اکبر حیدری

آزاد انسائیکلوپیڈیا، وکیپیڈیا توں
اکبر حیدری
 

جم 8 نومبر 1869   ویکی ڈیٹا اُتے (P569) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن


ممبئی   ویکی ڈیٹا اُتے (P19) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

تاریخ وفات ستمبر 1941 (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا اُتے (P570) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

شہریت برطانوی ہندستان   ویکی ڈیٹا اُتے (P27) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن
زوجہ آمنہ حیدری   ویکی ڈیٹا اُتے (P26) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا اُتے (P106) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن
اعزازات
 نائٹ بیچلر   ویکی ڈیٹا اُتے (P166) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

سر محمد اکبر نظر علی حیدری، صدر المہام، پیسی (1869–1941)[۱] اکّ بھارتی سیاستدان سی۔ اسنے ۱۸ مارچ ۱۹۳۷ توں ستمبر ۱۹۴۱ تک حیدرآباد راج دے وزیر اعظم وجوں سیوا نبھائی[۲]

شروع دا جیون[سودھو]

حیدری دا جم ۸ نومبر ۱۸۶۹ نوں مسلماناں دے سلیمانی بوہرا بھائیچارے وچ ہویا سی۔ اس دے پیؤ سیٹھ نظر علی حیدری سن، جو بمبئی وچ واقع اکّ وپاری سن۔[۳]

کیریئر[سودھو]

حیدری نے حیدرآباد راج جان توں پہلاں بھارتی آڈٹ اتے لیکھاکاری سیوا وچ سیوا کیتی جتھے اوہ مالیات وزیر اتے بعد وچ وزیر اعظم بنے۔ اوہ اجنتا گپھاواں دی بحالی لئی مکھ طور اُتے ذمہ وار سی۔[۴] اسنے نومبر ۱۹۳۰ - جنوری ۱۹۳۱ دوران پہلی گولمیز کانفرنس وچ حیدرآباد دی نمائندگی وی کیتی۔

جنوری ۱۹۳۶ وچ، اسنوں یونائیٹڈ کنگڈم دی پریوی کونسل دا ممبر نامزد کیتا گیا سی۔[۵] اسنوں ۱۹۴۱ وچ نامزد کیتا گیا سی، اسنوں وائسرائے دی ایگزیکٹیو کونسل دا ممبر نامزد کیتا گیا سی۔

پروار[سودھو]

اوہ تائبجی پروار دی اپنی بیوی امینا حیدری راہیں محمد سالیہ اکبر حیدری دا پیؤ سی۔[۶] اسدی پوتری، حبیبہ حیدری نے گوآ دے چترکار ماریؤ مرانڈا نال ویاہ کیتا

اعزاز[سودھو]

حیدری نوں ۱۹۲۸ دے جم دن سنماناں وچ بریٹیش سرکار ولوں نائیٹ نال اعزازی کیتا گیا سی۔[۴] اتے رسمی طور اُتے وائسرائے، لارڈ ارون ولوں ۱۷ دسمبر ۱۹۲۹ نوں حیدرآباد وکھے اپنی نائیٹہڈّ نال سرمایہ کاری کیتا گیا سی۔

ایہہ وی ویکھو[سودھو]

حوالے[سودھو]

  1. Lua error in ماڈیول:Citation/CS1/ar at line 3440: attempt to call field 'set_selected_modules' (a nil value).
  2. Hyderabad, Princely States of India, WorldStatesmen.org
  3. Lua error in ماڈیول:Citation/CS1/ar at line 3440: attempt to call field 'set_selected_modules' (a nil value).
  4. ۴.۰ ۴.۱ Gunther, John. Inside Asia – 1942 War Edition۔ READ BOOKS, 2007, pp. 471-472
  5. Edinburgh Gazette, 7 جنوری 1936سانچہ:مردہ کڑی
  6. Sulaymani Bohra: South Asia, accessed جولائی 5, 2010
اکبر حیدری
 

جم 8 نومبر 1869   ویکی ڈیٹا اُتے (P569) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن


ممبئی، برطانوی ہند

تاریخ وفات ستمبر 1941 (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا اُتے (P570) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

قومیت ہندوستانی
زوجہ آمنہ حیدری   ویکی ڈیٹا اُتے (P26) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن
عملی زندگی
پیشہ ریاست حیدرآباد کے صدر المہام (وزیر اعظم)
اعزازات
 نائٹ بیچلر   ویکی ڈیٹا اُتے (P166) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

سر محمد اکبر نذر علی حیدری صدر المہام[۱] (8 نومبر 1869ء – نومبر 1941ء)[۲] ایک ہندوستانی سیاست دان تھے۔ سر اکبر حیدری 18 مارچ سنہ 1937ء سے ستمبر 1941ء تک ریاست حیدرآباد کے صدر المہام (وزیر اعظم) رہے۔[۳]

نجی زندگی[سودھو]

اکبر حیدری 8 نومبر 1869ء کو ممبئی شہر کے ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ ریاست حیدرآباد جانے سے قبل وہ انڈین آڈٹ اینڈ اکاؤنٹینسی سروس (Indian Audit and Accountancy Service) میں کام کرتے تھے، حیدرآباد پہنچ کر وہ ریاست کے محکمہ عدالت، کوتوالی وامور عامہ کے معتمد اور پھر صدر المہام مقرر ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا اور اجنتا غاروں کو بحال کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔[۴] نیز انھوں نے نومبر 1930 – جنوری 1931ء کے درمیان پہلی گول میز کانفرنس میں ریاست حیدرآباد کی نمائندگی کی۔

جنوری 1936ء میں پریوی کونسل مملکت متحدہ کے رکن مقرر ہوئے۔[۵] بعد ازاں 1941ء میں وہ وائسرائے کی مجلس عاملہ (Viceroy's Executive Council) کے رکن بنے۔ محمد صالح اکبر حیدری ان کے فرزند تھے۔[۶]

اعزازات[سودھو]

اکبر حیدری کو برطانوی حکومت نے نائٹ کے خطاب سے نوازا تھا۔[۱][۴]

اقبال سے مراسم[سودھو]

سراکبر حیدری علاّمہ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ تعلقات کا آغاز غالباً مارچ 1910ء میں اقبالؔ کے پہلے سفرِ حیدرآباد کے موقع پر ہوا۔ اس زمانے میں سراکبر حیدری ‘ حیدرآباد دکن میں محکمہ مالیات کے معتمد تھے۔ انھوں نے علاّمہ اقبال کی بڑی خاطر مدارات کی اور ایک چاندنی شب وہ علاّمہ کو سلاطین شاہیہ کے مقبرے دکھانے لے گئے۔ اقبالؔ کی نظم ’’گورستانِ شاہی‘‘ [۷] اسی واقعے کی یادگار ہے۔ علاّمہ نے اس نظم کو سر اکبر اور ان کی بیگم کے نام نامی سے منسوب کیا۔

1914ء میں علاّمہ کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد پنشن یاب ہونے کے بعد دوبارہ حیدرآباد میں ملازمت کے متلاشی تھے۔ دکن میں سراکبر حیدری کی بااثر حیثیت کے پیش نظر علاّمہ نے اس سلسلے میں ان کی مدد چاہی۔ غالباً سراکبر اس بارے میں کچھ نہ کر سکے۔ اسی دوران حیدرآباد ہائی کورٹ میں عہدٔ ججی کے لیے بہت سے دوسرے ناموں کے ساتھ اقبال کا نام بھی پیش ہوا۔ عدالت عالیہ میں جج کامنصب اقبالؔ کے لیے ایک باوقار ملازمت تھی۔ مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ ریاست حیدرآباد میں اہم عہدے پر فائز تھے۔ اس لیے اقبالؔ کا خیال تھا کہ ان کے تقرر کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ کئی ماہ تک فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران دو واقعات رونما ہوئے جن سے علاّمہ قدرے مایوس ہو گئے۔ اوّل :حیدرآباد سے قبالؔ کے نام ایک گم نام خط آیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہم تو آپ کے یہاں آنے کے لیے شب و روز دعا کر رہے ہیں مگربعض آدمی جو بظاہر آپ کے دوست ہیں‘ حقیقت میں آپ کے یہاں آنے پر خوش نہیں ہیں۔ اس خط میں نام لیے بغیر سراکبر کی طرف واضح اشارہ موجود تھا۔ دوم: اسی اثنا میں اکبر حیدری نے اقبالؔ کو عثمانیہ یونی ورسٹی میں قانون کی پروفیسری کی پیش کش کی۔ اقبالؔ کو سراکبر کی یہ پیش کش اچھی نہیں لگی۔ ممکن ہے اس نئی پیش کش کواقبال نے متذکرہ بالا مخالفانہ خط کے پس منظر میں دیکھا ہو۔ پہلے ’’یومِ اقبال‘‘ (یکم جنوری 1938ء) کے موقع پرحضور نظام کی طرف سے‘ جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے‘ ایک ہزار روپیہ کا چیک موصول ہوا تو علاّمہ کی خودداری کو ٹھیس پہنچی‘ چنانچہ آپ نے چنداشعار میں اس کااظہار کیا: ؎

غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ

علاّمہ نے چیک واپس کر دیا۔ اکبر حیدریؔ سے اقبالؔ کے تعلقات کے پورے پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو اقبالؔ کا یہ تلخ ردِ عمل فطری معلوم ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 5 جنوری 1938ء کے آخر یا فروری 1938ء کے اوائل میں پیش آیا۔ اس واقعہ نے اقبال اور سراکبر کے درمیان رہے سہے تعلقات کو بہت متاثر کیا۔ وفات سے تین چار ہفتے پہلے سراکبر نے اقبالؔ سے اشعار کی فرمایش کی۔ انھوں نے اشعار براہِ راست سراکبر کو بھیجنے کی بجائے ڈاکٹر]] مظفر الدین قریشی]] کی وساطت سے روانہ کیے۔ سراکبر اور اقبالؔ کے قدیمی پُرجوش روابط برقرار نہ رہ سکے۔ روابط میں کمی آگئی تھی‘ مگر قطعِ تعلق کی نوبت کبھی نہیں آئی۔[۸] [۹]

"" "اقبال کی نظم بعنوان سر اکبر حیدری" ""

تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز

دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات

مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر

حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات

مَیں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سرِ دوش

کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات

غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ!

گاندھی سے مراسم[سودھو]

برٹش حکومت نے 7 ستمبر 1931 ء کو لندن میں بعنوان ’ ہندوستان میں بہترین انتظامیہ ‘ کے ایک سمینار منعقد ہوا تھا جس میں کل جماعتی وفود شامل ہوئے تھے اور سراکبر حیدری نے نظام سرکار کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور اس کانفرنس میں گاندھی جی بھی شریک تھے جہاں دونوں کا آپس میں تعارف ہوا اور واپسی کے سفر میں دونوں قائدین ایک پانی کے جہاز سے سفر کرنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ جاری تھا ۔۔ پرسہ ( تسلی ) دیتے ہوئے مراسلہ

سر اکبر حیدری کی شریک حیات آمنہ طیبہ ناسازی طبیعت کی بنا فریش ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے گاندھی جی نے کئی مرتبہ آپ کی مزاج پرسی کرتے ہوئے خطوط لکھے تھے اور اس بات کے ثبوت تاریخی اوراق میں دستیاب ہیں اور گاندھی جی کے اس خط کے جواب میں سر اکبر حیدری نے مراسلہ لکھا کہ میری شریک حیات کی طبیعت میں تھوڑا سا افاقہ ہوا ہے اور اس خط کتابت کا تذکرہ تلگو زبان کی تاریخی کتاب ’ تلگو ناٹا مھاتموڈی یاترا ‘ میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔ نظام سرکار کی جانب سے نظام اسٹیٹ کانگریس پر امتناع عائد کیے گئے وقت دونوں قائدین کے درمیان اختلاف رائے ہونے کا بھی بعض مراسلوں سے پتہ چلتا ہے البتہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں طویل عرصے تک جاری نہ رہیں ۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2 اکٹوبر 1939 کو عابڈس میں واقع ریڈی ہاسٹل میں گاندھی جی یوم پیدائش پروگرام منعقد کیا گیا تھا اور اس پروگرام میں سر اکبر حیدری نے شرکت کرتے ہوئے ہریجن سیوا سنگھم کو 500 سو روپیوں کا عطیہ بھی دیا تھا اور آپ کا یہ عمل گاندھی جی کے ساتھ دوستی کا ثبوت ہے ۔ سر اکبر حیدری کو گاندھی جی کا خراج عقیدت سر اکبر حیدری کی اچانک وفات کی اطلاع ملنے پر گاندھی جی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں نے ایک بہترین قابل دوست کو کھو دیا ہے ‘ ۔ اور اتنا ہی نہیں گاندھی جی نے بذات خود سر اکبر حیدری کی وفات پر قلمی خراج عقیدت بھی ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ان میں بے شمار فضائل موجود تھے اور اس طرح ایک ہی شخص میں کئی فضائل کا پایا جانا شاذ و نادر ہی ہے ۔ وہ ایک بہترین اسکالر ، فلسفی ، اصلاح پسند عقیدت مند ، اصول پسند اور وہ تمام مذاہب کا علم رکھنے والے تھے جن کے تعلقات تمام مذاہب والوں کے ساتھ تھے اور ہم دونوں دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ لندن کے اختتام کے بعد ایک پانی کے جہاز سے سفر کیا تھا اور میں روزانہ شام میں جو عبادت کیا کرتا تھا وہ برابر شریک ہوا کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں گیتا کے اشلوک اور ہمارے بھجن کو سمجھنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اکبر حیدری ان تمام کا مہادیو دیتائی کے ذریعہ ترجمہ بھی کروایا کرتے تھے ۔ مگر خدا کی مرضی کچھ اور ہی تھی اور مجھے سیول نافرمانی سنگرام میں بے حد مصروف ہونا پڑا تھا ، پڈوچیری کے مہارشی تین ماہ میں ایک مرتبہ اپنے شرد قالووں کو اپنے درشن کا موقع دیا کرتے تھے اور اکبر حیدری اس دن بلا ناغہ حاضر ہوا کرتے تھے ۔ سر اکبر حیدری کی وفات سارے ملک کے لیے ایک عظیم و ناقابل تلافی نقصان ہے اور آپ کی موت سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی ہے اور میں آپ کے افراد خاندان سے دلی طور پر اظہار تعزیت کرتا ہوں ۔ مذکورہ خراج عقیدت پر مشتمل مضمون گاندھی جی نے 14 جنوری 1942 ء کے روزنامہ ہریجن اخبار میں بذات خود لکھا تھا

مزید دیکھیے[سودھو]

حوالہ جات[سودھو]

  1. ۱.۰ ۱.۱ Edinburgh Gazette, 8 June 1928سانچہ:مردہ ربط
  2. Lua error in ماڈیول:Citation/CS1/ar at line 3440: attempt to call field 'set_selected_modules' (a nil value).
  3. Hyderabad, Princely States of India, WorldStatesmen.org
  4. ۴.۰ ۴.۱ Gunther, John. Inside Asia - 1942 War Edition. READ BOOKS, 2007, pp. 471-472
  5. Edinburgh Gazette, 7 January 1936سانچہ:مردہ ربط
  6. Sulaymani Bohra: South Asia, accessed July 5, 2010
  7. (کلیات‘ اُردو‘ ص:149۔153)
  8. نظرحیدرآباد‘ ’’اقبال اور حیدرآبادی‘‘ ص:208۔214۔
  9. رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر، ’’خطوطِ اقبال‘‘، ص:275

بیرونی روابط[سودھو]

سانچہ:S-govزمرہ:1869ء کی پیدائشیںزمرہ:1941ء کی وفیاتزمرہ:بھارتی مسلم شخصیاتزمرہ:ریاست حیدرآبادزمرہ:سلیمانی بوہرےزمرہ:مملکت متحدہ کی پریوی کونسل کے ارکانزمرہ:نامکمل بھارتی سیاست دانزمرہ:نائٹس بیچلرزمرہ:ہندوستانی نائٹزمرہ:بھارتی اسماعیلیزمرہ:آندھرا پردیش کے سیاست دان کے نامکمل مضامینزمرہ:ریاست حیدرآباد کی شخصیات ابتدائی تعلیم بمبئی میں پائی۔ 1888ء میں محکمہ مالیات ہند میں ملازم ہوئے۔ اور ترقی کر کے صوبہ جات متحدہ کے اسسٹنٹ جنرل بن گئے اس کے بعد بمبئی اور مدراس میں ڈپٹی اکاونٹنٹ جنرل اور کنٹرولر خزانہ کے فرائص انجام دینے کے بعد فنانشل سیکرٹری، مرکزی محکمہ داخلہ ہندوستان، اکاوٹنٹ جنرل حیدرآباد اور پھر 1920ء میں اکاوٹنٹ جنرل بمبئی بنے۔ سرکاری عہدوں کے علاوہ بہت سی تجارتی کمپنیوں کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ 1910ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے فرائض انجام دیے اور عثمانیہ یونیورسٹیحیدرآباد دکن کی تاسیس اور اردو کو اعلی تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم بنانے میں سرگرم حصہ لیا۔ گول میز کانفرنسوں میں حیدرآباد کے وفد کے سربراہ کی حیثیت سے شرکت کی۔ 1937ء میں ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ 1941ء میں وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بنے۔ تقسیم ہند کے بعد آسام کے گورنر مقرر ہوئے۔
پیشرو
مہاراجہ سر کشن پرشاد
وزیر اعظم حیدرآباد
1937–1941
جانشین
نواب چھتاری