Jump to content

محمد الیاس نوناری

آزاد انسائیکلوپیڈیا، وکیپیڈیا توں

محمد الیاس نوناری سرائیکی کالم نگار

محمدالیاس نوناری کا تعلق ضلع وھاڑی کے ایک قصبہ متر وسے ہے  وہ نوناری قبلہ سے تعلق رکھتے ہے۔  اور اپنی قوم  اور قبلہ کی بہتری کے لیے دن رات مصروف عمل ہے اور اپنے قبلہ کی تاریخ اور ہسٹری پر بھی ریسرچ کررہے ہیں۔  آپ آل پاکستان نوناری ایسوسیی ایشن  کے مرکز ی عہدیدار بھی ہے۔  انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم    مترو سے حاصل کی اور انٹر کاامتحان انہوں نے وھاڑی پوسٹ گریجوایٹ کالج سے پاس کیا   قیام پاکستان کے بعد ہی سرائیکی نثر کا سفر شروع ہوگیا تھا ، لیکن  موجودہ دور میں سرائیکی نثر عالمی ادب کے ساتھ سفر کر رہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو سرائیکی ادب میں شاعری ادب  پر توبہت زیادہ  کام ہوا ہے لیکن نثری ادب  پربہت ہی کم کام ہواہے۔صرف گنتی کے چند لوگ ہی ہیں جو اپنی ماں بولی کا حق ادا کر رہے ہیں ۔ ہرگزرتے دور میں کوئی نہ کوئی ستارہ ضرور چمکتا ہے جو کہ اپنی ماں بولی کا حق ادا کرتا ہے ان میں  ایک نام محمد الیا س نوناری کا بھی ہے  انہیں شروع سے ہی سرائیکی زبان سے محبت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے بی اے  کا امتحان سرائیکی مضمون کے ساتھ پاس کیا اور ایم اے کا امتحان سرائیکی زبان میں پاس کیا  اور  جیسے ہی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان  نے ایم فل کی کلاسز شروع کی تو آپ نے ریگولر ایم فل میں داخلہ لیا   ایم فل میں آپ کا تحقیقی کام  صحافت کے حوالے سے تھا سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان  کے پہلے کالم نگار میاں انیس دین پوری کی ادبی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ تھا۔ آج کے اس برق رفتار عہد میں، صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اورمظلوم و مجبور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ آج کے اس دور میں، جہاں بیشتر ممالک میں جمہوری حکومتیں ہیں، وہاں صحافت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں عوام کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور نظم و ضبط کے نفاذ کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں: "مقنّنہ”، "انتظامیہ” اور” عدلیہ”۔ ان تینوں اداروں کی سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ضروری اور لازمی ہے۔ صحافت کے بغیر ان مذکورہ اداروں کا جمہوریت پسند ہونا متزلزل اور مشکوک  ہوجاتا ہے۔ صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی بات حکومت وقت سے منوانی ہو، اسی طرح کسی جماعت، تحریک یا حکومت کی پالیسی کو کام یابی یا ناکامی میں بدلنا ہو؛ تو اس حوالے سے بھی صحافت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، جیسا کہ  ہم اس کا مشاہدہ صبح و شام کرتے ہیں۔  اس کے ساتھ محمد الیاس نونا ری کے کالمز کا موضوع  بزگان دین کے حالات زندگی اور سرائیکی وسیب کی ادبی شخصیت  پرہے ،بزگان دین کی  تعلیمات میں امن، پیار، بھائی چارے کا درس پوشیدہ ہے۔ بزرگان دین کی تعلیمات ہمارے لئے قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہیں۔صرف جھوٹ نہ بولنے کا عزم کرلیا جائے تو ہمارا مستقبل محفوظ ہوجائے۔ بزرگان دین نے محبت‘ رواداری اور محنت کے ذریعے دین پھیلایا۔ برصغیر میں دین پھیلانے کیلئے  ان بزرگان دین نے کئی برس تک انتھک محنت کی۔ بزرگان دین کی تعلیمات سے لاکھوں لوگوں کو دین حق سے روشناس کیا۔ آج بھی ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان سے نجات کیلئے بزرگان دین کی دکھائی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ان بزگان دین کی تعلیمات کو عام کیاجائے اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے جومحمد الیا س نوناری اپنے کالمز کے زریع  ان کی تعلیمات کو عام کررہے ہے۔ ہزاروں سالہ قدامت کے امین  سرائیکی ادب نے خطے کو تہذیبی  شناخت و فکری بیداری عطا کی ہے۔  سرائیکی وسیب کی ادبی شخصیت  کو اجاگر کرنے کے لیے ان پر کام کرنابھی سرائیکی ادب کی بہتری کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گااور  ان کا یہ اقدام قابل تعریف ہے  اس کے علاوہ وہ اپنے قبلے سے تعلق رکھنے والی ولی کاملیہ حضرت ما ئی صیفورہؒ  جں کامزار پاکستان کےصوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور دربار سلطان عبدالحکیم سے چند کلیو میٹر دور ایک گاوں میں واقع ہے اور اس جگہ کا نام حضرت مائی صیفورہؒ کے نام پر ہے   اس بستی مائی صیفورہ  رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایک  دوسرے ولی کامل جن کا نام  حضرت بابا بڈھنؒ ہے جو اپنے وقت کے  ولی کامل تھے جن کا دربار تحصیل تاندلیانوالہ ضلع فصیل آباد ہے اور  اس جگہ کا نام اسی بزرگ کے نام پر ہے ۔ان بزگ ہستوں کے حالات زندگی کے حوالے سے بھی  تفصیلی  کام شروع کیا ہوا ہے۔آپ کی تحریر سادہ اور عام فہم ہوتی ہے  جوہر پڑھنے والے کوسمجھناآسان ہوتی ہے۔جناب محمد الیاس نوناری اپنے کالمز باقی اخبارات کے علاوہ خاص طور پر عوامی دریشن  میں لکھتے ہے یہ اخبار سرائیکی وسیب کا ایک مقبول ترین اخبارہے اس اخبار کو بھی یہ آعاز حاصل ہے جو اس وسیب کے بزر گان دین اور ادبی شخصیات پر خصوصی ایڈیشں شائع کرتاہے۔حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے" سرائیکی صحافت کے رنگ"یہ کتاب صحافت کی تارہخ پر ایک جامع اور مکمل کتاب ہے۔ جبکہ سرائیکی وسیب کی ادبی شخصیات،سرائیکی وسیب اور بزگان دین ، یہ دو کتابیں تیاری کے مراحل میں ہے۔