موراں سرکار
طوائف موراں سرکار کی کہانی
پنجابیوں کی تاریخ میں راجہ پورس کے بعد مہا راجہ رنجیت سنگھہ وہ واحد حکمران ہیں جنہوں نے مشرقی پنجاب سے لیکر افغانستان تک اور کشمیر سے لیکر سندھہ کی سرحدوں تک ایک پنجابی ریاست قائم کی رنجیت سنگھہ نے سندھہ پہ قابض ھونے کے لیئے بھی کافی بار حملے کیئے لیکن سندھہ پہ قابض تو نہی ھو سکے لیکن وہ سندھہ کے مير تالپر حکمرانوں سے کافی عرصہ تک " بھتہ " ضرور لیتے رھے اور پنجابیوں کی " گریٹر پنجاب " کی رنجیت سنگھی خواھش ابھی ختم نہی ھوئی 27 جون 2019 کو راجہ رنجیت سنگھہ کے یوم وفات پے حکومت پنجاب نے شاہی قلعہ لاھور کے مرکزی دروازے پہ راجہ رنجیت سنگھہ اور ان کی گھوڑی کا یادگار مجسمہ نصب کر کے ان کو خراج تحسین پیش کیا ھے اگر سندھی راجا داھر کا یادگار تعمیر کرواتے تو اب تک غدار قرار دے کر پابند سلاسل ھو چکے ھوتے بدقسمتی سے پنجاب کے لوگ بابا بلھے شاھہ , سلطان باہو ,میاں محمد بخش , میاں میر , بابا فرید و دیگر صوفیائے کرام کی تعلیمات اور اپنی تاریخ سے نا آشنا ھیں۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ انہوں نے اپنی روایات ، نظریات اور تاریخی ورثہ کو بھلا کے ھر فاتح کے افکار کو پروان چڑھایا جس کی وجہ سے جو راجہ پورس کی روایات کے امین تھے اپنی مٹی سے رشتہ کمزور سے کمزور تر کرتے گئے ۔ اور اس سلسلے میں اپنے محسنوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ھے رنجیت سنگھہ 19 نومبر 1780ع میں پیدا ھوئے وہ کمسن ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ھوا اور 12 سال کی عمر میں پنجاب کے حاکم بنے اور طویل حکمرانی کے بعد 27 جون 1839ع میں وفات پائی رنجیت سنگھہ کی ایک آنکھہ بچپن میں ہی ضایع ھو گئی تھی رنجیت سنگھہ نے 39 برس تک حکمرانی کی مہا راجہ رنجیت کو لاھور کے نامی گرامی مسلمانوں نے درخواستیں کر کے گوجرانوالہ سے لاھور بلایا تھا کہ ہمیں مقامی سکھوں اور بیرونی افغانی حملہ آوروں اور بد امنی سے بچائیں ہم آپ کو اپنا حکمران تسلیم کرتے ہیں۔ رنجیت سنگھ کے دور حکومت کو پنجابی ایک مثالی دور حکومت قرار دیتے ہیں کچھہ مورخین کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھہ نے شک کی بنیاد پہ اپنی ماں مہا رانی راج کور کو بھی قتل کروا دیا تھا رنجیت سنگھہ کی ظالمانہ اور سخت گیر پالیسیان اپنی جگہ لیکن رنجیت سنگھہ نے مغل بادشاھ اکبر اعظم کی طرح اپنے محل اور دربار میں ھر مذھب کی بیوی اور وزیر رکھے ہوئے تھے۔ مادھو لال حسین کے مزار پر ہر مہینے کچہری لگایا کرتا تھا اور عوام کے مقدموں کے فیصلے کیا کرتا تھا۔ طوائف کو پنجابی میں کنجری کہا جاتا ھے۔ اس زمانے کی ایک مشہور مسلم طوائف موراں کو راجہ رنجیت سنگھ بہت پسند کرتا تھا۔ لاھور امرتسر روڈ پر واہگہ سے ایک دو کلو میٹر انڈیا کی طرف ایک مشہور تارئخی عمارت اور تفریح گاہ ھے جس کو کنجری والا پل کہا جاتا ھے. مہا راجہ رنجیت سنگھ نے اس کنجری کے مرنے بعد اس مقام پر اس کنجری کا مقبرہ بھی بنوایا تھا۔ یہ ایسا ھی ھے جیسے شاہدرہ لاھور میں نور جہاں کا مقبرہ ۔ یہ کنجری کا پل ایک تاریخی جگہ ھے یہ تاریخی مقام مغل بادشاہ شاہ جہاں کا بنوایا ھوا ھے۔ اور نور جہاں کے مقبرہ سے زیادہ خوبصورت ھے۔ کچھ ھی عرصہ قبل اس کو مشرقی پنجاب کی حکومت نے تزئین اور آرائیش کے بعد عوام کے لیے بحال کیا ھے۔ اس کنجری کا تعلق مانوالہ یا اس کے کسی اردگرد کے گاوں سے تھا۔ اس نے پنجاب میں اپنی کمائی سے راستوں پر اور آبادیوں میں کئی کنوئیں بنوائے تھے اور چند پل بھی بنوائے تھے تاکہ مقامی آبادی اور مسافروں کو آسانی ھو اور اپنی پیاس بھی بجھا سکیں۔ یہ کنجری والا کھوہ اور مقام بھی اس کے نام سے منسوب اس کنجری کی یاد گار ھے پنجاب کی مہارانی موراں سرکار ایک طوائف تھی یوں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی زندگی کی کہانی جنگی مہمات، گھوڑے، شراب اور خوبصورت عورتوں کے ارد گرد بھی گھومتی ہے مگر اس کی مشہور زمانہ گھوڑی لیلئ کے علاوہ ایک عورت بھی ایسی تھی جس کے حصول کے لئے اس کو بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ یہ قیمت اس کو ایک طرف غیر سکھ عورت سے بیاہ کرنے پر ہرمندر صاحب ( گولڈن ٹمپل دربار صاحب امرتسر ) کے اکال تخت کے زیر عتاب ہونے کی صورت میں تھی تو دوسری طرف ایک کنجری کو مہارانی کا رتبہ دینے پر شرفاء کی ناپسندیدگی کی شکل میں۔ وہ بھی ضد کا پکا تھا جو اس نے ایسا نبھا کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکمران رنجیت سنگھ کا اپنے نام کا کوئی سکہ نہیں تھا وہ خالصہ سرکار کا رائج الوقت سکہ نانک شاہی ہی چلایا کرتا تھا البتہ اس نے اپنی محبوبہ کے نام کا سکہ جاری کرکے ایک طوائف کو موراں سرکار کے درجے پر فائز کیا تھا۔ تخت لاہور پر قابض ہونے سے قبل ہی اپنے لڑکپن میں امرتسر کے گردوارہ ہری مندر کی یاترا کے لئے آتے جاتے مکھن پور کے آس پاس نوجوان رنجیت اس حسن کی دیوی کا پجاری بن بیٹھا تھا۔ یہ بات نہیں کہ وہ صرف گھڑ سواری کے علاوہ اپنی رنگت، حسن و جمال، ناک نقشہ اور قد و قامت میں یکتا تھی بلکہ رنجیت سنگھ اس کی ذہانت اور عقل و دانشمندی پر بھی فریفتہ ہوا تھا تھا۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں ایک سے ایک خوبصورت عورت موجود تھی مگر موراں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو دیکھتے ہی فقیر عزیز الدین جیسا نابغہ روزگار بھی پانی کے حوض میں غوطے لگانے پر مجبور ہوا تھا۔ انگریز افسران کی بیگمات صرف ان کے دربار میں موجود خواتین کو دیکھنے آیا کرتی تھیں کہ اتنی ساری عورتیں ایک ساتھ کیسے اکھٹی رہ پاتی ہیں اور مہاراجہ ان کے ساتھ انصاف کیسے کرتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی اپنے مخصوص انداز کی بذلہ سنجی میں یکتا تھا جو ان سےمذاقاً کہا کرتا تھا کہ اس کو انگریزوں کی شراب اور عورت کے معاملے میں کنجوسی سے اتفاق نہیں کیونکہ ان کی شراب کم مقدار میں ہی نشہ دیتی ہے اور وہ ایک ہی عورت کے ساتھ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ لاہور اور امرتسر کے ظالم سماج سے دور موراں کو مکھن پور گاؤں میں رنجیت سنگھ سے ملنے کے لئے آتے ہوئے ہنسالی کی نہر عبور کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ آتے ہوئے جب اس کی جوتی پانی میں بہہ گئی اور وہ ننگے پیر ملنے آئی تو رنجیت سنگھ نے یہاں پل بنوایا جو پل کنجری کے نام سے موسوم تھا جس کا نام بھارت سرکار نے بعد میں بدل کر پل موراں رکھ دیا ہے۔ تخت لاہور پر قابض ہونے کے بعد نوجوان مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شادی کے لئے رشتہ بھیجا تو موراں کے باپ اور اس کی برادری نے پس و پیش کیا اور رضامندی کے لئے سخت شرائط رکھیں۔ رنجیت سنگھ نے تمام شرطیں پوری کیں جس میں موراں کی پوری برادری کو امرتسر کے نزدیک شریف پورہ میں آباد کرکے عزت و تکریم دینا بھی شامل تھا۔ عرب قبائل کی طرح رنجیت سنگھ کی بھی یہ خوبی تھی کہ اس نے جہاں ایک طوائف کو اپنا ہمسفر بنالیا تھا وہاں ایک طرف اپنے دشمنوں کی بیٹی سے شادی کی تھی تو دوسری طرف پنجاب کے سب سے با اثر سردار نکئی کی بیٹی اس کے حرم میں تھی تو وہیں اس کے کتے پالنے والے نوکر کی بیٹی بھی اس کے مستقبل کے وارث کی ماں تھی۔ رنجیت سنگھ کی حکومت خالصہ سرکار کہلاتی تھی جو سکھوں کے سب سے با اختیار اکال تخت کے احکامات اور ہدایات کی پابند تھی۔ اکال تخت کے جتھے دار سردار پھولا سنگھ کو بھی مہاراجہ کی ایک مسلمان لڑکی سے تعلقات اور شادی پر سخت اعتراض تھا۔ اکال تخت کی پنچائت کے رنجیت سنگھ کو بلا کر وضاحت طلب کرنے پر اس نے بلا تامل اقرار کیا کہ موراں اس کی محبوب بیوی ہے اس کی سزا چاہے کچھ بھی ہو مگر اس کو وہ چھوڑ نےکے لئے تیار نہیں۔ اکال تخت نے رنجیت سنگھ کو کوڑوں کی سزا سنا دی مگر ہری مندر صاحب میں آئے زائرین کے دباؤ پر رنجیت کو ایک ہی کوڑا مارکر جرمانہ کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ رنجیت سنگھ کے حرم میں ایسی بھی عورتیں تھیں جن کو اس کے حرم میں شامل ہونے کے باوجود شاہی رتبہ حاصل نہیں تھا لیکن موراں شادی کے بعد سے سرکاری طور پر مہارانی کہلاتی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی اولاد بھی دو درجوں میں تقسیم تھی۔ جن کے بارے میں یقین تھا کہ وہ رنجیت سنگھ کا خون ہے شہزادے اور شہزادیاں کہلاتے تھے چاہے ان کی ماؤں کا درجہ کچھ بھی ہو۔ جس اولاد کے خون کے بارے ان کو شک تھا ان کو محل میں رہنے کی اجازت تو تھی مگر وہ شہزادے یا شہزادی نہیں کہلاتے تھے چاہے ان کی مائیں مہارانیاں ہی کیوں نہ ہو اور موراں کے ہاں اولاد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ شادی کے بعد موراں لاہور آگئی اور اپنے لئے حویلی اور اس کے ساتھ مسجد بنوا دی جو مسجد طوائف کے نام سے مشہورتھی اس کا بھی نام اب بدل کر مسجد موراں رکھ دیا گیا ہے۔ رنجیت سنگھ کی دیگر بیویوں کے بر عکس کھلے سربغیر پردہ لوگوں کے سامنے آنے کے باوجود مہارانی موراں مذہبی اور روحانی رجحان رکھنے والی عورت تھی جس نے مادی اور دنیاوی عیش و عشرت پر ہمیشہ اپنے من کی شانتی کو ترجیح د ی تھی۔ اس نے اپنے روحانی استاد جان محمد کے کہنے پر عربی اور فارسی کے علوم کا ایک مدرسہ بنوادیا تھا جو اس زمانے میں بہت زیادہ کارآمد اس لئے تھا ہندوستان کے طلبا کو سینکڑوں میل دور فارس یا ایران کا سفر کرکے علوم سیکھنا ہوتا تھا۔ ان کے دروازے ہمیشہ غریبوں اور مساکین کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی غریب پروری اور رفاع عامہ کے کاموں میں موراں کا بہت کردار رہا جس کی وجہ سے لوگ اس کو موراں سرکار کے نام سے یاد کرتے تھے۔ موراں کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام کا سکہ ہی نہیں بلکہ ماپ تول کےپیمانے اور باٹ یعنی سیر، پاؤ اور گز وغیرہ بھی اس کے نام سے موسوم تھے۔ موراں نے خودکو عام لوگوں اور مہاراجہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا تھا، شہر میں کسی کی بھی کوئی حاجت ہو وہ موراں کے پاس جاتا اور وہ مہاراجہ سے حاجت روائی کروا دیتی تھی۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں بھی سازشیوں اور بد خواہوں کی کمی نہیں تھی جو ہر وقت اپنے مفادات کی نگہداشت کے علاوہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے جن کی وجہ سے موراں کا دل جلد ہی تخت لاہور سے اچاٹ ہو گیا۔ حرص و ہوس کی دنیا سے غافل موراں نے اپنی شادی کے دس سال بعد پٹھان کوٹ منتقل ہو کر دنیا کے جھمیلوں سے علحیدگی اختیار کی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں کی ہی نشاندہی پر ایک اور مسلمان خاتون گل بانو سے شادی کی جس کے لئے مبینہ طور پر اس کو ننگے پیر لاہور سے امرتسر جانا پڑا تھا اور گل بانو کا باغ آج بھی لاہور میں اس کی یاد دلاتا ہے۔