط نظر آ رہی ہے اور جس سے امت اسلامیہ کی تاریخ میں ایک نئے اور فیصلہ کن باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ عظیم تحریک جو بلا شبہ دنیا کے اس حساس ترین خطے میں ایک مقتدر، پیشرفتہ اور متحد اسلامی تنظیم کی تشکیل پر منتج ہو سکتی ہے اور جس کے رہنماؤں کے عزم محکم اور خداوند عالم کی نصرت و مدد سے مسلمان قوموں کی پسماندگی، کمزوری اور تحقیر کا دور ختم ہو سکتا ہے، اس کے جوش و جذبے اور قوت و توانائی کا بڑا حصہ مسئلہ فلسطین سے حاصل ہوا ہے۔
صیہونی حکومت کا روز افزوں ظلم و استبداد اور امریکا کے پٹھو بعض ظالم و جابر اور بد عنوان حکام کا اس حکومت سے تعاون ایک طرف اور دوسری طرف فلسطینیوں اور لبنانیوں کا جانانہ مزاحمت اور تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائیس روزہ جنگ غزہ میں باایمان نوجوانوں کی کرشماتی کامیابیاں، وہ اہم عوامل تھے جنھوں نے مصر، تیونس، لیبیا اور علاقے کے دیگر ممالک کی قوموں کے بظاہر پرسکون بحر اعظم کو متلاطم کر دیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سراپا مسلح صیہونی حکومت کو جسے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا بڑا زعم تھا لبنان میں ایک غیر مساوی جنگ میں باایمان و دلاور مجاہدوں سے منہ کی کھانی پڑی اور ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد غزہ کی مظلومانہ لیکن فولادی مزاحمت کے خلاف اس نے اپنی کند شمشیر کو آزمایا اور دوبارہ شکست کا مزہ چکھا۔
علاقے کے معروضی حالات کا جائزہ لیتے وقت ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے اور کسی بھی فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ انہیں باتوں سے لگانا چاہیے۔
بہرحال یہ نظریہ بالکل درست ہے کہ مسئلہ فلسطین اس وقت اور بھی زیادہ اہم اور فوری مسئلہ بن گيا ہے۔ موجودہ حالات کے مد نظر فلسطینی عوام کا علاقے کے اسلامی ممالک سے توقعات وابستہ کرنا بھی بالکل صحیح ہے۔
ہمیں ماضی اور زمانہ حال پر نظر دوڑا کر مستقبل کے لیے خاکہ تیار کرنا چاہیے۔ میں کلیدی باتوں کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔
فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو چھ عشروں سے زیادہ وقت ہو رہا ہے۔ اس خونریز المئے کے اصلی ذمہ داروں کو سب پہچانتے ہیں جن میں برطانیہ کی سامراجی حکومت سب سے پیش پیش رہی ہے جس کی سیاست، اسلحہ، فوج اور اقتصادی و ثقافتی توانائیاں اور پھر دیگر مغربی سامراجی حکومتیں اس عظیم ظلم میں مددگار بنیں۔ فلسطین کی بے سہارا قوم سنگدل قابضوں کے چنگل میں گرفتار ہوئی اور اسے اس کے گھربار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اخلاق و تہذیب کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ان ممالک نے ان دنوں جو انسانی المیہ رقم کیا اس کا سواں حصہ بھی اب تک منظر عام پر نہیں آ سکا ہے اور برقی یا پرنٹ میڈیا میں اس کا کوئی احاطہ نہیں کیا گيا ہے۔ مغربی سنیما، ٹیلی ویژن اور فلمسازی کے مافیاؤں نے اس کی اجازت ہی نہیں دی۔ چاروں طرف چھائے سناٹے میں ایک پوری قوم کا قتل عام ہوا، اسے اس کی سرزمین سے باہر نکال دیا گیا، آوارہ وطن کر دیا گيا۔
ابتدا میں تھوڑی مزاحمت ہوئی لیکن اسے بیدردی سے کچل دیا گیا۔ سرزمین فلسطین کے باہر سے اور خاص طور پر مصر سے اسلامی حمیت کے ساتھ کچھ مرد نکلے اور انہوں نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں ضروری حمایت نہیں مل سکی لہذا صورت حال پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑ سکا۔
اس کے بعد صیہونی فوج سے چند عرب ممالک کی رسمی اور روایتی جنگ کی نوبت آئی۔ مصر، شام اور اردن نے اپنی فوجیں میدان میں اتاریں لیکن امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے غاصب حکومت کی بے دریغ فوجی، تزویراتی اور مالی مدد کی وجہ سے عرب فوجوں کو ناکامی ہوئی۔ وہ ملت فلسطین کی مدد کرنا تو درکنار ان جنگوں میں اپنی سرزمین کا ایک بڑا حصہ گنوا بیٹھیں۔
فلسطین کی ہمسایہ حکومتوں کی عاجزی سامنے آ جانے کے بعد رفتہ رفتہ مسلح فلسطینی گروہوں کی شکل میں اسلامی مزاحمت کا آغاز ہوا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کے باہمی اتحاد سے تنظیم برائے آزادی فلسطین پی ایل او کی تشکیل عمل میں آئی۔ یہ امید کی شمع تھی جو روشن ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے خاموش ہو گئی۔ اس کے لیے متعدد وجوہات کا نام لیا جا سکتا ہے لیکن اصلی وجہ اس تنظیم کے افراد کا عوام اور اسلامی عقیدہ و ایمان سے دور ہونا تھا۔ پیچیدہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے لیفٹسٹ آئیڈیالوجی یا صرف قوم پرستانہ جذبات کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک قوم کو میدان کارزار میں لا کھڑا کرنے اور اس کے اندر ناقابل تسخیر قوت پیدا کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی وہ تھا اسلام اور جذبہ جہاد و شہادت۔ تنظیم کے افراد اس حقیقت کے ادراک سے قاصر رہے۔ عظیم اسلامی انقلاب کے ابتدائی مہینوں میں جب پی ایل او کے رہنماؤں میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہو گيا تھا اور ان کی تہران آمد و رفت جاری تھی، میں نے تنظیم کے ایک عہدیدار سے پوچھا کہ آپ اپنے برحق جہاد کے لیے اسلام کا پرچم بلند کیوں نہیں کرتے تو جواب ملا کہ ہمارے درمیان بعض عیسائی رہنما بھی ہیں۔ بعد میں ایک عرب ملک میں صیہونیوں نے اس رہنما کو قتل کر دیا، اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت و مغفرت کا سایہ کرے۔ بہرحال ان کی یہ توجیہ درست نہیں تھی۔ کیونکہ میرا خیال یہ ہے کہ فداکار مجاہدین کے گروہ کے ساتھ جو اللہ تعالی کی ذات اقدس، روز قیامت اور الہی نصرت و اعانت پر پختہ ایمان کے ساتھ پرخلوص انداز میں جنگ کر رہا ہے اور اسے عوام کی مادی و اخلاقی حمایت بھی حاصل ہے، ایک با ایمان عیسائی مجاہد کو جہاد کا مزید حوصلہ ملتا ہے، بر خلاف ایسے گروہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے جس کے پاس ایمان کی دولت نہیں ہے، جو نا پائيدار جذبات و خیالات پر تکیہ کیے ہوئے ہے اور عوام کی وفادارانہ پشت پناہی سے بھی محروم ہے۔
عوام کی طرف پوری توجہ اور جذبہ ایمانی کے فقدان کے نتیجے میں اس تنظیم میں شامل گروہ بے اثر ہوکر رہ گئے۔ البتہ ان کے اندر کچھ بڑے ہی غیور، پرجوش اور باشرف افراد بھی تھے لیکن تنظیم مجموعی طور پر کسی اور سمت میں چلی گئی۔ ان کے انحراف سے مسئلہ فلسطین کو بہت بڑا دھچکا پہنچا اور آج بھی پہنچ رہا ہے۔ بعض خیانت کار عرب حکومتوں کی طرح اس تنظیم نے بھی مزاحمتی تحریک سے روگردانی کر لی جو فلسطین کی نجات کا واحد راستہ تھی اور آج بھی ہے۔ انہوں نے فلسطین ہی نہیں خود کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچایا۔
بقول ایک عیسائی عرب شاعر کے؛
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ
بتیس سال اسی بد بختی کے عالم میں بیت گئے۔ اچانک دست قدرت الہی نے ورق پلٹا اور سنہ انیس سو اناسی عیسوی میں ایران میں اسلامی انقلاب کو فتح ملی جس کے نتیجے میں علاقے کے حالات تہ و بالا ہو گئے اور ایک نیا باب وا ہوا۔ اس انقلاب کے عالمی اثرات میں اور اس سے استکباری پالیسیوں کو لگنے والی گہری ضرب میں سب سے اہم ضرب صیہونی حکومت کو لگي۔ اس زمانے میں اس حکومت کے عہدیداروں کے بیانات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بے چینی اور بیکلی کی بخوبی عکاسی کرتے ہیں۔ اس فتح کے ابتدائي ہفتوں میں ہی تہران میں اسرائيل کے سفارت خانے میں تالا لگ گیا اور تمام کارکنوں کو نکال باہر کیا گیا اور اس جگہ کو با ضابطہ طور پر پی ایل او کے نمائند دفتر کے حوالے کر دیا گيا جو تاحال اسی جگہ پر موجود ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اعلان کیا کہ اس انقلاب کا ایک اہم ہدف فلسطینی سرزمین کی آزادی اور اسرائیلی نامی سرطانی ناسور کی نابودی ہے۔ اس انقلاب سے اٹھنے والی طاقتور لہریں جو اس زمانے میں پوری دنیا میں پھیلیں، جہاں جہاں تک پہنچیں اس پیغام کے ساتھ پہنچیں کہ فلسطین کو آزادی ملنی چاہیے۔ انقلاب کے دشمنوں نے اسلامی جمہوریہ ایران پر پے در پے جو سختیاں کیں اور مشکلات مسلط کر دیں جس کی ایک مثال امریکا اور برطانیہ کی ترغیب اور رجعت پسند عرب حکومتوں کی پشت پناہی سے صدام حسین کی حکومت کی جانب سے مسلط کی جانے والی آٹھ سالہ جنگ ہے، ان اقدامات کے ذریعے بھی دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کے فلسطین کے دفاع کے جذبے کو دبا نہیں سکا۔
اس طرح فلسطین کی رگوں میں نیا خون دوڑ گیا۔ فلسطین کی مسلم جہادی تنظیمیں پنپنے لگیں۔ دشمن اور اس کے ہمنواؤں کے مقابل لبنان کی مزاحمتی تحریک کو بھی نئی طاقت اور نیا جذبہ ملا۔ فلسطین نے عرب حکومتوں پر تکیہ کرنے کی بجائے اور استکباری طاقتوں کی شریک جرم اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیموں کی جانب دست نیاز دراز کرنے کی بجائے، اپنے اوپر، اپنے نوجوانوں پر، اپنے گہرے اسلامی عقیدے پر اور اپنے ایثار پیشہ مردوں اور عورتوں پر تکیہ کرنے لگا۔
یہ تمام فتوحات اور کامیابیوں کی کنجی ہے۔
گزشتہ تین عشروں کے دوران یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا اور مضبوط ہوتا گیا۔ سنہ 2006 عیسوی میں لبنان میں صیہونی حکومت کی شرمناک شکست، بڑے بڑے دعوے کرنے والی فوج کی سنہ 2008 میں غزہ میں زبردست ہزیمت، جنوبی لبنان سے فرار اور غزہ سے پسپائی، غزہ میں مزاحمتی تحریک کی حکومت کی تشکیل، بلکہ ایک جملے میں یوں کہا جائے کہ بےبس اور مایوس فلسطینی عوام کا پرامید، مستحکم اور جذبہ خود اعتمادی سے سرشار قوم میں تبدیل ہو جانا ان تیس برسوں کی سب سے خاص بات ہے۔
یہ اجمالی تصویر اس وقت مکمل ہوگی جب حیانت اور ساز باز پر مبنی مذاکراتی سرگرمیوں کی حقیقی ماہیت پر نظر ڈالی جائے جن کا مقصد مزاحمت کے چراغ کو خاموش کرنا اور فلسطینی تنظیموں اور عرب حکومتوں سے اسرائيل کو قانونی مملکت کا درجہ دلوانا ہے۔
یہ سرگرمیاں جن کی شروعات جمال عبد الناصر کے خائن اور ناہل جانشین کے ہاتھوں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت ہوئیں، ہمیشہ مزاحمت کے فولادی عزم کو اندر سے متزلزل کرنے پر مرکوز رہی ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں پہلی دفعہ ایک عرب حکومت نے باضابطہ طور پر فلسطین کی اسلامی سرزمین کے صیہونی علاقہ ہونے کا اعتراف کیا اور اس تحریر پر دستخط کیے جس میں اسرائیل کو یہودیوں کا قومی آشیانہ قرار دیا گيا ہے۔ اس کے بعد سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے تک اور پھر امریکا علمبرداری میں اور استعماری یورپی حکومتوں کی حمایت سے جو منصوبے سازباز پر آمادہ فلسطینی گروہوں پر مسلط کیے گئے سب میں دشمن کی یہی کوشش رہی کہ کھوکھلے اور پرکشش وعدوں کے ذریعے فلسطینی تنطیموں اور عوام کو استقامت و مزاحمت سے کنارہ کشی پر تیار کیا جائے اور انہیں سیاست کے میدان میں بچکانہ امور میں الجھا دیا جائے۔ ان منصوبوں اور معاہدوں کی حقیقت بہت جلد کھل گئی۔ صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے بارہا اپنے عمل یہ ثابت کیا کہ تحریری معاہدوں کو وہ بے وقعت پرچوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ان منصوبوں کا مقصد فلسطینیوں کے اندر گو مگو کی کیفیت پیدا کرنا، ان کے اندر موجود دنیا پرست بے عقیدہ لوگوں کو لالچ میں ڈالنا اور اسلامی مزاحمتی تحریک کو مٹانا تھا۔
ان تمام خیانت آمیز چالوں کا توڑ اب تک فلسطینی عوام اور اسلامی تنظیموں کے اندر موجزن جذبہ مزاحمت و استقامت رہا ہے۔ بفضل پروردگار وہ دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں اللہ تعالی کے اس وعدے کے مطابق وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ ، إِنَّ الله َلَقَوِيٌّ عَزِيزٌ وہ نصرت الہی سے بھی بہرہ مند ہیں۔ سخت محاصرے کے عالم میں غزہ کی استقامت نصرت الہی سے عبارت ہے۔ خیانت کار اور بد عنوان حسنی مبارک کی سرنگونی، نصرت الہی سے عبارت ہے، علاقے میں طاقتور اسلامی بیداری کی لہر کا اٹھنا، نصرت خداوندی سے عبارت ہے، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے چہروں سے فریب اور نفاق کے پردے کا ہٹ جانا اور ان کے خلاف علاقے کی قوموں کی روز افزوں نفرت بھی نصرت الہی سے عبارت ہے، صیہونی حکومت کو پے در پے پیش آنے والی دشواریاں، سیاسی، اقتصادی اور داخلی سماجی مشکلات سے لیکر عالمی سطح کی تنہائی، اس کے خلاف عام نفرت اور حتی یورپی یونیورسٹیوں میں پائی جانے والی بیزاری سب کچھ نصرت الہی کے مظاہر ہیں۔
اس وقت صیہونی حکومت ہمیشہ سے زیادہ نفرت انگیز، کمزور اور تنہا ہے اور اس کا اصلی حامی امریکا ہمشیہ سے زیادہ سراسیمہ اور مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے فلسطین کی ساٹھ سال سے زیادہ عرصے کی اجمالی تاریخ ہے جسے دیکھ کر اور جس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا خاکہ کھینچنا چاہیے۔
دو نکات کے بارے میں پہلے ہی وضاحت کر دینے کی ضرورت ہے۔
اول یہ کہ ہمارا مطمح نظر فلسطین کی آزادی ہے، فلسطین کے صرف ایک حصے کی آزادی نہیں۔ جس تجویز میں بھی فلسطین کی تقسیم کی بات کی گئي ہے ناقابل قبول ہے۔ دو حکومتوں کی تشکیل کا تجویز جس پر اقوام متحدہ میں فلسطینی حکومت کی رکنیت کا برحق جامہ چڑھا دیا گيا ہے، سوائے صیہونیوں کے مطالبات کے سامنے سر جھکانے یعنی فلسطینی سرزمین میں صیہونی حکومت کا وجود تسلیم کرنے کے، کچھ اور نہیں ہے۔ یہ ملت فلسطین کے حقوق کی پامالی، فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق سے بے اعتنائی بلکہ 1948 کی سرزمین پر بسنے والے فلسطینیوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دینے کے معنی میں ہے، سرطانی پھوڑے کو باقی رکھنے اور امت اسلامیہ اور بالخصوص علاقے کی قوموں کو دائمی خطرے میں ڈالنے کے معنی میں ہے، شہیدوں کے خون کی پامالی اور کئی عشروں سے جاری رنج و آلام کو دائمی بنانے کے معنی میں ہے۔
ہر عملی منصوبہ پورا فلسطین، تمام فلسطینیوں کے لیے کے اصول پر استوار ہو۔ فلسطین نہر سے بحر تک (دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلا ہوا) فلسطین ہے اس سے ایک بالشت بھی کم نہیں۔ البتہ یہ نکتہ فراموش نہ ہونے پائے کہ فلسطینی عوام نے جس انداز سے غزہ میں عمل کیا ہے، وہ اسی طرح فلسطین کے ہر اس خطے میں جسے وہ آزاد کرانے میں کامیاب ہوں گے عمل کریں گے اور اپنی منتخب حکومت کے ذریعے وہاں کا انتظام سنبھالیں گے لیکن اپنے آخری ہدف کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بلند ہدف کے حصول کے لیے باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے، سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ صرف نمائشی اقدامات نہیں، تلون مزاجی اور بے صبری کی کارروائياں نہیں تدبر و صبر و تحمل ضروری ہے۔ دور اندیشی کی ضرورت ہے، ہر قدم پورے عزم و توکل اور بھرپور امید کے ساتھ بڑھانا ہے۔ مسلمان حکومتیں اور قومیں، لبنان، فلسطین اور دیگر ممالک میں موجود مزاحمتی تنظیمیں، سب اس ہمہ گیر مجاہدت میں اپنے کردار اور شراکت کا تعین کر سکتے ہیں اور مزاحمت کی تصویر کو مکمل کر سکتے ہیں۔
فلسطین کا قضیہ حل کرنے اور اس پرانے زخم کا مداوا کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کی تجویز بالکل واضح، معقول اور عالمی رائے عامہ کی سطح پر مسلمہ سیاسی امور کے مطابق ہے جسے پہلے ہی بالتفصیل پیش کیا جا چکا ہے۔ ہم نے نہ تو اسلامی ممالک کی روایتی جنگ کی تجویز دی ہے، نہ ہی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو سمندر میں غرق کر دینے کی بات کہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کی قضاوت کی پیشکش ہے۔ ہم نے فلسطینی قوم کے درمیان استصواب رائے کرانے کی تجویز دی ہے۔ دوسری اقوام کی طرح فلسطینی قوم کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے اور نظام کی تشکیل عمل میں لانے کا حق ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین نہیں، فلسطین کے اصلی عوام وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، فلسطین کے اندر رہتے ہوں یا پناہ گزیں کیمپوں میں یا پھر دیگر مقامات پر، سب ایک شفاف ریفرنڈم میں شرکت کریں اور فلسطین کے لیے نظام حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام اور حکومت جب امور کو سنبھال لے تب غیر فلسطینی مجاہرین کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں لاکر بسائے گئے ہیں۔ یہ ایک منصفانہ اور منطقی تجویز ہے جسے عالمی رائے عامہ بھی بخوبی سمجھتی ہے اور اس کے لیے خود مختار حکومتوں اور قوموں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہمیں غاصب صیہونیوں سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ آسانی سے اسے مانیں گے۔ اسی مرحلے کے لیے مزاحمتی تنظیموں، قوموں اور حکومتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ملت فلسطین کی مدد کا سب سے بنیادی طریقہ غاصب دشمن کی پشت پناہی بند کر دینا ہے جو اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا فریضہ ہے۔ اس وقت قوموں کے میدان عمل میں اتر آنے کے بعد اور صیہونی حکومت کے خلاف ان کے پرزور نعروں کے گونج اٹھنے کے بعد مسلم حکومتیں کس منطق کی بنیاد پر غاصب حکومت کے ساتھ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں؟ فلسطینی قوم کی حمایت اور طرفداری کے سلسلے میں مسلمان حکومتوں کی صداقت کی سند اس (صیہونی) حکومت سے جملہ خفیہ و ظاہری اقتصادی و سیاسی تعلقات کا خاتمہ ہے۔ جو حکومتیں صیہنیوں کے سفارت خانوں یا اقتصادی دفاتر کی میزبانی کر رہی ہیں فلسطین کے دفاع کا دعوی نہیں کر سکتیں اور صیہونیت مخالف ان کا کوئی بھی نعرہ سنجیدگي سے نہیں لیا جا سکتا۔
اسلامی مزاحمتی تنظیمیں جو گزشتہ برسوں میں جہاد کی سنگین ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے تھیں، آج بھی یہی عظیم فریضہ ان کے دوش پر ہے۔ ان کی منظم مزاحمت ایک سرگرم عمل بازو ہے جو فلسطینی قوم کو حتمی ہدف کے قریب لے جا سکتا ہے۔ ایسے عوام کی شجاعانہ مزاحمت کو جس کا ملک اور گھربار غصب کر لیا گيا ہو، تمام عالمی معاہدوں میں درست قرار دیا گيا ہے اور اس کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ صیہونزم سے وابستہ تشہیراتی اور سیاسی نیٹ ورک کی جانب سے اس پر دہشت گردی کا الزام بے بنیاد بات ہے۔ کھلے ہوئے دہشت گرد تو صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامی ہیں جبکہ فلسطینیوں کی مزاحمت دہشت گردوں کے خلاف مقدس انسانی اور شجاعانہ اقدام ہے۔
اس درمیان، مغربی ممالک کے لیے بھی مناسب ہوگا کہ منظرنامے کو حقیقت پسندی کی نگاہ سے دیکھیں۔ مغرب اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔ یا اسے اپنی دیرینہ زور زبردستی اور استبداد سے دست بردار ہوکر فلسطینی قوم کے حقوق کو تسلیم کرنا اور مزید برآں جابر اور انسانیت کے دشمن صیہونیوں کے منصوبے کی پیروی کو ترک کر دینا چاہیے اور نہیں تو مستقبل قریب میں زیادہ سخت ضرب برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ مفلوج کن ضربیں اسلامی علاقے میں ان کی فرماں بردار حکومتوں کے پے در پے سقوط تک ہی محدود نہیں رہیں گي بلکہ جس دن یورپ اور امریکا کی قوموں کو ادراک ہو جائے گا کہ ان کی بیشتر اقتصادی، سماجی اور اخلاقی مشکلات کی جڑ ان کے حکمراں طبقے پر عالمی صیہونزم کا آہنی تسلط ہے اور یہ کہ ان کی حکومتیں اپنے شخصی اور تنظیمی مفادات کے لیے امریکا اور یورپ میں خون چوسنے والی کمپنیوں کے مالکان کی زور زبردستی کے سامنے سر بسجود ہیں تو ان حکومتوں کے لیے ایسا جہنم تیار ہوگا کہ ان کی گلو خلاصی کی کوئي صورت نہ ہوگی۔
امریکا کے صدر کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی ان کی ریڈ لائن ہے۔ یہ ریڈ لائن کس نے بنائي ہے؟ امریکی عوام کے مفادات نے یا دوسری دفعہ صدارتی کرسی حاصل کرنے کے لیے صیہونی کمپنیوں کی مدد اور پیسے کی اوباما کی شخصی ضرورت نے؟ آپ کب تک اپنے عوام کو دھوکا دیتے رہیں گے؟ جس دن امریکی عوام کو بخوبی علم ہو گیا کہ آپ نے اقتدار کے ایوانوں میں مزید چند شب و روز گزارنے کے لیے صیہونی دولتمندوں کے سامنے ذلت اور رسوائی گوارا کی اور قوم کے بڑے مفادات کو ان کے قدموں پر رکھ دیا تو وہ آپ کا کیا حال کریں گے؟
عزیز بھائیو اور بہنو!
آپ یاد رکھیے اوباما اور اسی قبیل کے افراد کی یہ ریڈ لائن انقلاب پر کمربستہ مسلمان قوموں کے ہاتھوں توڑی جائے گی۔ صیہونی حکومت کو خطرہ ایران اور مزاحمتی تنظیموں کے میزائلوں سے نہیں ہے کہ یہاں سے وہاں تک میزائل شیلڈ لگائی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا اور کبھی نہ ٹلنے والا خطرہ اسلامی ممالک کے مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کا عزم محکم ہے جو اب مزید یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ امریکا، یورپ اور ان کے مہرے ان پر حکومت اور ان کی تحقیر کریں۔
البتہ دشمن کی طرف سے خطرے کا احساس ہونے پر میزائل بھی اپنا کام انجام دیں گے۔
فاصبر ان وعد الله حق ولا يستخفنّك الذين لا يوقنون .
والسلام عليكم و رحمة الله
مبابع و ماخذ
فلسطیم امام خمینی کی نظر میں ،موسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی:تہران:1996،ص251
امام سید علی خامنہ ای کا خطاب،فلسطین کی واعلی جدوجہد کی حمایت میں 5 ویں بین الاقوامی کانفرنس 1 اکبتوبر 2011،خانہ فرہنگ ج۔ا۔ایران حیدرآباد
- ↑ انعام, حسن (2017). فلسطین تاریخ کے آئینے میں. Daleel.pk.