سائیمن کمیشن

آزاد انسائیکلوپیڈیا، وکیپیڈیا توں

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 دی شق چوراسی اے دے تحت 1927 وچّ برطانوی تاج ولوں اک شاہی فرمان دے ذریعے برطانوی ہند لئی اک ستّ میمبری آئینی کمیشن مقرر کیتا گیا سی۔ اس ویلے برطانیہ وچّ کنزرویٹو پارٹی حکومت وچ سی۔ اس کمیشن دے چیئرمین کیونکہ سر جان سائیمن سن اس لئی اس نوں عامَ طور پر سائیمن کمیشن کہندے ہن۔ سائیمن کمیشن وچّ شامل تمام میمبر گورے انگریز سن۔ اسے لئی کئی آلوچکاں(تنقید نگاراں) نے اسنوں گورا کمیشن کیہا۔ سائیمن کمیشن نے، 30 اکتوبر دے دن، لاہور آؤنا سی۔ 30 اکتوبر، 1928 دے دن، سائیمن کمیشن دی لاہور آمد 'تے زبردست مظاہرہ کیتا جاوے۔ 30 اکتوبر، 1928 دے دن، لاہور ریلوے سٹیشن 'تے تقریباً 7000 دے ہجوم نے سائیمن کمیشن گوٕ بیک دے نعرےآں نال اسمان گونجا دتا۔

مقاصد[سودھو]

سائمن کمیشن کے مندرجہ زیل مقاصد تھے

1۔ 1919ء میں انگریز سرکار کی طرف سے برطانوی ہند میں کی گئی اصلاحات کا جائزہ لینا

2۔ مستقبل میں ہندوستانی حکومت کے ڈھانچے اور طرز کا تعین کرنا

3۔ ہندوستان میں ’’ذمہ دار حکومت‘‘ کی تشکیل کے بارے میں سفارشات مرتب کرنا

عوامی ردعمل[سودھو]

چونکہ سائمن کمیشن کے تمام اراکین انگریز تھے اسی وجہ سے برطانوی ہند سے عوام اور سیاسی حلقوں میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ برطانوی ہند کے تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس کمشین کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں آل انڈیا کانگریس سنڑل خلافت کمیٹی ، جمعیت العلمائے ہند ، جناح لیگ اورہندوستان کے لبرل رہنما شامل تھے

اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ پہلا گروہ جناح لیگ دراصل اس کمیشن سے بائیکاٹ کے حق میں تھی جب کہ شفیع لیگ کمیشن ہذا کے ساتھ تعاون کرنے کے حق میں تھی۔

ہندوستان آمد[سودھو]

عوامی احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود 1928 میں سائمن کمیشن نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ لیکن ہر جگہ ہندوستانیوں نے کالی جھنڈیوں اور احتجاجی نعروں سے اس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اور ’’سائمن واپس چلے جاؤ‘‘ ، ’’ہم سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں‘‘ کے نعروں اور بینروں سے مظاہرین نے کمیشن کے ارکان کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ بعض جگہوں پر عوام نے احتجاجی جلسے کیے اور عوام اور پولیس کے درمیان جھڑپین بھی ہوئیں۔ ایک ایسی جھڑپ میں جو لاہور میں سائمن کمیشن کے دوسرے دورے کے موقع پر پیش آئی جب پولیس نے لاٹی چارج کیا اور ایک انگریز افسر نے جب ایک ہندو سیاسی رہنما ، چونسٹھ سالہ لالہ لاچیت رائے جو مظآہرین میں شامل تھے کے سینے پر ڈنڈے سے پے درپے وار کیے تو بعد میں لالہ نے اپنے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’ جوانوں میرے بڑھاپے کی لاج رکھنا۔ آج میرے سینے پر جو سوٹیاں لگی ہیں میری خواہش ہے کہ یہ برطانوی سامراجیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں۔‘‘

جن لوگوں نے عوام کے جذبات کے برعکس سائمن کمیشن کے ساتھ تعاون کیا اور جگہ جگہ گرمجوشی سے کمیشن کا استقبال کیا۔ ان میں نواب صاحبان ، خان بہادر صاحبان ، رائے بہادر صاحبان ، سرکاری ملازمین اور انگریز سرکار کی طرف سے انعام یافتگان قابل ذکر ہیں۔ ان بااثر شخصیات کی بدولت کمیشن ہذا نے ہندوستان کے مختلف حصوں کے نہ صرف دورے کیے بلکہ مختلف لوگوں سے ملاقاتیں اور ان کے انٹرویوز بھی کیے

سفارشات[سودھو]

سائمن کمیشن نے اپنی روپورٹ میں اہم سفارشات پیش کیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ ہندوستان میں وفاقی طرز حکومت کی تشکیل

2۔ دو عملی نظام کا خاتمہ

3۔ صوبائی انتظامیہ کو صوبائی وزیروں ( جو صوبائی قانون ساز اسمبلی کے سامنے جوابدہ تھے) کے سپرد کرنا۔

4۔ صوبائی سطحوں پر قانون ساز اداروں کو وسیع کرنا

5۔ حق رائے دہی کا دائرہ وسیع کرنا

6۔ وزراء کا انتخاب صوبائی گورنر کے صوابدید اور اسمبلی کے اندر جن اراکین کو اکثریت حاصل ہو ، کی بنیاد پر کرنا

نتائج[سودھو]

سائمن کمیشن کی رپورٹ 7 جون 1930ء کو شائع ہوئی۔ ہندوستان بھر میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر سخت تنقید اور اعتراضات کیے گئے۔ سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد برطانوی سرکار نے لندن میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کے تین دور 10 نومبر 1930ء تا 24 نومبر 1932ء تک منعقد ہوئے۔ ان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد ہندوستان کے لیے ایک متفقہ آئین تیار کرنا تھا۔

حوالے[سودھو]