مدائن صالح
مدائن صالح Madâin Sâlih
| |||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
'مدائن صالح' عربی، اردو تے فارسی زبان وچ یکساں لکھیا جادنا ہے۔ اسنوں الحجر یا حجرہ وی کہیا جاندا ہے۔
معنی
[سودھو]مدائن، مدینہ دی جمع ہے جس دا مطلب شہر ہے- مدائن صالح توں اردو، عربی تے فارسی زبان وچ مراد 'صالح دے شہر' نیں۔
محل وقوع
[سودھو]ایہ جگہ سعودی عرب دے انتظامی خطہ مدینۃ وچ العلی وچ واقع ہے جو ظہور اسلام توں قبل دا اک انسانی معاشرہ تے تہذیب ہے۔ اس قدیم شہر دی اکثر باقیات 'سلطنت نباتین' نال تعلق رکھدیاں نیں۔ ایہ جگہ سلطنت دی جنوبی طرف تے پترہ ( عربی وچ البتراء) جو دارلحکومت سی ، دے بعد سبتوں وڈی ہے۔ قدیم لحیان تےقدیم رومی سلطنت دے قبضہ جات دے آثار، 'نباتین' سلطنت توں قبل تے بعد دے وی ملے نیں۔
قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ 3 تین ہزار قبل مسیح کی ہزاری میں، یہاں پر 'قوم ثمود' آباد تھی۔ اسلامی عبارات اور معلومات کیمطابق قوم ثمود جس نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے تھے، ان کی بت پرستی اور اس پر اٹل قائم رہنے اور حضرت صالح علیہ السلام جن کو اس قوم کی طرف اللہ نے نبی بنا کر ہدایت و راہنمائی کیلئے بھیجا کو خفیہ طور پر قتل کرنے اور حق و ہدایت کی راہ نہ اختیار کرنے کے عزائم پر اللہ تعالٰی نے زلزلہ اور سخت بجلی و گرج چمک کے برساو کے ساتھ بطور سزا کے عذاب نازل کیا۔ اور قوم ثمود کے نافرمان لوگ نیست و نابود ہو گئے۔ یوں مدائن صالح والی جگہ اسی وقت عذاب الہی سے اللہ کے غضب و قہر کی عبرتناک نشانی بن گئی۔ سعودی عرب کی حکومت 1972ء سے اس شہرکو اس کی اس تاریخی حیثیت سے ہٹ کر اسے سیاحت و تفریح کی کشش کیلئے مدائن صالح کے طور سے فروغ دے رہی ہے اور اس کو قومی تہذیبی تشخص کی حیثیت سے محفوظ کیا گیا ہے۔
قدیم مٹی ہوئی تہذیب 'سلطنت نباتین' کے انتہائی محفوظ حالت میں موجود خاص کر 131پتھروں کے تراشیدہ گھر اور ان کے بیرونی داخلی دروازوں کو، سن 2008ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو نے اسے سعودی عرب کی پہلی عالمی ورثہ کی جگہ قرار دیا ہے۔ یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد عام تھے۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔
موجودہ ویلے
[سودھو]اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازا کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثار عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے ان کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیرگاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے[۱]۔
مورتاں
[سودھو]حوالے
[سودھو]- ↑ تفسیر تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلی مودودی الاعراف 73